کون سے شیعہ سے نکاح، زنا نہ ہو گا، اور اس کی اولاد کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ سنی العقیدہ لڑکی کا عقد (نکاح) شیعہ العقیدہ مرد کے ساتھ ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اور اگر اس قسم کے اشخاص سے نکاح ہوا ہو تو اس کے نتیجہ میں جو اولاد ہوئی تو اُن کے متعلق کیا مسئلہ ہے؟ آیا وہ جائز اولاد ہے یا نا جائز ؟
جواب: جو ان میں کوئی کفریہ عقیدہ رکھتا ہے جیسے آج کل کے عام رافضی، اس کے ساتھ تو کسی کا نکاح ہو ہی نہیں سکتا، یہاں تک کہ خود اس کے ہم مذہب کا بھی۔ جو ان کفریہ عقائد سے بچاہوا ہو (حالانکہ آج کل شیعوں میں ایسا ملنا جو تبرّائی رافضی نہ ہو، اور اسے ضعیف طور پر بھی مسلمان کہ سکیں شاید ایساہی دشوار ہو گا جیسے حبشیوں میں چمپئ رنگ کا آدمی یا سفید رنگ کا کوا) اس کے ساتھ نکاح اگر چہ بایں معنیٰ درست کہہ کر کر لیں تو درست ہو جائے گا، زنا نہ ہو گا مگر بدمذہبوں کے ساتھ ایسا بڑا علاقہ پیدا کرنے سے دور بھاگنا لازم ہے۔
زوجیت وہ عظیم رشتہ ہے کہ خواہی نہ خواہی باہم انس و محبت و الفت پیدا کرتا ہے، تو انہیں اپنی بیٹی دینا اور بھی سخت قہر، قاتل زہر ہے، کیونکہ عورتیں مغلوب و محکوم ہوتی ہیں، پھر وہ نرم دل بھی زائد ہے، اور عقل و دین میں ناقص بھی۔ بہر حال پہلی صورت میں کہ وہ شیعہ مرد، غالی رافضی اور تبرّائی ہو تو اولاد محض ولد الزنا ہو گی اور دوسری صورت میں کہ وہ کفریہ عقائد نہیں رکھتا تو اولاد کا نسب ثابت مانا جائے گا۔
(فتاویٰ خلیلیہ: جلد، 2 صفحہ، 35)