محمد خلیل خان القادری البرکاتی النوری رحمۃ اللہ کا فتویٰ شیعہ لڑکے سے شادی کرنا
محمد خلیل خان القادری البرکاتی النوریؒ کا فتویٰ
سوال: حضور والا مسئلہ یہ ہے کہ ایک سنی لڑکی جو کہ خواہش رکھتی ہے ایک شیعہ لڑکے سے شادی کی۔ حالانکہ لڑکا زبانی اقرار کرتا ہے کہ میں سنی ہوں لیکن لڑکی کسی عالم کی رائے کی خواہش مند ہے اور چاہتی ہے کہ تمام باتیں پتہ چلیں جس کے بعد یہ نکاح جائز صورت میں انجام پائے۔ آپ کی رائے سے اس لڑکی کی مشکل آسان ہو گی۔
جواب: آج کل عام رافضی (جنہیں عام طور پر شیعہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے) ضروریاتِ دین کے منکر اور باجماع امت کفار مرتدین ہیں، یعنی اسلامی برادری سے خارج ہیں۔ علاؤہ اور کفریات کے دو کفر تو ان کے عالم و جاہل، مرد و عورت سب کو شامل ہیں، وہ یہ ہے کہ
- سیدنا علیؓ کو انبیاء سابقین علیھم اسلام سے افضل ماننا اور جو کسی غیر نبی کو نبی سے افضل مانے وہ کافر ہے۔
- اور قرآن کریم سے (معاذ اللہ) صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین و غیرہم اہلِ سنت کا چند پارے یا سورتیں یا آیتیں گھٹانا، کچھ الفاظ تغیر تبدل کر دینا۔ اور جو قرآن عظیم کے ایک حرف، ایک نقطے کی نسبت ایسا گمان کرے وہ کافر ہے۔
قال الله تعالیٰ اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّكۡرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰـفِظُوۡنَ ۞
(سورۃ الحجر: آیت نمبر، 9)
لہٰذا جزم کیا جاتا ہے کہ آج کل رافضیوں میں کوئی مسلمان ملنا ایسا ہی مشکل ہے جیسا کووں میں سفید رنگ والا۔ ایسوں کے ساتھ مناکحت تو قطعی حرام و زنائے خالص ہے۔ جو اپنی بہن، بیٹی ان کو دے دیوث ہے۔ اس عقیدہِ باطل کے ذریعے سے جو نام اس بہن، بیٹی کو ملنے والے ہیں ان میں ہلکے نام یہ ہیں، زانیہ، فاجرہ، فاحشہ تو جو اسے پسند کرتا ہو اس کبیر ہ فاحشہ پر اقدام کرے، ورنہ اللہ رب العزت کے غضب سے ڈرے۔
اوراگر بالفرض کوئی رافضی ایسا ملے جسے مسلمان کہہ سکیں تو سیدنا فاروق اعظمؓ پر تبرّا بکنے سے ان میں سے کون محفوظ ملے گا؟ اور یہ تبرا بھی کفر ہے، تو فقہائے کرام کے طور پر تبرائی کے ساتھ مناکحت میں وہی احکام ہوں گے۔ اور بفرض غلط اس سے بھی محفوظ ملے تو آخر گمراہ، بد دین ہونے میں تو شبہ نہیں، اور ایسوں کو بیٹی دینا شرعاً گناہ ممنوع ہے اور لڑکی بالغ ہو تو اس پر ایسے نکاح سے دور بھاگنا لازم و فرض ہے۔
ہاں! اگر وہ لڑکاواقعی شرعی طور پر شیعیت سے علی الاعلان توبہ کر کے اسلام قبول کرے اور دل مطمئن ہو تو اب وہ احکام نہ ہوں گے، اس سے مناکحت بلاشبہ جائز ہو گی۔ لیکن فرض ہے کہ اس جانب سے پوری پوری طرح اطمینان قلب حاصل کر لیا جائے، ورنہ ایسوں سے بعد حصول مقصد آنکھیں چرانا رات دن کا مشاہدہ ہے۔
(فتاوىٰ خليليہ جلد، 1 صفحہ، 81)