شیعہ اور سُنی میں فرق
پیشکش صدائے قلبشیعہ اور سُنی میں فرق
پہلے یہ جان لیجئے کہ اسلام کے ماننے والوں میں درست اسلامی نظریات پر قائم صرف وہی ہیں جو نبی آخر الزمان صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے طریقے پر گامزن ہیں، اور یہ صرف اہلسنت و جماعت ہیں جنہیں اختصاراً سنی بھی کہا جاتا ہے۔ تمام صحابہ و تابعین کرام، آئمہ و اولیائے عظام علیہم الرضوان انہی عقائد کے حامل تھے جو عقائد اہل سنت و جماعت کے ہیں۔
کثیر احادیث مبارکہ میں اہل سنت و جماعت حق اور جنتی ہونے اور اس کے علاوہ بقیہ فرقوں کے گمراہ و جہنمی ہونے کا بیان موجود ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے
’’وهذه الأمةأيضا اختلفوا فيما بينهم على نحل كلها ضلالة إلا واحدة، وهم أهل السنة والجماعة، المتمسكون بكتاب الله وسنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، وبما كان عليه الصدر الأول من الصحابة والتابعين، وأئمة المسلمين في قديم الدهر وحدیثه، کما رواه الحاكم في مستدركه أنه سئل، عليه السلام عن الفرقة الناجية منهم، فقال: ما أنا عليه [اليوم] وأصحابی۔
ترجمہ :
یہ امت بھی ان ( یہود و نصاری ) کی طرح دین کے معاملے میں اختلاف کرے گی۔ تمام کے تمام فرقے گمراہ ہوں گے سوائے ایک فرقہ کے وہ اہل سنت و جماعت ہو گا،جو کتاب اللہ اور سنت رسول کو تھامے ہو گا اور انہی عقائد پر ہوں گے جن پر صدر اول کے لوگ صحابہ کرام ، تابعین رضی اللہ تعالی عنہم اور ائمہ مسلمین رحمہم اللہ چلے آ رہے ہیں۔
حدیث جسے امام حاکم نے مستدرک میں روایت کیا که آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نجات والے فرقے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں۔
(تفسیر ابن کثیر، فی التفسیر، سورة الروم، آیت30، جلد 6، صفحہ 285، دار الكتب العلمية، بيروت)
بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية وشریعۃ نبویۃ
أهل السنة أي أصحاب سنة رسول الله أى التمسك بها والجماعة أي جماعة رسول الله وهم الأصحاب والتابعون وهم الفرقة الناجية المشار إليها في قوله صلى الله تعالی علیہ وسلم ستفترق أمتى ثلاثا وسبعين فرقة كلها في النار إلا واحدة قيل: ومن هم قال الذين هم على ما أنا عليه و أصحابی
ترجمہ :
اہل سنت یعنی وہ لوگ جو رسول اللہ کی سنت پر عمل پیرا ہونے والے ہیں۔ جماعت کا مطلب ہے رسول اللہ کی جماعت جس میں صحابہ کرام اور ان کی اتباع کرنے والے ہیں ۔ یہی فرقہ نجات والا ہے اور اس فرقے کے جنتی ہونے کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ فرمایا ہے کہ یہ امت تہتر ۷۳ فرقوں میں بٹ جاۓ گی ، بہتر ۷۲ جہنم میں اور ایک جنت میں جائے گا۔ عرض کیا گیا وہ کو ن ہو گا؟ فرمایا جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔
(بريقة محمودية، جلد1، صفحه 55، مطبعة الحلبي)
جو لوگ بھی اس مبارک طریقے سے ہٹتے گئے وہ گمراہی کا شکار ہوۓ۔ حقیقتاً فرقہ واریت کا اطلاق بھی انہی پر ہوتا ہے کہ جو درست رستے پر قائم کثیر لوگوں سے جدا ہو کر علیحدہ علیحدہ گروپ بن گئے۔ان بہت سے گمراہ فرقوں میں سے ایک شیعہ فرقہ بھی ہے۔
سنی اور شیعہ میں عقائد و اعمال کے اعتبار سے بہت فرق ہے۔شیعوں کے عقائد واضح طور پر قرآن و حدیث کے خلاف ہیں، بلکہ یہ بخاری و مسلم سمیت دیگر مستند احادیث کی کتب کو نہیں مانتے، یہاں تک کہ شیعوں کی ایک بہت بڑی تعداد قرآن ہی کو نامکمل مانتی ہے اور یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ موجودہ قرآن تحریف شدہ ہے۔شیعہ فرقہ صحابہ کرام کی شان و عظمت کے نہ صرف منکر ہیں بلکہ ان کی شان میں گستاخیاں بھی کرتا ہے اور اہل بیت کی شان میں بہت غلو کر تا ہے یہاں تک کہ ان کو نبیوں سے افضل قرار دیتا ہے۔
