Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

نبی کریمﷺ کی طرف سے بنی ھشام ابن مغیرہ کی بیٹی سے نکاح کرنے کی علی ابن ابی طالب کو ممانعت

  جعفر صادق

ابوجہل کی بیٹی کو حضرت علیؓ کا پیغامِ نکاح
اس واقعے کو سیدنا زین العابدین علی بن حسینؓ اور ابومُلَیکہ نے حضرت مسوَر بن مخرمہ سے روایت کیا ہے، اور اس کی تائید حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے۔ نیز سیدنا ابوحنظلہؓ اور سیدنا سوید بن غفلہؓ کی مرسل روایات بھی اس کی مؤید ہیں۔ امام بخاریؒ نے کتاب فرض الخمس، کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ اور کتاب النکاح میں، مسلم نے کتاب فضائل الصحابہ میں، ابوداؤد نے کتاب النکاح میں، ابنِ ماجہ نے کتاب النکاح میں، ترمذی نے کتاب المناقب میں اور حاکم نے کتاب معرفۃ الصحابہ میں متعدد سندوں سے ان روایات کو نقل کیا ہے۔
تفصیل اس قصے کی یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب ابوجہل کا خاندان مسلمان ہو گیا تو حضرت علیؓ نے اس کی بیٹی سے (جس کا نام کسی نے جویریہ، کسی نے غورا اور کسی نے جمیلہ بیان کیا ہے) نکاح کرنا چاہا۔ لڑکی کے خاندان والوں نے کہا کہ ہم رسول اللہﷺ کی بیٹی پر بیٹی نہ دیں گے جب تک آپﷺ سے پوچھ نہ لیں۔ چنانچہ انھوں نے اس کا ذکر حضور اکرمﷺ سے کیا۔ ایک روایت کی رُو سے خود حضرت علی المرتضیٰؓ نے بھی اشارتاً کنایتاً حضور اکرمﷺ سے اجازت طلب کی۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا نے بھی ان باتوں کا چرچا سن لیا اور جا کر اپنے والد ماجد کی خدمت میں عرض کیا کہ آپﷺ کی قوم کے لوگ سمجھتے ہیں کہ آپﷺ کو اپنی بیٹیوں کی پروا نہیں ہے۔ دیکھیے، یہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اب ابوجہل کی بیٹی سے شادی کرنے والے ہیں۔‘‘ اس پر حضور ﷺ نے ایک خطبے میں فرمایا:
إِنَّ بَنِی هِشَامِ بْنِ الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُونِی أَنْ يُنْكِحُوا ابْنَتَهُمْ عَلِی بْنَ أَبِی طَالِبٍ فَلَا آذَنُ لَهُمْ ثُمَّ لَا آذَنُ لَهُمْ ثُمَّ لَا آذَنُ لَهُمْ إِلَّا أَنْ يُحِبَّ ابْنُ أَبِی طَالِبٍ أَنْ يُطَلِّقَ ابْنَتِی وَيَنْكِحَ ابْنَتَهُمْ فَإِنَّمَا ابْنَتِی بَضْعَةٌ مِنِّی يَرِيْبُنِی مَا رَابَهَا وَيُؤْذِينِی مَا آذَاهَا۔
ترجمہ: بنی ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے اس بات کی اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی سیدنا علیؓ بن ابی طالب کے نکاح میں دیں۔ میں اس کی اجازت نہیں دیتا، نہیں دیتا، نہیں دیتا، الا یہ کہ ابو طالب کا بیٹا میری لڑکی کو طلاق دے کر ان کی لڑکی سے نکاح کر لے۔ میری لڑکی میرا ٹکڑا ہے۔ جو کچھ اسے ناگوار ہو گا وہ مجھے ناگوار ہو گا، اور جو چیز اسے تکلیف دے گی وہ مجھے تکلیف دے گی۔
وَإِنِّی لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلَالًا وَلَا أُحِلُّ حَرَامًا وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِنْتُ عَدُوِّ اللّٰهِ أَبَدًا۔
ترجمہ: میں حلال کو حرام اور حرام کوحلال نہیں کرتا، مگر خدا کی قسم، اللہ کے رسولﷺ کی بیٹی اور اللہ کے رسولﷺ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی۔‘‘
(وفی روایۃ) إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّی وَإِنِّی أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِی دِينِهَا
ترجمہ: ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا مجھ سے ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ وہ کہیں اپنے دین کے معاملے میں فتنے میں نہ پڑ جائے۔‘‘
