Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

کفار کے ساتھ دوستی اور محبت رکھنے اور ان کے ساتھ ہر قسم کے معاملات کرنے اور ان کے ساتھ تشبہ اختیار کرنے کا حکم


کفار کے ساتھ دوستی اور محبت رکھنے اور ان کے ساتھ ہر قسم کے معاملات کرنے اور ان کے ساتھ تشبہ اختیار کرنے کا حکم

فرمایا کہ قرآن جیسی مدعی اتحاد و ایتلاف کتاب نے بھی (جس نے سارے عالم کو ایک ہی رشتہ اخوت و مذہب میں منسلک کرنا اپنا واحد مقصد بتلایا اور وحدت و توحید کا ساری دنیا کو سبق دیا) اس اختلاف صور اور امتیاز مذاہب و اقوام کو (جب تک وہ مذاہب و اقوام ہیں) قائم رکھنے کی سعی کی ہے، تاکہ ہر قوم اپنی اپنی حدود میں پہچانی جا سکے۔ اس نے ایک طرف تو سارے انسانوں کو للکارا کہ وَّلَا تَفَرَّقُوۡا‌۔ (سورۃ آل عمران: آیت، 103)

ترجمہ: اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو۔ اور دوسری طرف اپنا ہی نام فرقان رکھا کہ وہ حق و باطل میں تفریق کر دیتی ہے۔ ایک طرف تو اس نے ساری دنیا کو وصل و ملاپ کی تعلیم دی اور دوسری طرف اپنا ہی نام قول فصل رکھا کہ وہ حق و باطل میں جدائی پیدا کر دیتی ہے۔

چنانچہ اس فارق و فاصل کلام نے نازل ہو کر سلسلہ تشریح میں اسلام کو کفر سے، امانت کو خیانت سے اور دین و حق کو تمام ادیان باطلہ سے بالکل جدا اور نمایاں کر دیا۔

امتوں پر خالق مخلوق کا فرق تلبیس ہو چکا تھا کسی نے خدا کی مخصوص صفات بندوں میں مان لی تھیں، اور کسی نے بندوں کی ناقص صفات خدا میں تسلیم کر لی تھیں، اس فاصل کلام نے تمام مشرکانہ جال توڑ کر توحید کو شرک سے اس طرح الگ کر دیا کہ ان میں کوئی التباس نہ رہا۔

معروف و منکر کی حدود مل گئی تھیں۔ امتوں نے معروف کو منکر اور منکر کو معروف گمان کر لیا تھا۔ اس فرقان و فصل نے معروف کی حدود متعین کر کے اس کو منکر سے جدا کر دیا۔ معروف کا تو امر کیا، اور منکر سے نہی کی۔

طیب و خبیث کا فرق امتیں بھلا چکی تھیں، اسی کلامِ فاصل نے ان میں تفریق کر دی، طیبات کو حلال کیا اور خبائث کو حرام کیا۔

پھر اسی فرقان اور قولِ فصل نے جہاں اسلام و کفر معروف و منکر، طبیب و خبیث، حلال و حرام اور حق و باطل میں تفریق کی تو اس کے ساتھ وہیں ان اقوام میں بھی دنیوی و اخروی تمیز و تفریق پیدا کر دی جو ان متضاد صفات کے اعتبار سے خیر و شر کی دو جانبوں میں بٹ گئیں تھیں۔ تاکہ سعید شقی، نیک و بد، مطیع و سرکش، مسلم و کافر اور اولیاءِ رحمٰن و اولیاءِ شیطان میں باہم کوئی تلبیس و اختلاط راہ نہ پائے۔

کہیں تو اس کتاب مبین نے کہا اَفَنَجۡعَلُ الۡمُسۡلِمِيۡنَ كَالۡمُجۡرِمِيۡنَ۔ (سورة القلم: آیت، 35)

ترجمہ: بھلا کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کے برابر کردیں گے؟

کہیں فرمایا کہ مؤمن و مفسد دو جدا جدا نوعیں ہیں جن میں کوئی التباس نہیں ہے۔ اَمۡ نَجۡعَلُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالۡمُفۡسِدِيۡنَ فِى الۡاَرۡضِ اَمۡ نَجۡعَلُ الۡمُتَّقِيۡنَ كَالۡفُجَّارِ۔ (سورۃ ص: آیت، 28)

ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے ہیں، اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں کیا ہم ان کو ایسے لوگوں کے برابر کر دیں جو زمین میں فساد مچاتے ہیں؟ یا ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں کے برابر کر دیں گے؟

 کہیں نیک اور بد کی تفریق بیان کی کہ ان کی موت اور زندگی سب الگ الگ ہونی چاہیے، اَمۡ حَسِبَ الَّذِيۡنَ اجۡتَـرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنۡ نَّجۡعَلَهُمۡ كَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَآءً مَّحۡيَاهُمۡ وَمَمَاتُهُمۡ‌ ؕ سَآءَ مَا يَحۡكُمُوۡنَ۔ (سورۃ الجاثية: آیت، 21)