شیعوں کے چند باطل عقائد و نظریات
عقیدہ:
شیعہ مذہب کا کلمہ یہ ہے
’’لا اله الا الله محمد رسول الله علی ولی الله وصی رسول الله و خليفة بلا فصل ‘‘
ترجمہ :
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد اللہ کے رسول ، یہی علی اللہ کے ولی اور رسول کے بلافصل خلیفہ ہیں۔
(برہان متعه ثواب متعه، صفحہ 52)
عقیدہ:
شیعہ کے تمام فرقے سوائے زیدیہ خلفائے راشدین یعنی حضرت ابو بکر و عمر و عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خلافت کو نہ ماننے پر متفق ہیں ، بلکہ صحابہ کرام پر سب وشتم ان کا عام شیوہ ہے۔ شیعوں کا ملا باقر مجلسی اپنی کتاب ”حق الیقین “ میں لکھتا ہے: ”امام مہدی ابو بکر وعمر کو قبر سے باہر نکالیں گے ۔ وہ اپنی اسی صورت پر ترو تازہ بدن کے ساتھ باہر نکالے جائیں گے۔ پھر فرمائیں گے کہ ان کا کفن اتارو،ان کا کفن حلق سے اتارا جائے گا۔ان کو اللہ کی قدرت سے زندہ کریں گے اور تمام مخلوق کو جمع ہونے کا حکم دیں گے۔ پھر ابتداء عالم سے لے کر اخیر عالم تک جتنے ظلم اور کفر ہوئے ہیں ان سب کا گناہ ابوبکر و عمر پر لازم کر دیں گے اور وہ اس کا اعتراف کریں گے کہ اگر وہ پہلے دن خلیفہ برحق (حضرت علی) کا حق غصب نہ کرتے تو یہ گناہ نہ ہوتے ۔ پھر ان کو درخت پر چڑھانے کا حکم دیں گے اور آگ کو حکم دیں گے کہ زمین سے باہر آئے اور ان کو درخت کے ساتھ جلائے اور ہوا کو حکم دیں گے کہ ان کی راکھ کو اڑا کر دریاؤں میں گرا دے۔
(حق الیقین، صفحہ 362، مطبوعه کتاب فروشی اسلامیہ، تهران)
عقیدہ:
شیعوں میں ایک فرقہ غالی ہے جن کا عقیدہ ہے کہ علی خدا ہے اور بعضوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے پیغام رسالت دیکر جبرائیل کو بھیجا کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کو پیغام رسالت دو لیکن جبرائیل بھول کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دے گئے۔
(تفسیر عیاشی، جلد 2، صفحہ 101)
عقیدہ:
شیعوں کا عقید ہ ہے کہ ہمارے اماموں کا رتبہ حضور علیہ السلام کے علاوہ بقیہ انبیاء علیہم السلام سے زیادہ ہے چنانچہ مجموعہ مجالس میں ہے: ’’بارہ امام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ بقیہ تمام انبیاء علیہم السلام کے استاد ہیں۔“
(مجموعہ مجالس،صفحہ29،صفدرڈو گرا،سرگودھا)
عقیدہ:
شیعوں کے نزدیک متعہ (چند دنوں کے لئے پیوں کے عوض صحبت) جائز ہے اور یہ اس کی بہت فضیلت بیان کرتے ہیں۔ شیعہ عالم نعمت اللہ جبرائری اپنی کتاب میں لکھتا ہے :”جس نے ایک دفعہ متعہ کیا اسکا درجہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے برابر۔ جس نے دو دفعہ متعہ کیا اسکا درجہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے برابر۔ جس نے تین دفعہ کیا اسکا درجہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے برابر ۔ جس نے چار دفعہ متعہ کیا اسکا درجہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر ہو جا تا ہے۔“
(انوار نعمانیه، صفحه 237)
عقیدہ:
روافض کا عقیدہ ہے کہ جب تک اولاد علی رضی اللہ عنہ کے مخالفوں پر لعنت نہ کرے اس کا نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔
(ماخوذازتمہیدابوشکورسالمی،نواں قول،صفحہ 375، فرید بک سٹال، لاہور)
عقیدہ:
شیعوں میں ”تقیہ “یعنی جھوٹ ان کے دین کا حصہ ہے چنانچہ اہل تشیع کی انتہائی معتبر کتاب ”اصول کافی“میں مستقل باب تقیہ کے لیے مخصوص ہے اور اس کو اصول دین میں شمار کیا ہے۔اس میں لکھا ہے
’’عن ابن ابی عمیر الاعجمی قال قال لی ابو عبد اللہ علیہ السلام یا اباعمیر ان تسعة اعشار الدين في التقية ولا دين لمن لاتقية له۔
یعنی حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ اپنے ایک شیعہ ابن ابی عمیر الاعجمی سے فرمایا کہ دین میں نوے فیصد تقیہ اور جھوٹ بولنا ضروری ہے اور فرمایا کہ جو تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے۔
(اصول کافی،صفحہ482)
عقیدہ:
شیعوں کا ایک فرقہ اسماعیلی ہے جسے آغاخانی کہا جاتا ہے ان کا کہنا ہے کہ ہمارے مذہب میں پانچ وقت نماز نہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ روزہ اصل میں کان، آنکھ اور زبان کا ہوتا ہے ، کھانے پینے سے روزہ نہیں جاتا بلکہ روزہ باقی رہتا ہے۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ حج ادا کرنے کی بجائے ہمارے امام کا دیدار کافی ہے۔ حج ہمارے لئے فرض نہیں اسلئے کہ زمین پر خدا کا روپ صرف حاضر امام ہے۔ ان کا
کہنا ہے کہ زکوۃ کی بجاۓ ہم اپنی آمدنی میں دو آنہ فی روپیہ کے حساب سے فرض سمجھ کر جماعت خانوں میں دیتے ہیں جس سے زکوۃ ہو جاتی ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ گناہوں کی معافی امام کی طاقت میں ہے۔ آغا خانیوں کا سلام یا علی مدد ہے اور اس کا جواب مولا علی مدد ہے۔
(ساٹھ زہریلے سانپ،صفحہ71,72، تنظیم اہل سنت کراچی)
عقیدہ:
شیعوں کے کئی گروہوں کا عقیدہ ہے کہ موجودہ قرآن مکمل نہیں ہے اس میں تحریفات ہیں، کئی آیات جو حضرت علی اور اہل بیت کے متعلق نازل ہوئی تھیں وہ نکال دی گئی ہیں ۔ ان کا نظریہ ہے کہ امام مہدی جب آئیں گے تو وہ صحیح مکمل قرآن پاک لائیں گے۔ قرآن پاک میں ازواج مطہرات کے متعلق نازل ہوئی آیت کے متعلق شیعہ ذاکر فرمان علی لکھتا ہے: ”اگر اس آیت کو درمیان سے نکال لو اور ماقبل وما بعد کو ملا کر پڑھو تو کوئی خرابی نہیں ہوتی بلکہ اور ربط بڑھ جاتا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت اس مقام کی نہیں بلکہ خواہ مخواہ کسی خاص غرض سے داخل کی گئی ہے۔“
(تفسیر قرآن، صفحہ 674، مصباح القرآن ٹرسٹ، لاہور)
شیعہ ذاکر مقبول احمد دہلوی نے قرآن پاک کی تفسیر لکھی جس میں سورۃ یوسف کی اس آیت49
ثم يأتي من بعد ذلك عام فيه يعاث الناس وفيه يغيرون
ترجمہ : پھر ان کے بعد ایک برس آئے گا جس میں لوگوں کو مینھ دیا جائے گا اور اس میں رس نچوڑیں گے۔
(سورۂ یوسف، سورۃ12، آیت49)
آیت یعصرون کی تفسیر میں لکھتا ہے:”معلوم ہوتا ہے کہ جب قرآن ظاہر اعراب لگائے گئے ہیں تو شراب خوار خلفاء کی خاطر “یصرون‘‘ کو ’’یعصرون‘‘ سے بدل کر معنی کو زیر و زبر کیا گیا ہے یا مجہول کو معروف سے بدل کر لوگوں کے لئے انکے کرتوت کی معرفت آسان کر دی ۔ ہم اپنے امام کے حکم سے مجبور ہیں کہ جو تغیر یہ لوگ کریں تم اس کو اس کے حال پر رہنے دو اور تغیر کرنیوالے کا عذاب کم نہ کرو ہاں جہاں تک ممکن ہو لوگوں کو اصل حال سے مطلع کر دو۔ قرآن مجید کو اسکی اصلی حالت پر لانا جناب صاحب العصر علیہ السلام( امام مہدی رضی اللہ عنہ ) کا حق ہے۔اور انہی کے وقت میں وہ حسب تنزیل خدا تعالی پڑھا جائیگا۔“
(تفسیر قرآن، صفحہ384،مقبول پریس، دہلی)
