غیر مسلموں کے تعزیت کیلئے جانے اور اُن کے تہواروں میں شرکت کرنے اور مندروں کے سامنے سر جھکانے یا ہاتھ جوڑنے کا حکم
سوال1: ہندوؤں کے مرنے پر تعزیت کیلئے ان کے گھر دوکان جانا یا اسی نیت سے راستہ وغیرہ میں ملنا اور ملاقات کرنا جائز ہے یا نہیں اگر جائز ہے تو اس کی کیا صورت ہے اور اگر جائز نہیں ہے تو جانے والوں کیلئے کیا حکم ہے؟
2: ہندوؤں کے تیوہاروں کے موقع پر دیا جلانا یا کسی بھی طریقے سے شرکت کرنا یا مندروں کے پاس گزرتے وقت سر جھکانا یا ہاتھ جوڑنا کیسا ہے؟
جواب1: تعزیت کا مطلب میت کے پسماندگان سے ہمدردی کا اظہار کرنا ہے اور اسلام نے مشرکین سے شدت اور سختی سے پیش آنے اور ان کی طرف سے دل میں عداوت و نفرت رکھنے کا حکم دیا ہے قال الله تعالىٰ وَاغۡلُظۡ عَلَيۡهِمۡ(سورۃ التوبہ: آیت نمبر، 73)
وقال الله تعالىٰ وَلۡيَجِدُوۡا فِيۡكُمۡ غِلۡظَةً(سورۃ التوبہ: آیت نمبر، 123)
لہٰذا ان کے مرنے پر تعزیت کے لیے ان کے پسماندگان کے پاس جانا اور تعزیت کرنا جائز نہیں ہے، جو لوگ
جائیں وہ توبہ واستغفار کریں، البتہ اگر کسی حکمت و مصلحت اور غرض صحیح کی بناء پر صرف ظاہراً چند کلمات ہمدردی کہیں تو اجازت ہو گی۔
اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں کہ موالات صوریہ (ظاہری محبت و ہمدردی) کو بھی شریعت مطہرہ میں حقیقیہ کے حکم میں رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّىۡ وَعَدُوَّكُمۡ اَوۡلِيَآءَ تُلۡقُوۡنَ اِلَيۡهِمۡ بِالۡمَوَدَّةِ وَقَدۡ كَفَرُوۡا بِمَا جَآءَكُمۡ مِّنَ الۡحَـقِّ(سورۃ الممتحنہ: آیت نمبر، 1)
یہ موالات قطعاً حقیقیہ نہ تھی کہ نزول کریمہ درباره سیدنا حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ ہے۔ تفسیر علامہ ابو السعود میں ہے فیه زجر شديد للمؤمنين عن اظهار صورة الموالات لهم وان لم تكن موالاة في الحقيقية مكر صور یہ ضرور یہ خصوصا با کراہ: قال الله تعالىٰ الا ان تتقوا منهم تفته
2: ہندوؤں کے تہواروں میں شرکت کرنا، ان موقعوں پر دیا جلانا سخت حرام بلکہ بحکم فقہائے کرام کفر ہے۔
مجمع الانهر شرح ملتقى الابحر میں ہے: یکفر بخروجه الى نيروز المجوس والموافقة معهم فيما يفعلون في ذلك اليوم اور مندروں کے پاس سر جھکانا اور ہاتھ جوڑنا اشد و اخبث کفر ہے کہ مندروں کے سامنے سر جھکانا یا ہاتھ جوڑنا مشرکین کی عبادت معبودان باطلہ کا طریقہ ہے۔ اگر کسی مسلمان نے ایسا کیا تو فوراً اسلام سے خارج اور کافر و مرتد ہو گیا
الاشباه والنظائر میں ہے عبادة الصنم کفر و لا اعتبار بما في قلبه جو لوگ ہندوؤں کے تہواروں میں شرکت کریں وہ تجدیدِ اسلام و نکاح کریں اور جو مندروں کے سامنے سر جھکائیں یا ہاتھ جوڑیں وہ ایسے کافر ہو گئے کہ ان کی بیویاں نکاح سے باہر ہو گئیں، پھر اگر وہ اسلام قبول کر لیں جب بھی عورتوں کو اختیار ہوگا کہ بعد عدت جس سے چاہیں نکاح کریں۔
اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں کہ جو مرتکب کفر فقہی ہے جیسے دسہرے کی شرکت اس پر تجدیدِ اسلام لازم ہے اور اپنی عورت سے تجدیدِ نکاح کرے اور جو قطعاً کافر ہو گیا جیسے معبودانِ کفار پر پھول چڑھانے والا کافر و مرتد ہو گیا۔ اس کی عورت نکاح سے نکل گئی۔ اگر تائب ہوا اور اسلام لائے جب بھی عورت کو اختیار ہے بعد عدت جس سے چاہے نکاح کرلے اور بے تو یہ مر جائے تو اسے مسلمانوں کی طرح غسل و کفن و جنازہ سب حرام۔
(فتاوىٰ عليميہ: جلد، 1 صفحہ، 356)