ترجمہ: جن لوگوں نے برے برے کاموں کا ارتکاب کیا ہے، کیا وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ انہیں ہم ان لوگوں کے برابر کر دیں گے جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں جس کے نتیجے میں ان کا جینا اور مرنا ایک ہی جیسا ہو جائے؟ کتنی بری بات ہے جو یہ طے کیے ہوئے ہیں۔  

 کہیں فرمایا کہ نیک کردار اور بدکردار آپس میں ایسے ممتاز ہیں جیسے سونکھا اور اندھا پس ایک دوسرے کے برابر نہیں ہو سکتا۔ وَمَا يَسۡتَوِى الۡاَعۡمٰى وَالۡبَصِيۡرُ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَلَا الۡمُسِىۡٓءُ ؕ قَلِيۡلًا مَّا تَتَذَكَّرُوۡنَ۔ (سورۃ غافر: آیت، 58)

ترجمہ: اور اندھا اور بینائی رکھنے والا دونوں برابر نہیں ہوتے، اور نہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے، وہ اور بدکار برابر ہیں، (لیکن) تم لوگ بہت کم دھیان دیتے ہو۔

کہیں ارشاد فرمایا کہ عبدِ مشرک اور عبدِ غیر مشرک جبکہ دو جداگانہ نوعیں ہیں تو وہ ایک کیسے ہو سکتی ہیں؟ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيۡهِ شُرَكَآءُ مُتَشٰكِسُوۡنَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ؕ هَلۡ يَسۡتَوِيٰنِ مَثَلًا ‌ؕ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ ‌ ۚ بَلۡ اَكۡثَرُهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ۔ (سورۃ الزمر: آیت، 29)

ترجمہ: اللہ نے ایک مثال یہ دی ہے کہ ایک (غلام) شخص ہے جس کی ملکیت میں کئی لوگ شریک ہیں جن کے درمیان آپس میں کھینچ تان بھی ہے اور دوسرا (غلام) شخص وہ ہے جو پورے کا پورا ایک ہی آدمی کی ملکیت ہے۔ کیا ان دونوں کی حالت ایسی جیسی ہوسکتی ہے؟  

کہیں فرمایا کہ ایک غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا انسان ایک با اختیار آدمی کے برابر کیسے ہو سکتا ہے، ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبۡدًا مَّمۡلُوۡكًا لَّا يَقۡدِرُ عَلٰى شَىۡءٍ وَّمَنۡ رَّزَقۡنٰهُ مِنَّا رِزۡقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنۡفِقُ مِنۡهُ سِرًّا وَّجَهۡرًا‌ؕ هَلۡ يَسۡتَوٗنَ‌۔ (سورة النحل: آیت، 75)

ترجمہ: اللہ ایک مثال دیتا ہے کہ ایک طرف ایک غلام ہے جو کسی کی ملکیت میں ہے، اس کو کسی چیز پر کوئی اختیار نہیں، اور دوسری طرف وہ شخص ہے جس کو ہم نے اپنے پاس سے عمدہ رزق عطا کیا ہے، اور وہ اس میں سے پوشیدہ طور پر بھی اور کھلے بندوں بھی خوب خرچ کرتا ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ 

کہیں فرمایا کہ ایک اپاہج کسی مستقیم الحال کی برابری کیسے کر سکتا ہے؟ وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً رَّجُلَيۡنِ اَحَدُهُمَاۤ اَبۡكَمُ لَا يَقۡدِرُ عَلٰى شَىۡءٍ وَّهُوَ كَلٌّ عَلٰى مَوۡلٰٮهُۙ اَيۡنَمَا يُوَجِّههُّ لَا يَاۡتِ بِخَيۡرٍ‌ؕ هَلۡ يَسۡتَوِىۡ هُوَۙ وَمَنۡ يَّاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ‌ۙ وَهُوَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ۔ (سورۃ النحل: آیت، 76)

ترجمہ: اور اللہ ایک اور مثال دیتا ہے کہ دو آدمی ہیں ان میں سے ایک گونگا ہے جو کوئی کام نہیں کر سکتا، اور اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے، وہ اسے جہاں کہیں بھیجتا ہے، وہ کوئی ڈھنگ کا کام کر کے نہیں لاتا، کیا ایسا شخص اس دوسرے آدمی کے برابر ہو سکتا ہے جو دوسروں کو بھی اعتدال کا حکم دیتا ہے اور خود بھی سیدھے راستے پر قائم ہے؟  