اس واقعے پر آدمی کو یہ شبہہ لاحق ہو سکتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے خود بھی بہت سی شادیاں کیں اور عام لوگوں کو بھی چار تک بیویاں بیک وقت رکھنے کی اجازت دی۔ مگر خود اپنی بیٹی پر ایک سوکن کا آنا بھی آپﷺ نے گوارا نہ کیا۔ سوکن کے آنے سے جو اذیت آپﷺ کی بیٹی کو، اور بیٹی کی خاطر خود آپﷺ کو ہو سکتی تھی، وہی اذیت دوسری عورتوں اور ان کے ماں باپ کو بھی تو لاحق ہوتی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آپﷺ نے اپنے حق میں تو اسے برداشت نہ کیا اور دوسروں کے حق میں اسے جائز رکھا۔
بظاہر یہ ایک سخت اعتراض ہے اور معاملے کی سادہ صورت دیکھ کر آدمی بڑی اُلجھن میں پڑ جاتا ہے۔ لیکن تھوڑا سا غور کیا جائے تو اس کی حقیقت سمجھ میں آ جاتی ہے۔ یہ بات ناقابلِ انکار ہے کہ ایک عورت کا شوہر اگر دوسری بیوی لے آئے تو اس عورت کو فطرتاً یہ ناگوار ہوتا ہے اور اس کے ماں، باپ، بھائی، بہن اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی اس سے اذیت ہوتی ہے۔شریعت نے ایک سے زیادہ نکاحوں کی اجازت اس مفروضے پر نہیں دی ہے کہ یہ چیز اس عورت کو اور اس کے رشتے داروں کو ناگوار نہیں ہوتی جس پر سوکن آئے۔ بلکہ اس امرِ واقعہ کو جانتے ہوئے شریعت نے اسے اس لیے حلال کیا ہے کہ دوسری اہم تر اور معاشرتی مصلحتیں اس کو جائز کرنے کی متقاضی ہیں۔ شریعت یہ بھی جانتی ہے کہ سوکنیں بہرحال سہیلیاں اور شوہر شریک بہنیں بن کر نہیں رہ سکتیں۔ ان کے درمیان کچھ نہ کچھ کش مکش اور چپقلش ضرور ہو گی اور خانگی زندگی تلخیوں سے محفوظ نہ رہ سکے گی۔ لیکن یہ انفرادی قباحتیں اس عظیم تر اجتماعی قباحت سے کم تر ہیں جو یک زوجی کو بطورِ قانون لازم کرنے سے پورے معاشرے میں پیدا ہوتی ہے۔اسی وجہ سے شریعت نے تعدد ازواج کو حلال قرار دیا ہے۔
اب دیکھیے کہ رسول اللہﷺ کے معاملے میں کیا پیچیدگی واقع ہوتی ہے۔ شرعاً آپﷺ کی بیٹی پر بھی سوکن لانا آپﷺ کے داماد کے لیے حلال تھا۔ اسی لیے حضرت علی المرتضیٰؓ نے ایسا کرنے کا ارادہ کیا۔ اور اسی وجہ سے حضور اکرمﷺ نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ ان کے لیے یہ فعل حرام ہے۔ بلکہ آپﷺ نے خود تصریح فرمائی کہ میں حلال کو حرام نہیں کرتا۔ لیکن یہاں حضور اقدسﷺ کی ایک ہی شخصیت میں دو مختلف حیثیتیں جمع تھیں۔ ایک حیثیت میں آپﷺ انسان تھے اور فطرتاً یہ ممکن نہ تھا کہ آپﷺ کی صاحب زادی کے گھر میں سوکن آنے سے جو تلخی پیدا ہو، اس کا تھوڑا یا بہت اثر آپﷺ کی طبیعت پر نہ پڑے۔ دوسری حیثیت میں آپﷺ اللہ کے رسول تھے، اور رسول کی حیثیت سے آپﷺ کا مقام یہ تھا کہ آپﷺ کے ساتھ اگر کسی شخص کے تعلقات خراب ہو جائیں اور کوئی شخص آپ کے لیے موجب اذیت ہو جائے تو اس کے دین و ایمان کی بھی خیر نہ تھی۔ اسی وجہ سے حضور اقدسﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی اور بنی ہشام بن مغیرہ کو بھی اس کام سے روک دیا۔ کیونکہ اگرچہ شرعاً یہ حلال تھا مگر اس کے کرنے سے یہ اندیشہ تھا کہ یہ چیز حضرت علیؓ ؓ اور ان کی دوسری بیوی اور اس کے خاندان والوں کے ایمان اور ان کی عاقبت کو خطرے میں ڈال دے گی۔
