جس نے اپنی لڑکی شیعوں میں دی، اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم
سوال: کیا کہتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے متعلق کہ ایک شخص جو خطیب اور سنی بریلوی ہے، اس نے اپنی لڑکی کا نکاح ایک شیعہ سے کیا ہے جو رافضی ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بُرا کہتے سنا گیا ہے۔ ایسے خطیب کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نا جائز؟
جواب: رافضی تبرائی اپنے عقائد مخصوصہ کی بناء پر کافر و مرتد خارج از اسلام ہیں۔ انہیں اپنی بیٹی دینا سخت قہر، قاتل زہر ہے، کیونکہ عورتیں مغلوب و محکوم ہوتی ہیں، پھر انہیں شوہر کی محبت بھی ماں باپ سے تمام دنیا سے زیادہ ہوتی ہے (کمافی الحدیث) پھر وہ نرم دل سب سے زائد ہیں اور ناقصات العقل بھی ہیں تو اپنی لڑکی اس کے نکاح میں دینا اسے اسلام سے خارج ہونے میں مدد کرنا ہے جو خود گناہ عظیم بلکہ کفر ہے۔
ایسا شخص ہرگز امامت کے قابل نہیں، بلکہ شریعت کی نظر میں وہ دیوث ہے کہ اپنی بیٹی کو حرام کاری کیلئے پیش کرتا ہے۔ مسلمان اس سے تنکا توڑ علیحدہ ہو جائیں اور تاوقتیکہ وہ اپنی اس حرام کاری سے باز نہ آئے اور اپنی بیٹی کو اپنے گھر لا کر اعلانیہ توبہ نہ کرے اس سے دور و نفور رہیں۔ امامت تو در کنار اسے اپنے پاس بیٹھنے بھی نہ دیں۔
قال الله تعالىٰ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّكۡرٰى مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَ ۞
(سورۃ الانعام: آیت نمبر، 68)
(فتاویٰ خلیلیہ: جلد، 1 صفحہ، 100)