Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

بد مذہبوں (شیعوں) کے ساتھ بائیکاٹ کے متعلق چند احادیث مبارکہ بیان کی جاتی ہے


بد مذہبوں (شیعوں) کے ساتھ بائیکاٹ کے متعلق چند احادیث مبارکہ بیان کی جاتی ہے

پہلی حدیث: سیدنا ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: آخری زمانے میں کچھ لوگ کذاب دجال بہت جھوٹے دھوکے باز آئیں گے وہ تم سے ایسی باتیں کریں گے جو نہ تم نے سنی ہوں گی اور نہ تمہارے باپ دادا نے سنی ہوں گی۔ لہٰذا اے میری امت! تم ان کو اپنے سے بچاؤ اور اپنے آپ کو ان سے بچاؤ کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں، کہیں وہ تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔

( مسلم شریف:جلد، 1 صفحہ، 10)

سبحان اللہ! کیا شان ہے آنحضرتﷺ کی آپ نے نورِ نبوت سے پہلے ہی دیکھ لیا کہ دین کے ڈاکو آئیں گے اور بھولے بھالے مسلمانوں کو ان سنی اور بناوٹی باتیں بنا کر اپنے دجل و فریب سے ان کا ایمان لوٹیں گے۔ لہٰذا اس شفیق امت نے پہلے سے ہی امت کو بچنے کی تدبیر بتائی کہ اے میری امت! بےدینوں کے قریب مت پھٹکنا اور نہ ان کو اپنے قریب آنے دینا ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے۔ لیکن امت کے کچھ بے لگام افراد ہیں جو کہتے پھرتے ہیں کہ۔۔۔۔ جی صاحب ہر کسی کی بات سننی چاہیے، دیکھیں بھلا کیا کہتے ہیں؟ اسی بنا پر بد مذہبوں (شیعوں) کے جلسوں پر جانے والے، ان کا لٹریچر پڑھنے والے, ان کی تقریریں سننے والے اور ان کے پروگرام اور جلوسیں دیکھنے والے ہزاروں لوگ گمراہ بددین ہو گئے، جہنم کا ایندھن بن گئے۔

اپیل: اے میرے مسلمان بھائیو! خبردار! ہوشیار! شیعوں کے جلسے جلوسوں میں مت جاؤ! ان کی تقریریں مت سنو! ان کے رسائل و اخبارات مت پڑھو! ٹی وی پر ان کے پروگرامات مت دیکھو! ان کی خوشی غمی میں ان کے ساتھ شریک مت ہو جاؤ ورنہ یہ ظالم قوم آپ کے ایمان پر ڈاکہ ڈال کر آپ کی دنیا اور آخرت کو برباد کر دیں گے۔ حضرت محمد بن سیرینؒ کے متعلق منقول ہے کہ حضرت بیٹھے تھے کہ وہ بدمذہب (اہلِ بدعت) آئے اور انہوں نے عرض کیا: حضرت! اجازت ہو تو ہم آپ کو ایک حدیث پاک سنائیں؟ آپ نے فرمایا نہیں پھر انہوں نے عرض کیا: کہ اجازت ہو تو ہم قران پاک کی ایک آیت پڑھ کر سنائیں؟ آپ نے فرمایا: ہرگز نہیں۔ یا تو تم یہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ یا میں اٹھ کر چلا جاتا ہوں۔ اس پر وہ دونوں غائب و خاسر ہو کر چلے گئے تو کسی نے عرض کیا: حضرت اس میں کیا حرج تھا کہ وہ دو آدمی قرآن پاک کی کوئی آیت پاک سناتے؟ اس پر حضرتؒ نے فرمایا: کہ یہ دونوں بدمذہب تھے اگر یہ آیت پاک بیان کرتے وقت اپنی طرف سے اس میں پچر لگا دیتے تو مجھے ڈر تھا کہ کہیں وہ تحریف میرے دل میں بیٹھ جاتی (اور میں بھی بدمذب ہو جاتا)

سبحان اللہ! وہ امام ابن سیرینؒ جلیل القدر محدث قوم کے پیشوا وقت کے علامہ ،علم کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، وہ تو بدمذہبوں سے اتنا پرہیز کریں کہ قرآن پاک کی آیت ان سے سننے کے روادار نہیں۔ اور آج کے ان پڑھ، دین سے بے خبر اتنی بے باکی اور جرات سے کہہ دیتے ہیں کہ: جی صاحب! ہر کسی کی بات سننی چاہیے۔ اسی طرح حضرت سعید بن جبیرؒ سے کسی نے کوئی بات پوچھی، تو آپؒ نے اس کو جواب نہ دیا، کسی نے عرض کیا: کہ حضرت آپ نے اس کو جواب کیوں نہ دیا؟ تو آپؒ نے فرمایا یہ بدمذہبوں میں تھا۔

دوسری حدیث: آنحضرتﷺ نے فرمایا: قضا و قدر کو جھٹلانے والے اس امت کے مجوسی ہیں (حالانکہ وہ نمازیں بھی پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں) فرمایا: اگر وہ بیمار پڑے تو ان کو پوچھنے مت جاؤ, اگر وہ مر جائیں تو ان کے مرنے پر ان کے جنازہ وغیرہ میں مت شریک ہو, اگر تم سے ملیں تو ان کو سلام مت کرو (ابن ماجہ شریف:صفحہ، 10)