Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

بزرگان دین کے ارشادات


1: حضرت سہل تستریؒ فرماتے ہیں کہ: جس نے اپنا ایمان درست کیا اور اپنی توحید کو خالص کیا وہ کسی بدمذہب ( بدعتی) سے انس و محبت نہ کرے گا، نہ اس کے پاس بیٹھے گا، نہ اس کے ساتھ کھائے گا، نہ اس کے ساتھ پیئے گا، نہ اس کے ساتھ آئے گا بلکہ اپنی طرف سے اس کے لئے دشمنی اور بغض ظاہر کرے گا۔

( روح المعانی: جلد، 28 صفحہ، 35)

جو شخص کسی بد مذہب (بدعتی ) کے ساتھ خوش طبعی کرے, اللہ تعالیٰ جل شانہ اس کے دل سے نور ایمان نکال لے گا۔ جس بندے کو اس بات کا اعتبار نہ آئے، وہ تجربہ کر کے دیکھ لے۔

(روح المعانی: جلد، 28 صفحہ، 35)

وفات کے بعد کوئی شخص سیدنا ابن مبارکؒ کی زیارت سے مشرف ہوا اور عرض کیا: حضرت! اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ نے آپ کے ساتھ کیا کیا؟ تو فرمایا: مجھے عتاب فرمایا اور مجھے تیس سال، ایک روایت میں ہے تین سال کھڑے کیا۔ اور اس عتاب کا سبب یہ ہے کہ میں نے ایک دن بدمذہب ( بدعتی) کی طرف شفقت سے دیکھا تھا ۔اللٰہ تعالیٰ جل شانہ نے فرمایا: اے ابن مبارک! تو نے میرے دشمن کے ساتھ دشمنی کیوں نہیں کی؟ یہ واقعہ لکھنے کے بعد صاحب تفسیر البیان فرماتے ہیں کہ پس کیا حال ہو گا اس شخص کا جو دیدہ دانستہ دین کے ظالموں کے پاس بیٹھتا ہے۔

(روح البیان: جلد، چار صفحہ، 419٫420)

2: عارف باللہ حضرت علامہ حقیؒ کا ارشاد ہے کہ: برا ہمنشین انسان کو دوزخ کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہے ، اور اسے ہلاکت کے گڑھے میں ڈال دیتا ہے۔ لہٰذا مخلص اور سنی مومن کو چاہئے کہ وہ کافروں، منافقوں اور بدمذہب و بدعتیوں کی صحبت سے بچے تاکہ اس کی طبیعت میں ان کا بدعقیدہ اور برا عمل سرایت نہ کر جائے۔

(روح البیان: جلد، 4 صفحہ، 419)

حدیث پاک میں ہے کہ جو شخص کسی قوم سے محبت کرے گا ان کے کسی عمل کو پسند کرے گا وہ اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور اس قوم کے ساتھ حساب میں شریک ہوگا، اگرچہ اس کے ساتھ اعمال میں شریک نہیں تھا.

(روح البیان: جلد، 4 صفحہ، 494)

اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ کے دشمنوں پر سختی کرنا یہ بھی حسنِ خلق میں داخل ہے، اس لئے کہ جب سب مہربانوں سے مہربان آقاﷺ کو اعدائے دین پر سختی کرنے کا حکم ہے دوسرے کا کیا شمار؟ لہٰذا دشمنان دین پر سختی کرنا یہ دوستوں پر مہربانی کے منافی نہیں ہے جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی مدح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اشداء على الكفار ورحماء بينهم وہ دشمنوں پر بڑے سخت ہیں اور اپنوں پر بڑے مہربان

( روح البیان: جلد، 10:صفحہ، 67)

3: حضرت فضیل بن عیاضؒ کا ارشاد ہے کہ:جس کسی نے بدمذہب بدعتی سے محبت کی، اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ اس کا عمل برباد کر دے گا اور اس کے دل سے نور ایمان نکال دے گا۔

(غنیتہ الطالبین: جلد، 1:صفحہ، 80)

 اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ جب دیکھتا ہے کہ فلاں بندہ بدمذہبی و بدعتیوں سے بغض رکھتا ہے، مجھے امید ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ اس کے گناہ بخش دے گا اگرچہ اس کی نیکیاں تھوڑی ہوں۔

( غنیتہ الطالبین: جلد، 1 صفحہ، 80)

4: حضرت سفیان بن عینیہؒ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص کسی بد مذہب ( بدعتی) کے جنازے میں گیا وہ لوٹنے تک اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ کی ناراضی میں رہے گا۔(غنیتہ الطالبین: جلد، 1 صفحہ، 80)

5: محبوب سبحانی، قطب ربانی ،شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا ارشاد ہے کہ: بدمذہبوں (بدعتیوں) کے جلسوں میں شرکت کر کے ان کی رونق نہ بڑھائے ان کے قریب نہ آئے اور ان پر سلام نہ کرے۔

(غنیتہ الطالبین: جلد، 1 صفحہ، 80)

بدمذہبوں کے ساتھ نہ بیٹھے اور ان کے قریب نہ جائیں اور نہ ہی عید وغیرہ شادی کے موقع پر مبارک دی اور جب وہ مر جائیں تو ان کا جنازہ نہ پڑھے اور جب ان کا ذکر ہو تو رحمت اللّٰہ علیہ نہ کہے بلکہ ان سے الگ رہے اور ان سے اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ کی رضا کے لئے عداوت رکھے یہ اعتقاد کرتے ہوئے کہ ان کا مذہب باطل ہے اور ایسا کرنے میں ثواب کثیر اور اجرِ عظیم کی امید رکھے۔

