Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ اور سنی میں فرق

  پیشکش صدائے قلب

پہلے یہ جان لیجیئے کہ اسلام کے ماننے والوں میں درست اسلامی نظریات پر قائم صرف وہی ہیں جو نبی آخر الزمانﷺ اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طریقے پر گامزن ہیں، اور یہ صرف اہلِ سنت والجماعت ہیں جنہیں اختصاراً سنی بھی کہا جاتا ہے۔ تمام صحابہ کرام و تابعین کرام، ائمہ و اولیائے عظام علیہم الرضوان انہی عقائد کے حامل تھے جو عقائد اہلِ سنت والجماعت کے ہیں۔
کثیر احادیث مبارکہ میں اہلِ سنت والجماعت حق اور جنتی ہونے اور اس کے علاوہ بقیہ فرقوں کے گمراہ و جہنمی ہونے کا بیان موجود ہے۔ تفسیر ابنِ کثیر میں ہے۔
وهذه الأمة أيضا اختلفوا فيما بينهم على نحل كلها ضلالة إلا واحدة، وهم أهل السنة والجماعة، المتمسكون بكتاب الله و سنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وبما كان عليه الصدر الأول من الصحابة والتابعين، وأئمة المسلمين فی قديم الدهر وحدیثه، کما رواه الحاكم فی مستدركه أنه سئل، عليه السلام عن الفرقة الناجية منهم، فقال: ما أنا عليه (اليوم) و اصحابی۔
ترجمہ: یہ امت بھی ان (یہود و نصاریٰ) کی طرح دین کے معاملے میں اختلاف کرے گی۔ تمام کے تمام فرقے گمراہ ہوں گے سوائے ایک فرقہ کے وہ اہِل سنت والجماعت ہو گا، جو کتاب اللہ اور سنتِ رسولﷺ کو تھامے ہو گا اور انہی عقائد پر ہوں گے جن پر صدرِ اول کے لوگ صحابہ کرام، تابعین رضی اللہ عنہم اور ائمہ مسلمین رحمہم اللہ چلے آ رہے ہیں۔ 
حدیث جسے امام حاکم نے مستدرک میں روایت کیا کہ آقاﷺ سے نجات والے فرقے کے متعلق پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: جس پر آج میں اور میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔
(تفسیر ابنِ کثیر، فی التفسیر، سورة الروم: آیت، 30 جلد، 6 صفحہ، 285 دارالكتب العلمية، بيروت)
بريقة محمودية فی شرح طريقة محمدية و شریعۃ نبویۃأهل السنة أی أصحاب سنة رسول الله أى التمسك بها والجماعة أی جماعة رسول الله وهم الأصحاب والتابعون وهم الفرقة الناجية المشار إليها فی قوله صلى الله تعالی علیہ وسلم ستفترق أمتى ثلاثا وسبعين فرقة كلها فی النار إلا واحدة قيل: ومن هم قال الذين هم على ما أنا عليه و أصحابی
 ترجمہ: اہِل سنت یعنی وہ لوگ جو رسول اللہﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہونے والے ہیں۔ جماعت کا مطلب ہے رسول اللہﷺ کی جماعت جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کی اتباع کرنے والے ہیں۔ یہی فرقہ نجات والا ہے اور اس فرقے کے جنتی ہونے کی طرف آپﷺ نے اشارہ فرمایا ہے کہ یہ امت تہتر 73 فرقوں میں بٹ جاۓ گی، بہتر 72 جہنم میں اور ایک جنت میں جائے گا۔ عرض کیا گیا وہ ک ن ہو گا؟ فرمایا جس پر میں اور میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔
(بريقة محمودية، جلد، 1 صفحہ، 55 مطبعة الحلبی)
جو لوگ بھی اس مبارک طریقے سے ہٹتے گئے وہ گمراہی کا شکار ہوئے۔ حقیقتاً فرقہ واریت کا اطلاق بھی انہی پر ہوتا ہے کہ جو درست رستے پر قائم کثیر لوگوں سے جدا ہو کر علیحدہ علیحدہ گروپ بن گئے۔ ان بہت سے گمراہ فرقوں میں سے ایک شیعہ فرقہ بھی ہے۔
