Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کیا قرآن کریم نے متعہ کی اجازت دی ہے؟

  دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓ

کیا قرآن کریم نے متعہ کی اجازت دی ہے؟


متعہ کی تعریف

متعہ کی لغوی معنی ہیں فائدہ اٹھانے کی ، عرب میں جہالیت کے زمانے میں جب لوگ اپنے شہر سے باہر جاتے تھے تو وہاں اگر ان کا قیام بہت زیادہ ہوتا تھا تو وہ لوگ عورتوں سے اجورے پر مقرر مدت تک فائدہ لیتے تھے جسے متعہ کہا جاتا ہے۔

عرب اور متعہ

عرب میں جہالیت کے زمانے میں متعہ کا رواج عام تھا بہت سے ایسے مثال موجود ہیں اور تاریخی اور روایات احادیث سے اس بات میں زرہ سا شک نہیں رہتا کہ متعہ عام تھا اور عام طور پر کیا جاتا تھا صرف عرب میں نہیں دوسری علائقوں میں بھی اس قسم کی رسم عام تھی جیسے ہندستان ایران روم وغیرہ ۔

شیعون کی طرف سے متعہ کے جائز ہونے کے دلائل

شیعہ کے ہاں متعہ کو جائز قرار دیا جاتا ہے اور وہ آج تک متعہ کرتے رہتے ہیں حالانکہ اللہ تعالئ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے اس سے منع کیا ہے جس کو ہم یہاں تحریر میں لائین گے اور انشاءاللہ  غیر جانب داری سے سچ کو پرکہنے والے ہم سے اس بات پر اتفاق کریں گے۔کہ قرآن کریم میں متعہ کیا زکر نہیں ہے۔ عام طور پر شیعہ سورہ نساء کی آیت 24 کی ایک حصہ سے اپنا استدلا ل کرتے ہیں اور پھر کچھ احادیث بھی پیش کرتے ہیں جن سے وہ متعہ کا جواز تلاش کرتے ہیں یاد رہے شیعہ مذہب میں متعہ جائز ہے اسلئے ہم ان کی کتب سے صرف اسی صور ت میں استدلا ل لیں گے جہان متعہ کی نہی کی گئی ہو باقی اس کی حمایت میں تو شیعہ کے ہام مکمل تحاریر ہیں ۔ ہم صرف یہاں اہل سنت کی ہی روایات دیکہیں گے جہاں سے شیعہ متعہ کے جواز کا استدلال کرتے ہیں۔ اس سے پہلے ہم شیعوں کی طرف پیش کردہ آیت قراآنی کو دیکہتے ہیں۔

آیت سورہ نساء

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ( 24 )

اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں (یہ حکم) خدا نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو ان کا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے

سورہ نساء اس آیت کے بارے میں شیعہ کا کہنا ہے کہ اس میں متعہ کا کہا گیا ہے ۔۔ ہم اس مکمل آیت کو زیر نظر لائیں گے

اول : شیعون کا اس سورہ سے استدلال باطل ہے

کیوں کہ اس آیت میں مقررہ وقت کا کوئی زکر نہیں ہے بس اتنا زکر ہے کہ اگر عورتوں سے فائدہ اٹھانے کا زکر یعنی یہ حکم ہے کہ اگر فائدہ اٹھاو تو ان کو حق مہر پورہ دے دو ۔ کیوں اس پہلے سورہ بقرہ میں زکر ہے کہ اگر نکاح کے بعد فائدہ نہیں اٹھایا اور الگ ہونے کی سوچ ہے تو ادھا مہر دے دو۔۔۔۔ اور یہاں زکر ہے کہ فائدہ اٹھاو تو پھر پورہ دینا لازم ہے یہاں پر کہیں بھی مقررہ مدت تک فائدہ اٹھا نے کا زکر نہیں ہے بلکہ عمومیت کے ساتھ فائدہ اٹھانے کا زکر یعنی مستقل نکاح۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ عمومی نکاح یہی ہے متعہ خاص صورت میں جائز تھا جسے بعد میں بلکل منع کردیا گیا ۔۔۔ اس بات سے شیعہ بھی متفق ہیں کہ یہ خاص صورت میں جائز ہے نہ کہ عمومی طرح۔۔۔۔۔۔۔۔ بس یہ ایت کسی بھی صورت میں نکاح متعہ کے لئے نہیں ہے بلکہ نکاح مستقل کے لئے ہے شیعہ بس لفظ استمتعتم یعنی فائدہ لینا اس کی وجہ خواہ مخواہ اسے متعہ کی طرف کہنچتے ہیں کیوں کہ آدمی سب سے زیادہ فائدہ اپنی بیوی سے لیتا ہے اور متعہ والی عورت بیوی نہیں ہوتی یہ ہم آگے ثابت کریں گے۔

دوم : اس آیت سے پہلی آیت ۲۳ میں ان عورتوں کا زکر کیا گیا ہے جن سے آپ نکاح نہیں کر سکتے ہیں پھر اس آیت ۲۴ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کی نیت احصان کرنے کی ہو صرف شہوت پوری کرنا مقصود نہین ہو اسی آیت میں الفاظ محصنین اور غیر مسافحین اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ یہ آیت متعہ کے لئے ہے

میری ایک شیعہ مناظر سے متعہ پر بات ہو رہی تھی تو موصوف فرماتے ہیں

سنیوں کی ہر مستند کتاب میں جہاں متعہ کا زکر وہاں لفظ استمتعت استعمال ہوا ہے اس لئے آیت ۲۴ متعہ کے لئے ہے۔۔۔””

لفظ استعمتعتم
ہم لفظ استمتاع کو دیکھہ لیتے ہیں جیسے قرآن کریم میں ہے

اذہبتم طیباتکم فی حیاتکم ادنیا واستمتعتم بھا (احقاف 20) ،

فاستمتعو بخلاقھم (التوبہ 69) ،

والذین کفرو یتمتعون و یاکلونکما تاکل الانعام ( محمد 12)،

ربنا استمتع بعضنا ببعض (الانعام 128)

یہاں ہر جگہ اس لفظ کی معنی فائدہ اٹھانہ ہے

صحیح بخاری کی حدیث ہے

وحدثنا يحيى بن أيوب وقتيبة بن سعيد وعلي بن حجر قالوا حدثنا إسمعيل بن جعفر أخبرني ربيعة عن محمد بن يحيى بن حبان عن ابن محيريز أنه قال دخلت أنا وأبو صرمة على أبي سعيد الخدري فسأله أبو صرمة فقال يا أبا سعيد هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر العزل فقال نعم غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة بلمصطلق فسبينا كرائم العرب فطالت علينا العزبة ورغبنا في الفداء فأردنا أن نستمتع ونعزل فقلنا نفعل ورسول الله صلى الله عليه وسلم بين أظهرنا لا نسأله فسألنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لا عليكم أن لا تفعلوا ما كتب الله خلق نسمة هي كائنة إلى يوم القيامة إلا ستكون


حضرت ابو سعید الخدری نے کہا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا بنی مصطلق میں اور عرب کی بڑی بڑی عمدہ عورتین کو ہم نے قید کیا اور ہم کو مدت تک عورتوں سے جدا رہنا پڑا اور خواہش کی کہ ہم نے ان عورتوں کے بدلے میں کفار سے کچھ مال لیں اور ارادہ کیا ہم ان سے نفح بھی اٹھائیں اقر عزل کریں تاکہ حمل نہ ہو پھر ہم نے کہا کہ ہم عزل کرتے ہیں اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیاں موجود ہیں ہم ان سے پوچھیں کیا بات ہے پھر ہم نے پوچھا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا تم اگر نہ کرو تو بھی حرج نہیں اور اللہ تعالی جس روح کو پیدا کرنا قیامت تک لکہا ہے وہ تو ضرور پیدا ہوگی۔)صحیح مسلم کتاب النکاح باب حکم عزل)

یہ عزل کی روایت ہے یہاں پر بھی لفظ استمتاع استمعال ہوا ہے لیکن یہاں اس کی معنی فائدہ اٹھا نے کی ہیں نہ کہ نکاح متعہ کی کیوں کہ جنگ ہاتھ آئی عورتیں جو کہ لونڈیاں تھیں اور پہلے سے ان کے لئے حلال تھیں وہاں عقد متع کی کیا ضرورت ہے ۔

اور پھر نکاح دائمی میں بھی عورت سے فائدہ ہی اٹھایا جاتا ہے جیسے نسل کا چلنا ، گھر کا خیال کرنا وغیرہ یہ دائمی فوائد ہیں اس لئے اس لفظ کا یہاں ہونا کوئی بڑی بات نہیں ۔ اور پھر متعہ میں بھی عورت سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن وہ صرف اور صرف جنسی ہوتا ہے کیوں کہ متعہ سواء شھوت پوری کرنے کے اور کوئی فائدہ نہیں دیتا اس لئے یہ چیز بعید از قیاس ہے کہ قرآن کریم کا فائدہ اٹھانے کا مقصد صرف شھوت پوری کرنا ہوگا۔ بلکہ قرآن کریم نے استمتعتم یعنی فائدہ اٹھانے سے پہلے محصنین  اور مسافحین جیسے الفاظ استمعال کر کہ اس چیز کو بلکل ختم کر دیا کہ یھاں فائدہ اٹھانے سے مراد صرف شھوت پوری کرنا ہے۔

أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً (24)

بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو ان کا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو۔

یہاں دیکھیں صاف الفاظ میں شھوت رانی سے منع کیا جا رہا یعنی فائدہ اٹھاؤ لیکن مقصوہ شھوت رانی نہ ہو مطلب اس فائدے سے مراد نسل کا چلنا ، گھر کا خیال کرنا وغیرہ۔ اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔

پھر شیعہ موصوف فرماتے ہیں سورہ نساءمیں جب اس آیت سے پھلے والی آیت میں نکاح دائمی کا زکر ہے تو پھر اس کے بعد والی آیت میں دوبارہ اس کا زکر کیوں کیا گیا۔

یہ بلکل غلط ہیں کیوں کہ آیت 23 مین کن عورتوں سے نکاح حرام ہے اس کا زکر ہے جو کہ 24 کا مضمون ایک ہی ہے ۔۔۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے ۔

آیت ۲۳

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ( 23)


تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور رضاعی بہنیں اور ساسیں حرام کر دی گئی ہیں اور جن عورتوں سے تم مباشرت کر چکے ہو ان کی لڑکیاں جنہیں تم پرورش کرتے (ہو وہ بھی تم پر حرام ہیں) ہاں اگر ان کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو (ان کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کر لینے میں) تم پر کچھ گناہ نہیں اور تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی (حرام ہے) مگر جو ہو چکا (سو ہو چکا) بے شک خدا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے۔
آیت 24

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ( 24 )

اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں (یہ حکم) خدا نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو ان کا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے۔

اب دیکہیں کہ آیت 23 کا اختتام دو بھنوں کو ایک ساتھ نکاح کرنا حرام ہے پہ ختم ہوتی ہے اور پھر آیت 24 شوہر والی عورتین تم پر حرام ہیں سے شروع ہوتی ہے مطلب آیت 24 کی شروعات آیت 23 کا تسلسل ہے ۔یعنی آیت 24وہی مضمون چل رہا ہے کن سے نکاح حرام ہے اس کے بعد اسی آیت میں کہا جا رہا ہے کہ  


وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ

کہ اس کے علاوہ اور عورتیں تم پر حلال ہیں اس کے ساتھ یہ کہا گیا ہے کہ

أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ

أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۔
 

یعنی عفت قائم رکہنا مقصود ہو اور شھوت رانی کی نیت نہ ہو تو ان سے فائدہ اٹھاؤ لیکن اس پھلے انہیں حق مہر ادا کردو۔

یعنی پھر کہا جا رہا ہے کہ باقی عورتیں حلال ہیں آپ کے لئے اور نکاح کرنے کے بعد فائدہ اٹھانے سے پہلے مہر کا دینا لازم کردیا گیا پھر آپ آیت ۲۵ کو دیکہیں کہ وہ بھی آیت ۲۴ کا تسلسل ہے کیوں کہ اس میں زکر ہے کہ آگر آپ کو آزاد عورت سے نکاح کی طاقت نہیں تو لونڈیوں سے نکاح کر لو۔۔۔ینعی آیت 24 اور 25 ہی اصل میں نکاح دائمی کے لئے ہیں یہاں شعیہ موصوف کی قیاس آرائی نہیں چلنے والے۔۔

آیت 25

وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلًا أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ۚ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُم


اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن لونڈیوں میں ہی جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں (نکاح کرلے) اور خدا تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے

اب اگر اوپر والی آیت متعہ کے لئے ہوتی تو پھر اللہ تعالی ازاد عورت کے ساتھ نکاح کرنے طاقت نہ رکھنے پر ایمان والی لونڈی سے کیوں نکاح کا کیوں کہ رہے ہیں ۔اور نکاح پہ کیوں زور دیا جا رہا ہے ۔
اگر نکاح کی طاقت یعنی مھر ادا کرنی کی طاقت نہیں ی تو پھر متعہ تو آسان ہے نہ نفقہ کی فکر نہ طلاق و دوسری جنجھٹ تو وہ ازاد عورتوں سے متعہ تو کر سکتے تھے نہ ایک بار متعہ کیا بس عورت جانے اس کا کام گھر والی تو پھر بھی خرچہ لیتے ہے متعہ والی تو تھوڑی سی چیز اور بس ۔ اللہ تعالی فرما دیتے کہ نکاح نہیں کر سکتے تو تھمارے لئے دوسری آسان صورت ہے یعنی متعہ اسے کر لو ۔ نہیں بلکہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ پھر ایمان والی لونڈی سے نکاح کر لو کیوں کہ اس میں مھر کم لگے گی۔

اس صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ یہاں کسی بھی صورت میں کہیں بھی متعہ مطلب نہیں ہے بلکہ نکاح مراد ہے۔

سورہ نساء کی 24 میں استمعال کئے گئے الفاظ محصنین و غیر مسافحین۔

لفظ محصنین و غیر مسافحین

محصنین
لفظ محصنین کی اصطلاحی معنی ہیں حصار نکاح میں محفوظ رکھنے والے ۔ جس کا مطلب ہے کہ کسی عورت کو نکاح میں محفوظ رکھنا یا پھر احصان عفت کے ساتھ نکاح میں رکھنا اور احصان تب ہی ممکن ہے جب آپ کسی عورت کو عقد دائمی میں رکہیں نہ کہ چند گھنٹوں کے لئے کرایہ پر لیں۔ ایک ایسی عورت جو بہت سے مردوں کے ساتھ متعہ کر چکی ہے اسے آپ عفیفہ ہر گز نہیں کہ سکتے ۔اور خود شیعہ مذہب میں بھی متعہ والی عورت کو عار یتہ الفرج کرائی پر مانگی گئی شرمگاھ یا پھر ٹھیکہ پہ لی گئی چیز کہا گیا ہے
ملاحضہ ہو

الاستبصار لشیخ طوسی جلد ۳ ص 141
فأما ما رواه الحسين بن سعيد عن فضالة بن أيوب عن أبان بن عثمان عن الحسن العطار قال: سألت أبا عبد الله عليه السلام عن عارية الفرج قال: لا بأس به،


یعنی ابی عبداللہ سے پوچھا گیا کہ کیا شرمگاہ کرایہ یا پر لے سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ اس مین کوئی حرج نہیں ہے۔
اب ایسی عورت جو اپنی شرمگاھ ٹھیکے پر دے اسے کیسے عفیفہ کہا جاسکتا ہے ?

یہ صحیح ہے کہ لفظ سفاح کا مطلب زنا بھی ہے پر زنا شہوت رانی کے لئے ہی کیا جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہین کہ اس لفظ کی معنی شہوت رانی کیا جائے۔ اور پھر یہ بھی صحیح ہے جب اس کے ساتھ قرآن کریم نے محصنین جیسا لفظ استمعال کیا ہے جہاں اس کا مطلب ہے جو عورتیں تمھارے لئے حلال ہوں ان سے احصان (یعنی عقد دائمی ) کے ساتھ نکاح صرف شھوت رانی مقصود نہ ہو یہ بلکل صاف بیان جس میں کسی بھی قسم کی ڈنڈی مارنے کی ضرورت نہیں ہے ان دونوں لفظوں کی موجودگی ہی یہ بتا رہی کہ یہ آیت عقد دائمی پر دلالت کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر اس آیت میں دو قسم کے تعلقات کو بیان کیا گیا ہے ایک احصان دوسرہ مسافحت
متعہ ان دونوں میں سے ایک میں ہے احصان میں تو ہو نہیں سکتا کیوں کہ احصان میں تعلق مستقل ہوتا ہے اور متعہ میں وقتی احصان میں عورت کے مرد پر حقوق ہوتے ہیں متعہ میں ایسا نہیں احصان میں اولاد کی زمیداری باپ پر ہے متعہ میں ایسا نہیں ہے مزید آپ ہی فیصلہ کریں کہ متعہ کس میں آتا ہے۔
اور پھر نکاح اور سفاح میں یہی تو فرق ہے کہ نکاح سے مقصود جنسی ضرورت کو پورا کرنا کے علاوہ اولاد پیدا کرنا اور دوسرے فائدے لینا ہوتا ہے جبکہ سفاح صرف اور صرف جنسی فائدہ مراد ہوتا ہے ۔ اور متعہ میں یہی چیز ہے وہ صرف اور صرف جنسی لذت کو پورا کرنے کے لئے کیا جاتا ہے اس لئے شیعہ کتب میں اسے عاریتہ الفرج یعنی مانگی ہوئی شرمگاھ کہا گیا اور یہی الفاظ محصنین و غیر مسافحین ہی اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ متعہ حرام ہے

اس کی شاہدی آپ کو سلف کے روایت سے دے دیتا ہوں

(تفسیر ابن ابی حاتم سورہ نساء آیت 24)

حدثنا أبو سعيد الأشج، ثنا إسحاق بن سليمان، عن موسى بن عبيدة قال: سمعت محمد بن كعب القرظي، عن ابن عباس قال: كانت متعة النساء في أول الاسلام ، كان الرجل يقدم البلدة، ليس معه من يصلح له ضيعته ولا يصلح بحفظ متاعه، فيتزوج المراة إلى قدر ما يرى أنه يفرغ من حاجته، فتنظر له متاعه وتصلح له ضيعته، وكان يقول: فما استمتعتم به منهن نسختها محصنين غير مسافحين وكان الاحصان بيد الرجل، مسك متى شاء ويطلق متى شاء.