ایک اور بات جس کا حضور اکرمﷺ نے اپنے خطبے میں ذکر فرمایا، وہ یہ تھی کہ بنی ہشام بن مغیرہ اسلام اور رسول اللہﷺ کے بدترین دشمن رہ چکے تھے اور فتح مکہ کے بعد تازہ تازہ مسلمان ہوئے تھے۔ خود اس لڑکی کے باپ ابوجہل کے متعلق تو سب کو معلوم ہے کہ حضورﷺ کی دشمنی میں وہ تمام کفار سے بازی لے گیا تھا۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ جنگِ بدر میں وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا اور اس کا خاندان برسوں اس کے جذبۂ انتقام میں تڑپتا رہا۔ اب اگرچہ یہ لوگ اسلام قبول کر چکے تھے، لیکن یہ تحقیق ہونا ابھی باقی تھا کہ یہ قبولِ اسلام واقعی پورے اخلاص اور قلوب کی مکمل تبدیلی کا ثمرہ ہے یا محض شکست کا نتیجہ۔ اس حالت میں اس خاندان کی لڑکی، اور وہ بھی خاص ابوجہل کی بیٹی کا اس گھر میں سوکن بن کر پہنچ جانا، جہاں رسول اللہﷺ کی صاحب زادی ملکۂ اہلِ بیتؓ تھیں ،بڑے فتنوں کا سبب بن سکتا تھا۔ ان لوگوں کی تالیفِ قلب تو کی جا سکتی تھی اور کی بھی گئی، لیکن اسلام کے ساتھ ان کے تعلق کا حال جب تک ٹھیک ٹھیک معلوم نہ ہو جائے،انھیں عین خاندان رسالت میں گھسا لانا اور خود رسول اکرمﷺ کی صاحب زادی کے بالمقابل لاکھڑا کرنا سخت نامناسب اور پُرخطر تھا۔ اس وجہ سے بھی حضور اکرمﷺ نے اس رشتے کو ناپسند کیا اور علی الاعلان کہا کہ خدا کے رسولﷺ کی بیٹی اور خدا کے دشمن کی بیٹی ایک گھر میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ نیز اس بات کی طرف بھی آپﷺ نے اشارہ فرما دیا کہ اس سے سیدہ فاطمہؓ کے فتنے میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک شخص کو اپنے بیاہ شادی کے معاملے میں (اگرچہ وہ بجائے خود حلال ہی سہی) ایسی آزادی نہیں دی جا سکتی جس سے ایک پوری ملت کے لیے فتنہ و شر کا خطرہ پیدا ہو جائے۔
بے شک یہاں یہ اعتراض اٹھ سکتا ہے کہ ابوجہل کے خاندان سے ابوسفیان کا خاندان اسلام کی عداوت میں کچھ کم نہ تھا، پھر اگر ابوجہل کے خاندان کی لڑکی کا خانوادۂ رسالت میں آنا موجبِ فتنہ ہو سکتا تھا تو ابو سفیان کی صاحب زادی (حضرت اُمِ حبیبہؓ) کا خود نبی کریمﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ میں شامل ہو جانا کیوں خطرے سے خالی تھا؟ لیکن دونوں کے حالات کا فرق نگاہ میں ہو تو یہ اعتراض آپنے آپ ختم ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ابوجہل کی لڑکی اور اُم المؤمنین سیدہ اُمِ حبیبہؓ کا سرے سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ابوجہل کی لڑکی اور اس کے چچا اور بھائی، سب کے سب فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے۔ ان کے بارے میں یہ امتحان ہونا ابھی باقی تھا کہ ان کا ایمان کس حد تک اخلاص پر مبنی ہے اور کہاں تک اس میں شکست خوردگی کا اثر ہے۔ بخلاف اس کے حضرت اُمِ حبیبہ رضی اللہ عنہا اس بڑے سے بڑے امتحان سے گزر کر، جو اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بھی کم ہی کسی کو پیش آیا تھا، اپنے کمالِ اخلاص اور اپنی صداقتِ ایمانی کا پورا ثبوت دے چکی تھیں۔ انھوں نے دین کی خاطر وہ قربانیاں کی تھیں جن کی نظیر مشکل ہی سے کہیں اور نظر آ سکتی ہے۔
ذرا غور کیجیے، ابوسفیان کی بیٹی، ہند بنتِ عتبہ (مشہور ہند جگر خوار) کی لختِ جگر، جس کی پھوپھی وہ عورت تھی جسے قرآن میں حَمَّالَةَ الۡحَطَبِ‌ۚ‏ ۞ (سورة المسد: آیت، 4) کا خطاب دیا گیا ہے، جس کا نانا عتبہ بن ربیعہ نبی اکرمﷺ کا بدترین دشمن تھا۔ اس خاندان سے اور اس ماحول سے نکل کر وہ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت حمزہؓ سے بھی پہلے ایمان لاتی ہیں، اپنے شوہر کو مسلمان کرتی ہیں، خاندان والوں کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر مہاجرینِ حبشہ کے ساتھ ہجرت کر جاتی ہیں۔ حبشہ جا کر شوہر عیسائی ہو جاتا ہے اور وہ دین کی خاطر اس کو بھی چھوڑ دیتی ہیں۔ غریب الوطنی کی حالت میں تن تنہا ایک چھوٹی سی بچی کے ساتھ رہ جاتی ہیں اور ان کے عزمِ ایمانی میں ذرّہ برابر تزلزل نہیں آتا۔ کئی برس اس حالت میں جب گزر جاتے ہیں اور ایک بے سہارا خاتون دیارِ غیر میں ہر طرح کے مصائب جھیل کر یہ ثابت کر دیتی ہے کہ دین کو جس پائے کا خلوص، جس مرتبے کی سیرت اور جس درجے کا کردار مطلوب ہے، وہ سب یہاں موجود ہے، تب نبی اکرمﷺ کی نگاہِ انتخاب ان پر پڑتی ہے اور آپﷺ حبشہ ہی میں ان کو نکاح کا پیغام بھیجتے ہیں۔ غزوۂ خیبر کے بعد وہ حبشہ سے واپس آ کر حرمِ نبوی میں داخل ہوتی ہیں۔ اس کے تھوڑی ہی مدت بعد قریش صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں اور ان کو اندیشہ ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ اب مکے پر چڑھائی کر دیں گے۔ اس موقع پر ابو سفیان صلح کی بات چیت کے لیے مدینے آتا ہے اور اس امید پر بیٹی کے ہاں پہنچتا ہے کہ اس کے ذریعے سے صلح کی شرائط طے کرنے میں سہولت ہو گی۔ برسوں کی جدائی کے بعد پہلی مرتبہ باپ سے بیٹی کو ملنے کا موقع ملتا ہے، مگر جب وہ رسول اللہﷺ کے فرش پر بیٹھنے کا ارادہ کرتا ہے تو بیٹی فوراً یہ کہہ کر فرش اٹھا لیتی ہے کہ رسول انورﷺ کے فرش پر ایک دشمنِ اسلام نہیں بیٹھ سکتا۔ ایسی خاتون کا خانوادۂ رسالت میں داخل ہونا تو ہیرے کا ہار میں ٹھیک اپنی جگہ پا لینا تھا۔ اس سے کسی فتنے کے رونما ہونے کا کوئی بعید ترین امکان کیا، وہم بھی نہ ہو سکتا تھا۔ البتہ اس لڑکی کا اس خاندان میں آنا ضرور فتنے کے امکانات اپنے اندر رکھتا تھا جسے اور جس کے خاندان کو صرف فتح نے اسلام میں داخل کیا تھا اور اسلام میں آئے ہوئے جس کو ابھی صرف چند مہینے ہی ہوئے تھے۔ اسی کے بارے میں یہ سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ اسلام اور نبی اکرمﷺ کی عداوت کے اثرات سے اس کا اور اس کے خاندان والوں کا دل پوری طرح پاک ہوا ہے یا نہیں ۔
نبی کریمﷺ نے بنی ھشام ابنِ مغیرہ کے بیٹوں کو سیدنا علی ابنِ ابی طالبؓ سے نکاح کرنے سے منع کیا تو کیا یہ حکم فقط حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے لیے خاص تھا یا آپﷺ کی تمام صاحبزادیوں کے لیے ہے؟
الجواب: یہ حکم تمام بیٹیوں کے لیے تھا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک گھر میں جمع ہوں۔
(صحيح مسلم: حدیث نمبر، 6307 باب: سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی فضیلت)
صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
15: باب فَضَائِلِ فَاطِمَةَ بِنْتِ النَّبِی عَلَيْهَا الصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ
باب: سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی فضیلت
حدیث نمبر، 6307
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ يُونُسَ، وَ قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ كلاهما، عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ ابْنُ يُونُسَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ عُبَيْدِ اللّٰهِ بْنِ أَبِی مُلَيْكَةَ الْقُرَشِی التَّيْمِی، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَهُوَ يَقُولُ: "إِنَّ بَنِی هِشَامِ بْنِ الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُونِی أَنْ يُنْكِحُوا ابْنَتَهُمْ عَلِی بْنَ أَبِی طَالِبٍ، فَلَا آذَنُ لَهُمْ، ثُمَّ لَا آذَنُ لَهُمْ، ثُمَّ لَا آذَنُ لَهُمْ، إِلَّا أَنْ يُحِبَّ ابْنُ أَبِی طَالِبٍ أَنْ يُطَلِّقَ ابْنَتِی، وَيَنْكِحَ ابْنَتَهُمْ، فَإِنَّمَا ابْنَتِی بَضْعَةٌ مِنِّی يَرِيبُنِی مَا رَابَهَا، وَيُؤْذِينِی مَا آذَاهَا"