سنی اور شیعہ میں عقائد و اعمال کے اعتبار سے بہت فرق ہے۔ شیعوں کے عقائد واضح طور پر قرآن و حدیث کے خلاف ہیں، بلکہ یہ بخاری و مسلم سمیت دیگر مستند احادیث کی کتب کو نہیں مانتے، یہاں تک کہ شیعوں کی ایک بہت بڑی تعداد قرآن ہی کو نامکمل مانتی ہے اور یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ موجودہ قرآن تحریف شدہ ہے۔ شیعہ فرقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان و عظمت کے نہ صرف منکر ہیں بلکہ ان کی شان میں گستاخیاں بھی کرتا ہے اور اہلِ بیتؓ کی شان میں بہت غلو کرتا ہے یہاں تک کہ ان کو نبیوں سے افضل قرار دیتا ہے۔
شیعوں کے چند باطل عقائد و نظریات
 عقیدہ:
شیعہ مذہب کا کلمہ یہ ہے
’’لا اله الا الله محمد رسول الله علی ولی الله وصی رسول الله و خليفة بلا فصل‘‘
ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد اللہ کے رسول، یہی علی اللہ کے ولی اور رسول کے بلافصل خلیفہ ہیں۔
(برہان متعہ ثواب متعہ: صفحہ، 52)
عقیدہ:
شیعہ کے تمام فرقے سوائے زیدیہ خلفائے راشدین یعنی حضرت ابوبکر و حضرت عمر و حضرت عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خلافت کو نہ ماننے پر متفق ہیں، بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سبِّ وشتم ان کا عام شیوہ ہے۔ شیعوں کا ملا باقر مجلسی اپنی کتاب حق الیقین میں لکھتا ہے: امام مہدی سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کو قبر سے باہر نکالیں گے۔ وہ اپنی اسی صورت پر تروتازہ بدن کے ساتھ باہر نکالے جائیں گے۔ پھر فرمائیں گے کہ ان کا کفن اتارو، ان کا کفن حلق سے اتارا جائے گا۔ ان کو اللہ کی قدرت سے زندہ کریں گے اور تمام مخلوق کو جمع ہونے کا حکم دیں گے۔ پھر ابتداء عالم سے لے کر اخیر عالم تک جتنے ظلم اور کفر ہوئے ہیں ان سب کا گناہ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ پر لازم کر دیں گے اور وہ اس کا اعتراف کریں گے کہ اگر وہ پہلے دن خلیفہ برحق (حضرت علیؓ) کا حق غصب نہ کرتے تو یہ گناہ نہ ہوتے۔ پھر ان کو درخت پر چڑھانے کا حکم دیں گے اور آگ کو حکم دیں گے کہ زمین سے باہر آئے اور ان کو درخت کے ساتھ جلائے اور ہوا کو حکم دیں گے کہ ان کی راکھ کو اڑا کر دریاوں میں گرا دے۔
(حق الیقین: صفحہ، 362 مطبوعہ کتاب فروشی اسلامیہ، تہران)
عقیدہ: شیعوں میں ایک فرقہ غالی ہے جن کا عقیدہ ہے کہ سیدنا علیؓ خدا ہے اور بعضوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پیغامِ رسالت دے کر حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پیغامِ رسالت دو لیکن حضرت جبرائیل علیہ السلام بھول کر محمدﷺ کو دے گئے۔
(تفسیر عیاشی: جلد، 2 صفحہ، 101)
عقیدہ:
شیعوں کا عقیدہ ہے کہ ہمارے اماموں کا رتبہ حضور اکرمﷺ کے علاوہ بقیہ انبیاء علیہم السلام سے زیادہ ہے چنانچہ مجموعہ مجالس میں ہے: ’’بارہ امام حضور اکرمﷺ کے علاوہ بقیہ تمام انبیاء علیہم السلام کے استاد ہیں۔“
