Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کافروں سے دوستی اور تعلقات رکھنے اور ان کے مردوں کو جلانے کے لیے جانے کا حکم


سوال: اگر کوئی شخص غیر مسلموں سے تعلقات رکھتا ہو، اُن کے مردوں کو جلانے اور ان کے کھانے میں شرکت کرتا ہو، تعلقات کی بناء پر اپنے مفاد کی خاطر غیر مسلموں کے تہوار کے موقع پر مورتیاں رکھواتا ہو، درگاہ پوجا وغیرہ دیکھنے جاتا ہو، درگاہ پوجا وغیرہ کے سارے اخراجات کو اپنے ذمہ بھی لیتا ہو، مورتیوں کے اوپر خود بھی پھول وغیرہ ڈالتا ہو، مندروں میں جا کر ٹیکا بھی لگواتا ہو اور صوم و صلوٰۃ کا پابند بھی ہو۔ ایسے کو مسلمان تصور کیا جائے یا نہیں؟

جواب: سوال میں جتنی باتیں مذکور ہیں ان میں بعض حرام حرام اشد حرام ہیں۔ کافروں سے دوستی تعلقات اور ان کے مردے جلانے میں شرکت و غیرہ بہت اخبث نہایت اشنع ہے۔

اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں کہ اگر دوستی و موالات باہر کافر که باشد حرام اشد کبیره اعظم است و اگر بربنائی میل دینی باشد خود کنر قال الله تعالٰىوَمَنۡ يَّتَوَلَّهُمۡ مِّنۡكُمۡ فَاِنَّهٗ مِنۡهُمۡ‌

(سورۃ المائدہ: آیت نمبر، 51)

حضور اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: من جامع المشرك وسكن معه فانه مثله

جو شرک سے یکجا ہو اور اس کے ساتھ رہے وہ اسی کے مانند ہے۔

اور بعض باتیں مثلاً مورتیاں رکھوانا، ان پر پھول وغیرہ چڑھانا یا ٹیکا لگوانا یہ سب بدترین کفر ہے۔ مفتی اعظم ہند تحریر فرماتے ہیں کہ دسہرہ منانے والے، ایسا کرنے والے از سرنو کلمہ اسلام پڑھیں، ان پر تجدیدِ ایمان تجدیدِ نکاح لازم ہے۔ یہ لوگ اگر باز نہ آئیں تجدیدِ نکاح نہ کریں تو ان سے نا تو بہ مقاطعہ کیا جائے، سلام کلام میل جول نشست و برخاست یک لخت موقوف کیا جائے۔

جس مسلمان نے مذکورہ کام کیا وہ اسلام سے خارج ہو گیا، اس پر تو بہ تجدیدِ ایمان، تجدیدِ نکاح لازم ہے۔ اگر وہ ایسا کرلے ما کر لے تو ٹھیک ورنہ سب مسلمان اس کا بائیکاٹ کر دیں، اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو وہ بھی مجرم اور گنہگار ہوں گے۔

(فتاوىٰ عليميہ: جواب، 2 صفحہ، 307)