کفار کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کرنا قران و حدیث کے عین مطابق ہے اور اللہ تعالیٰ جل شانہ اور اس کے رسولﷺ کے دوستوں کے ساتھ دوستی اور ان کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی افضل الاعمال ہیں
کفار کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کرنا قران و حدیث کے عین مطابق ہے اور اللہ تعالیٰ جل شانہ اور اس کے رسولﷺ کے دوستوں کے ساتھ دوستی اور ان کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی افضل الاعمال ہیں:
حدود و قصاص کا قائم کرنا حکومت کا کام ہے، رعایا کا کام نہیں لیکن اگر معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو جائے ،کچھ افراد جرائم و معاصی کا ارتکاب کرنے لگ جائیں تو ان کو درست اور سیدھا کرنے کے لئے معاشرے کو برائیوں سے پاک و صاف رکھنے کے لیے جرائم پیشہ افراد سے قطع تعلقی (بائیکاٹ)کرنا ان کے ساتھ میل جول، لین دین ترک کر دینا، ان سے رشتہ ناطہ نہ کرنا، ان کی تقریبات میں شادی غمی میں شریک نہ ہونا، ان کو اپنی تقریبات میں شامل نہ کرنا نہایت ہی پرامن اور بےضرر اور موثر ذریعہ ہے۔
آج سے تقریبا نصف صدی پہلے تک ہر زمانے کے مسلمان اسی بائیکاٹ کے ذریعے اصلاح معاشرہ کرتے چلے آئے ہیں۔ چنانچہ (شرح مشکوة:جلد، صفحہ 290) پر ہے:
صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین اور ان کے بعد آنے والے ہر زمانے کے ایمان والوں کی عادت رہی ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ اور اس کے رسولﷺ کے غالب دشمنوں کے ساتھ بائیکاٹ کرتے رہے۔ حالانکہ ان ایمانداروں کو دنیوی طور پر ان مخالفوں کی احتیاج بھی ہوتی تھی ،لیکن وہ مسلمان اللّٰہ جل شانہ کی رضا کو ترجیح دیتے ہوئے بائیکاٹ کرتے تھے۔ یہ بائیکاٹ قران و حدیث کے عین مطابق ہے بلکہ آنحضرتﷺ نے عملی طور بھی اس کو نافذ فرمایا۔ جب غزوہ خیبر میں یہودیوں کا محاصرہ کیا اور یہودی قلعے میں محصور ہو گئے اور کئی دن گزر گئے تو ایک یہودی آیا اور اس نے کہا: اے ابوالقاسم! اگر آپ مہینہ بھر ان کا محاصرہ رکھیں تو ان کو پرواہ نہیں ، کیونکہ ان کے قلعے کے نیچے پانی ہے ، وہ رات کے وقت قلعے سے اترتے ہیں اور پانی پی کر واپس آتے ہیں، اگر آپ ان کا پانی بند کر دیں تو جلدی کامیابی ہو گی اس پر آنحضرتﷺ نے ان کا پانی بند کر دیا ، تو وہ مجبور ہوکر قلعے سے اتر آئے ۔ فسار رسول الله ﷺ الى ماءىهم فقطعه عليهم فلما قطع عليهم خرجوا:
(زاد المعاد ابن قیم:جلد، 3 صفحہ، 234 على هامش مواهب للزرقانى:جلد، 4 صفحہ، 205)
اور ایک مرتبہ جب سیدنا کعب بن مالکؓ اور ان کے ساتھ دو اور صحابی غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے واپسی پر آنحضرتﷺ نے جواب طلبی فرمائی اور تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان تینوں کے ساتھ بات چیت ترک کر دی جائے سیدنا کعبؓ فرماتے ہیں رسول اللّٰہﷺ نے میرے ساتھ اور میرے ساتھیوں کے ساتھ بات چیت کرنے سے منع فرما دیا ہمارے ساتھ کوئی بھی بات نہ کرتا تھا۔
(صحیح بخاری:جلد، 2 صفحہ، 675)
اور اس بائیکاٹ کا اثر یہ ہوا کہ زمین باوجود وسیع ہونے کے ان پر تنگ ہونے لگی بلکہ وہ اپنی جانوں سے بھی تنگ آگئے ارشاد باری تعالیٰ ہے: حتى إذا ضاقت علىهم الارض بما رحبت و ضاقت عليهم أنفسهم و ظنوا ان لا ملجا من الله الا اليه:
یہ بائیکاٹ جب 40 دن تک پہنچا تو رسول اللّٰہﷺ نے حکم دیا کہ اب ان کی بیویاں بھی ان سے الگ ہو جائیں پھر جب پورے 50 دن ہو گئے تو اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور اس کا حکم بذریعہ وہی نازل فرمایا۔
تنبیہ: یہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین تھے تو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کی برکت سے ان کی لغزش کو معاف فرما دیا، ان کی معافی کی سند قران مجید میں نازل فرمائی، ان کے درجات بلند کیے۔ لہٰذا کسی ظالم اور منافق کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ان حضرات صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم کے متعلق کوئی ادب سے گری ہوئی بات کہے یا دل میں بدگمانی کر ے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے ساتھ ایسا کرنا سراسر ہلاکت ہے اور دین کی بربادی ہے قطع تعلق (بائیکاٹ) کے متعلق قران پاک میں ہے: ولا تركنوا الى الذين ظلموا فتمسكوا النار: یعنی ظالموں کی طرف میلان نہ کرو ورنہ تمہیں نار جہنم پہنچے گی۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا: فلا تقعدوا بعد الذكر مع القوم الظالمين: یعنی یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھو۔ حدیث پاک میں ہے رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا کہ جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوئے تو ان کو ان کے علماء نے منع کیا مگر وہ باز نہ آئے۔ پھر ان علماء نے ان کے ساتھ ان کی مجلسوں میں بیٹھنا شروع کر دیا اور ان کے ساتھ کھاتے پیتے رہے (بائیکاٹ) نہ کیا تو اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے ایک دوسرے کے دلوں پر مار دیا اور حضرت داؤدؑ اور حضرت عیسیٰؑ کی زبانی ان پر لعنت بھیجی کیونکہ وہ نافرمانی کرتے حد سے بڑھ گئے تھے۔
سیدنا ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ رسول اکرمﷺ تکیہ لگائے تشریف فرما تھے، آنحضرتﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، جرائم پیشہ لوگوں کو روک لو۔
(ترمذی شریف:جلد، 2 صفحہ، 130)
مذکورہ بالا بائیکاٹ کا حکم ایسے لوگوں کے متعلق ہے جو عملی طور پر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، لیکن جو لوگ دین کے ساتھ دشمنی کریں اور اللّٰہ اور اسکے رسولﷺ، صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین اور ازواجِ مطہراتؓ کی شان و عظمت پر حملے کریں، ایسے بدمذہبوں کے لئے سخت حکم ہے۔ ان کے ساتھ بائیکاٹ کرنا، میل ملاپ، دوستی اور محبت کرنا سخت حرام ہے۔ اگرچہ وہ ماں باپ ہوں، بیٹے بیٹیاں ہوں، بہن بھائی ہوں یا کنبہ اور برادری ہو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يايها الذين امنوا لا تتخذوا اباءكم واخوانكم اولياء ان استحبوا الكفر على الايمان ومن يتولهم منكم فاولئك هم الظالمون:
ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تمہارے باپ دادا اور تمہارے بہن بھائی ایمان پر کفر کو پسند کریں تو ان سے دوستی و محبت نہ کرو، اور جو تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے گا، وہ ظالموں میں سے ہو گا۔
