Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت حافظ الحدیث والقرآن، مفتی اعظم پاکستان، حضرت پیر سید محمد جلال الدین مشہدی کا فتویٰ شان الوہیت ورسالت میں گستاخی کرنے اور گستاخ صحابہؓ کا شرعی حکم اور اس کی امامت


حضرت حافظ الحدیث والقرآن، مفتی اعظم پاکستان، حضرت پیر سید محمد جلال الدین مشہدی کا فتویٰ

(حضرتِ اعلی درگاہ مقدسہ جلالیہ بھکھی شریف)

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں کہ

  1. شان الوہیت و شان رسالت میں تنقیص کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟ نیز تنقیص کا مفہوم کیا ہے؟
  2. خلفائے ثلاثہؓ کی حقانیت کا انکار اور انہیں غاصب کہنے والے کا شرعاً کیا حکم ہے؟
  3.  ازواج مطہرات بالخصوص محبوبہ محبوب خداﷺ کو سب و شتم کرنے والے اور انہیں موردِ الزام ٹھہرانے والوں کا شرعی حکم کیا ہے؟
  4. اگر کوئی خطیب یا امام مسجد کہے کہ فقہ جعفریہ کے کسی فوت شدہ کی نمازِ جنازہ پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں جبکہ وہ امام خود اُن کی نمازِ جنازہ پڑھانے کا انکار کرتا ہو۔
  5. مذکورہ عقائد رکھنے والے لوگوں اور ان عقائد والوں کو پیشوا اور راہنما و خطیب رکھنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:  اللہ تعالیٰ جل شانہ ہر عیب سے پاک ہے تمام تعریفیں اس کیلئے خاص ہیں کوئی معبودِ برحق نہیں مگر وہی اللہ تعالیٰ جل شانہ سب سے بڑا ہے۔ 

ان کلمات میں سے کسی کے خلاف اس کی توحید و کبریائی یا کسی خوبی کی نفی یا کسی عیب کی نسبت اللہ تعالیٰ جل شانہ کی طرف کرنا تنقیص شان اُلوہیت ہے۔ اور مخلوق کے لیے سب سے بلند مرتبہ رسالت ہے اور نبی کریمﷺ تمام رسولوں علیہم السلام کے سردار ہیں، آپﷺ کو سید الانبیاء والرسل نہ ماننا یا کسی عیب کی نسبت آپﷺ کی طرف کرنا خواہ ذات میں یا نسب میں یا صفات و خصائل میں یا استہزاء واستخفاف کرنا وغیرہ سے تنقیص شان رسالت ہوتی ہے اور اس کے مرتکب کا حکم کفر وارتداد ہے اور سزا قتل ہے، اگرچہ توبہ کرے۔

قرآن مجید میں ہے:

ذٰ لِكَ بِاَنَّهُمۡ شَآ قُّوا اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ‌ ۚوَمَنۡ يُّشَاقِقِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ ۞(سورۃ الانفال: آیت نمبر، 13)

 یہ اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسولﷺ سے جدا رہے اور جو اللہ تعالیٰ سے جدا رہے تو بے شک اللہ تعالیٰ کا عذاب سخت ہے۔ یہ حکمِ قتل ان پر اس لیے ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی صریح مخالفت کی۔

نیز ارشاد ہے:

وَلَئِنۡ سَاَلۡتَهُمۡ لَيَـقُوۡلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوۡضُ وَنَلۡعَبُ‌ؕ قُلۡ اَبِاللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ وَرَسُوۡلِهٖ كُنۡتُمۡ تَسۡتَهۡزِءُوۡنَ ۞(سورۃ التوبہ: آیت نمبر، 65)

ترجمہ: اور اے محبوب ! اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللہ تعالیٰ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو، بہانے نہ بناؤ تم مسلمان ہو کر کافر ہو چکے

علامہ قاضی عیاض مالکیؒ لکھتے ہیں کہ بے شک ہر وہ آدمی جس نے نبی کریمﷺ کو گالی دی یا آپ کی طرف کسی عیب کی نسبت کی یا آپﷺ کی ذات مقدسہ یا آپﷺ کے نسب مبارک یا آپﷺ کے خصائل میں سے کسی خصلت کی جانب نقص کی نسبت کی یا آپﷺ پر طعن کیا یا جس نے بطریق گالی، اہانت تحقیرِ شان یا آپﷺ کی طرف عیب کو منسوب کرنے کیلئے آپﷺ کو کسی چیز سے تشبیہ دی تو وہ حضوراکرمﷺ کو گالی دینے والا ہے اور اس کا حکم گالی دینے والے کے حکم کی طرح ہے، اسے قتل کیا جائے گا جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں اور ہم اس حکم میں قطعاً کوئی استثنا نہیں کرتے، نہ ہم اس بات میں شک کرتے ہیں کہ چاہے توہین صراحتاً ہو یا کنایہ۔ پھر آگے ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے لے کر آج تک کے علماء اور ائمہ فتویٰ کے اجماع سے ہے۔

شیخین کریمینؓ کو غاصب کہنے والا اور سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا منکر، دونوں کا حکم کفر و ارتداد ہے اگر توبہ کر لے تو قتل نہ کریں گے اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والے کا بھی یہی حکم ہے۔

شفاء شریف میں ہے کہ سیدنا فاروق اعظمؓ نے حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ لوگوں میں سے کسی ایک کو گالی دینے والے مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں مگر اس کوقتل کرنا جائز ہے جس نے نبی کریمﷺ کو گالی دی، پس جس نے نبی کریمﷺ کو گالی دی تو اس کا خون بہانا حلال ہو گیا

بحر الرائق میں ہے کہ نبی کریمﷺ کی ازواج مطہرات میں سے سیدہ عائشہ صدیقہؓ پہ تہمت لگانے سے، سیدنا صدیق اکبرؓ کی صحابیت کے انکار سے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی امامت کے انکار سے اصح قول کے مطابق مرتد ہو جاتا ہے جیسا کہ اصح قول کے مطابق خلافت سیدنا فاروق اعظمؓ کے انکار سے

شفاء شریف میں ہے کہ جو اس کے کافر ہونے اور عذاب میں مبتلا ہونے میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ چہ جائیکہ امام و خطیب بنایا جائے

(فتاویٰ بھکھی شریف: جلد، 1 صفحہ، 101)