ابن ابی حاتم نے ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ابتدائے اسلام میں متعہ کی اجازت تھی ایک آدمی شھر میں اتا اس کے پاس کوئی ادمی نہیں ہوتا جو اس کے معاملات و سامان کی حفاظت کرے وہ اتنے عرصے کے لئے ایک عورت سے متعہ جس میں وہ خیال کرلیتا جس سے وہ خیال کرتا وہ اہنے کام سے فارغ ہوجائے گا وہ عورت اس کے معاملات کی حفاظت کرتی وہ اس آیت کو یوں قرآت کرتے فما استمتعتم بہ منھن الی اجل المسمی پھر اسے محصنین غیر مسافحین نے منسوخ کردیا احصان مرد کے ہاتھ میں ہوتا ہے جب چاہے رکھے جب چاہے چھوڑے۔

سورہ نساء کی آیت 24 کے الفاظ کتاب اللہ علیکم پر غور کریں

اس کی تفسیر مفسرین نے اس کی مراد چار بیویوں کی حد یا اس سے مراد وہ عورتیں جو کہ چار کے عدد تک مستقل نکاح میں رہیں مراد لیا ہے۔

جامع البيان – إبن جرير الطبري – ج ٥ – الصفحة ٣
حدثنا القاسم، قال: حدثنا الحسين، قال: ثنى حجاج، عن ابن جريج، قال: سألت عطاء عنها فقال: * (كتاب الله عليكم) * قال: هو الذي كتب عليكم الأربع أن لا تزيدو
 

عطاء کہتے ہیں کتاب اللہ علیکم سے مراد چار ہیں اس سے زیادہ نہیں۔

تفسير الثعلبي
قال الباقر ويمان: معناه والمحصنات من النساء عليكم حرام ما فوق الأربع،

یعنی پاکدامن عورتوں میں سے چار کے اوپر حرام ہیں۔


تفسیر قرطبی جلد 5 ص 120
وقالعبيدة السلمانيوغيره: قوله (كتاب الله عليكم) إشارة إلى ما ثبت فيالقرآنمن قوله تعالى: (مثنى وثلاث ورباع) ۔


السلمانی کہتے ہیں کہ کتاب اللہ علیکم سے مراد قرآن کریم کی وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا

مثنى وثلاث ورباع)


بلکل اسی طرح کا مضمون تفسير ابن كثير، تفسير الثعالبي ، فتح القدیر لشوکانی وغیرہ میں موجود ہے چناچہ اس آیت 24 مین بتایا جا رہا ہے کہ وہ عورتیں جو تم پر حلال ہیں مال (مھر) خرچ کر کہ ان سے نکاح کرلو لیکن چار سے زیادہ نہ ہو یعنی اس پر جو حد مقرر ہے(کتاب اللہ علیکم مقصد جو کتاب اللہ میں لکھدیا گیا ہے یعنی سورہ نسا کی آیت 3) اس میں رہ کر (یعنی چار سے زیادہ نہیں) مقصود احصان و عفت داری ہو نہ کہ صرف شھوت پوری کرنا تو جب ان سے فائدہ اٹھاؤ تو ان کو پورا مھر ادا کردو۔

کیا متعہ میں بھی چار عورتوں کی قید ہے کیا ممتوعہ عورت بھی زوجہ ہے

جواب ہے نہیں ملاحضہ ہو شیعہ روایات

شیخ مفید رسالہ متعہ میں لکہتے ہیں

،۔ وعن أبي بصير أنه ذكر للصادق – عليه السلام – المتعة هل هي من الأربع؟ فقال: تزوج منهن ألفا.

یعنی امام جعفر نے کہا وہ چار زوج میں سے نہیں ہے بلکہ تم ان میں سے ہزاروں سے شادی کر لو۔

پھر طوسی الاستبصار میں لکہتے ہیں

عنه عن محمد بن يحيى عن أحمد بن محمد عن ابن محبوب عن ابن رئاب عن زرارة بن أعين قال: قلت ما يحل من المتعة؟ قال: كم شئت.

یعنی زراہ نے کہا کہ جتنی عورتوں سے چاہو متعہ کر لو۔

چناچہ اشیعہ نے دیکہ لیا کہ یہاں تو ہزار تک کی اجازت ہے مطلب یہ کہ آیت 24 کے ضد میں ہے اور پھر آشیعہ کو معلوم ہونا چاہئےکہ کہ زوجہ بنص قرآن کریم وارث بنتی ہے اور ان کی حد چار تک ہے یعنی زوجہ وہ ہوتی ہے جو چار والی شرائط پورے کرے اور ان کو عام لغت میں چار کہتے ہیں اور پھر شیعہ کے پاس تو ممتوعہ چار میں سے بھی نہیں ہے۔

شیخ مفید رسالہ المتعہ ص ۹ پہ لکہتے ہیں

وعن ابن قولويه، عن أبيه، عن سعد، عن ابن عيسى، عن محمد ابن خالد، عن القاسم بن عروة، عن عبد الحميد، عن محمد بن مسلم في المتعة قال: ليس من الأربع لأنها لا تطلق ولا ترث.


یعنی ممتوعہ چار میں سے نہیں ہے کیوں کہ اس کے لئے نہ تو طلاق ہے اور نہ ہی وراثت

یہاں آپ نے دیکہ لیا کہ شیخ مفید بھی زوجہ اسے کہتے ہیں کو وارث بنتی ہو۔

پھر طوسی بھی الاستبصار میں یہی کچھ لکہتے ہیں

محمد بن يعقوب عن الحسين بن محمد عن أحمد بن إسحاق الأشعري عن بكر بن محمد الأزدي قال: سألت أبا الحسن عليه السلام عن المتعة أهي من الأربع؟ قال: لا.


یعنی امام ابی الحسن نے کہا کہ وہ چار مین سے نہیں ہے

محمد بن أحمد بن يحيى عن العباس بن معروف عن القاسم بن عروة عن عبد الحميد الطائي عن محمد بن مسلم عن أبي جعفر عليه السلام في المتعة قال: ليست من الأربع لأنها لا تطلق ولا ترث ولا تورث وإنما هي مستأجرة


یعنی امام باقر کہتے ہیں کہ وہ چار میں سے نہیں ہے کیوں کہ وہ وارث نہیں اس کی طلاق نہیں اور پھر وہ تو ٹھیکہ پر لی گئی عورت ہے
امام نے بات صاف کردی کہ وہ زوجہ کیسے ہو سکتی ہے وہ تو ٹھیکہ پر لی جانے والی عورت ہے ۔ (یہ روایت کافی میں بھی موجود ہے)
پھر امام صادق سے بھی یہ مروی ہے

عنه عن الحسين بن محمد عن أحمد بن إسحاق عن سعدان بن مسلم عن عبيد بن زرارة عن أبيه عن أبي عبد الله عليه السلام قال: ذكر له المتعة أهي من الأربع؟ قال: تزوج منهن ألفا فإنهن مستأجرات.


یعنی امام صادق کہتے ہیں کہ یہ چار (ینعی منکوحہ عورتیں جنھیں قرآن نے زوجہ ٹھرایہ ہے) نہیں ہیں ان میں ہزار سے متعہ کر لو کیوں کہ وہ تو ٹھیکہ پر لی گئی شرمگاہیں ہیں۔

ان روایات سے ثابت ہوا کہ ممتوعہ چار عورتوں یعنی بیویوں میں سے نہیں ملکہ کرایہ پر لی گئی شرمگاہ ہے یعنی رنڈی۔

شیعہ موصوف فرماتا ہے

عقد متعہ میں ‘محصنین’ اور ‘غیر مسافحین’ کی یہ شرائط مکمل پوری ہوتی ہیں کیونکہ عقد متعہ میں عورت ایک مرد کے ہی حصار میں ہونے کی وجہ سے عفیفہ و پاکدامن ہوتی ہے، اور یہ سفاح کاری [زناکاری و بدکاری] اس لیے بھی نہیں کہ کہ عقد متعہ میں شریعت کے تمام اصول و شرائط کی پاسداری کی جا رہی ہوتی ہے جیسا کہ زناکاری کے برعکس عقد متعہ میں محارم عورتوں سے بدکاری نہیں ہو سکتی، اولاد کی تمام تر ذمہ داری مرد پر عائد ہے، عقد متعہ اُسی عورت سے ہو سکتا ہے جو عدت گذار کر پاک ہو چکی ہو، اور عقد متعہ ختم ہونے کے بعد بھی وہ عدت گذار کر ہی کسی اور شخص کے ساتھ نکاح یا متعہ کر سکتی ہے۔ الغرض عقد متعہ میں وہ تمام شرائط موجود ہیں جو کہ نکاح میں موجود ہیں سوائے اس شرط کے کہ ایک مدت کے بعد خود بخود طلاق ہو جاتی ہے۔

ہمارہ جواب

یہ بات بعید از قیاس ہے کہ متعہ والی عورت عفیفہ رہتی ہے کیوں کہ متعہ میں ٹائم کی کوئی قید نہیں اس لئے عین ممکن ہے کہ ایک عورت ایک دن میں 5 سے زائد مردوں سے متعہ کر لے یا ایک مرد 5 سے سے زائد عورتوں سے متعہ کے لے ۔۔۔ اس کو ہر گز عفت داری نہیں کہ سکتے اور نہ ہی ایسی عورت و مرد عفیفہ ہوسکتے ہیں ۔ٹھیکہ پر شرمگاھ دینا کسی بھی طرح عفت داری نہیں ہے استبصار میں طوسی نے اسے کرائی پر لی گئے شرمگاھ کہا ہے اور پھر کافی میں اسے مستاجرہ یعنی ٹھیکہ پر لی گئی شرمگاھ کہا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عفیفہ شیعہ مذہب میں بھی نہیں ہے اور پھر محصنین کے مطابق عفیفہ تب کہلائے گی جب اسے بیوی مانا جائے جب کہ خود شیعہ مذہب میں اسے بیوی نہیں کہا گیا۔
اور پھر خود شیعہ مذہب میں متعہ عفت باقی نہیں رکتا چناچہ جب امام جعفر سے پوچھا گیا کہ باکرہ کے ساتھ متعہ کر لین تو انہوں نے کہا کہ
أحمد بن يحيى عن يعقوب بن يزيد عن ابن أبي عمير عن حفص بن البختري عن أبي عبد الله عليه السلام في الرجل يتزوج البكر متعة قال:يكره للعيب على أهلها.
یعنی کہ باکرہ سے متعہ کرنا اس کے خاندان کے لئے بدنامی کا باعث ہے ۔ چناچہ معلوم ہوا کہ متعہ سے عورت عفت دار نہیں رہتی ،اور پھر طوسی نے امام جعفر صادق کا یہ قول نقل کیا ہے کہ مومنہ سے متعہ نہ کرو اس میں اس کی تذلیل ہے ، قال: لا تمتع بالمؤمنة فتذلها پھر طوسی نے کہا کہ اس سے مراد اہل بیت کی عورتیں ہو سکتی ہیں ۔ بھرحا ل کہنے کا مقصد یہ ہے کہ متعہ عفت داری ہر گز نہیں ہے۔ اور پھر خود شیعہ مذہب مین سب سے بڑی نیکی بدن کی عفت بچانا ہے ملاحضہ ہو
کافی میں باب عفت ہے اس میں کچھ روایات ہیں اس میں سے ایک پیش کر دیتا ہوں

محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد، عن محمد بن إسماعيل، عن حنان بن سدير، عن أبيه قال: قال أبو جعفر (عليه السلام): إن أفضل العبادة عفة البطن والفرج ۔


ینعی سب بڑی عبادت اپنی شرمگاھ کی حفاظت کرنا ہے نہ کہ ٹھیکہ پر یا کرایہ پر دینا ۔ اس کے علاوہ اور پھر امام باقر نے ممتوعہ عورت کو زوجہ نہیں کہا ملاحضہ ہو
امام باقر سے جس کے آخری الفاظ یہ ہیں : امام باقر نے فرمایا یہ ممتوعہ عورت زوجہ منکوحہ نہیں بلکہ یہ اجرت پر خریدی گئی ہے کہ اس سے جماع کیا جائے (فروع کافی(
متعہ کا مقصد ہی صرف جنسی لذت پوری کرنا ہے تو اولاد کہاں سے آسکتی ہے لیکن متعہ میراث ہے نہیں تو بلفرض اگر اولاد ہو بھی جائے تو وہ اس مرد کی وارث نہیں ہوسکتی۔۔۔۔ متعہ شیعہ کی تو محبوب چیز ہے تو پھر شیعہ لوگ اسے علانیہ کیوں نہیں کرتے کیا شرم آتی ہے یا عفت داری داغدار ہوتی ہے یا پھر کیا شیعہ بتا سکتے ہیں کہ کتنے شیعہ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم متعہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ جو اپنے متعہ والے باپ کے وارث بنے ہیں۔ ایک مثال۔ کیوں کہ شیعہ کے مذہب کے مطابق جو متعہ نہیں کرتا قیامت میں ناککٹا اٹھے گا
اور نہ ہی متعہ میں شرعی اصولوں کے پاسداری ممکن ہے کیوں کہ متعہ اور زنا میں صرف ایک فرق ہے کہ اسے متعہ کہتے ہیں اسے زنا کہتے ہیں باقی کوئی فرق نہیں۔۔۔۔

متعہ اگر بقول شیعہ کے نکاح ہے تو اس میں نکاح والی شرعی شرطیں لازمن ہونے چاہئے کم سے کم کچھ تو ہونے چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔ جیسے والی کی مرضی ، گواہوں کی لازمن موجودگی ، میراث وغیرہ لیکن ان میں سے ایک بھی متعہ کے لئے ضروری نہیں اور کم سے کم قرآن کریم نے نکاح کی اس کے کچھ احکام ہی بیان کر دئے ہوتے کم سے کم یہ اس میں طلاق خود ہوتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے

متعہ اور زنا کا موازنہ کر لیں


زنا ۔۔۔۔
اس میں زانیہ کو اجرت دی جاتی ہے اس کا کوئی تعین نہیں ہے ، کچھ وقت مقرر کر لیتے ہیں ، زنا میں تنھائی ضروری ہے ۔ زنا میں عورتوں کی قید نہیں ہے جتنی عورتوں سے چاہو زنا کر لو ۔زنا صرف جنسی لذت کے لئے ہوتا ہے ۔زنا میں جب مقرر وقت کے بعد علیھدگی ہو تو کوئی طلاق نہیں زانیہ وارث نہیں ہوسکتی ، نہ ہی نان نفقہ زانی کے زمہ ہے ۔۔

اب آپ یہاں لفظ زنا نکال دیں اور متعہ ڈال دیں بلکل ایک ہی چیز ہے فرق یہ ہے کہ اسے زنا کہا جائے گا اسے متعہ
بلکل یہی چیزیں متعہ میں پائی جاتی ہیں اس میں گواہوں کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ تو یہ بات بلکل واضع ہے کہ متعہ ایک
اسی چیز ہے جو سفاح سے ہے اور قرآن نے لفظ غیر مسافحین سے اس کی ممانعت کردی ہے۔

پھر شیعہ مناظر کہتا ہے

فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً


پھر جس طرح تم نے ان عورتوں سے متعہ کیا، سو ان کو ان کے مہر دے دو

yahab pr muta krne ka zikar phle or mahar ka zikar bad mian aya hai mtlab ye k jab tum urton se muta kro to tum pr faraz hai k tum mahar jo mukarrar kr chuky ho ada kro jab k daimi nikah main aesa bilkul bnhi wahan pr jab aap aqad kr lete ho to aap pr mahar ada krna wajib hojata hai chahy aap ne use chowa b na ho

ہمارہ جواب

مھر کا اخر میں آنا کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔۔ اور پھر یہاں پورہ مھر دینے کا زکر ہے کیوں کہ فائدہ اٹھانے کے بعد مقررہ پورہ مھر دینا واجب ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے

وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ


اور اگر تمہیں انہیں طلاق دو اس سے پہلےکہ انہیں ہاتھ لگاؤ حالانکہ تم ان کے لیے مہر مقرر کر چکے ہو تو نصف اس کا جو تم نے مقرر کیا تھا : ( بقرہ / ٢ (
اور اس آیت میں فرمایا کہ جن عورتوں ( یعنی بیوی یا لونڈی ) سے نکاح کرنے بعد فائدہ نہیں اٹھایا
(یعنی یعنی جماع اور صحبت نہیں کی ) تو آدھا مہر مہر دینا پڑے گا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مھر نکاح کے بعد میں یا حق زوجیت ادا کرنے کے بعد بھی ادا کیا جا سکتا ہے ۔

اب آیت نساٗء ۲۴ میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر فائدہ اتھا چکے یعنی حق زوجیت ادا کرچکے تو اب پورا مھر دے دو۔
ایک جگہ پر آدھا مہر ذکر کیا گیا اور اور دوسری جگہ پر پورا مہر ذکر کیا گیا سو معلوم ہوا قران پاک یہاں نکاح صحیحہ کا ہی ذکر کر رہا ہے ۔

پھر شیعہ کہتا ہے

ان لوگوں نے اپنے قیاس کا یہ گولا تو داغ دیا کہ ‘شہوت رانی’ یا ‘مستی جھاڑنے’ کی وجہ سے یہ آیت عقد المتعہ کو حرام ٹھہراتی ہے، لیکن ان حضرت کو یہ عقل نہ آ سکی کہ وہ اس قیاس آرائی کی وجہ سے پیدا ہونے والے تضادات کو دیکھ سکتے کہ ‘مادہ گرانا’ اور ‘مستی جھاڑنا’ اور ‘شہوت رانی’ فقط عقد متعہ سے محدود نہیں ہے بلکہ نکاح دائمی ہو یا کنیز عورتوں سے تعلقات، ہر صورت میں یہ لفظی معنوں میں مادہ گرانا، اور مستی جھاڑنا ہے ان تینوں طریقوں میں ایک ہی طرح سے موجود اور مشترک ہیں اور اگر انہوں نے یہ ‘مستی جھاڑنے’ کا شوشہ چھوڑا تو اس بنیاد پر فقط عقد متعہ ہی نہیں بلکہ عقد دائمی اور کنیز عورتوں سے تعلقات بھی حرام ہو جائیں گے۔

ہمارہ جواب

بلکل بھی نہیں آپ میری بات کو غلط رنگ دے رہے ہیں میرا مقصد ہے کہ نکاح کرنے کا مقصد صرف جنسی ضرورت پوری کرنا نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اور بھی فوائد حاصل کرنا ہیں جیسے نسل چلانا ، عورت کا گھر سنبھالنا وغیرہ اور بھی بھت سے معاشرتی فوائد ہیں ان سب چیزون کو احصان کہتے ہیں جسے قرآن کریم نے محصنین کے لفظ میں سمو دیا ۔
لیکن اس کے بر عکس متعہ صرف اور صرف جنسی ضرورت پوری کرنے کے لئے کیا جاتا ہے جسے قرآن کریم نے غیر مسافحین کہ کر رد کر دیا کیوں زنا میں بھی وہی چیز ہے صرف جنسی لذت اور متعہ میں بھی وہی چیز ہے جنسی لذت کا پوراؤ ۔
اگر متعہ جنسی ضرورت پوری کرنے کے علاوہ اور ضروریات پوری کرتا ہے تو شیعہ ہمیں وہ فوائد بتا دیں ۔

شیعہ کہتا ہے

اسلام فطرت کے خلاف نہیں بلکہ دین فطرت ہے۔ اور اسلام فطرت میں موجود شہوت رانی یا مستی جھاڑنے کے تقاضے کے خلاف ہے۔ بلکہ اسلام فقط یہ چاہتا ہے کہ یہ جنسی عمل ‘محصننین’ کی قید کے تحت ہو اور عقد متعہ عدت اور محارم وغیرہ کی شرط لگا کا اس محصنین کی قید کو مکمل پورا کرتا ہے۔