(مجموعہ مجالس: صفحہ، 29 صفدر ڈوگرا، سرگودھا)
عقیدہ:
شیعوں کے نزدیک متعہ (چند دنوں کے لیے پیسوں کے عوض صحبت) جائز ہے اور یہ اس کی بہت فضیلت بیان کرتے ہیں۔ شیعہ عالم نعمت اللہ جبرائری اپنی کتاب میں لکھتا ہے: ”جس نے ایک دفعہ متعہ کیا اس کا درجہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے برابر۔ جس نے دو دفعہ متعہ کیا اس کا درجہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے برابر۔ جس نے تین دفعہ کیا اس کا درجہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے برابر۔ جس نے چار دفعہ متعہ کیا اس کا درجہ حضرت محمدﷺ کے برابر ہو جاتا ہے۔“
(انوار نعمانیه: صفحہ، 237)
عقیدہ:
روافض کا عقیدہ ہے کہ جب تک اولادِ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مخالفوں پر لعنت نہ کرے اس کا نمازِ جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔
(ماخوذ از تمہید ابو شکور سالمی، نواں قول: صفحہ، 375 فرید بک سٹال، لاہور) 
عقیدہ:
شیعوں میں تقیہ یعنی جھوٹ ان کے دین کا حصہ ہے چنانچہ اہلِ تشیع کی انتہائی معتبر کتاب اصولِ کافی میں مستقل باب تقیہ کے لیے مخصوص ہے اور اس کو اصولِ دین میں شمار کیا ہے۔ اس میں لکھا ہے:
عن ابن ابی عمیر الاعجمی قال قال لی ابو عبداللہ علیہ السلام یا اباعمیر ان تسعة اعشار الدين فی التقية ولا دين لمن لا تقية له۔
ترجمہ: یعنی حضرت جعفر صادقؒ اپنے ایک شیعہ ابنِ ابی عمیر الاعجمی سے فرمایا کہ دین میں نوے فیصد تقیہ اور جھوٹ بولنا ضروری ہے اور فرمایا کہ جو تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے۔
(اصول کافی: صفحہ، 482)
عقیدہ: 
شیعوں کا ایک فرقہ اسماعیلی ہے جسے آغاخانی کہا جاتا ہے ان کا کہنا ہے کہ ہمارے مذہب میں پانچ وقت نماز نہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ روزہ اصل میں کان، آنکھ اور زبان کا ہوتا ہے، کھانے پینے سے روزہ نہیں جاتا بلکہ روزہ باقی رہتا ہے۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ حج ادا کرنے کی بجائے ہمارے امام کا دیدار کافی ہے۔ حج ہمارے لیے فرض نہیں اس لیے کہ زمین پر خدا کا روپ صرف حاضر امام ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زکوٰۃ کی بجائے ہم اپنی آمدنی میں دو آنہ فی روپیہ کے حساب سے فرض سمجھ کر جماعت خانوں میں دیتے ہیں جس سے زکوٰۃ ہو جاتی ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ گناہوں کی معافی امام کی طاقت میں ہے۔ آغاخانیوں کا سلام یا علی مدد ہے اور اس کا جواب مولا علی مدد ہے۔
(ساٹھ زہریلے سانپ: صفحہ، 71، 72 تنظیم اہلِ سنت کراچی)
عقیدہ: 
شیعوں کے کئی گروہوں کا عقیدہ ہے کہ موجودہ قرآن مکمل نہیں ہے اس میں تحریفات ہیں، کئی آیات جو سیدنا علیؓ اور اہلِ بیتؓ کے متعلق نازل ہوئی تھیں وہ نکال دی گئی ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ امام مہدی جب آئیں گے تو وہ صحیح مکمل قرآن پاک لائیں گے۔ قرآن پاک میں ازواجِ مطہراتؓ کے متعلق نازل ہوئی آیت کے متعلق شیعہ ذاکر فرمانِ سیدنا علیؓ لکھتا ہے: اگر اس آیت کو درمیان سے نکال لو اور ماقبل و مابعد کو ملا کر پڑھو تو کوئی خرابی نہیں ہوتی بلکہ اور ربط بڑھ جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت اس مقام کی نہیں بلکہ خواہ مخواہ کسی خاص غرض سے داخل کی گئی ہے۔“
