Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

نبی کریمﷺ کی طرف سے بنی ھشام ابن مغیرہ کی بیٹی سے نکاح کرنے کی علی ابن ابی طالب کو ممانعت

  جعفر صادق

نبی کریمﷺ کی طرف سے بنی ھشام ابن مغیرہ کی بیٹی سے نکاح کرنے کی علی ابن ابی طالب کو ممانعت


ابوجہل کی بیٹی کو حضرت علیؓ کا پیغامِ نکاح

اس واقعے کو امام زین العابدین علی بن حسین ؓ اور ابومُلَیکہ نے حضرت مِسْوَر بن مخرمہ سے روایت کیا ہے، اور اس کی تائید حضرت عبداﷲ بن زبیر کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے۔ نیزابوحنظلہ اور سوید بن غفلہ کی مرسل روایات بھی اس کی مؤید ہیں ۔اما م بخاریؒ نے کتاب فرض الخمس، کتاب فضائل اصحاب النبیؐ اور کتاب النکاح میں ، مسلم نے کتاب فضائل الصحابہ میں ، ابودائود نے کتاب النکاح میں ، ابن ماجہ نے کتاب النکاح میں ، ترمذی نے کتاب المناقب میں اور حاکم نے کتاب معرفۃ الصحابہ میں متعدد سندوں سے ان روایات کو نقل کیا ہے۔
تفصیل اس قصے کی یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب ابوجہل کا خاندان مسلمان ہوگیا تو حضرت علیؓ نے اس کی بیٹی سے(جس کا نام کسی نے جویریہ، کسی نے غورا اور کسی نے جمیلہ بیان کیا ہے) نکاح کرنا چاہا۔لڑکی کے خاندان والوں نے کہا کہ ہم رسول اﷲ ﷺ کی بیٹی پر بیٹی نہ دیں گے جب تک آپؐ سے پوچھ نہ لیں ۔ چنانچہ انھوں نے اس کا ذکر حضورﷺ سے کیا۔ ایک روایت کی رُو سے خود حضرت علیؓ نے بھی اشارتاًکنایتاً حضور ﷺ سے اجازت طلب کی۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ نے بھی ان باتوں کا چرچا سن لیا اور جاکر اپنے والد ماجد کی خدمت میں عرض کیا کہ ’’آپﷺ کی قوم کے لوگ سمجھتے ہیں کہ آپؐ کوا پنی بیٹیوں کی پروا نہیں ہے۔دیکھیے، یہ علی اب ابوجہل کی بیٹی سے شادی کرنے والے ہیں ۔‘‘ اس پر حضور ﷺ نے ایک خطبے میں فرمایا:

إِنَّ بَنِي هِشَامِ بْنِ الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُونِي أَنْ يُنْكِحُوا ابْنَتَهُمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَلَا آذَنُ لَهُمْ ثُمَّ لَا آذَنُ لَهُمْ ثُمَّ لَا آذَنُ لَهُمْ إِلَّا أَنْ يُحِبَّ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ أَنْ يُطَلِّقَ ابْنَتِي وَيَنْكِحَ ابْنَتَهُمْ فَإِنَّمَا ابْنَتِي بَضْعَةٌ مِنِّي يَرِيْبُنِي مَا رَابَهَا وَيُؤْذِينِي مَا آذَاهَا۔(

{ FR 1967 })

’’بنی ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے اس بات کی اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی علی بن ابی طالب کے نکاح میں دیں ۔ میں اس کی اجازت نہیں دیتا،نہیں دیتا، نہیں دیتا، الا یہ کہ ابو طالب کا بیٹا میری لڑکی کو طلاق دے کر ان کی لڑکی سے نکاح کرلے۔میری لڑکی میرا ٹکڑا ہے ۔جو کچھ اسے ناگوار ہوگاوہ مجھے ناگوار ہوگا،اور جو چیز اسے تکلیف دے گی وہ مجھے تکلیف دے گی۔‘‘

وَإِنِّي لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلَالًا وَلَا أُحِلُّ حَرَامًا وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ أَبَدًا۔

({ FR 1968 })