قرآن پاک میں ہے
فما استمتعتم به منهن فاتوهن أجورهن فريضة ولا جناح عليكم فيما تراضيتم به من بعد الفريضة إن الله كان عليها حكيما
ترجمہ :
تو جن عورتوں کو نکاح میں لانا چاہو ان کے بندھے ہوئے مہر انہیں دو اور قرار داد کے بعد اگر تمہارے آپس میں کچھ رضامندی ہو جاوے تو اس میں گناہ نہیں بیشک اللہ علم و حکمت والا ہے۔
(سورة النساء سورة4، آیت24)
اس آیت کے تحت اکبر علی شاہ اپنی کتاب ” متعہ اور صلاح الدین عیبی“ کے صفحہ 60 پر لکھتا ہے
’’الی اجل مسمی‘‘
کے الفاظ متن قرآن میں تھے لیکن انہیں موجودہ ترتیب سے حذف کر دیا گیا۔۔۔۔اگر اس آیت میں ”الی اجل مسمی“ کے الفاظ کو شامل کر کے پڑھا جائے چاہے انکی حیثیت متن قرآن کی سمجھی جائے یا تشریحی حاشیہ کی بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ یہ آیت نکاح دائمی پر منطبق نہیں ہو سکتی بلکہ صرف اور صرف نکاح متعہ کے لئے ہے۔
( اب مصنف نے قرآنی آیت میں الی اجل مسمی کے الفاظ کا اضافہ کر کے آیت یوں بنائی اور اس کا ترجمہ کیا۔)
فما استمتعتم به منهن إلى أجل مسمى فأتوهن أجورهن فريضة ولا جناح عليكم فيها تراضيتم به من بعد الفريضة إن الله كان عليما حكیما
پھر جس طرح تم نے ان عورتوں سے متعہ کیا ایک متعینہ مدت کے لئے سو انکو انکے مہر دو جو کچھ مقرر ہو چکے ہیں اور مقرر ہوئے بعد بھی جس پر تم رضامند ہو جاؤ اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بڑا علیم و حکیم ہے۔
(متعہ اور صلاح الدین عیبی، صفحہ 60، طبع کراچی)
دراصل یہ فرقہ ایک یہودی شخص عبد اللہ بن سبا کا ایجاد کردہ ہے ۔عبد اللہ بن سبا پہلے یہودی تھا بعد میں بظاہر مسلمان ہو گیا۔ اس نے دوسرے منافقین کے ساتھ مل کر نو مسلموں کو فریب دے کر اسلام کے مٹائے ہوۓ خاندانی امتیاز اور نسلی عصبیت کو تعلیم اسلامیہ اور مقاصد ایمانیہ کے مقابلے میں پھر زندہ کیا۔ عبد اللہ بن سبا نے مدینہ، بصرہ، کوفہ ، دمشق اور قاہرہ کے تمام مرکزی شہروں میں تھوڑے تھوڑے دنوں قیام کر کے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف نہایت چالاکی، ہوشیاری اور شرارت سے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ کے حقدار خلافت ہونے کو نو مسلم لوگوں میں اشاعت دے کر بنی امیہ اور بنی ہاشم کی پرانی عداوت اور عصبیت کوجو مردہ ہو چکی تھی پھر زندہ کرنے کی کوشش کی۔ عبد اللہ بن سبا نے سب سے پہلے مدینہ منورہ یعنی دار الخلافہ میں اپنے شر انگیز خیالات کی اشاعت کرنی چاہی مگر چونکہ یہاں صحابہ کرام کی کثرت اور ان کا اثر غالب تھا، لہذا اس کو ناکامی ہوئی اور خود ہاشمیوں نے ہی اس کے خیالات کو سب سے زیادہ مردود قرار دیا۔ مدینہ سے مایوس ہو کر وہ بصرہ پہنچا۔ وہاں عراقی و ایرانی قبائل کے نو مسلموں میں اس نے کامیابی حاصل کی اور اپنی ہم خیال ایک جماعت بنا کر کوفہ پہنچا۔ اس فوجی چھاؤنی میں بھی ہر قسم کے لوگ موجود تھے یہاں بھی وہ اپنے حسب منشا ایک مفسد جماعت بنانے میں کامیاب ہوا، کوفہ سے دمشق پہنچا وہاں بھی اس نے تھوڑی سی شرارت پھیلائی، لیکن حاکم شام حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بروقت مطلع ہو جانے سے زیادہ دنوں تک قیام نہ کر سکا۔ وہاں سے قاہرہ پہنچ کر اس نے سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بصرہ و قاہرہ کے فسادی عناصر نے مل کر مدینہ منورہ کی طرف کوچ کیا اور حضرت عثمان کی شہادت کا واقعہ ظہور میں آیا۔ اس فتنہ نے 30 ہجری سے 40 ہجری تک مسلمانوں کو خانہ جنگی میں مصروف رکھ کر اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے کام کو نقصان پہنچایا۔