(تفسیر قرآن: صفحہ، 674 مصباح القرآن ٹرسٹ، لاہور)
شیعہ ذاکر مقبول احمد دہلوی نے قرآن پاک کی تفسیر لکھی جس میں سورۃ یوسف کی اس آیت ثُمَّ يَاۡتِىۡ مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِكَ عَامٌ فِيۡهِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيۡهِ يَعۡصِرُوۡنَ 
(سورة یوسف: آیت، 49)
ترجمہ: پھر اس کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں پر خوب بارش ہو گی، اور وہ اس میں انگور کا شیرہ نچوڑیں گے۔   
آیت یعصرون کی تفسیر میں لکھتا ہے: معلوم ہوتا ہے کہ جب قرآن ظاہر اعراب لگائے گئے ہیں تو شراب خوار خلفاء کی خاطر یصرون کو یعصرون سے بدل کر معنی کو زیر و زبر کیا گیا ہے یا مجہول کو معروف سے بدل کر لوگوں کے لیے ان کے کرتوت کی معرفت آسان کر دی۔ ہم اپنے امام کے حکم سے مجبور ہیں کہ جو تغیر یہ لوگ کریں تم اس کو اس کے حال پر رہنے دو اور تغیر کرنے والے کا عذاب کم نہ کرو ہاں جہاں تک ممکن ہو لوگوں کو اصل حال سے مطلع کر دو۔ قرآن مجید کو اس کی اصلی حالت پر لانا جناب صاحب العصر امام مہدی) کا حق ہے۔ اور انہی کے وقت میں وہ حسبِ تنزیل خدا تعالیٰ پڑھا جائے گا۔“
(تفسیر قرآن: صفحہ، 384 مقبول پریس، دہلی)
قرآن پاک میں ہے:
فَمَا اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِهٖ مِنۡهُنَّ فَاٰتُوۡهُنَّ اُجُوۡرَهُنَّ فَرِيۡضَةً‌ وَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ فِيۡمَا تَرٰضَيۡـتُمۡ بِهٖ مِنۡۢ بَعۡدِ الۡـفَرِيۡضَةِ‌ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا ۞
(سورة النساء: آیت، 24)
ترجمہ: چنانچہ جن عورتوں سے (نکاح کر کے) تم نے لطف اٹھایا ہو، ان کو ان کا وہ مہر ادا کرو جو مقرر کیا گیا ہو۔ البتہ مہر مقرر کرنے کے بعد بھی جس (کمی بیشی) پر تم آپس میں راضی ہو جاؤ، اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ یقین رکھو کہ اللہ ہر بات کا علم بھی رکھتا ہے، حکمت کا بھی مالک ہے۔
اس آیت کے تحت اکبر علی شاہ اپنی کتاب متعہ اور صلاح الدین عیبی کے صفحہ 60 پر لکھتا ہے۔ 
’’الی اجل مسمی‘‘ 
کے الفاظ متنِ قرآن میں تھے لیکن انہیں موجودہ ترتیب سے حذف کر دیا گیا۔ اگر اس آیت میں ”الی اجل مسمی“ کے الفاظ کو شامل کر کے پڑھا جائے چاہے ان کی حیثیت متنِ قرآن کی سمجھی جائے یا تشریحی حاشیہ کی بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ یہ آیت نکاح دائمی پر منطبق نہیں ہو سکتی بلکہ صرف اور صرف نکاح متعہ کے لیے ہے۔ 
(اب مصنف نے قرآنی آیت میں الی اجل مسمی کے الفاظ کا اضافہ کر کے آیت یوں بنائی اور اس کا ترجمہ کیا۔) 
فما استمتعتم به منهن إلى أجل مسمى فأتوهن أجورهن فريضة ولا جناح عليكم فيها تراضيتم به من بعد الفريضة إن الله كان عليما حكیما
