Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

علامہ مفتی محمد رکن الدین نظامی انواریؒ کا فتویٰ رافضی سے سنی عورت کا نکاح


علامہ مفتی محمد رکن الدین نظامی انواریؒ کا فتویٰ

(مفتی اول دارالفتاء جامعہ نظامیہ حیدر آباد ،دکن)

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہندہ ثیبہ سنی المذہب اپنی رضا مندی و خوشی سے زید رافضی سے نکاح کرنا چاہتی ہےـ کیا ازروئے شریعت ہندہ کے ولی کو اس نکاح سے ہندہ کو باز رکھنے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ بدون رضا مندی ولی کے ہندہ اگر نکاح کر لے تو ایسی حالت میں ولی کا اس پر کوئی حق مہر واجب ہے یا نہیں؟

جواب: جو رافضی (شیعہ) سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی امامت کے منکر ہیں یا سیدنا فاروق اعظمؓ کی خلافت کا انکار کرتے ہیں اور فرقہ زیدیہ جو عجم سے ایک ایسے نبی کے آنے کا انتظار رکھتے ہیں جو ہمارے نبی کریمﷺ کے دین کو منسوخ کرے گا- اسی طرح وہ رافضی جو دنیا میں اموات کے رجوع ہونے اور تناسخ کے قائل ہیں، اور وہ رافضی جو ائمہ میں روح الہی کے منتقل ہونے کے قائل ہیں، اور وہ رافضی جو امام باطنی کی نکلنے کے قائل ہیں، اور اس کے نکلنے تک تمام اوامرنواہی کو بیکار جانتے ہیں، اسی طرح وہ رافضی جو سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں اور صدیق اکبرؓ کے صحابی ہونے سے انکار کرتے ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حضور اکرمﷺ کی طرف وحی لانے میں غلطی ہوئی اصل وحی سیدنا علیؓ پر آنے والی تھی۔

یہ تمام رافضی حنفیوں کے پاس کافر اور مذہب اسلام سے خارج ہیں ان کے احکام ہمارے پاس مرتدوں کے احکام ہیں ـ

فتاوی عالمگیری: جلد، 2 صفحہ، 292 میں ہے:

من انكر امامة أبي بكر الصديق فهو كافر على قول بعضهم وقال هو مبتدع وليس بكافر والصحيح انه كافر كذلك من انكر خلافة عمر في اصح الاقوال، ويجب اكفار الزيدية كلهم في قولهم بانتظار بنى من العجم ينسخ دين نبينا محمد كذا فى الوجيز الكردري كذا ففى الظهيرية۔ ويجب اكفار الروافض في قولهم برجعة الاموات الى الدنيا وتناسخ الأرواح وبانتقال روح الاله الى الائمة وبقولهم في خروج امام باطن و بتعطيلهم الأمر والنهى الى ان يخرج الامام الباطن وبقولهم ان جبرئيل عليه السلام غلط فى الوحى الى محمد دون على بن ابي طالب، وهؤلاء القوم خارجون عن ملة الاسلام واحكامهم احكام المرتدين۔ كذا في الظهيرية۔ 

در المحتار: جلد، 3 صفحہ، 320 میں ہے:

نعم لاشک فی تکفير من قذف السيدة عائشة او انكر صحبة الصديق او اعتقد الالوهية في على اوان جبرئيل غلط في الوحي أو نحو ذلك من الكفر الصريح المخالف للقرآن

اور جو رافضی (شیعہ) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالیاں دیتے ہیں اور ان سے بغض رکھتے ہیں ان کے گمراہ و بدکار ہونے پر تمام اماموں کا اتفاق ہے، بلکہ بعض فقہاء نے ان کو بھی کافر لکھا ہے۔ اور جو حضرت علیؓ کے شیخینؓ پر فضیلت کے قائل ہیں وہ بدعتی ہیں۔

رد المحتار مصری کے جلد 3 صفحہ 302 میں ہے:

فی الاختيار اتفق الائمة على تضليل اهل البدع اجمع وتخطعتهم وسب احد من الصحابة وبعضه لا يكون كافر لكن يضلل

فتاویٰ عالمگیریہ جلد 2 صفحہ 292 میں ہے:

 الرافضی اذا كان يسب الشيخين ويلعنهما والعياذ بالله فهو كافر و ان كان يفضل عليا على ابى بكر لا يكون كافرا الا انه مبتدع

جو رافضی شیخین کریمینؓ (سیدنا صدیقِ اکبرؓ، سیدنا فاروق اعظمؓ) کو گالیاں دے یا ان دونوں پر لعن طعن کرے اللہ تعالیٰ کی پناہ تو وہ کافر ہےـ اور حضرت علیؓ کو سیدنا صدیق اکبرؓ پر فضیلت دے وہ بدعتی (گمراہ) ہے کافر نہیں ـ

قارئین کرام! روایات سابقہ سے جبکہ رافضیوں کا کافر و بد کارو گمراہ ہونا ثابت ہے تو از روئے شریعت رافضی سے سنی عورت کا نکاح نا جائز ہے۔ کیونکہ نکاح میں شرعاً زوج و زوجہ کے مابین کفو کا لحاظ کیا گیا ہے اور ہمسری مرد کی عورت کے ساتھ اسلام و دینداری و تقویٰ میں بھی رکھی گئی ہے، یعنی کافر یا غیر متقی بدکار مرد ہرگز مؤمنہ عاصمہ وصالحہ کا ہمسر نہیں ہو سکتا۔