نیز قران پاک میں ہے: لَا تَجِدُ قَوۡمًا يُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ يُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَوۡ كَانُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَهُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَهُمۡ اَوۡ عَشِيۡرَتَهُمۡؕ اُولٰٓئِكَ كَتَبَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡاِيۡمَانَ وَاَيَّدَهُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡهُ ؕ: یعنی تم نہ پاؤ گے کسی ایسی قوم کو جو اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ پر آخرت پر ایمان رکھتے ہوں کہ وہ دوستی کریں ایسے لوگوں سے جو دشمنی اور مخالفت کریں اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ اور اس کے رسولﷺ سے اگرچہ وہ دشمنی کرنے والے ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں بھائی ہو یا کنبہ برادری ہو ایسے ہی ایمان والوں کے دلوں میں اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ نے ایمان نقش فرما دیا اور ان کی روح سے مدد فرماتا ہے اور انہیں بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں ہیں ان بہشتوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ ان سے راضی وہ اللّٰہ تعالی جل شانہ سے راضی یہ لوگ اللّٰہ تعالی جل شانہ کی جماعت ہے اللّٰہ تعالی جل شانہ کی جماعت ہی دونوں جہان میں کامیاب ہے۔ آیت مذکورہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ پر ایمان اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنوں کے ساتھ دوستی یہ دونوں چیزیں اکٹھی ہو ہی نہیں سکتی چنانچہ تفسیر روح المعانی میں ہے کہ: آیت مبارکہ میں تصور دلایا گیا کہ کوئی قوم مؤمن بھی ہو اور کفار و مشرکین کے ساتھ اس کی دوستیاں محبت بھی ہو یہ محال و متمنع ہے۔
( روح المعانی:جلد، 28 صفحہ، 35)
نیز اسی تفسیر میں ہے کہ آیت مذکورہ میں اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ اور اس کے رسولﷺ کے دشمنوں کے ساتھ محبت و دوستی کرنے سے مبالغے کے ساتھ منع فرمایا اور ایسا کرنے والوں کے لئے زجر و توبیخ ہے، اور اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ کے دشمنوں سے الگ رہنے کی پختگی بیان کی گئی ہے۔
( روح المعانی:جلد، 28 صفحہ، 35)
اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ نے اپنے حبیبﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے دلوں میں ایسا ایمان نقش کر دیا تھا کہ ان کی نظروں میں آنحضرتﷺ کے مقابلے میں کسی کی کوئی وقعت ہی نہ تھی، خواہ وہ باپ ہو کہ بیٹا، بھائی ہو کہ بہن۔ چنانچہ سیدنا صدیق اکبرؓ نے اپنے باپ کی زبان سے آنحضرتﷺ کی شان اقدس میں گستاخی سنی تو اس کو ایسا مُکا رسید کیا کہ وہ گر گیا جب حضور اکرمﷺ سے عرض کیا گیا اور حضور اکرمﷺ نے پوچھا اے ابوبکر! آپ نے ایسا کیا ہے؟ سیدنا صدیق اکبرؓ نے کہا: ہاں، یا رسول اللہﷺ! اے اللّٰہ تر عالٰی کے پیارے رسولﷺ اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ کی قسم اگر میرے قریب تلوار ہوتی تو میں اس کو مار دیتا اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔
(روح المعانی:جلد، 28 صفحہ، 37)
