Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

رافضی مرتد ہیں ان سے نکاح نہیں ہو سکتا


سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کوئی سنی لڑکی بالغ ایک شیعہ مرد سے عقد نکاح پر مصر ہے اور اس کے علاؤہ کسی اور سے عقد نکاح پر راضی نہ ہو تو لڑکی کے وارثوں پر شریعت محمدی کی رو سے کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ 

جواب: آج کل کے اکثر بلکہ تمام رافضی تبرّائی ضروریاتِ دین کے منکر ہیں مثلاً قرآن مجید کو ناقص بتاتے یا اسے بیان عثمانی کہتے ہیں یا سیدنا علیؓ کو انبیائے سابقین علیہم السلام، خواہ کسی ایک نبی سے افضل جانتے ہیں یا حضور اکرمﷺ پر تبلیغ دین متین میں تقیہ کی تہمت رکھتے ہیں الى غير ذلك من الكفريات ایسے لوگ جمہور اہلِ اسلام کے نزدیک یقیناً قطعاً کافر، مرتد، خارج از اسلام اور اسلام سے قطعی بے تعلق علاقہ ہیں، اگرچہ کلمہ پڑھیں، اور ان کے احکام وہی ہیں جو مرتدین کے ہیں

فتاویٰ هندیہ، فتاوی ظهیریہ وغیرہ میں ہے: واحكامهم احکام المرتدين

اور مرتد خواہ مرد ہو یا عورت، اس کا نکاح تمام عالم اسلام میں کسی مرد و عورت یا کافر مرتد یا اصلی کافر کسی سے نہیں ہو سکتا، یہاں تک کہ ان کے ہم مذہب سے بھی۔

فتاویٰ خانیہ و فتاویٰ هندیہ وغیرہ میں ہے: واللفظ للاخرة لايجوز للمرتدان يتزوج مرتدة ولا مسلمة ولاكافرة اصلية وكذلك لا يجوز نكاح مرتدة مع احد

اس عبارت کا حاصل وہی ہے کہ مرتد کا نکاح نہ کسی مسلمان سے ہو سکتا ہے، نہ کافر سے، نہ مرتد سے، نہ اس کے ہم مذہب سے۔ اور جب حقیقتاً نکاح نہیں ہو سکتا تو نام نکاح اس ناجائز کو جائز، اور حرام کو حلال نہیں کر سکتا، جس سے نکاح ہو گا زناۓ محض ہوگا اور اولاد ولد الزنا ہو گی۔

پھر محل غور ہے کہ جب سنیہ بنت سنی جبکہ وہ صالحہ عابدہ ہو اس کا نکاح، ولی کی صریح اجازت کے بغیر کسی فاسق معلن سے نہیں ہو سکتا، کیونکہ ليس فاسق كفو الصالحہ فاسق في العمل، پارسا عورت کا کفو نہیں تو جو بھی شخص فاسق فی العقیدہ ہے وہ کیسے اس سنیہ بنت سنی کا کفو ہو سکتا ہے؟

تو اگر نکاح کر بھی لیا تو شرعاً ہرگز معتبر نہ ہو گا۔ اور عورت زنا و بد کاری میں مبتلا ہو کر زانیہ، فاحشہ اور فحتبہ کاسبہ رنڈی جیسے القاب کی مستحق ہو گی۔ پھر چونکہ یہ امر، اولیائے زن کیلئے بھی باعث ننگ و عار ہے اس لیے انہیں اختیار ہے کہ جس طرح بن پڑے، اپنی عزت و آبرو اور خاندان کو رسوائی فصیحت سے بچانے کے لیے جائز اقدام کریں، اسے گھر میں محبوس کر لیں، گھر کو اس کیلئے قید خانہ بنا دیں اور ضرورت سمجھیں تو حاکم وقت سے اس میں مدد لیں۔

(فتاوىٰ خليليہ: جلد، 2 صفحہ، 34