اسلام قبول کرنے کے بعد غیر مسلموں سے تعلق رکھنا
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک عورت جو مسلمان ہو گئی ہے، دوبارہ غیر مسلموں سے ملتی ہے۔ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟
جواب: جو عورت اپنی مرضی سے بلا اکراہ و جبر، اسلام قبول کر چکی، مسلمان ہو چکی، اور بحکم شرع مطہر کسی مسلمان مرد سے نکاح میں آچکی ہو، وہ مسلمانوں کی حفاظت میں ہے۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ اس کی حفاظت کریں اور اسے ہرگز ہرگز اس کے غیر مسلم عزیزوں سے نہ ملنے دیں جبکہ یہ اسلام قبول کر چکی تو غیر مسلموں سے اس کا کیا تعلق؟ کیا واسطہ؟ یہ اب بھی ان سے ملے گی تو وہ ضرور اسے بہکائیں گے، اسلام سے ہٹائیں گے۔ اور بالفرض اگر وہ اسلام سے پھر گئی اور اپنے سابقہ رشتہ داروں سے مل گئی تو اس نے جہنم کمایا اور اپنی سب نیکیوں کو خاک میں ملایا۔ جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے مَنۡ يَّرۡتَدَّ مِنۡكُمۡ عَنۡ دِيۡـنِهٖ الخ
(سورۃ المائدہ: آیت نمبر، 54)
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ عورت اگر مرتد ہو جائے، دین اسلام سے نکل کر مثلاً یہودی یا نصرانی بن جائے تو حاکم اسلام پر لازم ہے کہ وہ اسے قید میں ڈال دے، یہاں تک کہ توبہ کرے اور مسلمان ہو جائے۔ اگر ارتداد سے توبہ نہ کرے، اسلام میں واپس بھی نہ آئے تو اسے اپنے شوہر سے مہر وغیرہ وصول کرنے کا کوئی حق نہیں، کیونکہ اس نے اپنے تمام حقوق خود ہی خاک میں ملا دیئے، ہاتھ سے گنوا دیئے۔
مسلمانوں پر فرض ہے کہ جس طرح بھی بن سکے اسلام کی طرف واپس لائیں کہ اب یہ پوری قوم کی آن کا سوال ہے۔
(فتاویٰ خليليہ: جلد، 1 صفحہ، 107)