ترجمہ: پھر جس طرح تم نے ان عورتوں سے متعہ کیا ایک متعینہ مدت کے لیے سو ان کو ان کے مہر دو جو کچھ مقرر ہو چکے ہیں اور مقرر ہوئے بعد بھی جس پر تم رضامند ہو جاؤ اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بڑا علیم و حکیم ہے۔
(متعہ اور صلاح الدین عیبی: صفحہ، 60 طبع کراچی)
دراصل یہ فرقہ ایک یہودی شخص عبداللہ بن سبا کا ایجاد کردہ ہے۔ عبداللہ بن سبا پہلے یہودی تھا بعد میں بظاہر مسلمان ہو گیا۔ اس نے دوسرے منافقین کے ساتھ مل کر نو مسلموں کو فریب دے کر اسلام کے مٹائے ہوۓ خاندانی امتیاز اور نسلی عصبیت کو تعلیمِ اسلامیہ اور مقاصدِ ایمانیہ کے مقابلے میں پھر زندہ کیا۔ عبداللہ بن سبا نے مدینہ، بصرہ، کوفہ، دمشق اور قاہرہ کے تمام مرکزی شہروں میں تھوڑے تھوڑے دنوں قیام کر کے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف نہایت چالاکی، ہوشیاری اور شرارت سے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے حقدارِ خلافت ہونے کو نو مسلم لوگوں میں اشاعت دے کر بنی امیہ اور بنی ہاشم کی پرانی عداوت اور عصبیت کو جو مردہ ہو چکی تھی پھر زندہ کرنے کی کوشش کی۔ عبداللہ بن سبا نے سب سے پہلے مدینہ منورہ یعنی دارالخلافہ میں اپنے شر انگیز خیالات کی اشاعت کرنی چاہی مگر چونکہ یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثرت اور ان کا اثر غالب تھا، لہٰذا اس کو ناکامی ہوئی اور خود ہاشمیوں نے ہی اس کے خیالات کو سب سے زیادہ مردود قرار دیا۔ مدینہ سے مایوس ہو کر وہ بصرہ پہنچا۔ وہاں عراقی و ایرانی قبائل کے نو مسلموں میں اس نے کامیابی حاصل کی اور اپنی ہم خیال ایک جماعت بنا کر کوفہ پہنچا۔ اس فوجی چھاؤنی میں بھی ہر قسم کے لوگ موجود تھے یہاں بھی وہ اپنے حسبِ منشا ایک مفسد جماعت بنانے میں کامیاب ہوا، کوفہ سے دمشق پہنچا وہاں بھی اس نے تھوڑی سی شرارت پھیلائی، لیکن حاکمِ شام حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بروقت مطلع ہو جانے سے زیادہ دنوں تک قیام نہ کر سکا۔ وہاں سے قاہرہ پہنچ کر اس نے سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بصرہ و قاہرہ کے فسادی عناصر نے مل کر مدینہ منورہ کی طرف کوچ کیا اور حضرت عثمانؓ کی شہادت کا واقعہ ظہور میں آیا۔ اس فتنہ نے 30 ہجری سے 40 ہجری تک مسلمانوں کو خانہ جنگی میں مصروف رکھ کر اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے کام کو نقصان پہنچایا۔
عبداللہ بن سبا نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی شان میں غلو کرنے کے ساتھ ان کو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اور خلافت کا پہلا حقدار کہنا شروع کیا۔ اس نے کہا کہ حضور اکرمﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنا ’’وصی“ مقرر فرمایا ہے۔ جب حضور اکرمﷺ خاتم الانبیاء ہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ خاتم الوصياء ہوئے۔
امام ابنِ اثیرؒ لکھتے ہیں:
واسلم ايام عثمان ثم تنقل فی الحجاز ثم بالبصرة ثم بالكوفة ثم بالشام يريد اضلال الناس فلم يقدر منهم علی ذلك فاخرجه اهل الشام فاتی مصر فاقام فيهم وقال لهم العجب ممن يصدق ان عيسى يرجع و يكذب ان محمدا يرجع وقد قال الله عزوجل 