ہمارہ جواب

اسلام دین فطرت ہے اس لئے ہی اس نے فطرت کے خلاف کام کو منع کردیا ہے اور متعہ کسی بھی صورت میں محصنین کی ضرورت کو پورہ نہیں کرتا۔ کیوں اس میں نہ احصان ہے اور نہ ہی عفت ۔۔۔ ایک عورت دن میں پتا نہیں کتنے مردوں کی ضرورت پوری کرتی ہے بلکہ کہیں پر تو صرف ایک جماع کا وقت بھی مقرر کر لیتے ہیں ایک عورت اپنی فرج کو پیسوں کے عیوض ایک دن میں مختلف لوگوں کی بیچتی ہے کیا آپ اس کو عفت و احصان کہتے ہیں یہ ہر گز عفت و احصان نہیں ہے۔

شیعہ کہتا ہے

صحابہ اور تابعین اور سلف نے کبھی اس آیت میں ‘پانی گرانے’ اور ‘مستی جھاڑنے’ جیسے لولے لنگڑے عذر پیش کر کے انہیں عقد متعہ حرام قرار دینے کے لیے استعمال نہیں کیا۔ تو کم عقل یہ صحابہ و تابعین و سلف نہیں ہیں، بلکہ بے وقوف و بے عقل وہ لوگ ہیں جو آج اس تضاد کو دیکھنے و سمجھنے کے قابل نہیں اور اندھی تقلید میں مبتلا ہو کر ہر قسم کے لنگڑے لولے بہانے و عذر پیش کر کے اس آیت سے عقد متعہ کو حرام ثابت کرنا چاہتے ہیں

ہمارہ جواب

جنھوں نے بھی عقد متعہ کی حلت کا کہا اس کے ساتھ انہوں نے اجل مسمی کے الفاظ بیان کئے شیعہ اور سنی دونوں جانتے ہیں کہ یہ الفاظ قرآن کریم مین موجود نہین ہیں ۔ اس کے علاوہ تفسیر طبری سے چند روایات پیش کئے دیتا ہوں۔ جہاں پر اس آیت سے نکاح مراد لیا گیا ہے۔

حدثني المثنى، قال: ثنا عبد الله بن صالح، قال: ثنى معاوية بن صالح، عن علي بن أي طلحة، عن ابن عباس، قوله: * (فما استمتعتم به منهن فآتوهن أجورهن فريضة) * يقول: إذا تزوج الرجل منكم المرأة ثم نكحها مرة واحدة فقد وجب صداقها كله.والاستمتاع هو النكاح، وهو قوله: * (وآتوا النساء صدقاتهن نحلة)
حدثنا الحسن بن يحيى، قال: أخبرنا عبد الرزاق، قال: أخبرنا معمر، عن الحسن، في قوله: * (فما استمتعتم به منهن) * قال: هو النكاح.
حدثني المثنى، قال: ثنا أبو حذيفة، قال: ثنا شبل، عن ابن أبي نجيح ، عن مجاهد: * (فما استمتعتم به منهن) *: النكاح.

حدثنا القاسم، قال: ثنا الحسين، قال: ثنى حجاج، عن ابن جريج، عن مجاهد، قوله: * (فما استمتعتم به منهن) * قال: النكاح أراد
حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: قال ابن زيد في قوله: * (فما استمتعتم به منهن فآتوهن أجورهن فريضة) *… الآية، قال: هذا النكاح، وما في القرآن الانكاح إذا أخذتها واستمتعت بها، فأعطها أجرها الصداق، فإن وضعت لك منه شيئا فهو لك سائغ فرض الله عليها العدة وفرض لها الميراث. قال: والاستمتاع هو النكاح ههنا إذا دخل بها


قرآت اجل مسمی

شیعہ وسنی دونوں جانتے ہیں یہ الفاظ اس وقت قرآن کریم میں نہیں ہین ۔ اور اگر تھے بھی تو و منسوخ ہوگئے جیسے ابن عباس رضہ فرماتے ہین

وأخرج ابن أبي حاتم عن ابن عباس قال كان متعة النساء في أول الاسلام كان الرجل يقدم البلدة ليس معه من يصلح له ضيعته ولا يحفظ متاعه فيتزوج المرأة إلى قدر ما يرى أنه يفرغ من حاجته فتنظر له متاعه وتصلح له ضيعته وكان يقرأ فما استمتعتم به منهن إلى أجل مسمى نسختها محصنين غير مسافحين وكان الاحصان بيد الرجل يمسك متى شاء ويطلق متى شاء


ابن ابی حاتم نے ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ابتدائے اسلام میں متعہ کی اجازت تھی ایک آدمی شھر میں اتا اس کے پاس کوئی ادمی نہیں ہوتا جو اس کے معاملات و سامان کی حفاظت کرے وہ اتنے عرصے کے لئے ایک عورت سے متعہ جس میں وہ خیال کرلیتا جس سے وہ خیال کرتا وہ اہنے کام سے فارغ ہوجائے گا وہ عورت اس کے معاملات کی حفاظت کرتی وہ اس آیت کو یوں قرآت کرتے فما استمتعتم بہ منھن الی اجل المسمی پھر اسے محصنین غیر مسافحین نے منسوخ کردیا احصان مرد کے ہاتھ میں ہوتا ہے جب چاہے رکھے جب چاہے چھوڑے۔

شیعہ کہتا ہے

صحابی ابو سعید خدری کہہ رہے ہیں کہ جنگ کے بعد چند خوبصورت عرب عورتیں انکے قبضے میں آئیں اور صحابہ کو انکی طلب ہوئی کیونکہ وہ اپنی بیویوں سے دور تھے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ میں صحابہ چاہتے تھے کہ وہ ان کنیز عورتوں کو بیچ کر فدیہ بھی حاصل کریں۔ چنانچہ صحابہ نے عزل سے کام لیا [یعنی سفاح کرتے وقت اپنے عضو تناسل باہر نکال کرمنی خارج کی تاکہ وہ عورتیں حاملہ نہ ہو سکتیں اور انکی اچھی قیمت مل سکے]۔ پھر انہوں نے اللہ کے رسول ص سے اسکے متعلق پوچھا تو رسول اللہ ص نے فرمایا کہ تم چاہو یا نہ چاہو مگر اگر کسی روح کو پیدا ہونا ہے تو وہ پیدا ہو کر رہے گی۔
لنک
لنک

عزل کے متعلق یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کئی طریقے سے روایت ہوئی ہے۔

اب یہ آج کے چند علماء جواب دیں کہ کیا آپ کو اس حدیث میں منی گرانا، شہوت رانی اور مستی جھاڑنا نظر آ رہا ہے؟ تو کیا اب بھی آپ منکر حدیث حضرات کی تاویل کے پیچھے بھاگتے پھریں گے اور تضاد کے اس گرداب میں مزید ڈوبتے چلے جائیں گے یا پھر اپنے مؤقف سے رجوع کریں گے اور منکر حدیث حضرات کی جگہ دوبارہ صحابہ و تابعین و سلف کی پیروی اختیار کریں گے؟

ہمارہ جواب

رافضی  نے اس حدیث سے قارئیں کو زبر دست دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے اور پھر یہ حدیث اس ٹاپک سے میچ نہیں ہے لیکن میرے لئے پھر بھی فائدہ مند ہے اور شیعہ کے دعوی کو رد کرتی ہے۔۔۔
پوری حدیث اس طرح ہے

وحدثنا يحيى بن أيوب وقتيبة بن سعيد وعلي بن حجر قالوا حدثنا إسمعيل بن جعفر أخبرني ربيعة عن محمد بن يحيى بن حبان عن ابن محيريز أنه قال دخلت أنا وأبو صرمة على أبي سعيد الخدري فسأله أبو صرمة فقال يا أبا سعيد هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر العزل فقال نعم غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة بلمصطلق فسبينا كرائم العرب فطالت علينا العزبة ورغبنا في الفداء فأردنا أن نستمتع ونعزل فقلنا نفعل ورسول الله صلى الله عليه وسلم بين أظهرنا لا نسأله فسألنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لا عليكم أن لا تفعلوا ما كتب الله خلق نسمة هي كائنة إلى يوم القيامة إلا ستكون


حضرت ابو سعید الخدری نے کہا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا بنی مصطلق میں اور عرب کی بڑی بڑی عمدہ عورتین کو ہم نے قید کیا اور ہم کو مدت تک عورتوں سے جدا رہنا پڑا اور خواہش کی کہ ہم نے ان عورتوں کے بدلے میں کفار سے کچھ مال لیں اور ارادہ کیا ہم ان سے نفح بھی اٹھائیں اقر عزل کریں تاکہ حمل نہ ہو پھر ہم نے کہا کہ ہم عزل کرتے ہیں اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیاں موجود ہیں ہم ان سے پوچھیں کیا بات ہے پھر ہم نے پوچھا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا تم اگر نہ کرو تو بھی حرج نہیں اور اللہ تعالی جس روح کو پیدا کرنا قیامت تک لکہا ہے وہ تو ضرور پیدا ہوگی۔)صحیح مسلم کتاب النکاح باب حکم عزل)

