Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی

  اسعد اعظمی

حضرت عثمانؓ کے ذاتی حالات کے سلسلے میں درج ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا ہے:
  1. فضائل الصحابۃ للامام احمد بن حنبل: جلد، 1 صفحہ، 448، 527
  2. الاصابۃ لابن حجر: جلد، 2 صفحہ، 455 456
  3. الاعلام للزرکلی: جلد، 4 صفحہ، 210
  4. التاریخ الاسلامی لمحمد شاکر : جلد، 3
  5. تاریخ اسلام از شاہ معین الدین،جلد اول 
  6. تاریخ اسلام از اکبر شاہ نجیب آبادی ، جلد اول
  7. خلفائے راشدین از حاجی معین الدین ندوی ، جلد اول
  8. فتنۃ مقتل عثمان بن عفان للدکتور محمد بن عبداللہ الغبان، جلد اول
 نام و نسب:
آپؓ کا نام و نسب اس طرح ہے:
سیدنا عثمانؓ بن عفان بن ابوالعاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب۔
آپؓ کی والدہ کا نام ارویٰ بنتِ کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس ہے۔ اور آپ کی نانی بیضاء بنتِ عبدالمطلب تھیں جو رسول اللہﷺ کی پھوپھی تھیں۔
کنیت:
جاہلیت میں کنیت ابو عمرو تھی، مسلمان ہونے کے بعد حضرت رقیہؓ بنتِ رسول اللہﷺ سے شادی ہوئی ان کے بطن سے عبداللہ پیدا ہوئے اس وقت سے آپؓ کی کنیت ابو عبداللہ ہو گئی۔
لقب:
آپؓ کو ذوالنورین (دو نور والے) کے لقب سے ملقب کیا گیا تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپؓ کی زوجیت میں رہیں، پہلے آپ رضی اللہ عنہ کی شادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی، 2ھ سنہ میں ان کی وفات ہو گئی، اس کے بعد حضرت اُم کلثومؓ سے آپؓ کی شادی ہوئی۔ رضی الله عنہم أجمعین۔
آپؓ کا ایک لقب غنی اور ایک لقب جامع القرآن بھی ہے۔
پیدائش:
صحیح قول کے مطابق واقعہ فیل کے چھٹے سال یعنی ہجرتِ نبویﷺ سے 47 برس قبل پیدا ہوئے، جو شمسی اعتبار سے 775ء ہوتا ہے۔
اسلام:
نبی اکرمﷺ کی بعثت کے جلد ہی بعد آپؓ نے اسلام قبول کر لیا تھا، آپ رضی اللہ عنہ سابقین اولین میں سے ہیں۔ روایتوں کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کوشش سے آپؓ نے اسلام قبول کیا، اس وقت آپؓ کی عمر 34 سال تھی۔
اخلاق و عادات:
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ فطرتاً راست باز، شریف، دیانت دار اور پارسا تھے، حیا اور رحم دلی ان کی خاص شان تھی۔ جاہلیت میں بھی کبھی جوا نہیں کھیلا، شراب کو ہاتھ نہیں لگایا، کسی عورت پر بری نظر نہیں ڈالی اور کبھی جھوٹ نہیں بولے۔ خشیتِ الہٰی سے اکثر آبدیدہ رہتے۔ موت، قبر اور عاقبت کا خیال ہمیشہ دامن گیر رہتا، کثرتِ عبادت و تلاوت کے لیے خاص شہرت رکھتے تھے۔ نبی کریمﷺ کا ادب اور احترام اس قدر ملحوظ تھا کہ جس ہاتھ سے آپﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کی تھی اس کو نجاست یا محلِ نجاست سے مَس نہ ہونے دیا۔ شکل و شمائل میں آپؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت مشابہ تھے۔
گھر میں بیسیوں لونڈی اور غلام موجود تھے مگر اپنا کام خود کر لیتے تھے، رات کو تہجد کے لیے اٹھتے اور کوئی بیدار نہ ہوتا تو خود ہی وضو کا سامان کر لیتے اور کسی کو جگا کر اس کی نیند خراب نہ فرماتے۔
آپؓ صبر و تحمل کا پیکر تھے، مصائب و آلام کو نہایت صبر و سکون کے ساتھ برداشت کرتے تھے، شہادت کے موقع پر چالیس دن تک جس بردبادی، ضبط اور تحمل کا اظہار آپؓ کی ذات سے ہوا وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ سیکڑوں وفا شعار غلام اور ہزاروں معاون اور انصار سرفروشی کے لیے تیار تھے، مگر اس ایوب وقت نے خون ریزی کی اجازت نہ دی، اور اپنے اخلاقِ کریمانہ کا آخری منظر دکھا کر ہمیشہ کے لیے دنیا سے روپوش ہو گئے۔
آپؓ کا معمول تھا کہ ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ عنہ کو دولت سے نوازا تھا اور غنی بنایا تھا آپؓ نے اپنی فیاضی اور اپنے مال و دولت سے اسلام اور اہلِ اسلام کو خوب خوب فائدہ پہنچایا۔
جود و سخا کے چند نمونے:
جب مسلمان مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو معلوم ہوا کہ وہاں کے سب کنویں کھاری ہیں، صرف ایک کنواں جس کو بئرِ رومہ کہا جاتا تھا وہ شیریں تھا، اس کا مالک ایک یہودی تھا، اللہ کے رسولﷺ چاہتے تھے کہ کنواں یہودی سے خرید لیا جائے تاکہ تمام مسلمان اس کا پانی استعمال کر سکیں، لیکن مسلمانوں کی تنگ دستی اس کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جو شخص بئرِ رومہ خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دے گا اس کو جنت میں اس سے کہیں بہتر پانی ملے گا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اٹھے اور فوراً بیس ہزار درہم میں اس کنویں کو خرید کر اہلِ اسلام کے حوالے کر دیا۔
آپؓ کی فیاضی کا سب سے نمایاں کارنامہ یہ ہے کہ غزوۀ تبوک کے موقع پر جب مسلمان حد درجہ تنگی اور عسرت میں تھے اور اللہ کے رسول اقدسﷺ تشویش میں تھے کہ کس طرح اس طویل سفر اور جہاد کے اخراجات کا انتظام ہو گا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ہزاروں درہم نقد اور اونٹوں، گھوڑوں اور سامانِ رسد پیش کیا، اللہ کے رسولﷺ اس فیاضی سے اس قدر مسرور ہوئے کہ سیدنا عثمانؓ کے پیش کردہ درہموں کو الٹ پلٹ کرتے جاتے اور فرماتے جاتے: آج کے بعد حضرت عثمانؓ کا کوئی کام انہیں نقصان نہیں پہنچائے گا۔
اسی طرح مسجدِ نبوی کی تعمیر و توسیع میں بھی حضرت عثمانؓ کا ہاتھ سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ عہدِ نبوی میں جب مسلمانوں کی کثرت کے باعث مسجد کی وسعت ناکافی ثابت ہوئی تو اس کی توسیع کے لیے سیدنا عثمانؓ نے قریب کا قطعہ زمین خرید کر بارگاہِ نبوت میں پیش کر دیا اور مسجد کی توسیع عمل میں آئی۔ اپنے عہدِ خلافت میں بھی آپؓ نے مسجد کی وسعت میں کافی اضافہ کیا اور اس کی جدید تعمیر کروائی۔
خصوصیات و کمالات:
صحابیت اور خلافت کے شرف سے متصف ہونے کے علاوہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کچھ مخصوص اوصاف و کمالات کے مالک بھی تھے جن سے ان کی عظمت میں چار چاند لگ جاتے ہیں اور جن کی وجہ سے ان کے تئیں ادب و احترام کے جذبات میں اضافہ ہوتا ہے، آپؓ کی شان میں نبی اکرمﷺ کی زبان وحی ترجمان سے جو ارشادات وارد ہوئے ہیں انہیں ہم آگے ذکر کریں گے، پہلے ان کے چند اہم خصوصی اوصاف و امتیازات ملاحظہ ہوں:
آپؓ ذوالنورین تھے، یعنی نبی اکرمﷺ کی دوہری دامادی کا آپؓ کو شرف حاصل تھا، پہلے حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سے آپؓ کی شادی ہوئی، سن 2ھ میں غزوۀ بدر کے موقع پر یہ وفات پا گئیں، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چھوٹی صاحبزادی حضرت اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہا سے سن 3 ہجری میں نکاح ہوا جو 9ھ میں انتقال کر گئیں۔ یہ وہ خصوصیت ہے جو کسی اور کو حاصل نہیں ہوئی، اور اسی وجہ سے آپؓ کو’’ ذو النورین‘‘ یعنی دو نور والے کہا جاتا ہے۔
آپؓ ذوالہجرتین تھے، یعنی ایک بار آپؓ نے مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی، دوسری بار مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی، اس خصوصیت میں اگرچہ بعض دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپؓ کے ساتھ شریک ہیں، لیکن اس میں جو چیز آپؓ کو ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ اس امت میں آپؓ ایسے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنے اہل کے ساتھ ہجرت کی۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر جب رسول اکرمﷺ مسلمانوں کو ساتھ لے کر عمرہ کی غرض سے مکہ تشریف لے جا رہے تھے تو قریش نے آپﷺ کو روک دیا، ان سے بات چیت اور مصالحت کی غرض سے آپﷺ نے حضرت عثمانؓ کو اپنا سفیر بنا کر مکہ بھیجا، مکہ سے واپسی میں سیدنا عثمان غنیؓ کو تاخیر ہوئی تو اللہ کے رسولﷺ مضطرب ہو گئے، اسی حالت میں ایسی خبریں آنے لگیں کہ انہیں شہید کر دیا گیا ہے، رسول اللہﷺ نے یہ خبر سن کر سیدنا عثمانؓ کے خون کے انتقام کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایک درخت کے نیچے بیعت لی۔ اور آخر میں آپﷺ نے اپنا دایاں دست مبارک بائیں پر رکھتے ہوئے فرمایا کہ یہ سیدنا عثمانؓ کی طرف سے ہے۔’’یہ حضرت عثمانؓ کے تاجِ فخر کا وہ طرۂ شرف ہے جو ان کے علاوہ کسی اور کے حصہ میں نہ آیا‘‘۔