عبد اللہ بن سبا نے حضرت علی المرتضی کی شان میں غلو کرنے کے ساتھ ان کو تمام صحابہ سے اور خلافت کا پہلا حقدار کہنا شروع کیا۔ اس نے کہا کہ حضور ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا ’’وصی“ مقرر فرمایا ہے۔ جب حضور ﷺ خاتم الانبیاء ہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ خاتم الوصياء ہوئے۔ امام ابن اثیر لکھتے ہیں
وأسلم أيام عثمان ثم تنقل في الحجاز ثم بالبصرة ثم بالكوفة ثم بالشام يريد إضلال الناس فلم يقدر منهم علي ذلك فأخرجه أهل الشام فأتي مصر فأقام فيهم وقال لهم العجب ممن يصدق إن عيسى يرجع ويكذب أن محمدا يرجع وقد قال الله عز وجل { إن الذي فرض عليك القرآن لرادك إلى معاد } محمد أحق بالرجعة من عيسى فوضع لهم الرجعة فقبلت منه
ثم قال بعد ذلك إنه كان لكل نبي وصي وعلي وصي محمد فمن أظلم ممن لم يجز وصية رسول الله ووثب علي وصيه وإن عثمان أخذها بغير حق فانهضوا في هذا الأمر وابدؤا الطعن علي أمرائكم
ترجمہ:
بات یہ تھی کہ عبداللہ بن سبا اصل یہودی تھا اور سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسلام قبول کر کے حجاز آگیا، پھر بصرہ ، پھر کوفہ اور اس کے بعد شام گیا اور ہر مقام پر اس نے لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی اور شامیوں نے اسے شام سے باہر نکال دیا۔ وہاں سے یہ مصر پہنچا اور وہاں آکر قیام پذیر ہوا۔ وہاں اس نے مصریوں کو کہا کہ بڑی تعجب کی بات ہے کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسی دوبارہ آئیں گے تو لوگ اس کی تصدیق کرتے ہیں اور اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد واپسی کا کہا جائے تو اسے جھٹلاتے ہیں، اس طرح ’’رجعت“ کا عقیدہ اس نے گھڑا۔ کچھ لوگوں نے اس کی یہ بات قبول کر لی۔ اس کے بعد دوسرے عقیدہ کو پھیلایا اور کہا کہ ہر پیغمبر کا کوئی نہ کوئی ’’وصی“ ہوا ہے اور ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ’’وصی“ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں تو جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت کو جاری نہیں کرتا، اس سے بڑھ کر اور ظالم کون ہو گا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ناحق خلافت پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کی ان باتوں کو سن کر لوگ اس کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے حاکموں پر لعن لعن طعن کا آغاز کر دیا۔
(الكامل في التاريخ لابن الاثير، ثم دخلت سنة خمس وثلاثين ،ذكر مسير من سار إلى حصر عثمان، جلد2، صفحہ 526، دار الكتاب العربی، بیروت)
البدایہ والنہایہ میں ہے
’’و ذکر سیف بن عمر أن سبب تألب الأحزاب على عثمان أن رجلا يقال له عبد الله بن سبأ كان يهوديا فأظهر الإسلام وصار إلى مصر، فأوحى إلى طائفة من الناس كلاما اخترعه من عند نفسه، مضمونہ أنہ یقول للرجل : أليس قد ثبت أن عيسى بن مريم سيعود إلى هذه الدنيا ؟ فيقول الرجل : نعم! فیقول لہ فرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم أفضل منه فما تنكر أن يعود إلى هذه الدنيا ، وهو أشرف من عيسى ابن مریم علیہ السلام ؟ ثم يقول: وقد كان أوصى إلى علي بن أبي طالب، فمحمد خاتم الأنبياء، وعلى خاتم الأوصياء ، ثم يقول: فهو أحق بالإمرة من عثمان، وعثمان معتد فی ولایتہ مالیس لہ. فأنكروا علیہ و أظهروا الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر. فافتتن به بشر كثير من أهل مصر، وكتبوا إلى جماعات من عوام أهل الكوفة والبصرة، فتمالئوا على ذلك، وتكاتبوا فيه، وتواعدوا أن يجتمعوا في الإنكار على عثمان، وأرسلوا إليه من يناظره ويذكر لہ ما ینقمون علیہ من تولیتہ أقرباءه و ذوی رحمہ وعزلہ كبار الصحابة. فدخل هذا في قلوب كثير من الناس‘‘