یہ ہے وہ حدیث جس کے لئے شیعہ نے لکہا ہے کہ ” چنانچہ صحابہ نے عزل سے کام لیا [یعنی سفاح کرتے وقت اپنے عضو تناسل باہر نکال کرمنیخارج کی تاکہ وہ عورتیں حاملہ نہ ہو سکتیں اور انکی اچھی قیمت مل سکے]۔” لیکن رافضی یہ بھول گئے کہ یہاں سفاح کا نہ تو زکر ہے اور نہ ان کے اس عمل کو سفاح کہیں گے کیوں کہ لونڈیاں ان پر حلال تھیں وہ ان سے جماع کر سکتے تھے اور یہ حدیث عزل کی لئے ہے اور عزل کہتے ہیں منی باہر گرانے کو ۔۔۔ یہ کسی بھی صورت میں سفاح نہیں ہے آپ نے صحابی ابو سعید پر بے بنیاد زنا کا الزام لگایا۔ اور پھر اس میں لفظ استمتع بھی موجود ہے جس کی معنی متعہ آپ ہر گز نہیں کر سکتے کیوں کہ جو عورت پھلی سے جماع کے لئے حلال ہے اس متعہ کرنے کی کیا ضرورت ہے اور آپ کی اس دعوی کا رد ہے جس میں آپ نے کہا تھا اہل سنت کے محدثین نے جہاں بھی لفظ استمتع استعمال کیا ہے وہان مراد متعہ لیا ہے لیکن دیکہیں یہاں اس کی معنی سواء فائدہ اٹھانے کی اور کوئی بھی نہیں ہوسکتی۔

  شیعہ کہتا ہے

zra jwab dijiyega huzur kia shadi mian ulad paeda krna frz hai ???

shadi mian b mard ko urat ki talab tb hoti hai jab uski shehwat brhy na ka wo 24 ghante apni biwi k pas hota hai …… according to u uska apni biwi k pas jana b haram thehra bcz wo shehwat puri kr rha

ہمارہ جواب

معاشرتی اصولوں کے تحت کوئی بھی شادی کرتا اس لئے ہے کہ اسے اولاد ہو اور اس کا وارث ہو ۔۔۔ فرض واجب کا کی کیا بات ہے اب یہ الگ بات ہے ہوسکتا ہے کہ شیعہ کے ہاں شادی صرف مستی کے لئے کی جاتی ہے اور اولاد مقصود نہیں ہوتی تو اس کا مجھے پتا نہیں باقی دنیا فطرتن شادی کا یہی مطلب لیتے ہے۔ میں لفظ غیر مسافحین کا مطلب ہے کہ اس استمعتا سے مراد صرف شھوت رانی یا بقول آپ کے منی گرانا مقصود نہ ہو بلکہ اور فوائد بھی مقصود ہوں جس میں سب سے پھلے اولاد ہی آتی ہے کیوں ازدواج یا عورت اور مرد کا فطرتن میلاپ ہوتا ہی نسل چلانے کے لئے ہے ۔میں نے یہ تو نہیں کہا مراد شھوت پوری کرنا نہ ہو بلکہ مرد بیوی سے بھی یہ ضرورت پوری کرتا ہے میرہ مقصد تھا کہ صرف شھوت پوری کرنا مقصود نہ اور نہ چاہتے ہوئے بھی رافضی کو ماننا پڑے گا کہ متعہ صرف شھوت پوری کرنے کو کہتے ہیں۔.

قرآن کریم نے کن عورتوں سے مباشرت کی اجازت دی ؟

قرآن میں عورت سے جماع کے صرف دو طریقے ہیں

ایک اپنی زوجہ سے دوسرہ باندیوں سے ۔ اس کے علاوہ کسی بھی طرح کا جماع زنا ہے اور اس کی سزا موجود ہے

قرآن کریم فرماتا ہے

وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ(۵)إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ(6)

(سورہ المومنون)


ترجمہ:اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں سے یا (کنیزوں سے) جو ان کی مِلک ہوتی ہیں کہ (ان سے) مباشرت کرنے سے انہیں ملامت نہیں۔”
اس میں اللہ تعالی نے دو قسم کی عورتیں حلال کیں ہیں ایک وہ جو آپ کے نکاح مستقل میں ہو دوسری آپ کی باندیاں ۔ یہاں ازواجھم سے مراد نکاح مستقل والی بیویاں ہیں جس کا ثبوت خود قرآن کریم میں موجود ہے کہ اس پاک کتاب میں جہاں پر بھی ازواج کا لفظ استمعال ہوا ہے وہاں مراد مستقل بیوی ہے ۔ چناچہ ملاحضہ ہو

قرآن کریم میں لفظ زوجہ


وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ

اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو –

(اعراف /19)

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا


اے پیغمبر اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت وآرائش کی خواستگار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح سے رخصت کردوں (احزاب/28)


وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا
(احزاب 37 )


اور جب تم اس شخص سے جس پر خدا نے احسان کیا اور تم نے بھی احسان کیا (یہ) کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دے اور خدا سے ڈر اور تم اپنے دل میں وہ بات پوشیدہ کرتے تھے جس کو خدا ظاہر کرنے والا تھا اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے۔ حالانکہ خدا ہی اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو۔ پھر جب زید نے اس سے (کوئی) حاجت (متعلق) نہ رکھی (یعنی اس کو طلاق دے دی) تو ہم نے تم سے اس کا نکاح کردیا تاکہ مومنوں کے لئے ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (کے ساتھ نکاح کرنے کے بارے) میں جب وہ ان سے اپنی حاجت (متعلق) نہ رکھیں (یعنی طلاق دے دیں) کچھ تنگی نہ رہے۔ اور خدا کا حکم واقع ہو کر رہنے والا تھا


يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ


اے پیغمبر) ان کے سوا اور عورتیں تم کو جائز نہیں اور نہ یہ کہ ان بیویوں کو چھوڑ کر اور بیویاں کرو خواہ ان کا حسن تم کو (کیسا ہی) اچھا لگے مگر وہ جو تمہارے ہاتھ کا مال ہے (یعنی لونڈیوں کے بارے میں تم کو اختیار ہے۔

( احزاب52/(

اس آیت میں پھر سے سورہ مومنون والی آیت دھرائی گئی ہے یعنی حضور علیہ السلام کو بھی دو قسم کی عورتیں حلال تھیں ایک جو ان کی ازواج تھیں دوسرہ باندیاں۔(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس متعہ والی کوئی عورت نہیں تھی اس لئے یہاں لفظ زوج مستقل بیویوں کے لئے ہے) یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے ان کو چھوڑنے سے بھی منع کیا جا رہا ہے جس کا مطلب ہے زوجہ سے مراد متعہ والی ٹھیکہ پر لی گئی عورت نہیں ہے کیون کہ اس چھوڑنے (یعنی طلق دینے کی ضرورت نہین ہوتی)۔ اور نہ ہی اسے مستقل رکہ سکتے ہیں کیوں کہ قرآن کریم حضور علیہ السلام کو اپنی ازواج کو چھوڑنے سے منع کر رہا ہے ۔ اس لئے ثابت ہوا کہ زوجہ وہ ہوتی ہے جو مستقل نکاح میں آپ کے ساتھ ہو۔

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ (انبیا ء)90


تو ہم نے ان کی پکار سن لی۔ اور ان کو یحییٰ بخشے اور ان کی بیوی کو اُن کے (حسن معاشرت کے) قابل بنادیا۔ یہ لوگ لپک لپک کر نیکیاں کرتے اور ہمیں امید سے پکارتے اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے

چناچہ از قرآن یہ ثابت ہوا کہ اللہ تعالی نے جہان بھی زوجہ کا لفظ استعمال کیا ہے وہاں مراد مستقل نکاح میں عورت ہے۔قرآن کریم کیوں کہ اپنی انداز میں یکتا ہے اس لئے ہم یہ دعوی کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ سورہ مومنوں کی آیت میں ازواجھم سے مراد منکوحہ بیوی ہے جو طلاق کے علاوہ جدا نہیں ہوسکتی۔ نہ کہ چند دنوں کے لئے ٹھیکہ پر لی گئی عورت

سورہ مومنوں اور حرمت متعہ


تقریبن تمام مفسرین نے ان آیات کو حرمت متعہ کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے جو کہ ہم یہاں پیش کرتے ہیں۔

سورہ مومنون 5-6-7


وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ۔۔۔۔۔(إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ۔۔۔فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ


اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔۔ مگر اپنی بیویوں سے یا (کنیزوں سے) جو ان کی مِلک ہوتی ہیں کہ (ان سے) مباشرت کرنے سے انہیں ملامت نہیں۔۔ اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ (خدا کی مقرر کی ہوئی حد سے) نکل جانے والے ہیں


تفسير القرآن – عبد الرزاق الصنعاني – ج ٣ – الصفحة ٤٤
عبد الرزاق قال أنا معمر عن الزهري قال سألت القاسم بن محمد بن أبي بكر عن متعة النساء فقال إني لأرى تحريمها في القرآن قال قلت فأين قال والذين هم لفروجهم حافظون هذا إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم فإنهم غير ملومين فمن ابتغى وراء ذلك فأولئك هم العادون


یعنی قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق سے متعہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ قرآن کریم نے اسے حرام کردیا ہے راوی نے پوچھا کیسے انہوں نے آیت و الذین ہم لفروجھم پڑہی۔


أحكام القرآن – ابن العربي – ج ٣ – الصفحة ٣١٦
هذه الآية دليل على تحريم نكاح المتعة لأن الله قد حرم الفرج إلا بالنكاح أو بملك اليمين والمتمتعة ليست بزوجة وهذا يضعف فإنا لو قلنا إن نكاح المتعة جائز فهي زوجة إلى أجل ينطلق عليها اسم الزوجة