’’میں حلال کو حرام اور حرام کوحلال نہیں کرتا، مگر خدا کی قسم، اﷲ کے رسول کی بیٹی اور اﷲ کے رسول کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی۔‘‘


(وفی روایۃ) إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّي وَإِنِّي أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا

({ FR 1969 })

’’ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا،فاطمہ مجھ سے ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ وہ کہیں اپنے دین کے معاملے میں فتنے میں نہ پڑ جائے۔‘‘
اس واقعے پر آدمی کو یہ شبہہ لاحق ہوسکتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے خود بھی بہت سی شادیاں کیں اور عام لوگوں کو بھی چار تک بیویاں بیک وقت رکھنے کی اجازت دی۔ مگر خود اپنی بیٹی پر ایک سوکن کا آنا بھی آپﷺ نے گوارا نہ کیا۔ سوکن کے آنے سے جو اذیت آپﷺ کی بیٹی کو،اور بیٹی کی خاطرخود آپﷺ کو ہوسکتی تھی،وہی اذیت دوسری عورتوں اوران کے ماں باپ کو بھی تو لاحق ہوتی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آپؐ نے اپنے حق میں تو اسے برداشت نہ کیا اور دوسروں کے حق میں اسے جائز رکھا۔
بظاہر یہ ایک سخت اعتراض ہے اور معاملے کی سادہ صورت دیکھ کر آدمی بڑی اُلجھن میں پڑ جاتا ہے۔ لیکن تھوڑا سا غور کیا جائے تو اس کی حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے۔ یہ بات ناقابل انکار ہے کہ ایک عورت کا شوہر اگر دوسری بیوی لے آئے تو اس عورت کو فطرتاًیہ ناگوار ہوتا ہے اور اس کے ماں باپ ، بھائی بہن اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی اس سے اذیت ہوتی ہے۔شریعت نے ایک سے زیادہ نکاحوں کی اجازت اس مفروضے پر نہیں دی ہے کہ یہ چیز اس عورت کو اور اس کے رشتے داروں کو ناگوار نہیں ہوتی جس پر سوکن آئے۔ بلکہ اس امر واقعہ کو جانتے ہوئے شریعت نے اسے اس لیے حلال کیا ہے کہ دوسری اہم تراور معاشرتی مصلحتیں اس کو جائز کرنے کی متقاضی ہیں ۔ شریعت یہ بھی جانتی ہے کہ سوکنیں بہرحال سہیلیاں اور شوہر شریک بہنیں بن کر نہیں رہ سکتیں ۔ ان کے درمیان کچھ نہ کچھ کش مکش اور چپقلش ضرور ہوگی اور خانگی زندگی تلخیوں سے محفوظ نہ رہ سکے گی۔ لیکن یہ انفرادی قباحتیں اس عظیم تر اجتماعی قباحت سے کم تر ہیں جو یک زوجی کو بطور قانون لازم کرنے سے پورے معاشرے میں پیدا ہوتی ہے۔اسی وجہ سے شریعت نے تعدد ازواج کو حلال قرار دیا ہے۔
اب دیکھیے کہ رسول اﷲ ﷺ کے معاملے میں کیا پیچیدگی واقع ہوتی ہے۔شرعاً آپﷺ کی بیٹی پر بھی سوکن لانا آپؐ کے داماد کے لیے حلال تھا۔ اسی لیے حضرت علیؓ نے ایسا کرنے کا ارادہ کیا۔ اور اسی وجہ سے حضورﷺ نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ ان کے لیے یہ فعل حرام ہے۔ بلکہ آپﷺ نے خود تصریح فرمائی کہ میں حلال کو حرام نہیں کرتا۔ لیکن یہاں حضورﷺ کی ایک ہی شخصیت میں دو مختلف حیثیتیں جمع تھیں ۔ ایک حیثیت میں آپؐ انسان تھے اور فطرتاً یہ ممکن نہ تھا کہ آپؐ کی صاحب زادی کے گھر میں سوکن آنے سے جو تلخی پیدا ہو، اس کا تھوڑا یا بہت اثر آپؐ کی طبیعت پر نہ پڑے۔ دوسری حیثیت میں آپؐ اﷲ کے رسول تھے، اور رسول کی حیثیت سے آپؐ کا مقام یہ تھا کہ آپؐ کے ساتھ اگر کسی شخص کے تعلقات خراب ہوجائیں اور کوئی شخص آپ کے لیے موجب اذیت ہو جائے تو اس کے دین وایمان کی بھی خیر نہ تھی۔ اسی وجہ سے حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ کو بھی اور بنی ہشام بن مغیرہ کو بھی اس کام سے روک دیا۔کیوں کہ اگرچہ شرعاً یہ حلال تھا مگر اس کے کرنے سے یہ اندیشہ تھا کہ یہ چیز حضرت علی ؓ اور ان کی دوسری بیوی اور اس کے خاندان والوں کے ایمان اور ان کی عاقبت کو خطرے میں ڈال دے گی۔
ایک اوربات جس کا حضورﷺ نے اپنے خطبے میں ذکر فرمایا، وہ یہ تھی کہ بنی ہشام بن مغیرہ اسلام اور رسول اﷲﷺ کے بدترین دشمن رہ چکے تھے اور فتح مکہ کے بعد تازہ تازہ مسلمان ہوئے تھے۔ خود اس لڑکی کے باپ ابوجہل کے متعلق تو سب کو معلوم ہے کہ حضورﷺ کی دشمنی میں وہ تمام کفار سے بازی لے گیا تھا۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ جنگ بدر میں وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا اور اس کا خاندان برسوں اس کے جذبۂ انتقام میں تڑپتا رہا۔ اب اگرچہ یہ لو گ اسلام قبول کرچکے تھے، لیکن یہ تحقیق ہوناابھی باقی تھا کہ یہ قبول اسلام واقعی پورے اخلاص اور قلوب کی مکمل تبدیلی کا ثمرہ ہے یا محض شکست کا نتیجہ۔ اس حالت میں اس خاندان کی لڑکی، اور وہ بھی خاص ابوجہل کی بیٹی کا اس گھر میں سوکن بن کر پہنچ جانا، جہاں رسول اﷲﷺ کی صاحب زادی ملکۂ بیت تھیں ،بڑے فتنوں کا سبب بن سکتا تھا۔ ان لوگوں کی تالیف قلب تو کی جاسکتی تھی اور کی بھی گئی، لیکن اسلام کے ساتھ ان کے تعلق کا حال جب تک ٹھیک ٹھیک معلوم نہ ہوجائے،انھیں عین خاندان رسالت میں گھسا لانا اور خود رسول اکرمﷺ کی صاحب زادی کے بالمقابل لاکھڑا کرنا سخت نامناسب اور پُرخطر تھا۔ اس وجہ سے بھی حضور ﷺ نے اس رشتے کو ناپسند کیا اور علی الاعلان کہا کہ خدا کے رسول کی بیٹی اور خدا کے دشمن کی بیٹی ایک گھر میں جمع نہیں ہو سکتیں ۔ نیز اس بات کی طرف بھی آپﷺ نے اشارہ فرمادیا کہ اس سے فاطمہؓ کے فتنے میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک شخص کو اپنے بیاہ شادی کے معاملے میں ( اگرچہ وہ بجاے خود حلال ہی سہی ) ایسی آزادی نہیں دی جاسکتی جس سے ایک پوری ملت کے لیے فتنہ وشر کا خطرہ پیدا ہوجائے۔
بے شک یہاں یہ اعتراض اٹھ سکتا ہے کہ ابوجہل کے خاندان سے ابوسفیان کا خاندان اسلام کی عداوت میں کچھ کم نہ تھا، پھر اگر ابوجہل کے خاندان کی لڑکی کا خانوادۂ رسالت میں آنا موجب فتنہ ہوسکتاتھا تو ابو سفیان کی صاحب زادی(حضرت ام حبیبہؓ) کا خود نبیؐ کی ازواج مطہرات میں شامل ہوجانا کیوں خطرے سے خالی تھا؟ لیکن دونوں کے حالات کا فرق نگاہ میں ہو تو یہ اعتراض آپ سے آپ ختم ہوجاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ابو جہل کی لڑکی اور ام المؤمنین حضرت ام حبیبہؓ کا سرے سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ابوجہل کی لڑکی اور اس کے چچا اور بھائی،سب کے سب فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے۔ ان کے بارے میں یہ امتحان ہونا ابھی باقی تھا کہ ان کا ایمان کس حد تک اخلاص پر مبنی ہے اور کہاں تک اس میں شکست خوردگی کا اثر ہے۔ بخلاف اس کے حضرت ام حبیبہ ؓ اس بڑے سے بڑے امتحان سے گزر کر، جو اکابر صحابہ میں سے بھی کم ہی کسی کو پیش آیا تھا، اپنے کمال اخلاص اور اپنی صداقت ایمانی کا پورا ثبوت دے چکی تھیں ۔ انھوں نے دین کی خاطر وہ قربانیاں کی تھیں جن کی نظیر مشکل ہی سے کہیں اور نظر آسکتی ہے۔
ذرا غور کیجیے، ابوسفیان کی بیٹی،ہند بنت عتبہ(مشہور ہند جگر خوار) کی لخت جگر، جس کی پھوپھی وہ عورت تھی جسے قرآن میں حما لۃ الحطب کاخطاب دیا گیا ہے، جس کا نانا عتبہ بن ربیعہ نبیﷺ کا بدترین دشمن تھا۔ اس خاندان سے اور اس ماحول سے نکل کر وہ حضرت عمرؓ اور حضرت حمزہؓ سے بھی پہلے ایمان لاتی ہیں ، اپنے شوہر کو مسلمان کرتی ہیں ، خاندان والوں کے ظلم وستم سے تنگ آکر مہاجرین حبشہ کے ساتھ ہجرت کرجاتی ہیں ۔ حبش جاکر شوہر عیسائی ہوجاتا ہے اور وہ دین کی خاطر اس کو بھی چھوڑ دیتی ہیں ۔ غریب الوطنی کی حالت میں تن تنہا ایک چھوٹی سی بچی کے ساتھ رہ جاتی ہیں اور ان کے عزم ایمانی میں ذرّہ برابر تزلزل نہیں آتا۔ کئی برس اس حالت میں جب گزر جاتے ہیں اور ایک بے سہارا خاتون دیار غیر میں ہر طرح کے مصائب جھیل کر یہ ثابت کردیتی ہے کہ دین کو جس پائے کا خلوص، جس مرتبے کی سیرت اور جس درجے کا کردار مطلوب ہے، وہ سب یہاں موجود ہے، تب نبی ﷺ کی نگاہ انتخاب ان پر پڑتی ہے اور آپ حبش ہی میں ان کو نکاح کا پیغام بھیجتے ہیں ۔ غزوۂ خیبر کے بعد وہ حبش سے واپس آ کر حرم نبوی میں داخل ہوتی ہیں ۔ اس کے تھوڑی ہی مدت بعد قریش صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں اور ان کو اندیشہ ہوتا ہے کہ نبیﷺ اب مکے پر چڑھائی کردیں گے۔ اس موقع پر ابو سفیان صلح کی بات چیت کے لیے مدینے آتا ہے اور اس امید پر بیٹی کے ہاں پہنچتا ہے کہ اس کے ذریعے سے صلح کی شرائط طے کرنے میں سہولت ہو گی۔ برسوں کی جدائی کے بعد پہلی مرتبہ باپ سے بیٹی کو ملنے کا موقع ملتا ہے، مگر جب وہ رسول اﷲﷺکے فرش پر بیٹھنے کاارادہ کرتا ہے تو بیٹی فوراًیہ کہہ کر فرش اٹھا لیتی ہے کہ رسول ؐ کے فرش پر ایک دشمن اسلام نہیں بیٹھ سکتا۔ ایسی خاتون کا خانوادۂ رسالت میں داخل ہونا تو ہیرے کا ہار میں ٹھیک اپنی جگہ پالینا تھا۔ اس سے کسی فتنے کے رونماہونے کا کوئی بعید ترین امکان کیا، وہم بھی نہ ہوسکتا تھا۔ البتہ اس لڑکی کا اس خاندان میں آنا ضرور فتنے کے امکانات اپنے اندر رکھتا تھا جسے اور جس کے خاندان کو صرف فتح نے اسلام میں داخل کیا تھا اور اسلام میں آئے ہوئے جس کو ابھی صرف چند مہینے ہی ہوئے تھے۔ اسی کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوسکتا تھا کہ اسلام اور نبیؐ کی عداوت کے اثرات سے اس کا اور اس کے خاندان والوں کا دل پوری طرح پا ک ہوا ہے یا نہیں ۔


