Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

آغا خانیوں سے تعلقات رکھنا


سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک فرقہ جو اپنے آپ کو اسماعیلی کہتا ہے، پرنس کریم آغا خان کے پیرو کار ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں، حالانکہ اسلامی شعائر، ان کے اندر مفقود ہیں، توحید اور رسالتﷺ کی بجائے صرف آغا خان کو مانتے ہیں اور اپنے بت خانوں میں کریم آغا خان کے فوٹو لگائے ہوئے ہیں۔ استفسار کرنے پر اپنی زبان سے وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں روزہ، حج، زکوٰۃ، نماز وغیرہ کوئی بھی ارکان اسلام میں سے ہمارے دین میں شامل نہیں اور نہ ہی ہم اسے ادا کرنے کے پابند ہیں، پوری قوم اسماعیلیہ کا یہ عمل ہے، اور نہ ہی اسماعیلی فرقہ کے کسی فرد کو آج تک اسلام کا کوئی رکن ادا کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

ان میں سے ایک عورت نے قاعده يسر القرآن جس میں سے ایک چوتھائی حصہ قرآن مجید بھی پھاڑ ڈالا اور اپنی ملازمہ کو حکم دیا کہ ان کی الماری سے اوراق کے ٹکڑوں کو باہر پھینکو۔ ملازمہ نے جب وہ کاغذات اٹھائے تو قرآن مجید کے کاغذات تھے جن کو باہر پھینکنے کا کہا گیا تھا۔ قرآن مجید کو ازراہ گستاخی یا حقارت پھاڑ ڈالنے کا کیا حکم ہے؟ اس جرم کو معاف کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟

جواب: روافض کے اخبث ترین غالی فرقہ نصیریہ کی ایک نا پاک ترین شاخ کو اس زمانہ میں آغا خانی فرقہ کہا جاتا ہے۔ یہ فرقہ اپنے عقائد ملعونہ کی بناء پر ایسا کافر و مرتد ہے کہ جو انہیں جانتے ہوئے کافر مرتد نہ کہے وہ خود کافر و مرتد ایسوں سے کفر و ارتداد کے علاؤہ امید رکھنا فضول و بے ہودہ ہے۔ ان سے سلام و کلام تو در کنار لین دین کے معاملات اور ملازمت بھی حرام و نا جائز ہے۔ آپ یہاں ایسے لوگوں کا یہی علاج کر سکتے ہیں کہ ان سے تنکا توڑ دیا جائے۔ یہی قرآنی حکم ہے۔

فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّكۡرٰى مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَ۞

(سورۃ الانعام: آیت نمبر، 68)

اور یہی احادیث نبویہ کا ارشاد ہے۔

ایاکم واياهم لا يضلونكم ولا يفتنونكم

(فتاوىٰ خليليہ: جلد، 1 صفحہ، 144)