ترجمہ:
سیف بن عمر نے کہا ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف لشکر کشی کا سبب یہ تھا کہ ایک شخص عبداللہ بن سبا نامی یہودی تھا۔ اس نے اسلام لانا ظاہر کیا اور مصر جاکر لوگوں کو ایک من گھڑت کہانی سنائی جس کا مضمون یہ تھا کہ ایک آدمی کو وہ کہتا ہے کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے ؟ وہ آدمی جوابا کہتا ہے یہ درست ہے پھر اس شخص کو وہ کہتا ہے کہ اگر یہی بات کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق کہے (یعنی آپ علیہ السلام بھی دوبارہ تشریف لائیں گے) تو تم اس بات کا انکار کرتے ہو حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام سے افضل ہیں (لہذا انہیں ضرور دوبارہ آنا ہے۔) پھر وہ کہتا ہے کہ حضور علیہ السلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا ’’وصی‘‘ مقرر فرمایا ہے۔ جب حضور علیہ السلام خاتم الانبیاء ہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ خاتم الاوصیاء ہوئے۔ پھر وہ کہتا ہے کہ اس وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ امر خلافت کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے زیادہ حقدار ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے امر خلافت میں زیادتی کی اور خود امیر بن بیٹھے۔ یہ سن کر لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر بہت سے اعتراضات کرنے شروع کر دیئے اور اپنے مذموم عزائم کو
’’امربالمعروف ونهى عن المتكر‘‘
کے رنگ میں پھیلانا شروع کیا۔ اس سے اہل مصر کی ایک کثیر تعداد فتنہ کی زد میں آگئی۔ انہوں نے کوفہ اور بصرہ کے عوام کو رقعہ جات لکھے جس کے بعد کوفی اور بھری لوگ ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے انکار پر سب متفق ہوگئے۔ انہوں نے کئی ایک آدمی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ مناظرہ کے لئے بھیجے اور کچھ ایسے پیغامات بھیجے کہ ہم آپ کے اس رویہ پر احتجاج کرتے ہیں آپ نے اپنے عزیز واقارب اور رشتہ داروں کو مختلف عہدے پر کیوں فائز کیا اور بڑے بڑے صحابہ کرام کو کوئی اہمیت نہ دی تو یہ باتیں بہت سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئیں۔
(البداية والنهاية، ثم دخلت سنة أربع وثلاثين ، جلد 7، صفحہ 167، دارالفکر، بیروت)
’’عن أنس بن مالك قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لا تسبوا أصحابي فإنه يجيء في آخر الزمان قوم يسبون أصحابي فان مرضوا فلا تعوده وان ماتوا فلا تشهدوهم ولا تناكحوهم ولا توارثوهم ولا تسلموا عليهم ولا تصلوا علیھم‘‘
ترجمہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :میرے اصحاب کو گالی نہ دو۔ آخری زمانہ میں ایک قوم آئے گی جو میرے اصحاب کو گالیاں دے گی، اگر ایسے لوگ بیمار جائیں تو ان کی عیادت نہ کرو ،اگر مر جائے تو جنازہ میں شرکت نہ کرو،ان سے نکاح نہ کرو،ان کو وارث نہ بناؤ،ان سے سلام نہ کرو ، ان کی نماز جنازہ نہ پڑھو۔