Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ کی نماز جنازہ پڑھنے اور ان کو مسلمانوں کی جنازہ میں شریک ہونے کا حکم


سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک گاؤں میں آدھی آبادی سنیوں کی ہے اور آدھی آبادی شیعوں کی، جب کوئی آدمی مر جائے تو اس پر سنی علیحدہ نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں اور شیعہ علیحدہ نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں، میت چاہے سنیوں کی ہو یا شیعوں کی۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

جواب: جو رافضی (شیعہ) ائمہ کرام و اہلِ بیت کو انبیاء کرام علیہم السلام سے افضل مانتے ہوں، سیدنا صدیق اکبرؓ کی صحابیت کے منکر ہوں، ایسے لوگوں کی نمازِ جنازہ اہلِ سنت کے لوگوں کیلئے ہرگز جائز نہیں، خواہ امام شیعہ ہو یا سنی، اور نہ ہی انہیں کسی سُنی کے جنازے میں شریک ہونا چاہیے، اور نہ انہیں علیحدہ سُنی مسلمان کا جنازہ پڑھنے کی اجازت دینی چاہیے۔

قرآن کریم میں ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا

وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓى اَحَدٍ مِّنۡهُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمۡ عَلٰى قَبۡرِهٖ (سورۃ التوبہ: آیت نمبر، 84)

ترجمہ: اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔

حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: لا تصلوا معهم ولا تصلوا عليهم

ترجمہ: نہ ان کے ساتھ جنازہ میں شریک ہو اور نہ ہی ان کی نماز جنازہ پڑھو

نیز شیعہ کی معتبر کتاب تحفہ سنیہ کے صفحہ نمبر 354 میں ہے کہ جب کسی اللہ کے دشمن کی نمازِ جنازہ پڑھے تو کہہ اے اللہ ہم اس کے بارے میں جانتے ہیں کہ یہ تیرا اور تیرے رسولﷺ کا دشمن ہے۔ اے اللہ! اس کی قبر کو آگ سے بھر دے اور اس کے پیٹ میں آگ بھڑکا دے اور اس کو جلدی جہنم رسید کر، بے شک یہ تیرے دشمنوں کا دوست اور تیرے دوستوں کا دشمن تھا اور تیرے نبیﷺ کی اہلِ بیت سے بغض رکھتا تھا، اے اللہ! اس کی قبر کو تنگ کر دے۔ لہٰذا ایسے آدمی کی نمازِ جنازہ نہ پڑھو اور نہ اس کو اپنے مردوں کیلئے ایسی بد دعا کرنے دو

(فتاویٰ بھکھی شریف: جلد، 1 صفحہ، 223)