علامہ محب الدین الخطیب سیدنا عثمانؓ کی اس منقبت کے تذکرے کے موقع پر لکھتے ہیں کہ امیر المؤمنین سیدنا عثمانؓ اگر مسیح علیہ السلام کے حواریوں میں سے ہوتے اور ان کو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی طرف سے یہ شرف حاصل ہوا ہوتا جس شرف سے اللہ تعالیٰ نے انہیں نبی رحمت جناب محمد رسول اللہﷺ کے ذریعہ نوازا تھا تو عیسائی ان کی پرستش کرنے لگتے۔ لیکن تعجب ہے اس امت پر کہ اس میں ایسے ایسے نادان پڑے ہیں جو بیعتِ رضوان سے حضرت عثمانؓ کی غیر حاضری کو ان کا جرم گردانتے ہیں، اور ان نادانوں میں کچھ ایسے خود ساختہ بہادر ہیں جو اس رحم دل خلیفہ کا خون بہانے کی جرأت کرتے ہیں اور اس کے جواز کے لیے ان کے چند قصور گناتے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے۔ (العواصم من القواصم: صفحہ، 106 حاشیہ نمبر، 2)
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اس امت کے سب سے حیا دار شخص ہیں، خود اللہ کے رسولﷺ ان کی اس صفت کا بہت پاس و لحاظ رکھتے تھے، اور فرماتے تھے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیا سے فرشتے بھی شرماتے ہیں۔ ایک حدیث میں ’’اصدقہا حیاء عثمان‘‘ کہہ کر آپﷺ نے حضرت عثمانؓ کو امتِ محمدیہ کا سب سے حیا دار فرد قرار دیا ہے۔
غزوۀ احد کے بعد 4 ہجری میں غزوۀ ذات الرقاع پیش آیا، نبی اکرمﷺ جب اس مہم میں تشریف لے گئے تو حضرت عثمانؓ کو مدینہ میں اپنا قائم مقام اور نائب مقرر فرمایا، یہ بہت بڑا اعزاز تھا جو بارگاہِ رسالت سے ان کو عطا ہوا تھا۔
سیدنا عثمانؓ نبی اکرمﷺ پر نازل ہونے والی وحی کو تحریر کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی شامل تھے۔
مذہبی خدمات کے سلسلے میں حضرت عثمانؓ کا سب سے روشن کارنامہ قرآن کریم کو اختلاف و تحریف سے محفوظ کرنا اور اس کی عام اشاعت ہے، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے پر آپؓ نے اُم المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے عہدِ صدیقی میں مرتب و مدون کیا ہوا نسخہ لے کر حفاظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک کمیٹی سے اسے نقل کرا کر پوری سلطنت میں اس کی اشاعت کی اور جن مصاحف کو لوگوں نے مختلف املاء سے لکھا تھا صفحہ ہستی سے معدوم کر دیا۔
ازواج:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں، آپؓ کی پہلی بیوی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا بنتِ رسول اللہﷺ تھیں جو 2ھ میں فوت ہوئیں ان کے بطن سے سیدنا عبداللہؓ پیدا ہوئے جو بچپن ہی میں فوت ہو گئے۔
آپؓ کی دوسری بیوی سیدہ اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہا بنتِ رسول اللہﷺ تھیں جن سے3ھ ہجری میں آپؓ کا عقد ہوا، یہ 9ھ میں فوت ہو گئیں۔ ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ ان کے علاوہ جو خواتین آپؓ کے عقد میں آئیں ان کے نام یہ ہیں:
فاختہ بنتِ غزوان، اُمِ عمرو بنتِ جندب، فاطمہ بنتِ ولید، اُم البنین بنتِ عیینہ، رملہ بنتِ شیبہ، نائلہ بنتِ فرافصہ
اولاد:
1: عبداللہ (جوحضرت رقیہؓ کے بطن سے تولد ہوئے)
2: عبداللہ (جو حضرت فاختہؓ کے بطن سے تولد ہوئے)
3: عمرو
4: خالد
5: ابان
6: عمر
7: مریم (یہ پانچوں اُمِ عمرو سے پیدا ہوئے) 
8: ولید
9: سعید
10: اُمِ سعید (یہ تینوں فاطمہ کے بطن سے پیدا ہوئے)
11: عبدالملک (اُم البنین کے بطن سے)
12: عائشہ
13: اُمِ ابان
14: اُمِ عمرو (یہ تینوں رملہ کے بطن سے تولد ہوئے)
15: مریم (نائلہ کے بطن سے تولد ہوئیں) 
اس طرح آپؓ کی بیویوں کی کل تعداد آٹھ ہوئی اور اولاد کی کل تعداد پندرہ (15) جن میں (9) بیٹے اور (6) بیٹیاں ہیں۔