فتاوی عالمگیریہ جلد 1 صفحہ 310 میں ہے:

(ومنهما الديانة) اى تعتبر الكفاءة في الديانة هذا قول أبي حنيفة وابي يوسف وهو الصحيح كذافى الهداية فلا يكون الفاسق كفر للصالحة كذا فى المجمع سواء كان معلنا الفسق اولم يكن كذافى المحيط

در مختار مطبوعه بر حاشیه رد المحتار جلد 2 صفحہ 346 میں ہے:

(و) اما المعجم فتعتبر (حرية واسلاما) وابوان فيهما كالآباء (و) تعتبر فى العرب والعجم (ديانة) اى تقوى فليس فاسق كفوء الصالحة او فاسقة بنت صالح معلنا كان او على الظاهر۔

شرعاً کفاءة ولی کا حق ہے، یعنی اگر لڑکی ثیبہ ہو یا باکرہ جبکہ غیر کفو سے نکاح کرنا چاہیے اور ولی ناراض ہو تو اس کا نکاح ہی منعقد نہیں ہوتا، اور اگر ولی کو نکاح کے بعد معلوم ہو اور وہ فسخ کرانا چاہے تو قبل حاملہ ہونے کے یا بچے والی ہونے کے قاضی کے پاس پیش کر کے فسخ کرا سکتا ہےـ مگر یہ ولی کو اس وقت دیا گیا ہے جبکہ وہ عصبہ یعنی ولی باپ ہو، یا حقیقی بھائی، یا چچا زاد بھائی، یا دادا وغیرہ اور جو ولی کہ ذوی الارحام سے ہیں یا ماں اور قاضی اگر ولی ہے تو ایسے اولیاء کو لڑکی کی خود بخود غیر کفوء سے نکاح کر لینے کی صورت میں اعتراض و فسخ کا حق نہیں ہے۔

در مختار مطبوع بر حاشیہ رد محتار جلد 2 صفحہ 344 میں ہے:

(و) الكفاءة (هي حق الولى لاحقها) فلو نكحت رجلا ولم تعلم حاله فاذا هو عبد لاخيار لها بل للاولياء۔

اور صفحہ 343 میں ہے:

(قوله الكفاءة معتبرة ) قالوا معناه معتبرة في اللزوم على الأولياء حتى عند عدمها جاز للولى الفسخ اھ، فتح وهذا بناء على ظاهر الرواية من ان المعقد صحيح وللولى الاعتراض اما على رواية الحسن المختارة للفتوى من انه لا يصح فالمعنى معتبرة في الصحة

فتاوىٰ عالمگیریه جلد 1 صفحہ 310 میں ہے:

ثم المرأة زوجت نفسها من غير كفوء صح النكاح في الظاهر الرواية عن ابي حنيفة وهو قول أبي يوسف آخر او قول محمد ايضا حتى ان قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والايلاء والتوارث وغير ذلك ولكن للاولياء حق الاعتراض، وروى الحسن عن ابي حنيفة أن النكاح لا ينعقد. و به اخذ كثير من مشائخنا كذافى المحيط والمختار في زماننا للفتوى رواية الحسن وقال الشيخ الامام شمس الائمة السرخسى رواية الحسن اقرب الى الاحتياط كذافي فتاوى قاضيخان في فصل شرائط النكاح وفى البزازية ذكر برهان الائمة ان الفتوى في جواز النكاح بكرا كانت او ثيبا على قول الامام الاعظم۔وهذا اذا كان لها ولى فان لم يكن صح النكاح اتفاقا كذا في النهر الفائق، ولا يكون التفريق بذلك الاعند القاضي۔

در مختار میں اسی جلد کے صفحہ نمبر 322 میں ہے: ویفتی فی غير الكفوء وعدم جوازه وهو المختار للفتوى الفساد الزمان

اور در مختار میں ہے:

 قوله بعدم جوازه اصلا هذه رواية الحسن عن أبي حنيفة . وهذا اذا كان لها ولى ولم يرض به قبل العقد فلا يفيد الرضا بعده بحر، واما اذا لم يكن لها ولى فهو صحيح نافذ مطلقا اتفاقا كما يأتى لان وجه عدم الصحة على هذه الرواية دفع المضرر عن الأولياء اما هى فقد رضيت باسقاط حقها، فتح وقول البحر لم يرض به ليشمل ما اذا لم يعلم اصلا فلا يلزم التصريح بعدم الرضا بل السكوت منه لا يكون رضا كما . ذكرنا فلا بد حينئذ بصحة العقد من رضاه صريحا و عليه فلو سكت قبله ثم رضى بعده لا يفيد۔

اور صفحہ نمبر 321 میں ہے:

(وله) اى للولى اذا كان عصبة (الاعتراض) في غير الكفو ويفسخه القاضي وبتجدد الاعتراض يتجدد النكاح (مالم) يسكت حتى ( تلدمنه ) لٸلا يضع. الولد وينبغي الحاق الحبل الظاهر به

پس صورتِ مسئولہ میں ہندہ سنیہ کا نکاح رافضی سے شرعاً صحیح و جائز نہیں ہے، اور ولی کو قبل نکاح روکنے کا حق حاصل ہے ـ

حضرت مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلویؓ نے بھی فتاویٰ عزیزیہ مجتبانی کے صفحہ 12 میں عدم جواز نکاح (نکاح کا ناجائز ہونا) تحریر فرمایا ہے اور اس نکاح سے مذہب میں فتور آنے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔

(تلخیص فتاویٰ نظاميہ: صفحہ، 52)