ترجمہ: حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا: "بنو ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے اجازت چاہی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی حضرت علی بن ابی طالبؓ سے کر دیں، میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا، الاّ یہ کہ ابنِ ابی طالب پسند کرے تو میری بیٹی کو طلاق دے دے اور ان کی بیٹی سے شادی کر لے کیونکہ میری بیٹی میرے جسم کا حصہ ہے جو چیز اسے پریشان کرے وہ مجھے پریشان کرتی ہے۔ جو چیز اس کو ایذا دے وہ مجھے ایذا دیتی ہے۔"
(الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاری: 5278)  
اسلام قبول کرنے والی مشرک عورتوں سے نکاح اور ان کی عدت کا بیان 
عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ الزُّهْرِی، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِی صَلَّى اللّٰهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِنَّ بَنِی الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُوا فِی أَنْ يَنْكِحَ عَلِی ابْنَتَهُمْ، فَلَا آذَنُ
ترجمہ: سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ بنی مغیرہ نے اس کی اجازت مانگی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے وہ اپنی بیٹی کا نکاح کر لیں لیکن میں انہیں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔“ 
(صحيح البخاری، كتاب الطلاق: 5278)
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5278 کا باب: بَابُ نِكَاحِ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الْمُشْرِكَاتِ وَعِدَّتِهِنَّ:
باب اور حدیث میں مناسبت: 
امام بخاری رحمۃ اللہ نے ترجمۃ الباب میں میاں بیوی کے مابین ناچاکی اور نااتفاقی کے امور کی وضاحت فرمائی ہے جب کہ تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس میں بظاہر کوئی ایسے الفاظ وارد نہیں ہیں جو باب سے مناسبت رکھتے ہوں۔ 
علامہ کرمانیؒ رقم طراز ہیں: 
توخز مطابقة الترجمة من كون فاطمۃ ما كانت ترضیٰ بذالك، فكان الشقاق بينهما وبين على متوقعاً فاراد رضى الله عنه دفع وقوعه
(شرح كرماني: جلد، 19 صفحہ، 156)
”امام بخاریؒ کا اس باب میں اس حدیث کو نقل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس نکاح پر راضی نہ تھیں، اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نکاح کر لیتے تو دونوں کے مابین شقاق اور اختلافات کا خدشہ پیدا ہوتا، لہٰذا نبی کریمﷺ نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو نکاح سے روک کر دونوں کے درمیان واقع ہونے والے شقاق و اختلاف کو روک دیا ہے۔“
امام کرمانی رحمۃ اللہ کی وضاحت سے مناسبت کا واضح پہلو اجاگر ہوتا ہے آپ کا مقصد یہ تھا کہ اگر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اس عورت سے نکاح کر لیتے تو سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا اور ان کے درمیان شدید اختلافات نمودار ہو جاتے، لہٰذا اس اختلافات کی وجہ سے امام بخاری رحمۃ اللہ نے تحت الباب اس حدیث کو نقل فرمایا ہے، امام کرمانی کی تطبیق پر حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: 
وهی مناسبة جيدة   (فتح الباری لابنِ حجر: جلد، 90 صفحہ، 345)
ترجمہ: ”یہ ایک بہترین مناسبت ہے۔“
ابنِ التین میں ترجمۃ الباب پر اعتراض فرمایا ہے کہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت موجود نہیں ہے، چنانچہ اس اعتراض کو دور کرتے ہوئے حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ جواب دیتے ہیں کہ: 