نبی کریمﷺ نے بنی ھشام ابن مغیرہ کے بیٹوں کو علی ابن ابی طالب سے نکاح کرنے سے منع کیا تو کیا یہ حکم فقط حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کےلیے خاص تھا یا آپﷺ کی تمام صاحبزادیوں کیلیے ہے؟؟

الجواب: یہ حکم تمام بیٹیوں کے لئے تھا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ اللہ کے رسول کی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک گھر میں جمع ہوں۔


صحيح مسلم, حدیث نمبر 6307, باب: سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی فضیلت۔

صحيح مسلم

كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ -- صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب

15. باب فَضَائِلِ فَاطِمَةَ بِنْتِ النَّبِيِّ عَلَيْهَا الصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ:


باب: سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی فضیلت۔

حدیث نمبر: 6307

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ كلاهما، عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ ابْنُ يُونُسَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ الْقُرَشِيُّ التَّيْمِيُّ ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَهُوَ يَقُولُ: " إِنَّ بَنِي هِشَامِ بْنِ الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُونِي أَنْ يُنْكِحُوا ابْنَتَهُمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَلَا آذَنُ لَهُمْ، ثُمَّ لَا آذَنُ لَهُمْ، ثُمَّ لَا آذَنُ لَهُمْ، إِلَّا أَنْ يُحِبَّ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ أَنْ يُطَلِّقَ ابْنَتِي، وَيَنْكِحَ ابْنَتَهُمْ، فَإِنَّمَا ابْنَتِي بَضْعَةٌ مِنِّي يَرِيبُنِي مَا رَابَهَا، وَيُؤْذِينِي مَا آذَاهَا ".

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبرپر یہ فرماتے ہوئے سنا:"بنو ہشام بن مغیرہ نےمجھ سے اجازت چا ہی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی علی بن ابی طالب سے کردیں،میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا،پھر میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا،الایہ کہ ابن ابی طالب پسند کرے تو میری بیٹی کو طلاق دے دے اور ان کی بیٹی سے شادی کر لے کیونکہ میری بیٹی میرے جسم کا حصہ ہے جو چیز اسے پریشان کرے وہ مجھے پریشان کرتی ہے۔جو چیز اس کو ایذا دے وہ مجھے ایذا دیتی ہے۔"

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5278  

´اسلام قبول کرنے والی مشرک عورتوں سے نکاح اور ان کی عدت کا بیان` 

«. . . عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ بَنِي الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُوا فِي أَنْ يَنْكِحَ عَلِيٌّ ابْنَتَهُمْ، فَلَا آذَنُ . . .»

”. . . مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ بنی مغیرہ نے اس کی اجازت مانگی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ سے وہ اپنی بیٹی کا نکاح کر لیں لیکن میں انہیں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔“ 

[صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ: 5278]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5278 کا باب: «بَابُ نِكَاحِ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الْمُشْرِكَاتِ وَعِدَّتِهِنَّ:»

باب اور حدیث میں مناسبت: 
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں میاں بیوی کے مابین ناچاکی اور نااتفاقی کے امور کی وضاحت فرمائی ہے , جبکہ تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس میں بظاہر کوئی ایسے الفاظ وارد نہیں ہیں جو باب سے مناسبت رکھتے ہوں۔ 

علامہ کرمانی رقمطراز ہیں: 

«توخز مطابقة الترجمة من كون فاطمۃ ما كانت ترضيٰ بذالك، فكان الشقاق بينهما وبين على متوقعاً فاراد رضى الله عنه دفع وقوعه.»

