Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

جنازہ بتول رضی اللہ عنہا اورامامت صدیق اکبر جانشین رسولﷺ

  جعفر صادق

 جنازہ بتول رضی اللہ عنہا
امامت صدیق اکبر جانشین رسولﷺ

 قارئین کرام روافض شیعہ کی طرف سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر دیگر اعتراضات کے علاوہ ایک بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی ناراضگی کی وجہ سے خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو سیدہ کی وفات پر اطلاع بھی نہ دی گئی اور جنازہ میں بھی شرکت کے لیے نہیں بتایا گیا
اور ساتھ یہ بھی جھوٹ بولا جاتا ہے کہ اس بارے میں اہلسنت کی کتب میں دلائل موجود ہیں

ناراضگی والی بات پر الگ سے تفصیلی دلائل ہماری ویب سائٹ پر موجود ہیں
جہاں ناراضگی والی روایت کی مکمل تفصیل اور وضاحت موجود ہے

آج ہم شیعہ کی طرف سے جنازہ سیدہ خاتونِ جنت میں شیخین رضی اللہ عنہم کی عدم موجودگی کی حقیقت پر اہلسنت کے مستند علماء کی تحقیق بمعہ ثبوت پیش کر رہے ہیں تاکہ شیعہ حضرات عوام اہلسنت کو دھوکا اور فراڈ نہ لگا سکیں
ہمیں شیعہ کتب سے غرض نہیں کہ وہاں کیا لکھا ھے کیا نہیں اور نہ ان کی کتب ہم پر حجت ہیں کیونکہ جن کتب میں توہین انبیاء اور توہین صحابہ و اہلبیت موجود ھو وہ کسی اختلافی مسئلہ پر اعتبار کے قابل نہیں ہیں

♦سب سے پہلے سیدہ خاتون جنت رضی اللہ عنہ کے جنازہ میں صحابہ کرام کی شمولیت کا ثبوت باواسطہ اہلبیت حاضر خدمت ہے

 امام جرح و تعدیل امام ذہبی رحمہ اللہ امام جعفر الصادق رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ"سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کا وصال رات کو ہوا تو صدیق اکبر و عمر عثمان اور طلحہ رضی اللہ عنہم سب وہاں پہنچ گئے
 (لسان المیزان جلد پنجم صفحہ ۲۴۰ رقم ۸۴۰)

 عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نماز جنازہ میں چار تکبریں کہنے کے دلائل بیان کرتے ھوئے فرماتے ہیں

"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب آدم علیہ السلام کی وفات ھوئی تو فرشتوں نے ان پر چار تکبریں پڑھی تھیں اور جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی تو چار تکبریں کہیں
 (البدایہ والنھایہ جلد اول صفحہ ۹۸ از امام ابن کثیر)
 علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ امام شیبانی رحمہ اللہ اور امام ابراہیم انخعی رحمہ اللہ کی سند کے ساتھ بیان کرتے ھیں کہ
"اس پر اتفاق ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جنازہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے پڑھایا"
 (المنتظم جلد چہارم صفحہ ۹۶)

 محب طبری نے ( الریاض النضرۃ جلد دوم صفحہ ۹۶ ) پر آئمہ اہلبیت کی مکمل سند کے ساتھ روایت لکھی کہ
"امام مالک رحمہ اللہ نے حضرت جعفر الصادق رحمہ اللہ سے انہوں نے حضرت امام محمد الباقر رحمہ اللہ سے اور انہوں نے امام زین العابدین رحمہ اللہ سے روایت ہے جب جنازہ کے لیے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی چار پائی لائی گئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے کہا آئیں اور آپ جنازہ پڑھائیں تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کہا آپ موجود ھیں آپ پڑھائیں مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا (واللہ) خدا کی قسم آپکے سوا کوئی جنازہ نہیں پڑھاے گا"

 امام مقدسی (ذخیرہ الحفاظ جلد دوم صفحہ ۱۱۷۲ رقم ۲۴۹۳) پر آئمہ اہلبیت کی سند کے ساتھ جو ہم نے الریاض النضرۃ کے حوالے سے امام مالک رحمہ اللہ کے واسطہ سے لکھی ھے جنازہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بطور دلیل بناتے ہوے کہتے ہیں کہ حضرت علی رض نے کہا خدا کی قسم میں آگے نہیں آؤں گا آپ رسول اللہﷺ کے خلیفہ ھیں (یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ) آپ جنازہ کی امامت کریں۔۔ اور آپ نے چار تکبریں کہیں تھیں۔
 (کنزالعمال جلد ۱۲ صفحہ ۲۳۱ رقم ۳۵۶۷۷) پر امام مدینہ امام مالک رحمہ اللہ کہ واسطہ سے روایت ہے
 کہ امام جعفر الصادق نے امام الباقر رحمہ اللہ سے روایت کی کہ
"سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا وصال ھوگیا تو ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہم وہاں پہنچ گئے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا آپ جنازہ پڑھائیں تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم میں آگے نہیں بڑھوں گا آپ اللہ کے خلیفہ ھیں آپ جنازہ پڑھائیں"

 اسلامی تاریخ کے نامور مورخ امام ابن سعد (الطبقات الکبری جلد ۸ صفحہ ۲۹ ) پر امام ابراہیم النخعی سے جنازہ میں چار تکبریں پڑھنے پر بطور دلیل روایت کرتے ھیں کہ
"سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی اور چار تکبریں کہیں"

 اسی طرح امام شعبی کا قول لکھتے ھیں کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جنازہ پڑھایا"

 الطبقات الکبری میں ایک قول جنازہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی امامت سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر بھی ہے
اسی طرح ابن جوزی رح نے (تلقیح فھوم اھل اثر جلد میں اول صفحہ ۳۱ ) پر تین قول نقل کیے ھیں جنازہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی امامت پر

 اول قول :- سیدنا علی رضی اللہ عنہ
 دوم:-سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ
 سوم:-سیدنا عباس رضی اللہ عنہ

 مگر امام ابراہیم انخعی رحمہ اللہ نے ان اختلافات روایات پر جو موقف دیا ھے وہ اُوپر بیان ھو چُکا ھے المنتظم کے حوالے سے اور اسی پر ہمارا اہلسنّت کا اعتماد اور نظریہ ھے۔۔
♦اب اتنے کثیر دلائل اور ثبوت کے بعد بھی مخالفین یہ کہیں کہ اہلسنت کی کتب سے ثابت ھے کہ صحابہ کرام نےخصوصاً سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کے جنازہ میں شرکت نہیں کی اور نہ شیر خدا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے انکو اطلاع دی تو ہم یہی کہیں گے کہ "دل بہلانے کے لیے خیال اچھا ھے"

 اور پھر بردران اہلسنّت یہ بھی تاریخی ثبوت ہے
شیعہ سُنی تاریخ میں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کو غُسل زوجہ صدیق اکبر حضرتِ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ نے دیا
اب یہ کیسا مزاق ہے شیعہ کی طرف سے کہ زوجہ صدیق تو غسل میں شامل ہوں اور یہی زوجہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ اپنے سرتاج سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو وفات فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خبر بھی نہ دیں۔