ابن عربی فرماتے ہیں کہ یہ آیت حرمت متعہ پر دلیل ہے کیون کہ اللہ تعالی نے نکاح مستقل اور باندیوں کے علاوہ شرمگاھ حرام کردی ہے اور ممتوعہ زوجہ نہیں ہے اور جو کہتے ہیں کہ نکاح متعہ والی زوجہ ہے مقررہ مدت تک لیکن وہ صرف نام کی بیوی ہوتی ہے
کیوں کہ وہ ایک زوجہ والے حقوق نہیں رکہتی اور پھر اس سے صرف جنسی عمل پورا کیا جاتا ہے باقی کچھ نہیں۔


تفسير الرازي – الرازي – ج ٢٣ – الصفحة ٨١
هذه الآية تدل على تحريم المتعة على ما يروى عن القاسم بن محمد الجواب: نعم وتقريره أنها ليست زوجة له فوجب أن لا تحل له، وإنما قلنا إنها ليست زوجة له لأنهما لا يتوارثان بالإجماع ولو كانت زوجة له لحصل التوارث لقوله تعالى: * (ولكم نصف ما ترك أزواجكم) * (النساء: 12) وإذا ثبت أنها ليست بزوجة


امام رازی کہتے ہین کہ یہ آیت متعہ کی حرمت پر دلیل ہے قاسم بن محمد روایت سے۔ امام رازی کہتے ہیں کہ یہ صحیح ہے کیوں کہ ممتوعہ زوجہ نہیں ہوسکتی اور میں جو کہتا ہوں کہ یہ زوجہ نہیں ہوسکتی اس کی وجہ ہے کہ وہ نہ تو وارث ہوسکتی ہے اس پر اجماع ہے جب کہ زواج کو وراثت ملتی ہے جسیے اللہ تعالی نے فرمایا

ولكم نصف ما ترك أزواجكم) * (النساء: 12)

اور یہ ثبوت ہے کہ یہ زوجہ نہیں ہے۔

تفسير القرطبي – القرطبي – ج ١٢ – الصفحة ١٠٦
وهذا يقتضى تحريم الزنى، ونكاح المتعة، لان المتمتع بها لا تجرى مجرى الزوجات، لا ترث ولا تورث، ولا يلحق به ولدها، ولا يخرج من نكاحها بطلاق يستأنف لها، وإنما يخرج بانقضاء المدة التي عقدت عليها وصارت كالمستأجرة


امام قرطبی کہتے ہیں اس سے زنا اور متعہ کی حرمت دلیل ہے کیوں کہ جس سے متعہ کرتے ہیں وہ زوجات میں سے نہیں ہے نہ تو وہ وارث بنا سکتی ہے اور نہ ہی وارث ہوسکتی ہے نہ ہی اولاد کی زمیدار اور یہ نکاح طلاق سے نہیں ٹوٹتا بلکہ ایک مدت کے بعد خود ٹوٹ جاتا ہے اس طرح یہ ٹھیکہ پر لی گئی عورت ہے۔

تفسير البحر المحيط – أبي حيان الأندلسي – ج ٦ – الصفحة ٣٦٨
وسأل الزهري القاسم بن محمد عن المتعة فقال: هي محرمة في كتاب الله وتلا * (والذين هم لفروجهم حافظون


یعنی امام زھری نے قاسم بن محمد سے متعہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا قرآن نے اسے حرام کیا ہے اور والذين هم لفروجهم حافظون تلاوت فرمائی


الدر المنثور – جلال الدين السيوطي – ج ٥ – الصفحة ٥
وأخرجابن المنذروابن أبي حاتم والحاكم وصححه عن أبي أبى مليكة قال سئلت عائشة عن متعة النساء فقالت بيني وبينكم كتاب الله وقرأت والذين هم لفروجهم حافظون الا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم


ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں ام المومنین عائشہ سے متعہ کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا کہ قائلین متعہ اور میرے درمیاں اللہ کی کتاب موجود ہے جس اور والذين هم لفروجهم حافظون تلاوت فرمائی۔

فتح القدیر الشوکانی جلد ۳ صفحہ 474
وقد دلت هذه الآية على تحريم نكاح المتعةیعنی یہ آیت (والذين هم لفروجهم حافظون)

حرمت متعہ پر دلالت کرتی ہے

تفسير الآلوسي – الآلوسي – ج ١٨ – الصفحة 16
والذين هم لفروجهم حافظون) *

(المؤمنون: 5)

الآية وقرر وجه دلالة الآية على ذلك أن المستمتع بها ليست ملك اليمين ولازوجةفوجب أن لا تحل له أما أنها ليست ملك اليمين فظاهر وأما أنها ليستزوجةله فلأنهما لا يتوارثان بالإجماع ولو كانتزوجةلحصل التوارث لقوله تعالى: *

(ولكم تصف ما ترك أزواجكم) *

(النساء: 12)


یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ ممتوعہ عورت نہ تو باندیوں میں سے ہے اور نہ ہی ازواج میں سے باندیوں میں سے تو ظاہر ہے نہیں ہے زواج میں اس لئے نہیں ہے کہ یہ وارث نہیں بنتی اور اس پر اجماع ہے کہ زوجہ وارث ہوتی ہے جیسے اللہ تعالی نے فرمایا

(ولكم تصف ما ترك أزواجكم)

(النساء: 12)

أضواء البيان – الشنقيطي – ج ٥ – الصفحة ٣١8
وأن المرأة المستمتع بها في نكاح المتعة، ليستزوجة، ولا مملوكة. أما كونها غير مملوكة فواضح. وأما الدليل على كونها غيرزوجة، فهو انتفاء لوازمالزوجيةعنها كالميرث والعدة والطلاق والنفقة،


جو عورت نکاح متعہ میں ہے وہ زوجہ نہیں ہے اور باندی تو ظاہر ہے نہیں ہے اس کے زوجہ نہ ہونے پر دلیل یہ ہے کہ یہ زوجہ کے تمام لوازمات سے محروم ہے نہ اس کے لئے میراث ہے نہ عدت ، نہ طلاق ، اورنہ نفقہ

اس کے علاوہ بہت ساری تفاسیر میں سورہ مومنوں کی اس آیت کی تفسیر یہی آئے ہے طوالت کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں ۔ لیکن یہاں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ زوجہ بنص قرآن کریم مستقل بیوی کو کہتے ہیں اور آپ نے ملاحضہ فرمایا کہ مفسرین نے زوجہ اس منکوحہ عورت کو کہا ہے جس کے لئے طلاق ، عدت ، نفقہ ، میراث لازم ہو اور قرآن کریم نے بھی زوجہ کو وارث کہا ہے چناچہ یہ بات ظاہر ہے کہ ممتوعہ زواج اربع میں سے نہیں ہے۔ اور اس سورہ کی آیت ۷ میں واضع حکم ہے کہ بیوی اور باندی کے  علاوہ کوئی بھی اگر کسی اور کا طالب ہے تو وہ حدو د اللہ سے نکل جانے والا ہے۔

ممتوعہ زوجہ نہیں ہے

طوسی تحذیب الحکام جلد ۷ ص  258 میں کہتا ہے

محمد بن أحمد بن يحيى عن العباس بن معروف عن القاسم بن عروة عن عبد الحميد الطائي عن محمد بن مسلم عن أبي جعفر عليه السلام في المتعة قال: ليست من الأربع لأنها لا تطلق ولا ترث ولا تورث وإنما هي مستأجرة


یعنی امام باقر کہتے ہیں کہ وہ چار میں سے نہیں ہے کیوں کہ وہ وارث نہیں اس کی طلاق نہیں اور پھر وہ تو ٹھیکہ پر لی گئی عورت ہے

پھر امام صادق سے بھی یہ مروی ہےجو کہ  طوسی نے الاستبصار جلد 3 ص 143 پر نقل کیا

وعنه عن الحسين بن محمد عن معلى بن محمد عن الحسن بن علي عن حماد ابن عثمان عن أبي بصير قال: سئل أبو عبد الله عليه السلام عن المتعة أهي من الأربع؟
قال: لا ولا من السبعين.
عنه عن الحسين بن محمد عن أحمد بن إسحاق عن سعدان بن مسلم عن عبيد بن زرارة عن أبيه عن أبي عبد الله عليه السلام قال: ذكر له المتعة أهي من الأربع؟ قال: تزوج منهن ألفا فإنهن مستأجرات.