[شرح كرماني: 159/19]

”امام بخاری رحمہ اللہ کا اس باب میں اس حدیث کو نقل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس نکاح پر راضی نہ تھیں، اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نکاح کر لیتے تو دونوں کے مابین شقاق اور اختلافات کا خدشہ پیدا ہوتا، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نکاح سے روک کر دونوں کے درمیان واقع ہونے والے شقاق و اختلاف کو روک دیا ہے۔“
امام کرمانی رحمہ اللہ کی وضاحت سے مناسبت کا واضح پہلو اجاگر ہوتا ہے آپ کا مقصد یہ تھا کہ اگر علی رضی اللہ عنہ اس عورت سے نکاح کر لیتے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے درمیان شدید اختلافات نمودار ہو جاتے، لہٰذا اس اختلافات کی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب اس حدیث کو نقل فرمایا ہے، امام کرمانی کی تطبیق پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 

«وهي مناسبة جيدة.»  

[فتح الباري لابن حجر: 345/90]

”یہ ایک بہترین مناسبت ہے۔“
ابن التین میں ترجمۃ الباب پر اعتراض فرمایا ہے کہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت موجود نہیں ہے، چنانچہ اس اعتراض کو دور کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ جواب دیتے ہیں کہ: 

«واعترضه ابن التين بأنه ليس فيه دلالة على ترجم به، ونقل ابن بطال قبله عن المهلب قال: انما حاول البخاري يايراده ان يجعل قول النبى صلى الله عليه وسلم فلا اذن»  

[فتح الباري لابن حجر: 340/10]

”ابن التین نے ترجمۃ الباب پر یہ کہا کہ حدیث سے اس کی کوئی دلالت موجود نہیں ہے، اس کو ابن بطال اور مہلب سے نقل کیا ہے کہ ابن مہلب نے فرمایا: امام بخاری رحمہ اللہ نے اس ارادے سے اس حدیث کو پیش فرمایا ہے تحت الترجمۃ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، ”میں اس کی اجازت نہیں دوں گا“۔ 
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت اسی وجہ سے نہیں دے رہے تھے کہ آپ علیہ السلام کو ان میاں بیوی میں ناچاکی اور نااتفاقی کا اندیشہ تھا، لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہی ہے۔ 
ابن الملقن رحمہ اللہ نے بھی یہی مناسب دی ہے۔ دیکھیے: 

[التوضيح لشرح الجامع الصحيح: 327/24]

ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: 
”امام بخاری رحمہ اللہ کے استدلال کا احتمال (ترجمۃ الباب سے)اس حدیث پر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا،

 «فلا أذن لهم» 

پس یہ اشارہ اس بات کی دلیل ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے اس عورت سے شادی نہیں کر سکتے تھے۔“ 

 [المتوري: ص 299]

دراصل وہ حدیث جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب فرمایا ہے اس حدیث کا ٹکڑا ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب النکاح میں درج کیا ہے، حدیث میں جو الفاظ ہیں وہ یہ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ اللہ کے رسول کی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک گھر میں جمع ہوں۔ 

اس حدیث کو پڑھنے کے بعد اب تطبیق میں مزید اضافہ ہوا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کا ڈر اس چیز پر منحصر نہیں تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ دوسرا نکاح کر رہے تھے کیونکہ اس دور میں آدمی کا دوسری یا تیسری شادی کرنا ایک عام رجحان تھا لیکن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناپسندیدگی کا اظہار اس عمل پر موقوف تھا کہ وہ لڑکی ابوجہل کی بیٹی تھی، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے دشمن کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے دوست کی بیٹی ایک آدمی کے نکاح میں کس طرح سے جمع ہو سکتی تھیں؟ 
یہی وجہ تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کی۔

   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 105   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1998  