پھر اس فاصل قرآن نے تشریحی امر بھی فرمایا تو یہ کہ اے بندگانِ الٰہی جبکہ ان تکوینیات کی طرح سلسلۂ تشریعیات میں دو متضاد چیزوں (حق و باطل) میں فطرۃً آشتی اور یکجہتی نا ممکن ہے تو اسی فطرت کا اقتضاء یہ ہے کہ تم اپنے اختیار سے بھی حق اور باطل کو الگ الگ ہی رکھو اور ان میں اس مہلک اختلاط (تشبہ) کو دخل مت دو۔

وَلَا تَلۡبِسُوا الۡحَـقَّ بِالۡبَاطِلِ وَتَكۡتُمُوا الۡحَـقَّ وَاَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔ (سورۃ البقرة: آیت، 42)

ترجمہ: اور حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ نہ کرو، اور نہ حق بات کو چھپاؤ جبکہ (اصل حقیقت) تم اچھی طرح جانتے ہو۔

پس قرآنِ مجید باوجود داعئ اتحاد ہونے کے ادیان و اہل ادیان میں تفریق و امتیاز ہی کا حامی ہے۔ ہاں اس کا مطلوب اتحادِ وحدت یہ ہے کہ ساری ملتیں مٹ کر اسلام میں آ ملیں اور اس طرح اُمتیں نہ رہیں۔ وہ ایسا اتحاد نہیں چاہتا کہ بُرائی اپنی صورت پر قائم رہتے ہوئے نیکی کے ساتھ مل جائے، ظلمت اپنی رو سیاہی سمیت نور میں آ کر ملتبس ہو جائے، اور اس طرح نہ حقیقی نیکی رہے نہ بدی، نہ ظلمت رہے نہ نور، بلکہ کوئی اور تیسری چیز تیار ہو جائے۔ اگر قرآنِ کریم ایسے اتحاد کو گوارا کرتا جو التباسِ حق بالباطل سے نمایاں ہو تو وہ یقیناً اسے بھی گوارا کرتا کہ نہ قرآن رہے نہ قرآنی امت، نہ اسلام کی حقیقی دعوت رہے نہ امتِ اسلام۔ کیونکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ التباس ہی وہ تاریکی ہے کہ جس میں ہر شئی کا اصلی وجود پہلے چھپتا اور پھر باطل ہو جاتا ہے۔

پس قرآنِ کریم نے ایک طرف تو متعدد امثلہ سے تلبیس اور تسویۂ حق و باطل کے متعلق اپنی نا مرضی ظاہر فرمائی اور پھر امر اور حکم کے ذریعہ تلبیس کی ممانعت فرمائی۔ اور پھر اسی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ متعدد آیات میں قطع تلبیس کا ایک عملی پروگرام بھی پیش فرمایا جس میں صرف تشبہ ہی نہیں بلکہ بطورِ سدِّ ذرائع ہر اس حرکت سے روکا ہے جو تشبہ تک منجز ہو، تاکہ مسلم و کافر میں کوئی صوری یا باطنی اشتراک، کوئی مناسبت اور کوئی مشابہت پیدا نہ ہونے پائے۔

ترکِ موالات:

اس نے حکم دیا کہ کوئی مسلم کسی کافر کے ساتھ موالات و مودّت اور قلبی حُب کا تعلق نہ رکھے۔ کیونکہ جب قلب اقلیم تن کا سلطان ہے، تو قلبی تعلقات ہی آخر کار نیت و ارادہ اور افعال پر بھی چھا جائیں گے، اور اس طرح ایک مسلم قلباً و قالباً کفار سے ملتبس اور مشتبہ ہو جائے گا۔ حالانکہ التباس و مشابہت قرآنی مرضیات کے صراحتاً خلاف ہے۔

پس ایک جگہ تو اس نے یہود و نصاریٰ سے ترکِ موالات کا حکم دیا کہ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡيَهُوۡدَ وَالنَّصٰرٰۤى اَوۡلِيَآءَ۔ (سورۃ المائدة: آیت، 51)

ترجمہ: اے ایمان والو یہودیوں اور نصرانیوں کو یار و مددگار نہ بناؤ۔

پھر اہلِ کتاب اور عام اہلِ کفر سے اور پھر ان لوگوں سے بھی یہ رشتۂ موالات منقطع کر دینے کا حکم دیا جو دین کے مسائل کے ساتھ تمسخر اور استہزاء سے پیش آتے ہیں۔ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَـتَّخِذُوا الَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا دِيۡنَكُمۡ هُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ وَالۡـكُفَّارَ اَوۡلِيَآءَ‌۔ (سورۃ المائدة: آیت، 57)

ترجمہ: اے ایمان والو جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ان میں سے ایسے لوگوں کو جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنا رکھا ہے اور کافروں کو یار و مددگار نہ بناؤ۔

