Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کافروں کی مجلسوں اور مذہبی میلوں میں شرکت کرنے، ان کی تعظیم کرنے اور ان کو مبارک باد دینے کا حکم


سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ایسے شخص کے بارے میں جو مندرجہ ذیل چیزوں پر عمل کرتا ہو

  1.  جو شخص شہرت، ناموری کیلئے جین دھرم کے آچاریوں و سادھوؤں کے ساتھ تصویر کھنچواتا ہو اور ان کے شہر آنے پر ان کا استقبال تعظیم خوش آمدید کرنے کیلئے جاتا ہو۔
  2.  آچاریہ کے یوم پیدائش کے موقع پر ہونے والی مجلسوں تقریروں تحریروں میں شامل ہوتا ہو۔
  3. 3: ان کے پیدائش پر شائع ہونے والا کلینڈر جس پر دیوی دیوتا کے تصویر ہوں اپنے ہاتھوں افتتاح کرتا ہو۔
  4. جو کفار کی مجلسوں میں عورت اور مردوں کا بغیر پردے کے ایک ساتھ بیٹھتا ہو اور ایک ساتھ بیٹھنے میں عار محسوس نہیں کرتا ہو۔
  5. ان کی مذہبی تحریک میں بار بار شامل ہوتا ہو، ان کے مذہبی رہنماؤں، ان کے تہواروں اور ان کے مذہبی مقاموں، میلوں پر مبارک باد دینے جاتا ہو، ان کے آچاریوں کے اقوال کو اقوال زریں کہہ کر تعریف کرتا ہو۔

جواب: کافروں کی تعظیم و توقیر یوں ہی تصویر کشی سخت نا جائز و حرام ہے۔ ان کے یوم پیدائش پر ہونے والی مجلسوں میں شرکت ان کے دیوی دیوتاؤں کی تصویر پر مشتمل کلینڈر کا افتتاح، مرد و عورت کے ساتھ بیٹھنا، سب حرام حرام اور اشد حرام ہے۔ اور مذہبی میلوں میں شرکت اور مبارک بادی دینا کفر ہے۔

غمز عيون البصائر میں ہے اتفق مشائخنا ان من راى امر الكفار حسناً فقد كفر یعنی ہمارے مشائخ کا اس پر اتفاق ہے کہ جس نے کافروں کے کسی کام کو اچھا سمجھا وہ کافر ہو گیا۔

در مختار میں ہے: الاعطاء باسم النيروز والمهرجان لا يجوزاي الهدايا باسم هذين واليومين حرام وان قصد تعظيمه كما يعظمه المشركون يكفر

اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں کہ ان کے دیوتاؤں اور پیشواؤں اور مذہبی جذبات کا اعزاز تو در کنار جو ان کے کسی فعل کی تحسین ہی کرے با تفاق ائمہ کافر ہے۔

سوال میں مذکور بعض افعال حرام اور بعض کفر ہیں۔ جو شخص ان حرکات شنیعہ کا مرتکب ہے اس پر توبہ واستغفار اور تجدیدِ ایمان و نکاح لازم ہے۔ اگر توبہ کر کے از سر نو کلمہ طیبہ پڑھ کر تجدیدِ نکاح نہ کرے تو مسلمان اس کا مکمل باںٔیکاٹ کر دیں ورنہ بھی مجرم و گنہگار ہوں گے قال الله تعالیٰوَاِمَّا يُنۡسِيَنَّكَ الشَّيۡطٰنُ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّكۡرٰى مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَ ۞

(سورۃ الانعام: آیت نمبر، 68)

(فتاوىٰ عليميہ: جلد، 2 صفحہ، 323)