Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

تعزیہ کے بنانے اور اس کے دیگر رسوم کی ادائیگی میں وقف شدہ زمین کی آمدنی خرچ کرنا


سوال: زید کا دادا بستی کا سردار تھا، زید کے دادا کو راجہ یعنی زمیندار نے پندرہ کٹھہ یعنی تعزیہ داری کے لیے وقف کر دیا۔ زمینداری جب ختم ہو گئی تو زید کے والد کے نام سے زمین لکھی گئی۔ والد کے انتقال کے بعد زید نے زمین اپنے اور اپنے تین بھائیوں کے نام لکھوا دیا اور اب چاروں بھائیوں نے زمین تقسیم کر لیا ہے اور زمین کی پیداوار سب کھا جاتے ہیں اور محرم یعنی تعزیہ داری وغیرہ نہیں بناتے ہیں۔ اس بستی والوں نے کہا کہ زمین راجہ کی طرف سے محرم کے لیے وقف ہے۔ آپ لوگ کیوں پیداوار کہا جاتے ہیں اور تعزیہ وغیرہ نہیں بناتے ہیں۔ زید جواب دیتا ہے کہ میری زمین ہے، میرے نام سے ہے، چاہے بناؤں یا نہ بناؤ۔ اس بستی والوں نے زید کو مع چاروں بھائی کے بائیکاٹ کر دیا ہے۔

زید کو جب بائیکاٹ کر دیا تو زہر نے اسی محرم کے وقف والی زمین پر ایک مسجد بنا لی ھے، اور نماز بھی پڑھتے ہیں۔ لہٰذا یہ درست ہے یا نہیں؟

جواب: وقف میں واقف کی منشاء کے خلاف کرنا جائز نہیں اور نہ وقف کی جائیداد کسی کی ملک ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص موقوفہ زمین کو اپنے نام لکھوا کر اس کی پیداوار اپنے تصرف میں لائے گا تو شرعاً وہ گنہگار ہو گا۔ کسی مقصد کے پیش نظر وقف کی گئی اس کی پیداوار اور آمدنی اسی مصرف میں خرچ کی جائے گی۔ اگر ناجائز کام کے لیے کسی نے وقف کیا تو اسے جائز کام میں صرف کیا جائے گا یا فقراء اور مساکین پر تقسیم کر دیا جائے گا۔ اسے اپنی ملکیت سمجھ کر تصرف میں لانا ہرگز جائز نہ ہو گا۔

لہٰذا تعزیہ کے بنانے اور اس کی دیگر رسوم کی ادائیگی میں زمین کی آمدنی خرچ نہ کی جائے گی کہ گناہ کا سبب ہے۔ البتہ مسلم فقراء و مساکین اور اسلامی مکاتب پر اس کی آمدنی صرف ہو، تا کہ نادار و فقیر طلبہ کو اسلامی فائدہ پہنچے۔ وقف مذکورہ چونکہ شرعاً صحیح نہیں تھا تو زمینداری ختم ہو جانے کے بعد وہ زمین اللہ تعالیٰ جل شانہ اور اس کے رسولﷺ کی ملکیت میں آگئی، جس کا استعمال زید نے صحیح طور پر کیا۔ مسلمانوں کا اس سے قطع تعلق صحیح نہیں ہے۔

(فتاویٰ شرعیہ: جلد، 2 صفحہ، 513)