اِنَّ الَّذِىۡ فَرَضَ عَلَيۡكَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ‌ ۞ 
(سورۃ القصص: آیت، 85) 
محمد أحق بالرجعة من عيسى فوضع لهم الرجعة فقبلت منه ثم قال بعد ذلك إنه كان لكل نبی وصی وعلی وصی محمد فمن أظلم ممن لم يجز وصية رسول الله و وثب علی وصيه وان عثمان أخذها بغير حق فانهضوا فی هذا الأمر وابدؤا الطعن علی أمرائكم 
ترجمہ: بات یہ تھی کہ عبداللہ بن سبا اصل یہودی تھا اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اسلام قبول کر کے حجاز آ گیا، پھر بصرہ، پھر کوفہ اور اس کے بعد شام گیا اور ہر مقام پر اس نے لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی اور شامیوں نے اسے شام سے باہر نکال دیا۔ وہاں سے یہ مصر پہنچا اور وہاں آ کر قیام پذیر ہوا۔ وہاں اس نے مصریوں کو کہا کہ بڑی تعجب کی بات ہے کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آئیں گے تو لوگ اس کی تصدیق کرتے ہیں اور اگر حضور اکرمﷺ کے وصال کے بعد واپسی کا کہا جائے تو اسے جھٹلاتے ہیں، اس طرح رجعت کا عقیدہ اس نے گھڑا۔ کچھ لوگوں نے اس کی یہ بات قبول کر لی۔ اس کے بعد دوسرے عقیدہ کو پھیلایا اور کہا کہ ہر پیغمبر کا کوئی نہ کوئی وصی ہوا ہے اور ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺ کے وصی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں تو جو شخص حضورﷺ کی وصیت کو جاری نہیں کرتا، اس سے بڑھ کر اور ظالم کون ہو گا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ناحق خلافت پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کی ان باتوں کو سن کر لوگ اس کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے حاکموں پر لعن طعن کا آغاز کر دیا۔
(الكامل فی التاريخ لابن الاثير، ثم دخلت سنة خمس وثلاثين، ذكر مسير من سار إلى حصر عثمان: جلد، 2 صفحہ، 526 دارالكتاب العربی، بیروت) 
البدایہ والنہایہ میں ہے:
و ذکر سیف بن عمر أن سبب تألب الأحزاب على عثمان أن رجلا يقال له عبدالله بن سبأ كان يهوديا فاظهر الاسلام وصار الى مصر، فاوحى الى طائفة من الناس كلاما اخترعه من عند نفسه، مضمونہ أنہ یقول للرجل: أليس قد ثبت أن عيسى بن مريم سيعود إلى هذه الدنيا؟ فيقول الرجل: نعم! فیقول لہ فرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم أفضل منه فما تنكر أن يعود إلى هذه الدنيا، وهو أشرف من عيسى ابن مریم علیہ السلام؟ ثم يقول: وقد كان أوصى إلى علی بن أبی طالب، فمحمد خاتم الأنبياء، وعلى خاتم الأوصياء، ثم يقول: فهو أحق بالإمرة من عثمان، و عثمان معتد فی ولایتہ مالیس لہ فأنكروا علیہ و أظهروا الأمر بالمعروف والنهی عن المنكر فافتتن به بشر كثير من أهل مصر، وكتبوا إلى جماعات من عوام أهل الكوفة والبصرة، فتمالئوا على ذلك، وتكاتبوا فيه، وتواعدوا أن يجتمعوا فی الإنكار على عثمان، وأرسلوا إليه من يناظره ويذكر لہ ما ینقمون علیہ من تولیتہ أقرباءه و ذوی رحمہ وعزلہ كبار الصحابة فدخل هذا فی قلوب كثير من الناس
