Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

کفار سے دوستی کرنے کی ممانعت


کفار سے دوستی کرنے کی ممانعت

ارشاد خداوندی ہے:

وَلَا تَرۡكَنُوۡۤا اِلَى الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ وَمَا لَـكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مِنۡ اَوۡلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنۡصَرُوۡنَ‏ ۞: یعنی اے مسلمانو! مت جکھو طرف ان لوگوں کی کہ ظلم کرتے ہیں، پس لگے گی تم کو اگ، اور نہیں واسطے تمہارے سوائے اللّٰہ تعالیٰ کے کوئی دوست، پھر مدد نہیں دئیے جاؤ گے۔ حضرات مفسرین کرامؒ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ: ولا تركنوا: میں خطاب رسولﷺ اور تمام مسلمانوں سے کیا گیا، اور ركون کے معنیٰ قدرے جھکنا ہے، تو معنی: ولا تركنوا کے یہ ہوئے کہ اے رسول! اور تمام مسلمانو! نہ جھکو ذرا سا بھی، الى الذين ظلمو: ان لوگوں کی طرف جن سے ظلم فی الجملہ (کم از کم) صادر ہو۔

بس جب ظالم کے قدرے ظلم کی طرف میلان کی وجہ سے بھی جہنم کی آگ ان لوگوں کو لگے گی، تو پھر اس شخص کے متعلق آگ میں جلنے کی سزا ظاہر ہے ،جو سرتا سر ظالم کی طرف مشغول ہو اور جو ظالم کی طرف بالکل مائل ہو۔

اور ظالموں کی طرف میلان میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو ظالموں کی خوشامد کریں، اور ان کے اقوال و اعمال سے خوش ہوں، اور ان کی دوستی میں محبت رکھیں، اور ان کی تہذیب کو پسند کریں، اور ان کی فانی آرائش و زیب و زینت کو چشم رغبت سے دیکھیں، اور ان کی طویل عمر کے لئے دعا کریں، اور ان کا ذکر عزت کے ساتھ کریں، اور جو ان کی دوات و قلم کی اصلاح کریں، اور جو قلم یا کاغذ ان کے ہاتھوں میں دیں، اور جو تعظیم کی غرض سے ان کے پیچھے چلیں، اور جو ان کی شکل و شبہات اختیار کریں اور ان کے کپڑے سیئں اور ان کے سر کے بال مونڈیں۔ (فتاویٰ ختمِ نبوت:جلد، 3 صفحہ ، 377)