شیعہ کا جنازہ پڑھنے والوں کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اہلِ سنت مسلک بریلوی عقیدے کے آدمی کو اہلِ تشیع مرد یا عورت کا جنازہ پڑھنایا پڑھانا جائز ہے کہ نہیں؟ اگر ناجائز ہے تو کس قدر؟ جنازہ پڑھنے اور پڑھانے والے کے نکاح اور ایمان میں کوئی نقصان آیا کہ نہیں؟ جنہوں نے لاعلمی میں پڑھا ان کا کیا حکم ہے؟
جواب: ہمارے علاقے کے رافضی (شیعہ) تبرائی عموماً ایسے عقائد رکھتے ہیں کہ جن میں سے ایک بات کا اعتقاد رکھنا بھی انسان کو دائرہِ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔ اگر مرنے والے کے عقائد اسی قسم کے تھے تو اس کے نمازِ جنازہ پڑھنے والے اہلِ سنت سخت قسم کے مجرم اور کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوئے، ان پر اعلانیہ توبہ کرنا لازم ہے۔
فتاویٰ هندیہ میں ہے: واحكامهم احکام المرتدین
اور ان (بد عقیدہ لوگوں) کے احکام مرتدین کے احکام کی طرح ہیں۔
آج کل عام روافض (شیعہ) اسی قسم کے ہیں، ان کے عالم جاہل، چھوٹے بڑے، تقریراً و تحریراً علی الاعلان ان کفریات کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کے معتقد کو مؤمن کامل جانتے اور اپنا پیشوا و مجتہد مانتے ہیں۔
شفا شریف میں ہے: ولهذا نكفر من لم يكفر من دان بغير ملة المسلمين من الملل او توقف فيهم او شک او صح مذهتهم وان ظهر مع ذلك الاسلام
ترجمہ: ہمارے نزدیک جو کسی غیر مسلم کو کافر نہ مانے یا انہیں کافر کہنے میں توقف کرے یا ان کے کفر میں شک کرے یا ان کے مذہب کو صحیح کہے، وہ کافر ہے، اگر چہ اسلام کا مدعی ہو۔
قرآن کریم میں ہے:
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُواللْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرُبَي مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ أَنَّهُمُ أصْحَبُ الْجَحِيمِ
(سورۃ التوبہ: آيت نمبر، 113)
ترجمہ: لائق نہیں نبیﷺ کو اور مسلمانوں کو کہ بخشش چاہیں مشرکوں کی اگرچہ وہ ہوں قرابت والے جبکہ کھل چکا اُن پر کہ وہ ہیں دوزخ والے۔
(فتاویٰ بھکھی شریف: جلد، 1 صفحہ، 247)