یعنی امام صادق کہتے ہیں کہ یہ چار (ینعی منکوحہ عورتیں جنھیں قرآن نے زوجہ ٹھرایہ ہے) نہیں ہیں ان میں ہزار سے متعہ کر لو کیوں کہ وہ تو ٹھیکہ پر لی گئی شرمگاہیں ہیں۔

یعنی وہ زوجات میں سے نہیں ہے یہاں اربع سے مراد مستقل بیویاں ہیں جو کہ صرف چار ہی ایک وقت مین نکاح میں رہ سکتی ہیں اور قرآن کریم نے مستقل بیویوں کو زوجہ کہا ہے لیکن آپ دیکہ لیں امام بھی کہتے ہیں یہ زوجات میں سے نہیں ہے بلکہ یہ کرایہ یا ٹھیکہ ہر لی گئی شرمگاھ ہے۔ روایات سے یہ بات صاف ہو گئی کہ شیعہ کی فقہ میں بھی اسی قرآن کریم کی بتائی گئی بیویوں میں سے نہین ہیں ۔ اور ہو بھی کیسی سکتی ہیں کیوں کہ بیویاں تو ٹھیکہ پر نہیں لیتا کوئی ۔۔۔ اور جو ٹھیکہ پر لی جاتی ہیں وہ بیویاں نہیں ۔

مشرکہ مجوسیہ سے بھی متعہ کر سکتے ہیں

الاستبصار – الشيخ الطوسي – ج ٣ – الصفحة ١٤٤

رواه أحمد بن محمد بن عيسى عن محمد بن سنان عن الرضا عليه السلام قال:سألته عن نكاح اليهودية والنصرانية فقال: لا بأس به فقلت المجوسية فقال: لا بأس به يعني المتعة


امام رضا سے پوچھا گیا کہ یہودیہ اور نصرانیہ سے نکاح کرلیں تو فرماتے ہیں کوئی ہرج نہیں پھر پوچھا کہ مجوسیہ سے تو فرمایا کہ ان سے متعہ کرلو۔

اس بات سے یہ ثابت ہوا کہ متعہ نکاح نہیں ہے

عنه عن أبي عبد الله البرقي عن ابن سنان عن منصور الصيقل عن أبي عبد الله عليه السلام قال: لا بأس بالرجل أن يتمتع بالمجوسية

امام ابی عبداللہ فرماتے ہیں کہ مجوسیہ سے متعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

ان اب مجوسیہ سے نکاح تو ہو نہیں سکتا اور وہ بیوی بھی نہیں بن سکتی اس لئے شیعوں نے اس وقت کی ایرانی عورتوں سے مزہ لینے کے لئے اس سے متعہ جائز کر لیا جس یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شیعہ مذہب میں بھی ممتوعہ عملن زوجہ نہیں ۔صدق ابن عباس رضی اللہ عنہ متعہ لا نکاح ، یہ بس جنسی لذت پوری کرنے کا نام ہے ۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ممتوعہ عورت زوجہ نہیں ہوسکتی۔ ۔ کیوں کہ ایک مشرکہ سے نکاح حرام ہے اس بات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ متعہ صرف اور صرف شھوت پوری کرنےکا نام ہے اور اس میں عورتوں کی شرمگاہیں پیسوں پر خرید کر جماع کے بعد چھوڑ دیا جاتا ہے ،۔یہ نہیں دیکہا جاتا کہ مشرکہ مجوسیہ  ہے یا مومنہ ہے یا پھر کوئی اور ۔صرف مزہ ہی تو لینا ہے۔

کیا اب بھی شیعہ کہتے ہیں کہ متعہ محصنین کی  قید کو پورہ کرتا ہے اور غیر مسافحین یعنی شہوت رانی بھی نہیں ہے۔۔۔ مجوسیہ سے متعہ پھر کیا ہے کیا ہمیں شیعہ سمجھا سکتے ہیں

مکی سورہ سے استدلال کی وجہ

سورہ مومنوں چونکہ مکی سورہ ہے اوراس میں اختلاف موجود ہے لیکن جمھور نے اسے تسلیم کیا ہے کہ یہ مکی سورہ ہے اس لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس سے مراد حرمت متعہ ہے تو پھر ان احادیث کا کیا جائے جو صحیحین میں موجود ہیں۔
اس کا جواب دینے سے پھلے صحیح بخاری سے ایک حدیث پیش کرتا ہوں۔
حدیث نمبر: 5075

حدثنا قتيبة بن سعيد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا جرير،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عنإسماعيل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن قيس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال قال عبد الله كنا نغزو مع رسول الله صلىالله عليه وسلم وليس لنا شىء فقلنا ألا نستخصي فنهانا عن ذلك ثم رخص لنا أن ننكحالمرأة بالثوب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم قرأ علينا ‏ {‏ يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ماأحل الله لكم ولا تعتدوا إن الله لا يحب المعتدين‏}‏‏.‏


ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سےجریر نے، ان سے اسمٰعیل بن ابی خالد بجلی نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیااور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہہم رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ جہاد کو جایا کرتے تھے اورہمارے پاس روپیہ نہ تھا (کہ ہم شادی کر لیتے) اس لئے ہم نے عرض کیا ہم اپنے کو خصیکیوں نہ کرالیں لیکن آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمنے ہمیںاس سے منع فرمایا۔ پھر ہمیں اس کی اجازت دے دی کہ ہم کسی عورت سے ایک کپڑے پر (ایکمدت تک کے لئے) نکاح کر لیں۔ آپ نے ہمیں قرآن مجید کی یہ آیت پڑھ کر سنا ئی کہ”ایمان لانے والو! وہ پاکیزہ چیزیں مت حرام کرو جو تمہارےلئے اللہ تعالیٰ نے حلال کی ہیں اور حد سے آگے نہ بڑھو، بیشک اللہ حد سے آگے بڑھنےوالوں کو پسند نہیں کرتا“۔

اس حدیث سے ایک بات جو کہ طئی ہے کہ سورہ مومنون کی آیت 5-6 کے بعد متعہ منع ہوچکا تھا جو کہ شروع میں عرب میں عام تھا اور پھر تمام مفسرین اسے نے کہا کہ المراد نكاح المتعة الذي كان في صدر الاسلام یعنی اسلام کے شروعاتی دور میں (جس سے یقینن مراد دور مکہ ہی ہے) اس لئے سیدنا عبداللہ بن مسعود نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خصی ہونے کا کہ رہے تھے اگر متعہ اس وقت جائز ہوتا تو ظاہر ہے خصی ہونے کی ضرورت نہیں تھی اس لئے کہ متعہ وہ آسانی سے کرسکتے تھے جو کہ صرف تھوڑہ سا مھر دے کہ اپنی جنسی ضرورت پوری کردیتے لیکن یہاں یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ متعہ پہلے منع تھا۔ اس لئے بھت سے غریب صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ہمیں خصی ہونے کی اجازت دے دین۔

دوم: اس حدیث میں سے مراد نکاح مستقل بھی لیا جاسکتا ہے کیوں کہ غریب صحابہ جہاد کے جذبے کے تحت جو مال ان کے پاس ہوتا تھا جہاد کے سامان میں خرچ کردیتے تھے اس لئے ان کے پاس نکاح اور بیوی کی دیکھہ بحال نان نفقہ کے لئے ان کے پاس وسائل کم تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تھوڑی مھر(کپڑے کی قیمت جتنی) کے بدولت نکاح کی اجازت دے دی کیوں کہ ایسے حالات میں ایسی گنجائش موجود تھی تاکہ صحابہ اس سے فائدہ اٹھا سکین۔

سوم: حافظ ابن حجر نے اس حدیث کی شرح میں لکہا ہے کہ

قوله ( أن ننكح المرأة بالثوب ) أي إلى أجل في نكاح المتعة
 

یعنی اس سے مراد نکاح متعہ ہے پھر بعد میں لکہتے ہیں کہ اس کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات کی وجہ سے اجازت دی اور پھر اس سے منع کردیا۔
جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سورہ مومنوں کی یہ آیات بلکل متع کے حرمت ثابت کرتی ہیں اور یہ احادیث کے مطابق پھر سخت حالات میں حضور علیہ السلام نے اس کی اجازت دی کچھ وقت کے لئے اور ہھر اس سے منع کردیا ۔ بلکل اسی بات کو ابن جوزی نے پیش کیا ہے
ابن جوزی زادالمسیر جلد ۲ ص 126 پر لکہتے ہیں کہ


ثم رجع عن ذلك وقد تكلف قوم من مفسري القراء، فقالوا: المراد بهذه الآية نكاح المتعة، ثم نسخت بما روي عنالنبي صلى الله عليه وسلمأنه نهى عن متعة النساء، وهذا تكلف لا يحتاج إليه، لأنالنبي صلى الله عليه وسلمأجاز المتعة، ثممنعمنها، فكان قوله منسوخا بقوله. وأما الآية، فإنها لم تتضمنجوازالمتعة. لأنه تعالى قال فيها: (أن تبتغوا بأموالكم محصنين غير مسافحين) فدل ذلك على النكاح الصحيح۔


ابن جوزی فرماتے ہیں کہ بعض مفسرین اکرام نے کھینچ تان کر کہ اس آیت سے متعہ مراد لیا اور بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منع کرنے پر اس آیت منسوخ قرار دیا ۔ حالانکہ یہ خواہ مخواہ کا تکلف ہے جس کی کوئی ضرورت نہیں ہے سیدھی سی بات ہے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلے متعہ کی اجازت دی تھی اور بعد میں منع کردیا ۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ُ کا قول خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے منسوخ ہے اس آیت کا اس سے کوئی تعلق نہین اور نہ ہی اس آیت کریمہ میں متعہ کا جواز کی دلیل ہے اگر کوئی ایسی تاویل کہتا ہے تو اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کیوں کہ اسی آیت میں خود اللہ تعالینے فرما دیا کہ ( ان تبتغو باموالکم محصنین او غیر مسافحین ) اپنے مال سے تم ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہو (یعنی نکاح کرسکتے ہو ) مہر ادا کر کہ اور برائی سے بچنے کے لئے نہ کہ شہوت پوری کرنے کے لئے۔

چناچہ جن صحابہ سے حلت متعہ کی کچھ روایات مروی ہیں انہیں حضور علیہ السلام کا حلت کا حکم تو پھنچا تھا لیکن حرمت کا نہیں پھنچ سکا اس کا سبب یہ ہے متعہ کی حضور علیہ السلام نے حالات کی وجہ سے متعدد بار اجازت دی اور پھر متعدد بار اس سے منع کردیا اور پھر آخری بار خیبر میں ہمیشہ کے لئے منع کردیا لیکن ہوسکتا ہے متعدد بار حلت کی وجہ سے کچھ صحابہ تک حرمت کی بات نہ پھونچی ہو وہ اسے جائز سمجھتے ہوں پھر حضرت امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ السلام کے خیبر کے فرمان کے مطابق حکومت کی سطح پر اسے نافذ کردیا اور سختی سے اس کو منع کردیا۔