ترجمہ: سیف بن عمر نے کہا ہے کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف لشکر کشی کا سبب یہ تھا کہ ایک شخص عبداللہ بن سبا نامی یہودی تھا۔ اس نے اسلام لانا ظاہر کیا اور مصر جا کر لوگوں کو ایک من گھڑت کہانی سنائی جس کا مضمون یہ تھا کہ ایک آدمی کو وہ کہتا ہے کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے؟ وہ آدمی جواباً کہتا ہے یہ درست ہے پھر اس شخص کو وہ کہتا ہے کہ اگر یہی بات کوئی رسول اللہﷺ کے متعلق کہے (یعنی آپﷺ بھی دوبارہ تشریف لائیں گے) تو تم اس بات کا انکار کرتے ہو حالانکہ رسول اللہﷺ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے افضل ہیں (لہٰذا انہیں ضرور دوبارہ آنا ہے۔) پھر وہ کہتا ہے کہ حضور اکرمﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنا وصی مقرر فرمایا ہے۔ جب حضور اکرمﷺ خاتم الانبیاء ہیں تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ خاتم الاوصیاء ہوئے۔ پھر وہ کہتا ہے کہ اس وجہ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ امر خلافت کے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے زیادہ حقدار ہیں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے امر خلافت میں زیادتی کی اور خود امیر بن بیٹھے۔ یہ سن کر لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر بہت سے اعتراضات کرنے شروع کر دیئے اور اپنے مذموم عزائم کو ’’امربالمعروف ونهى عن المنكر‘‘ کے رنگ میں پھیلانا شروع کیا۔ اس سے اہلِ مصر کی ایک کثیر تعداد فتنہ کی زد میں آ گئی۔ انہوں نے کوفہ اور بصرہ کے عوام کو رقعہ جات لکھے جس کے بعد کوفی اور بصری لوگ ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے اور سیدنا عثمانؓ کی خلافت کے انکار پر سب متفق ہو گئے۔ انہوں نے کئی ایک آدمی سیدنا عثمانؓ کے ساتھ مناظرہ کے لیے بھیجے اور کچھ ایسے پیغامات بھیجے کہ ہم آپ کے اس رویہ پر احتجاج کرتے ہیں آپ نے اپنے عزیز و اقارب اور رشتہ داروں کو مختلف عہدے پر کیوں فائز کیا اور بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کوئی اہمیت نہ دی تو یہ باتیں بہت سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئیں۔
(البداية والنہاية، ثم دخلت سنة أربع وثلاثين: جلد، 7 صفحہ، 167 دارالفکر، بیروت)
’’عن أنس بن مالك قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تسبوا أصحابی فإنه يجیء فی آخر الزمان قوم يسبون أصحابی فان مرضوا فلا تعوده وان ماتوا فلا تشهدوهم ولا تناكحوهم ولا توارثوهم ولا تسلموا عليهم ولا تصلوا علیھم‘‘
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کو گالی نہ دو۔ آخری زمانہ میں ایک قوم آئے گی جو میرے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دے گی، اگر ایسے لوگ بیمار ہو جائیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اگر مر جائے تو جنازہ میں شرکت نہ کرو، ان سے نکاح نہ کرو، ان کو وارث نہ بناؤ، ان سے سلام نہ کرو، ان کی نمازِ جنازہ نہ پڑھو۔
(تاریخ بغداد: جلد، 8 صفحہ، 142 دارالکتب العلمیہ، بیروت)