(غنیۃ الطالبین: جلد، 1 صفحہ، 80)

امیر المومنین سیدنا فاروق اعظمؓ نماز مغرب پڑھ کر مسجد سے تشریف لائے تھے کہ ایک شخص نے اواز دی کون ہے جو مسافر کو کھانا کھلائے سیدنا فاروق اعظمؓ نے خادم سے فرمایا اس کو ساتھ لے آؤ وہ لے آیا سیدنا فاروق اعظمؓ نے اسے کھانا منگوا کر دیا اس نے کھانا شروع کیا اس کی زبان سے ایک بات نکلی جس سے بدمذہبی کی بو آئی تھی سیدنا فاروق اعظمؓ نے فوراً اس کے سامنے سے کھانا اٹھوا لیا اور اس کو نکال دیا پھر یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ کے نافرمان اور مخالفوں کے ساتھ بائیکاٹ کرنا یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ بائیکاٹ پہلی امتوں سے چلا آتا ہے ارشاد ربانی ہے: وسلهم عن القريه التي كانت حاضرة البحر اذ يعدون في السبت اذ تل تيهم حيتانهم يوم سبتهم شرعا ويوم لا يسبتون لا تاتيهم یعنی اصحاب سبت جن کی بستی دریا کے کنارے واقع تھی, انہوں نے ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑ کر اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ اور اس کے نبی علیہ السلام کی نافرمانی کی تو اس قوم کے تین گروہ ہو گئے۔ ایک گروہ نافرمانی کرنے والا، دوسرا گروہ برائی سے روکنے والا ،تیسرا گروہ خاموش رہنے والا۔ آخر فرمانبردار گروہ نے نافرمانوں سے ایسا بائیکاٹ کیا کے درمیان میں دیوار کھڑی کر دی۔ نہ یہ ادھر جاتے نہ وہ ادھر آتے ۔جب نافرمانوں کی نافرمانی حد سے بڑھ گئی تو وہ بندر بنا کر ہلاک کر دئیے گئے۔

(تفسیر مظہری: جلد، 3 صفحہ، 474)

پھر طرفہ یہ ہے کہ ہر نمازی نماز وتر کی دعائیں قنوت میں روزانہ یہ دعا پڑھتا ہے ونخلع ونترك من يفجرك یا اللّٰہ ہم ہر اس شخص سے قطع تعلق کریں گے اور علیحدہ ہو جائیں گے جو تیرا نافرمان ہے۔ اچھا معاملہ ہے کہ مسلمان مسجد میں دربار الٰہی میں کھڑا ہو کر مؤدبانہ ہاتھ باندھ کر عہد کرتا ہے کہ یااللّٰہ! ہم تیرے نافرمانوں اور تیرے مخالفوں کے ساتھ بائیکاٹ کریں گے۔ لیکن مسجد سے باہر آکر ساری باتیں بھول جاتا ہے۔

مسلمان بھائیوں سے اپیل: میرے مسلمان بھائیو! ہوشیار! خبردار! اپنے ایمان کو بچاؤ، اپنے بیگانے کو پہچانو، اور اگر شیطان دھوکہ دینے کی کوشش کرے تو مندرجہ بالا ارشاد کو بار بار پڑھو۔

تتمہ نمبر 1: یہ تھا دنیا میں مسلمانوں کا اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ اور اس کے حبیبﷺ اور اسلام کے دشمنوں کے ساتھ بائیکاٹ، لیکن قیامت کے دن اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ کی طرف سے بائیکاٹ ہو گا۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: يَوۡمَ يَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَالۡمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوا انْظُرُوۡنَا نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِكُمۡ‌ۚ قِيۡلَ ارۡجِعُوۡا وَرَآءَكُمۡ فَالۡتَمِسُوۡا نُوۡرًاؕ فَضُرِبَ بَيۡنَهُمۡ بِسُوۡرٍ لَّهٗ بَابٌ بَاطِنُهٗ فِيۡهِ الرَّحۡمَةُ وَظَاهِرُهٗ مِنۡ قِبَلِهِ الۡعَذَابُ۞ یعنی قیامت کے دن (جب پل صراط سے گزر ہو گا اور اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ ایمان والوں کو نور عطا فرمائے گا) اس نور کو دیکھ کر منافق مرد اور عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے کہ ہمیں ایک نگاہ دیکھو کہ ہم تمہارے نور سے کچھ حصہ لیں گے۔ اس پر فرمایا جائے گا اپنے پیچھے لوٹو وہاں نور ڈھونڈو۔ پھر جب لوٹیں گے تو ان کے درمیان دیوار کھڑی کر دی جائے گی، جس کا ایک دروازہ ہو گا اس کے اندر کی طرف رحمت ہو گی، اور باہر کی طرف عذاب ہو گا۔ یعنی دیوار کے ذریعے ایسا مکمل بائیکاٹ کر دیا جائے گا کہ منافق لوگ ایمان والوں کے نور کی روشنی بھی نہ لے سکیں گے۔

تتمه نمبر2:  جب قیامت کا دن ہو گا تو اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ کی طرف سے اعلان ہو گا یعنی اے نافرمانو! کافرو! آج میرے بندوں سے الگ ہو جاؤ۔

(فتاویٰ ختم نبوت: جلد، 3 صفحہ، 276)