Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

غیر مسلم کو مندر کے لیے زمین وقف کرنے اور اس کے ساتھ تعلقات رکھنے اور اس کا جنازہ پڑھنے وغیرہ کا حکم


سوال: زید شہر سنگھپور کے مالداروں اور مالگذاروں میں سے ایک مالدار شخص تھا، جس کے مراسم کفار سے انتہا کو پہنچے ہوئے تھے جیسا کہ شہر کے باشندوں کا قول ہے کہ مالگذاد زید نے برائے ساختن مندر زمین کا پلاٹ وقف کیا یا ہبہ یہ تحفہ دیا تھا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد زید کا انتقال ہوا، جب ورثاء اور شرکاء میت جنازہ لے کر چلے تو نام رام رحمٰن موسوم کفار کی ٹولی آئی جو جنازے کے آگے ڈھولک، جھانجر، ہارمونیم بجاتے اور ساتھ ہی ساتھ اپنا دوہا شعر (رگھوپتی راجہ رام، ایشور اللّٰہ ایک ہی نام) سب کو گاتے ہوئے چل رہے تھے، اور اس کے بعد مسلمان کلمہ تشہد بلند آواز سے پڑھ رہے تھے۔ لیکن جب تمام مسجد کو علم ہوا تو انہوں نے صدر مسجد اور حافظ صاحب کو بھیجا کہ اس کو روکو یہ کیا ہو رہا ہے۔

کوشش کے بعد کچھ وقفہ کے لیے بند کر دیا، کچھ دور چلنے کے بعد پھر وہی راگ شروع کر دیا، اس کو دیکھ کر امام مسجد اپنے کمرے میں واپس آگئے اور کافی تھا میں مسلمان بھی واپس ہوئے اور کچھ مولوی و مسلمان ائمہ نے نماز پڑھی، دفن و ایصالِ ثواب میں شریک رہے اور بروز تیجہ دعائے مغفرت بھی کیا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ:

  1. ایسے میت کی نمازِ جنازہ پڑھنا کیسا ہے؟ ناجائز یا جائز یا حرام یا کفر؟
  2. شرکا، جنازہ اور دعائے مغفرت کرنے والے مولویوں کے لیے حکم شرع کیا ہے؟ توبہ تجدیدِ ایمان؟ یا کچھ نہیں؟
  3. ان ورثاء میت کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے شرع حکم کیا ہے؟ جو قدرت کے باوجود ان کفریہ کلمات کو سنتے رہے اور شریک رہے۔ 

جواب1: اگر یہ صحیح ہے کہ زید نے مندر بنانے کے لیے زمین تحفے میں دی تو اسلام سے خارج ہو گیا اس سے بت پرستی پر اس کی رضامندی ظاہر ہوئی اور یہ کفر ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے ان من ساعد علی ذالک فھور اض بالکفر والرضا بالکفر کفرکی نمازِ جنازہ پڑھنا حرام ہے بلکہ مذہب اصح پر کفر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے

وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓى اَحَدٍ مِّنۡهُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمۡ عَلٰى قَبۡرِهٖ 

(سورۃ التوبہ: آیت نمبر، 84)

 اور رد المحتار میں ہے فالدعاء به كفر لعدم جوازه عقلا وشرعا ولتكذيبه النصوص القطعية

  1. جانتے ہوئے اس کی نمازِ جنازہ پڑھنے والے تو بہ استغفار اور تجدیدِ ایمان و نکاح کر دیں۔
  2.  لا اله الا الله محمد رسول الله مسلمان کتنا ذلیل و بے غیرت اور بے حیا ہو گیا ہے کہ کفریات کو اپنی مجلس میں بھی کرتے دیکھ کر انحراف نہیں کرتا ہے۔

جو لوگ ان کفری حرکات اور اقوال و افعال سے راضی رہے وہ سب تو یہ تجدیدِ ایمان و نکاح کریں، اور جو لوگ باوجود قدرت روکنے کے بجائے خاموش رہے وہ بھی علانیہ توبہ واستغفار کریں اور صدق دل سے بارگاہ خداوندی میں تائب ہوں۔

(فتاوىٰ عليميہ: جلد، 2 صفحہ، 263)