Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کفار کے ساتھ محبت و دوستی اور ان کے شادی غمی میں شرکت کرنا


سوال: اگر کوئی شخص اہل اسلام میں سے ہمراہ تابوت اہلِ ہنود کے شامل ہو کر بمنزلہ اس کے چتہ تک جاوے اور چلنے تک وہاں نمائش میں رہے، یعنی اُن مسلمانان متذکرہ بالا کے حق میں شرعاً کیا حکم ہے؟

جواب: کفار کی شادی غمی میں شریک ہونا اور ان سے موانست و محبت کرنا خصوصاً ان کے تابوت کے ساتھ جانا جو غایت درجہ کے اتحاد اور باہمی ارتباط پر دلالت کرتا ہے بالکل شرعاً ممنوع ہے۔

کفار، الله تعالیٰ جل شانہ اور حضور اکرمﷺ اور الله تعالیٰ جل شانہ اور حضور اکرمﷺ کے تابعداروں اور فرمانبرداروں کے جانی و مالی دشمن ہیں، موقع پر مسلمانوں کا ساتھ دینے والے نہیں، پس جو قوم کہ الله تعالیٰ جل شانہ اور حضور اکرمﷺ کی دشمن ہو اُس کے ساتھ دوستی کرنا اُس کی شادی غمی میں شریک ہونا گناہ کبیرہ ہے۔

کفار کے ساتھ دوستی و محبت کرنے سے الله تعالیٰ جل شانہ نے قرآن شریف میں سخت منع فرمایا ہے، اور نہایت ہی وعید ظاہر فرمائی ہے۔ چنانچہ آیت کریمہ

لَا يَتَّخِذِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡكٰفِرِيۡنَ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‌ۚ وَمَنۡ يَّفۡعَلۡ ذٰ لِكَ فَلَيۡسَ مِنَ اللّٰهِ فِىۡ شَىۡءٍ اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنۡهُمۡ تُقٰٮةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفۡسَهٗ‌ ؕوَاِلَى اللّٰهِ الۡمَصِيۡرُ ۞

(سورۃ آل عمران: آیت نمبر، 28)

ترجمہ: مؤمن اہلِ ایمان کو چھوڑ کر کفار کو اپنا دوست نہ بنائیں، جو شخص ایسا کام کرے گا تو اس کا اللّٰه تعالیٰ سے کوئی تعلق نہ رہا، مگر یہ کہ تم اپنا بچاؤ کرنا چاہو اور تمہیں اللّٰه تعالیٰ اپنی ذات ( یعنی اپنے غضب) سے ڈراتا ہے، اور اللّٰه تعالیٰ ہی کی طرف لوٹ کر جاتا ہے (پوری پوری اتحاد کفار سے منع کر رہی ہے)۔

اور صاحب تفسیر خازن اس آیت کریمہ کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ الله تعالیٰ جل شانہ نے ایمان والوں کو روک دیا ہے اس سے کہ وہ کافروں کے ساتھ اپنی قرابت (رشتہ داری) یا باہمی محبت یا معاشرت کی وجہ سے ان سے دوستی ہے رکھیں یا ان پر مہربانی کریں، اور خالص الله تعالی جل شانہ کیلئے محبت اور الله تعالیٰ جل شانہ ہی کیلئے دشمنی رکھنا بہت بڑا باب اور اصول ایمان میں سے اصل ہے۔

اور جو لوگ بایں مخالفت کفار کے ساتھ دوستی و محبت رکھنے والے ہیں اُن کے حق میں الله تعالیٰ جل شانہ فرماتے ہیں:

 وَمَنۡ يَّفۡعَلۡ ذٰ لِكَ فَلَيۡسَ مِنَ اللّٰهِ فِىۡ شَىۡءٍ (سورۃ آل عمران: آیت نمبر، 28) 

ترجمہ: اور جو یہ کام کرے گا اس کا کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ مطلب یہ ہے کہ الله تعالیٰ جل شانہ کے دین سے اس کا کوئی واسطہ نہ رہا۔ اور کہا گیا کہ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ الله تعالیٰ جل شانہ کی دوستی میں سے اسے کچھ بھی نہ ملا اور یہی امر معقول ہے، کیونکہ الله تعالیٰ جل شانہ کی دوستی اس کے دشمنوں سے عداوت ہے۔ اور الله تعالیٰ جل شانہ سے دوستی و محبت اور کفار سے بھی محبت و دوستی دو ضد ہیں جو جمع نہیں ہو سکتیں۔

ہاں اگر مسلمان کفار کے ملک میں ہوں اور کفار کا اُن پر ہر طرح غلبہ و تسلط ہو اور یہ خیال یقینی ہو کہ اگر ہم ان کے کے ساتھ ظاہری دوستی و اتحاد نہ کریں گے تو ہماری جان و مال کے دشمن ہو جائیں گے۔ تو ایسی حالت میں اگر اُن کے ساتھ بظاہر راہ و رسم رکھی جائے اور دل میں محبت مسلمانوں کی ہو تو مجبوری کی حالت میں ظاہری راہ و رسم کفار کے ساتھ رکھنے میں چنداں مضائقہ نہیں ہے، جیسا کہ الله تعالیٰ جل شانہ کے قول: اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةً سے مفہوم ہوتا ہے۔ مگر اولی ایسے حالات میں بھی کفار سے اجتناب و احتراز کرنا ہے اور مقتضائے ایمان اس کو چاہتا ہے۔ باقی ان کا نکاح سابق بدستور قائم ہے۔ یہ شرکت کفر و ارتداد نہیں ہے کہ نکاح جاتا رہے، ہاں گناہ کبیرہ بے شک ہے۔ اس سے توبہ کرنی چاہیے۔ اور آئندہ ایسے شفیع فعل سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(فتاویٰ مہریہ: صفحہ، 238)