واعترضه ابن التين بأنه ليس فيه دلالة على ترجم به، ونقل ابن بطال قبله عن المهلب قال: انما حاول البخاری يايراده ان يجعل قول النبى صلى الله عليه وسلم فلا اذن  
(فتح الباری لابنِ حجر: جلد، 10 صفحہ، 340)
ترجمہ: ”ابن التین نے ترجمۃ الباب پر یہ کہا کہ حدیث سے اس کی کوئی دلالت موجود نہیں ہے، اس کو ابنِ بطال اور مہلب سے نقل کیا ہے کہ ابنِ مہلب نے فرمایا: امام بخاری رحمۃ اللہ نے اس ارادے سے اس حدیث کو پیش فرمایا ہے تحت الترجمۃ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے، ”میں اس کی اجازت نہیں دوں گا“۔ 
یعنی نبی کریمﷺ اس کی اجازت اسی وجہ سے نہیں دے رہے تھے کہ آپﷺ کو ان میاں بیوی میں ناچاکی اور نااتفاقی کا اندیشہ تھا، لہٰذا امام بخاری رحمۃ اللہ کا مقصود یہی ہے۔ 
ابن الملقن رحمۃ اللہ نے بھی یہی مناسب دی ہے۔ دیکھیے: 
(التوضيح لشرح الجامع الصحيح: جلید، 24 صفحہ، 327)
ابنِ المنیرؒ فرماتے ہیں کہ: 
”امام بخاریؒ کے استدلال کا احتمال (ترجمۃ الباب سے) اس حدیث پر ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا، فلا أذن لهم  پس یہ اشارہ اس بات کی دلیل ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ حضرت فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے اس عورت سے شادی نہیں کر سکتے تھے۔“  (المتوری: صفحہ، 299)
دراصل وہ حدیث جس کا ذکر امام بخاریؒ نے تحت الباب فرمایا ہے اس حدیث کا ٹکڑا ہے جسے امام بخاریؒ نے کتاب النکاح میں درج کیا ہے، حدیث میں جو الفاظ ہیں وہ یہ ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک گھر میں جمع ہوں۔ 
اس حدیث کو پڑھنے کے بعد اب تطبیق میں مزید اضافہ ہوا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کا ڈر اس چیز پر منحصر نہیں تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ دوسرا نکاح کر رہے تھے کیونکہ اس دور میں آدمی کا دوسری یا تیسری شادی کرنا ایک عام رجحان تھا لیکن سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کی ناپسندیدگی کا اظہار اس عمل پر موقوف تھا کہ وہ لڑکی ابوجہل کی بیٹی تھی، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے دشمن کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے دوست کی بیٹی ایک آدمی کے نکاح میں کس طرح سے جمع ہو سکتی تھیں؟ 
یہی وجہ تھی نبی کریمﷺ کے انکار کی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کی۔
(عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری: جلد دوئم، حدیث، صفحہ، 105)   
مولانا عطاء اللہ ساجد حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ابنِ ماجہ، تحت الحديث: 1998  
غیرت کا بیان 
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو منبر پہ فرماتے سنا کہ ”ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے مجھ سے اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کر دیں تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، سوائے اس کے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے شادی کرنا چاہیں، اس لیے کہ وہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، جو بات اس کو بری لگتی ہے وہ مجھ کو بھی بری لگتی ہے، اور جس بات سے اس کو تکلیف ہوتی ہے اس سے مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے“۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) 
(سنن ابنِ ماجہ، كتاب النكاح: حدیث، 1998)
اردو حاشہ: 
فوائدومسائل: 
1: نبی اکرمﷺ کو کسی بھی انداز سے پریشان کرنا جائز نہیں، اگرچہ وہ کام اصل میں جائز ہی ہو لیکن رسول اللہﷺ کو کسی خاص وجہ سے ناگوار محسوس ہو رہا ہو۔ 