´غیرت کا بیان۔` 
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پہ فرماتے سنا کہ ”ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے مجھ سے اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کر دیں تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، سوائے اس کے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے شادی کرنا چاہیں، اس لیے کہ وہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، جو بات اس کو بری لگتی ہے وہ مجھ کو بھی بری لگتی ہے، اور جس بات سے اس کو تکلیف ہوتی ہے اس سے مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے“ ۱؎ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) 

[سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1998]

اردو حاشہ: 
فوائدومسائل: 
(1)
  نبئ اکرمﷺ کو کسی بھی انداز سے پریشان کرنا جائز نہیں، اگرچہ وہ کام اصل میں جائز ہی ہولیکن رسول اللہﷺ کو کسی خاص وجہ سے ناگوار محسوس ہورہا ہو۔ 

(2)
  رسول اللہﷺ نے حضرت علی کو ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے سے اس لیے منع کیا کہ اس سےحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف ہوگی، اس وجہ سے رسول اللہﷺ کا بھی دل دکھے گا۔ 
اور حضرت علی کو نبیﷺ کو پریشان کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی کی ناراضی حاصل ہوگی۔ 
گویا اس ممانعت میں بھی حضرت علی پر شفقت ہے۔ 

(3)
منع کی دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا غیرت محسوس کریں گی جس کی وجہ سے شاید اپنے خاوند کے بارے میں محبت کے وہ جذبات قائم نہ رکھ سکیں جو مطلوب ہیں۔ 
اس طرح یہ رشتہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے ایک امتحان بن جائے گا۔ 
اوریہ کیفیت نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔ 

(4)
  اپنی اولاد کی تکلیف محسوس کرنا محبت اور شفقت کا ثبوت ہے۔ 
اس تکلیف کو دور کرنے کے لیے جائز حدود میں کوشش کرنا جائز ہے۔ 

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1998   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2069  

´ان عورتوں کا بیان جنہیں بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔` 
علی بن حسین کا بیان ہے وہ لوگ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے زمانے میں یزید بن معاویہ کے پاس سے مدینہ آئے تو ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ ملے اور کہا: اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے تو میں نے ان سے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار دے سکتے ہیں؟ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ آپ سے اسے چھین لیں گے، اللہ کی قسم! اگر آپ اسے مجھے دیدیں گے تو اس تک کوئی ہرگز نہیں پہنچ سکے گا جب تک کہ وہ میرے نفس تک نہ پہنچ جائے ۱؎۔ علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)

 [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2069]

فوائد ومسائل: 
1: حضرت فاطمہ رضی اللہ کی اپنے گھر میں اذیت رسول ﷺ کے باعث اذیت ہوتی جو حضرت علی رضی اللہ کے لئے ہلاکت کا باعث ہوتی۔ 
اس لیے انہیں بطورخاص اس رشتے سے منع کر دیا گیا اور یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ رسول ﷺکو کسی طرح سے بھی اذیت دینا حرام ہے خواہ وہ فعل اصل میں مباح ہی ہو۔ 
قرآن مجید میں ہے کہ

 (وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ)

(الأحزاب:35)

 تمہیں کسی طرح جائز نہیں کہ اللہ کے رسول کو اذیت دو۔ 

2:عترت رسول ﷺکو کسی طرح سے دکھ دینا اور ان کی ہتک کرنا، رسول ﷺکی ناراضی کا باعث ہے جو کہ اللہ تعالی کی ناراضی کو مستلزم ہے۔ 
مگر لازمی شرط ہے کہ آل رسول کہلانے والے اس کی شریعت کے حامل بھی ہوں۔ 

3: حضرت فاطمہ رضی اللہ رسول ﷺکی محبوب ترین صاحبزادی تھیں اور وہ اس امت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ 

4: جائز ہے کہ انسان اپنی بیٹی کی وجہ سے غیرت اور غصے میں آئے لیکن اگر کوئی شخص اپنے آپ کو رسول ﷺاور حضرت فاطمہ پر قیاس کرنے لگے تو یہ ایک لغوقیاس ہے۔ 

5: صاحب فضل داماد کی مدح وتوصیف کی جاسکتی ہے۔ 

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2069