کسی شیعہ اور مرتد کو مسجد میں جلسے کی اجازت دینا
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے متعلق کہ ہم اہلِ سنت والجماعت کی جامع مسجد امریکن کوارٹر میں بعض شیعہ لوگ ولادت امام مہدی کے سلسلہ میں جلسہ کرنا چاہتے ہیں ۔ لہٰذا ہم کارکنان مسجد اس جلسہ کی مسجد میں اجازت از روئے شرع مطہرہ دے سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب: شیعہ تین قسم کے ہیں:
اول غــالی: کہ منکرِ ضروریات دین ہوں، مثلاً قرآن مجید کو ناقص بتائیں یا بیان عثمانیؓ بتائیں یا سیدنا علیؓ خواه دیگر ائمہ کرام کو انبیاء سابقین علیہم السلام خواہ کسی ایک نبی سے افضل جانیں یا حضور اکرمﷺ پر تبلیغ دین متین میں تقیہ کی نسبت رکھی الی غیر ذلک من الكفريات یہ لوگ یقیناً، قطعاً، اجماعاً کافر مطلق ہیں اور ان کے احکام مشکل مرتد ہیں۔
فتاویٰ ظهیریہ و فتاویٰ هندیہ میں ہے احکامھم احکام المرتدین آج کل کے اکثر بلکہ تمام روافض تبرّائی اسی قسم کے ہیں۔
دوم تبرائی: کہ عقائد کفریہ اجمالیہ سے اجتناب اور صرف سبّ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا ارتکاب کرتے ہیں اوران میں سے منکران خلافت شیخینؓ اور انہیں بُرا بھلا کہنے والے فقہائے کرام کے نزدیک کافر مرتد ہیں مگر مسلک محققین قول متکلمین ہے کہ یہ بدعتی، ناری جہنمی کے القاب اور بلاشہ لعنتِ الہٰی کے مورد ہیں۔
سوم تفضیلی: کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو خیر سے یاد کرتے ہیں، خلفائے اربعہؓ کی امامت کو حق جانتے ہیں مگر صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حضرات شیخینؓ سے افضل مانتے ہیں، انہیں اگرچہ کفر سے کچھ علاقہ نہیں مگر بد مذہب، بد دین، بدعتی ضرور ہیں۔ اور مرتدین و کفار تو مرتدین و کفار ہے۔ بد مذہبوں کے ساتھ کوئی علاقہ دوستی و صورت پیدا کرنا حرام اور سخت گناہ ہے اور ان سے دُور بھاگنا لازم و ضروری ہے نہ کہ اپنے ارادہ و اختیار سے انہیں اپنی مساجد میں آنے دینا، نہ صرف آنے دینا بلکہ انہیں اپنے کفریات و ضلالات کی تبلیغ کیلئے میدان وسیع کر دینا نہ صرف اپنے بلکہ عوام اہلِ سنت والجماعت کے دین و ایمان کو بگاڑنا و خراب کرنا ہے۔ اور کچھ نہ ہو تو مسلمانوں کو ایذا پہنچانا ضرور ہے اور مسلمانوں کو ایذا دینا حرام و سخت حرام ہے۔
علمائے کرام تصریح فرماتے ہیں کہ جس کو گندہ دینی کا عارضہ ہو یا کوئی بد بودار زخم ہو یا کوئی دوا
بدبو دار لگائی ہو تو جب تک بو منقطع نہ ہو اس کو مسجد میں آنے کی ممانعت ہے، بلکہ خود حدیث شریف میں وارد ہے کہ جو شخص اس بدبودار درخت (کچا لہسن پیاز) کو کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کہ ملائکہ کو اس سے ایذا ہوتی ہے۔ اسی طرح جو شخص لوگوں کو زبان سے ایذا دیتا ہو وہ مسجد سے روکا جائے گا۔
اور شک نہیں کہ بد مذہبوں اور بد دینوں سے یقیناً مسلمانوں کو ایذا ہوتی ہے، نہیں نہیں، بلکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ جل شانہ اور حضور اکرمﷺ اور ان کے محبوبوں کو ایذا دیتے ہیں۔ لہٰذا ان کو مسجد میں آنے اور پھر یہاں اپنے عقائدِ باطلہ کی تبلیغ کی اجازت ہرگز ہرگز نہیں دی جا سکتی۔ جبکہ سوال ظاہر کرتا ہے کہ اس جلسہ کی بنیاد ہی ایسے مسئلہ پر ہے جس میں حضرات اہلِ سنت کو ان شیعوں سے اختلاف ہے۔ اراکینِ مسجد اگر ایسے جلسہ کو کرنے کی اجازت مسجد میں دیں گے تو خود ہی مستحق و موردِ عتاب الہٰی ہوں گے۔
(فتاویٰ خلیلیہ جلد، 1 صفحہ، 155)