2: رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ کو ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے سے اس لیے منع کیا کہ اس سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف ہو گی، اس وجہ سے رسول اللہﷺ کا بھی دل دکھے گا۔ اور حضرت علی کو نبیﷺ کو پریشان کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی حاصل ہو گی۔ 
گویا اس ممانعت میں بھی سیدنا علیؓ پر شفقت ہے۔ 
3: منع کی دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا غیرت محسوس کریں گی جس کی وجہ سے شاید اپنے خاوند کے بارے میں محبت کے وہ جذبات قائم نہ رکھ سکیں جو مطلوب ہیں۔ اس طرح یہ رشتہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے ایک امتحان بن جائے گا۔ اور یہ کیفیت نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔ 
4: اپنی اولاد کی تکلیف محسوس کرنا محبت اور شفقت کا ثبوت ہے۔ 
اس تکلیف کو دور کرنے کے لیے جائز حدود میں کوشش کرنا جائز ہے۔ 
(سنن ابنِ ماجہ شرح از مولانا عطاء اللہ ساجد: حدیث، صفحہ نمبر، 1998)   
الشيخ عمر فاروق سعيدی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ابی داؤد، تحت الحديث 2069  
ان عورتوں کا بیان جنہیں بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔ 
علی بن حسین کا بیان ہے وہ لوگ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے زمانے میں یزید بن معاویہ کے پاس سے مدینہ آئے تو ان سے سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ ملے اور کہا: اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے تو میں نے ان سے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہﷺ کی تلوار دے سکتے ہیں؟ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ آپ سے اسے چھین لیں گے، اللہ کی قسم! اگر آپ اسے مجھے دے دیں گے تو اس تک کوئی ہرگز نہیں پہنچ سکے گا جب تک کہ وہ میرے نفس تک نہ پہنچ جائے۔ سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)
سنن ابی داؤد، كتاب النكاح: حدیث، 2069)
فوائد و مسائل: 
1: حضرت فاطمہ رضی اللہ کی اپنے گھر میں اذیت رسولﷺ کے باعث اذیت ہوتی جو حضرت علی رضی اللہ کے لیے ہلاکت کا باعث ہوتی۔ 
اس لیے انہیں بطورِ خاص اس رشتے سے منع کر دیا گیا اور یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ رسول اللہﷺ کو کسی طرح سے بھی اذیت دینا حرام ہے خواہ وہ فعل اصل میں مباح ہی ہو۔ 
قرآن مجید میں ہے کہ:
وَمَا كَانَ لَـكُمۡ اَنۡ تُؤۡذُوۡا رَسُوۡلَ اللّٰهِ ۞(سورۃ الأحزاب: آیت، 53)
ترجمہ: اور تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچاؤ۔ 
2: عترتِ رسولﷺ کو کسی طرح سے دکھ دینا اور ان کی ہتک کرنا، رسول اکرمﷺ کی ناراضی کا باعث ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو مستلزم ہے۔ 
مگر لازمی شرط ہے کہ آلِ رسولﷺ کہلانے والے اس کی شریعت کے حامل بھی ہوں۔ 
3: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اقدسﷺ کی محبوب ترین صاحبزادی تھیں اور وہ اس امت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ 
4: جائز ہے کہ انسان اپنی بیٹی کی وجہ سے غیرت اور غصے میں آئے لیکن اگر کوئی شخص اپنے آپ کو رسول اللہﷺ اور حضرت فاطمہؓ پر قیاس کرنے لگے تو یہ ایک لغو قیاس ہے۔ 
5: صاحبِ فضل داماد کی مدح و توصیف کی جا سکتی ہے۔ 
(سنن ابی داؤد شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی: حدیث، صفحہ نمبر، 2069)