پاؤں دھونے میں شیعہ حضرات کا اختلاف
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندنماز کے لیے وضو ضروری ہے۔ اگر وضو ہی صحیح نہ ہو تو نماز نہیں ہو سکتی۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ نماز سے قبل ہم طریقہ وضو کی تحقیق کریں اور دیکھیں کہ کس مذہب کا طریقہ کتاب و سنت کے مطابق ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اور اہلِ سنت والجماعت وضو میں پاؤں دھونا فرض جانتے اور مانتے ہیں اور ترتیبِ قرآنی کے مطابق سب سے آخر میں پاؤں دھوتے ہیں مسلمان کے بجائے نام نہاد مومن کہلانے پر فخر کرنے والے شیعہ فرقہ کے لوگ پہلے پاؤں دھوتے ہیں۔ پھر وضو مکمل کر کے پاؤں پر مسح واجب جانتے ہیں۔ ترتیب اور طریقہ وضو کے متعلق سورۃ مائدہ کی آیت ھذا نصِ قطعی ہے:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡهَكُمۡ وَاَيۡدِيَكُمۡ اِلَى الۡمَرَافِقِ وَامۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِكُمۡ وَاَرۡجُلَكُمۡ اِلَى الۡـكَعۡبَيۡنِ ۞
(سورہ المائدہ: آیت، 6)
ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہرے، اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھو لو، اور اپنے سروں کا مسح کرو، اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں تک (دھو لیا کرو)۔
دنیا بھر کے مطبوعہ قرآن کریم کے سب نسخوں میں وارجلَکم میں لام پر زبر ہے اور اس کا عطف و تعلق منہ اور ہاتھوں کے ساتھ ہے معنیٰ یہ ہے کہ تم وضو میں اپنے چہرے اور اپنے ہاتھ کہنیوں سمیت اور پاؤں ٹخنوں تک دھوؤ، یہ اِلیٰ (تک) کی حد بندی دھونے کے مطلب کو ہی یقینی بتاتی ہے کیونکہ قرآن میں مسح کے لیے حد بندی سر میں بھی نہیں ہے اور تیمم میں ہاتھ اور منہ کے مسح کا ذکر ہے، اس میں بھی حد بندی نہیں ہے۔
فَامۡسَحُوۡا بِوُجُوۡهِكُمۡ وَاَيۡدِيۡكُمۡ
نيز الى الكعبين پر مسح کی صورت میں عمل نہیں ہو سکتا کیونکہ ٹخنے پاؤں کے دونوں کناروں پر ہیں شیعہ مسح پاؤں کے ظاہر پر کرتے ہیں اور ہاتھ کو ساق تک کھینچتے ہیں جب کہ ٹخنے مسح کے راستے میں آتے ہی نہیں پھر تو الی الکعبین کے بجائے الی الساقین ہونا چاہیے تھا۔
معلوم ہوا کہ ٹخنوں تک دھونا ہی ضروری اور مطلوب ہے کیونکہ پاؤں دونوں طرف سے دھو کر حد بندی کی جاتی ہے، یہی مطلب اور پاؤں دھونے کا حکم اہلِ سنت و اہلِ تشیع کی مستند روایات سے بھی ثابت ہے۔
پاؤں کے دھونے میں شیعہ حضرات نے اختلاف کیا ہے اور اس اختلاف کی وجہ قرائت کا اختلاف ہے۔
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡهَكُمۡ وَاَيۡدِيَكُمۡ اِلَى الۡمَرَافِقِ وَامۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِكُمۡ وَاَرۡجُلَكُمۡ اِلَى الۡـكَعۡبَيۡنِ وَاِنۡ كُنۡتُمۡ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوۡا وَاِنۡ كُنۡتُمۡ مَّرۡضَىٰۤ اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ اَوۡ جَآءَ اَحَدٌ مِّنۡكُمۡ مِّنَ الۡغَآئِطِ اَوۡ لٰمَسۡتُمُ النِّسَآءَ فَلَمۡ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَيَمَّمُوۡا صَعِيۡدًا طَيِّبًا فَامۡسَحُوۡا بِوُجُوۡهِكُمۡ وَاَيۡدِيۡكُمۡ مِّنۡهُ مَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيَجۡعَلَ عَلَيۡكُمۡ مِّنۡ حَرَجٍ وَّلٰـكِنۡ يُّرِيۡدُ لِيُطَهِّرَكُمۡ وَ لِيُتِمَّ نِعۡمَتَهٗ عَلَيۡكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ ۞
(سورت المائدہ: آیت، 6)
ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہرے، اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھو لو، اور اپنے سروں کا مسح کرو، اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں تک (دھو لیا کرو) اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو سارے جسم کو (غسل کے ذریعے) خوب اچھی طرح پاک کرو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت کر کے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے جسمانی ملاپ کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرو اور اپنے چہروں اور ہاتھوں کا اس (مٹی) سے مسح کرلو۔ اللہ تم پر کوئی تنگی مسلط کرنا نہیں چاہتا، لیکن یہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک صاف کرے، اور یہ کہ تم پر اپنی نعمت تمام کردے، تاکہ تم شکر گزار بنو۔
آیت کے الفاظ یہ ہیں۔
وَامۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِكُمۡ وَاَرۡجُلَكُمۡ اِلَى الۡـكَعۡبَيۡنِ
یعنی ایڑیاں نہ دھونے کی خرابی یہ ہے کہ انہیں آگ کا عذاب چھوئے گا لہٰذا اَرْجُلَکُمْ میں لام پر فتحہ والی قراءت کو ہی راجح قرار دیا جا سکتا ہے۔
اور دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر اَرْجُلَکُمْ میں لام پر کسرہ کی قراءۃ کو بھی درست قرار دیا جائے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ (اَرْجُلَکُمْ) پر (بِرءُوُسِکُمْ) کا عطف تسلیم کیا جائے کیونکہ لام پر کسرہ عطف کی وجہ سے نہیں بلکہ جر جوار کے طور پر آیا ہے اور اس کی مثالیں قرآن کریم میں متعدد جگہ موجود ہیں۔
جیسے سورۃ ھود میں ہے
عَذَابَ يَوۡمٍ مُّحِيۡطٍ ۞(سورۃ هود: آیت، 84)
اور سورۃ واقعہ میں ہے
وَحُوۡرٌ عِيۡنٌ ۞(سورۃ الواقعة: آیت، 22)
مطلب یہ ہے کہ عربی گرامر کے مطابق حرکات بسا اوقات قریب کے لفظ کے مطابق آ جاتی ہیں اس لحاظ سے (اَرْجُلَکُمْ کا برءُوُسْکُمْ) پر عطف نہیں بلکہ بِرَءُوُسِکُمْ سے قریب ہونے کی وجہ سے کسرہ یا جر میں شریک ہے، مسح کرنے میں نہیں۔
اور تیسرا جواب عقلی ہے جو یہ ہے کہ سر چونکہ بدن کا سب سے اعلیٰ حصہ ہے لہٰذا وہ اکثر نجاست اور غلاظت سے محفوظ رہتا ہے پھر بسا اوقات ڈھکا ہوا بھی ہوتا ہے لہٰذا اسے دھونے کے بجائے اس کا مسح ہی کافی سمجھا گیا ہے جبکہ پاؤں بدن کا سب سے نچلا حصہ ہے جو نجاست اور کثافت سے اکثر متاثر ہوتا رہتا ہے لہٰذا زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ پاؤں پر مسح کرنے کے بجائے انہیں دھویا جائے۔
شیعہ اور اہلِ سنت کا وضوء:
شیعہ اور اہلِ سنت میں وضوء کے مسئلے میں بنیادی اختلاف پاوں کے مسح کا ہے۔
یہاں دیکھیں رسول اللہﷺ بھی مسح کا حکم دیتے تھے وہی وضوء جس کو شیعہ انجام دیتے ہیں!
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَى قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ قَالَ: حَدَّثَنِی عَلِیُّ بْنُ یَحْیَى بْنِ خَلَّادٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ عَمِّهِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ، أَنَّهُ کَانَ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّهَا لَا تَتِمُّ صَلَاةٌ لِأَحَدٍ، حَتَّى یُسْبِغَ الْوُضُوءَ، کَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى، یَغْسِلُ وَجْهَهُ وَیَدَیْهِ إِلَى الْمِرْفَقَیْنِ وَیَمْسَحُ بِرَأْسِهِ، وَرِجْلَیْهِ إِلَى الْکَعْبَیْنِ
(سنن ابنِ ماجہ: .جلد، 1 صفحہ، 291 ط موسسة الرسالة تصحیح سند روایت شعیب الارنووط: إسناده صحیحسنن ابنِ ماجہ: جلد، 1 صفحہ، 291 ط موسسة الرسالةسنن ابی داو: جلد، 2 صفحہ، 144 ط دار الرسالة العالمیةناصر الدین البانی: صحیح سنن ابنِ ماجہ: صفحہ، 95 ط مکتبة المعارف سنن ابی داود: صفحہ، 151 ط مکتبة المعارف حسین سلیم اسد الدارانی (محقق کتاب سنن الدارمی): اسناده صحیح سنن الدارمی: جلد، 2 صفحہ، 839 ط دار المغنی حاکم نیشاپوری: هذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین قال الذہبی: علی شرطهماالمستدرک علی الصحیحین: جلد، 1 صفحہ، 368 ط دار الکتب العلمیة)
