کفار کے ساتھ دلی محبت و دوستی اور ان کی رسومات میں شرکت کا حکم
سوال: جو لوگ کفار کے ساتھ دوستی محبت رکھتے ہیں اور شادی و غمی میں دوستانہ شریک ہوتے ہیں حتٰی کہ ان کے مردوں کے تابوت کے ساتھ جاتے ہیں، اور مردہ جلنے تک اہل ہنود کے ہمراہ رہتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اہل ہنود کی غمی میں شریک نہ ہوں تو اہل ہنود ان کو کوئی تکلیف نہیں دے سکتے ہیں مگر خواہ مخواہ ان کے ساتھ شریک رہتے ہیں۔ پس ایسے لوگوں کے حق میں شرعی حکم کیا ہے؟ آیا ایسی شرکت سے عند الله ماخوذ ہوں گے یانہیں؟ بلکہ بسا اوقات ان کی شرکت باقی مسلمانوں کے حق میں باعث معضرت ہوتی ہے کہ اہل ہنود غریب مسلمانوں کو زبردستی اپنی خلاف شرع تقریبات میں شریک کرتے ہیں اور ان لوگوں کی شرکت کو بطور سند پیش کرتے ہیں۔ پس آیا یہ گناہ بھی ان لوگوں کے سر پر ہو گا یا نہیں؟ اور غریب مسلمان ایسی شرکت کی وجہ سے خدا تعالیٰ جل شانہ کے نزدیک معذور ہوں گے یا نہیں؟
جواب: کفار کے ساتھ دلی دوستی و محبت شرعاً حرام ہے۔ یہ منافقوں کی حالت و خصلت ہے کہ ظاہر اہل و اسلام سے ملنا اور اپنے ایمان و اسلام کا دعویٰ کرنا اور باطناً کفار کے ساتھ تعلق دلی ومحبت قلبی رکھنا۔ ایسے لوگوں کی خداوند کریم جل جلالہ نے نہایت ہی مذمت فرمائی اور ان کے خلاف نار کا وعدہ فرمایا ہے۔ یعنی ایسے لوگ ہمیشہ مبغوض البی و دائمی جہنمی ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے حق میں آیت کریمہ نازل ہوئی:
تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاؕ-لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اَنْفُسُهُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ فِی الْعَذَابِ هُمْ خٰلِدُوْنَ
(سورۃ المائدہ: آیت نمبر، 80)
ترجمہ: آپ دیکھیں گے ان میں سے بہت لوگوں کو جو کفار سے دوستی رکھتے ہیں، بہت برا ہے، وہ جو ان کے نفسوں نے ان کیلئے آگے بھیجا، یہ کہ اللّٰه تعالیٰ ان پر غضبناک ہوا اور عذاب میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
پس ایسے لوگ جنہوں نے کفار کے ساتھ دلی دوستی رکھی ہے، جس کی وجہ سے غریب مسلمانوں کو تکلیف و اذیت ہوتی رہی ہے، اگر بالا توبہ استغفار مر گئے ہیں تو الله تعالیٰ جل شانہ کے عذاب میں سخت مبتلا ہوں گے، جس پر وفی العذاب هم خلدون دلالت کر رہا ہے۔
باقی غریب مسلمان اگر بخوف جان و مال اہل ہنود کی غمی و شادی میں مجبوری کی حالت میں شریک ہوتے رہے ہیں تو وہ عند الله معذور ہیں۔ ان کا گناہ بھی انہی لوگوں کی گردن پر ہو گا جن کی وجہ سے ان غریبوں کو خلاف شرع تقریبات میں شریک ہونا پڑا ہے۔
(فتاویٰ مہریہ: صفحہ، 240)