سیدنا ابو عبیدہ بن جراحؓ نے اپنے باپ کے منہ سے اپنے محبوبﷺ کی شان میں کوئی ناپسندیدہ بات سنی تو اسے منع کیا، وہ باز نہ آیا تو سیدنا ابو عبیدہ بن جراحؓ نے اپنے باپ کو قتل کر دیا۔
(روح المعانی:جلد، 28 صفحہ، 37)
سیدنا عمر فاروق اعظمؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو بدر کے دن اپنے ہاتھ سے قتل کر دیا اور سیدنا علی المرتضیٰؓ اور سیدنا حمزہؓ سیدنا عبیدہ بن حارثؓ نے عتبہ شیبہ کو قتل کر دیا اور سیدنا مصعب بن عمیرؓ نے اپنے بھائی عبید بن عمیرؓ کو اپنے ہاتھ سے قتل کر دیا۔
اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ ان پاک روحوں پر لاکھوں کروڑوں، اربوں، کھربوں رحمتیں نازل فرمائے جنہوں نے امت کو عشق مصطفیﷺ کا درس دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ ناموس مصطفیٰﷺ کے سامنے سب کچھ ہیچ ہیں۔ آنحضرتﷺ کی عظمت و عزت و عظمت کے سامنے نہ کسی استاد کی عزت ہے نہ کسی پیر کا تقدس رہ جاتا ہے، نہ ماں باپ کا وقار نہ بیوی بچوں کی محبت آڑے آتی ہے نہ مال و دولت ہی رکاوٹ بن سکتی ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے عشق و محبت ہی کی بنا پر اللّٰہ جل شانہ نے ان کے جذبات کی تعریف فرمائی ہے اشداء على الكفار رحماء بينهم: یعنی وہ کافروں دشمنوں پر بڑے سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللّٰہ جل شانہ اور رسولﷺ کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی اور شدت کی مقدار پر ہی عشق و محبت کا نکھار ہوتا ہے۔ جو شخص محبت کا دعویٰ تو کرے لیکن محبوب کے دشمنوں کے ساتھ بغض و عداوت نہ رکھے وہ محبت میں سچا نہیں ہے بلکہ وہ بربریت ہے، دھوکہ ہے، فریب ہے۔
الحاصل: اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ اور اس کے رسول
ﷺ کے دوستوں کے ساتھ دشمنی اور ان کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی افضل الاعمال ہیں ۔حدیث پاک میں ہے۔ افضل الاعمال الحب فى الله وابغض فى اللّٰه: یعنی عملوں میں سے افضل ترین عمل اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ کے دوستوں سے محبت کرنا اور اللّٰہ تعالی جل شانہ کے دشمنوں سے دشمنی کرنا ہے۔
( ابوداؤد:جلد، 2 صفحہ، 175)
آنحضرتﷺ دربار الہی میں یوں دعا کرتے ہیں: یااللّٰہ ہم کو ہدایت دہندہ ،ہدایت یافتہ کر۔ یااللّٰہ ہم کو گمراہ اور گمراہ کرنے والا نہ کر۔ یا اللّٰہ! ہم کو اپنے دوستوں کے ساتھ دوستی اور محبت کرنے والا, اور اپنے دشمنوں کے ساتھ دشمنی اور عداوت رکھنے والا بنا۔ یااللّٰہ ہم تیری محبت کی وجہ سے تیرے دوستوں سے محبت کرتے ہیں اور تیرے دشمنوں کے ساتھ ان کی عداوت کی وجہ سے ہم ان سے عداوت رکھتے ہیں۔ یااللّٰہ! یہ ہماری دعا ہے اس سے قبول فرما۔
( ترمذی شریف:جلد، 2 صفحہ، 178)
ان ارشاداتِ عالیہ کو وہ مصلح کلی (اَمن پسندی اور بھائی چارے کی صدا لگانے والے) حضرات آنکھیں کھول کر دیکھیں جو لوگ بےسوچے سمجھے جھٹ کہہ دیتے ہیں کہ حضورﷺ کافروں کو بھی گلے لگاتے تھے۔ ان حضرات سے سوال یہ ہے کہ آنحضرتﷺ اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ کے ارشاد مبارک۔ ياايها النبي جاهد الكفار والمنافقين واغلظ عليهم: کے مطابق حکمِ الہی کی تعمیل کرتے تھے یا نہیں؟ ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ احکامِ خداوندی کی تعمیل آنحضرتﷺ سے بڑھ کر کوئی نہیں کر سکتا اور نہ کسی نے کی ہے بنا بریں رسول اکرمﷺ نے اس مسجدِ نبوی شریف سے منافوں کا نام لے کر مسجد سے نکال دیا سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ جمعہ کے دن جب خطبے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا اے فلاں! تو منافق ہے، لہٰذا مسجد سے نکل جا۔ تو بھی منافق ہے، مسجد سے نکل جا۔ آنحضرتﷺ نے کئی منافقوں کے نام لے کر نکالا اور ان کو سب کے سامنے رسوا کیا۔ اس جمعہ کو سیدنا عمر فاروق اعظمؓ ابھی مسجد میں حاضر نہیں ہوئے تھے کسی کام کی وجہ سے دیر ہو گئی تھی جب وہ منافق مجلس سے نکل کر رسوا ہو کر جا رہے تھے تو سیدنا فاروق اعظمؓ شرم سے چھپ رہے تھے کہ مجھے تو دیر ہو گئی ہے شاید جمعہ ہو گیا۔ لیکن منافق سیدنا فاروق اعظمؓ سے اپنی رسوائی کی وجہ سے چھپ رہے تھے پھر جب سیدنا فاروق اعظمؓ مسجد میں داخل ہوئے تو ابھی جمعہ نہیں ہوا تھا۔ بعد میں ایک صحابیؓ نے کہا: اے عمر! تجھے خوشخبری ہو کہ آج اللّٰہ تعالی جل شانہ نے منافقوں کو رسوا کر دیا ہے۔
( تفسیر روح المعانی:جلد،11 صفحہ، 11)
اور (سیرت ابنِ ھشام جلد:1:صفحہ:528, 529) میں عنوان قائم کیا ہے اور اس کے تحت فرمایا ہےکہ منافق لوگ مسجد میں آتے اور مسلمانوں کی باتیں سن کر ٹھٹے کرتے دین کا مذاق اڑاتے تھے. ایک دن کچھ منافق مسجدِ نبوی میں اکٹھے بیٹھے تھے اور آہستہ آہستہ آپس میں باتیں کر رہے تھے ایک دوسرے کے ساتھ قریب قریب بیٹھے تھے، آنحضرتﷺ نے دیکھ کر حکم دیا کہ ان منافقوں کو سختی سے نکال دیا جائے اس ارشاد پر سیدنا ایوبؓ سیدنا خالد بن زیدؓ اٹھ کر کھڑے ہوئے اور عمر بن قیس کو ٹانگ سے پکڑ کر گھسیٹتے گھسیٹتے مسجد سے باہر پھینک دیا۔ پھر سیدنا ابو ایوبؓ رضی اللہ تعالی عنہ نے رافع بن ودیعہ کو پکڑا اس کے گلے میں چادر ڈال کر خوب بھینچا اور اس کے منہ پر طمانچہ مارا اور اس کو مسجد سے نکال دیا اور ساتھ ساتھ سیدنا ابو ایوبؓ رضی فرماتے جاتے: ارے خبیث منافق تجھ پر افسوس ہے۔ اے منافق: رسول اللّٰہﷺ کی مسجد سے نکل جا اور اِدھر سیدنا عمارہ بن حزمؓ نے زید بن عمرو کو داڑھی سے پکڑا زور سے کھینچا اور کھینچتے کھینچتے مسجد سے نکال دیا، پھر اس کے سینے پر دونوں ہاتھوں سے تھپڑ مارا کہ وہ گر گیا۔ اس منافق نے کہا اے عمار! تو نے مجھے بہت عذاب دیا یے۔ سیدنا عمارہؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جل شانہ تجھے دفع کرے جو اللٰہ تعالیٰ جل شانہ نے تیرے لئے عذاب تیار کیا ہے وہ اس سے بھی سخت تر ہے۔ آئندہ رسول اللہﷺ کی مسجد کے قریب نہ آنا۔
اور بنو نجار قبیلے کے دو صحابی ابو محمدؓ جو کہ بدری صحابی تھے اور ابو محمد مسعودؓ نے قیس بن عمرو کو جو کہ منافقین میں سے نوجوان تھے گدی پر مارنا شروع کیا حتیٰ کہ مسجد سے باہر نکال دیا۔ اور سیدنا بلال بن حارثؓ نے جب سنا کہ حضور اکرمﷺ نے منافق کو نکال دینے کا حکم دیا ہے، حارث بن عمرو کو سر کے بالوں سے پکڑ کر زمین پر گھسیٹتے گھسیٹتے مسجد سے باہر نکال دیا، وہ منافق کہتا تھا اے ابنِ حارث! تو نے مجھ پر بہت سختی کی ہے سیدنا ابن حارثؓ نے جواب میں فرمایا: اے خدا تعالیٰ کے دشمن!تو اسی لائق ہے تو نجس ہے، پلید ائندہ مجلس کے قریب نہ آنا ۔ادھر ایک صحابیؓ نے اپنے بھائی زری بن حارث کو سختی سے نکال کر فرمایا افسوس کہ تجھ پر شیطان کا تسلط ہے۔