حمران بن ابان سے سند معتبر کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ سیدنا عثمانؓ اپنے پیروں کا مسح کیا کرتا تھا اور خود بھی واضح طور پر کہتا تھا کہ رسول خداﷺ بھی اسی طرح وضو کیا کرتے تھے:
حدثنا محمد بن بِشْرٍ قال حدثنا سَعِيدُ بن أبی عَرُوبَةَ عن قَتَادَةَ عن مُسْلِمِ بن يَسَارٍ عن حُمْرَانَ قال دَعَا عُثْمَانَ بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ ضَحِكَ فقال ألا تَسْأَلُونِی مِمَّا أَضْحَكُ قالوا يا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ما اضحكك قال رَأَيْت رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم تَوَضَّأَ كما تَوَضَّأْت فَمَضْمَضَ وَ اسْتَنْشَقَ وَ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلاَثًا وَ يَدَيْهِ ثَلاَثًا وَ مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَ ظَهْرِ قَدَمَيْهِ
حضرت عثمانؓ نے کہا کہ میں نے رسولِ خداﷺ کو دیکھا تھا کہ وہ بھی وضو کرتے وقت اپنے سر اور پیروں کا مسح کیا کرتے تھے۔
(مصنف ابنِ أبی شيبة: جلد، 1 صفحہ، 16)
کیا شیعہ قرآن کے مطابق اسی ترتیب سے وضو کرتے ہیں؟
شیعہ کی اصولِ اربعہ سے بھی وضو کی وہی ترتیب اور طریقہ مل جائے گا جو اہلِ سنت کا طریقہ ہے۔
شیعہ تفسیر مجمع البیان کی عبارت۔
(لفظ ارجلکم) کی نصب کے ساتھ قرآت کے بارے میں مفسرین کرام نے فرمایا کہ اس صورت میں اس کا عطف “ایدیکم” پر ہو گا۔ (جس کی وجہ سے “فاغسلوا” امر کا مفعول یہ بنے گا اور ہاتھوں کی طرح پاؤں کے بھی دھونے کا حکم ہوگا نہ کہ مسح کرنے کا) کیونکہ ہر دور کے فقہائے کرام کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ (اس آیت مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے) پاؤں کو دھوتے ہوئے مسح نہیں کرتے دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ:
حضور سرور کائناتﷺ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے کچھ لوگوں کو وضو کرتے دیکھا اور وضو کرتے وقت پاؤں کی ایڑیاں نہ دھلنے کی وجہ سے سفید سی نظر آ رہی تھیں تو آپﷺ نے فرمایا ایسی ایڑیوں کے لیے جہنم کی آگ سے تباہی اور ہلاکت ہے۔
(تفسير مجمع البیان: جلد، دوم جز، سوم صفحہ، 165 مطبوعہ تہران جدید)
شیعہ کی اصول اربعہ کی کتاب الاستبصار میں موجود ایک صحیح السند روایت
فأما ما رواه محمد بن الحسن الصفار، عن عبيدالله بن المنبه، عن الحسين بن علوان، عن عمرو بن خالد، عن زيد بن علی، عن آبائه، عن علی (ع) قال: جلست أتوضأ فأقبل رسول الله (ﷺ) حين ابتدأت فی الوضوء، فقال لی: تمضمض واستنشق واستن، ثم غسلت ثلاثاً فقال: قد يجزيك من ذلك المرتان، فغسلت ذراعی ومسحت برأسی مرتين، فقال: قد يجزيك من ذلك المرة، وغسلت قدمی، فقال لی: يا علی خلل بين الأصابع لا تخلل بالنار
ترجمہ: حضرت زید بن علی اپنے آباؤ اجداد رضوان اللہ علیہم اجمعین روایت کرتے ہیں۔ کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں ایک دفعہ بیٹھا وضو کر رہا تھا کہ اتنے میں حضور اکرمﷺ تشریف فرما ہوئے۔ ابھی میں نے وضو شروع ہی کیا تھا۔ تو آپﷺ نے فرمایا کلی کرو اور ناک میں پانی ڈال کر صاف کرو۔ پھر میں نے تین مرتبہ منہ دھویا۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا۔ دو دفعہ ہی کافی تھا۔ پھر میں نے اپنے دونوں بازو دھوئے۔ اور اپنے سر کا دو مرتبہ مسح کیا۔ آپﷺ نے فرمایا ایک دفعہ ہی کافی تھا۔ پھر میں نے اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ آپﷺ نے فرمایا۔ اے سیدنا علیؓ! انگلیوں کے درمیان خلال۔ اللہ تمہیں اگ کے خلال سے بچائے۔
یہی روایت شیعہ کی تہذیب الاحکام میں بھی موجود ہے۔
اگر سورت المائدہ کی آیت 6 کا ترجمہ پاؤں دھونا غلط ہے بلکہ مسح کرنا درست ہوتا تو نبی کریمﷺ کے سامنے حضرت علیؓ وضو کرتے وقت پاؤں کیوں دھوتے؟ کیا اس وقت بھی تقیہ کرنا ضروری تھا؟