پھر ایک جگہ فرمایا کہ کافر تو کافر ایک مسلمان تو کسی ایسے آدمی سے بھی رتی بھر محبت نہیں رکھ سکتا جو اللہ تعالیٰ اور رسولﷺ کے بر خلاف ہو، خواہ کفر کر کے ہو خواہ علانیہ فسق اور ابتداع کا ارتکاب کر کے۔ لَا تَجِدُ قَوۡمًا يُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ يُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَوۡ كَانُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَهُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَهُمۡ اَوۡ عَشِيۡرَتَهُمۡ‌ؕ اُولٰٓئِكَ كَتَبَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡاِيۡمَانَ وَاَيَّدَهُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡهُ‌۔ (سورۃ المجادلة: آیت، 22)

ترجمہ: جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، ان کو تم ایسا نہیں پاؤ گے کہ وہ ان سے دوستی رکھتے ہوں، جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے، چاہے وہ ان کے باپ ہوں، یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے خاندان والے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے د لوں میں اللہ نے ایمان نقش کردیا ہے، اور اپنی روح سے ان کی مدد کی ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ اگر کسی اسلامی دل میں موالاتِ کفار اور محبتِ منکرین کا کوئی شائبہ موجود ہے تو ماننا پڑے گا کہ اسی درجہ میں اسلامی عظمت و محبت کی کمی بھی اس قلب میں جاگزین ہے ورنہ پھر اسلام و کفر کا تضاد ہی باقی نہیں رہ سکتا۔ اس حقیقت کو سمجھ کر اربابِ حقیقت نے دعویٰ کیا ہے کہ مودتِ کفار سے ایمان میں فساد آ جاتا ہے، بلکہ حضرت سہل ابنِ عبداللہ تستریؒ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جس کا ایمان و توحید خالص ہے وہ کسی مبتدع سے بھی انس نہیں رکھ سکتا چہ جائیکہ کفار سے، اور وہ بھی مودّت و محبت کی شکل میں؟

اور امام مالکؒ نے اس آیت کی معادات اور ان سے ترکِ مجالست پر استدلال کیا ہے۔

اگر مسلم قلوب میں سے کفار کی جانب سے یہ شدت و تغلیظ نکل جائے تو ضرور ہے کہ اس کی جگہ موالات و محبت لے لے گی اور قلبی محبت قائم کرنے کے بعد وہ دن دور نہیں رہتا کہ یہ مسلم فرد انجام کار اسی گروہِ کفر میں جا ملے اور صورت و سیرت سے ان کا ہم آہنگ بن جائے۔

قرآن کریم نے اس ترکِ موالات کی آیت میں موالات کا یہ نتیجہ بھی بیان فرما دیا ہے کہ وَمَنۡ يَّتَوَلَّهُمۡ مِّنۡكُمۡ فَاِنَّهٗ مِنۡهُمۡ‌ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ۔ (سورۃ المائدة: آیت، 51)

ترجمہ: اور تم میں سے جو شخص ان کی دوستی کا دم بھرے گا تو پھر وہ انہی میں سے ہو گا۔ یقیناً اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

پھر ترکِ مودت و قطعِ موالات کے سلسلہ میں ایک مسلم فرد کا اولین فرض ہی یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے آیاتِ مذکورہ کے ماتحت اہلِ کفر سے اپنے قلبی تعلقات کا رشتہ کلیۃً منقطع کر دے جس طرح ان آیات کے ماتحت حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے اپنے کافر باپ سے قلبی تعلقات منقطع کر لیے تھے کہ بالآخر بدر میں خود ہی ان کے قاتل بھی بنے، جس طرح اسی تعلیم شدت على الكفار کے ماتحت حضرت مصعب ابنِ عمیرؓ نے اپنے بھائی عبید بن عمیر سے قطع مودت کر کے خود ہی اُحد میں اُسے قتل کیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ماموں عاص ابنِ ہشام کو بدر میں قتل کیا۔ سیدنا علیؓ و سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبید بن حارثؓ نے عتبہ، ولید بن عتبہ اور شیبہ ابنِ ربیعہ کو بدر میں قتل کیا جو ان حضرات کے قریبی رشتہ دار تھے۔ اور ایسا کر کے اسلامی غیرت اور صلابت فی الدین کی کیسی زبردست مثال قائم فرما دی جو ہمیشہ اُمت کو غیرت و حمیت کی دعوت دیتی رہے گی۔

تبرّى:

پھر قرآنِ کریم نے اس پر بس نہیں کیا بلکہ حکم دیا کہ اپنی اس ترکِ موالات اور قلبی تنفر کا عام اعلان بھی کر دو، تاکہ غیر مسلم تمہارے قلب و قالب میں کوئی طمع نہ رکھ سکیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اپنے رسول اکرمﷺ کی برأت بھی علی الاعلان پکار دی تھی۔ اِنَّ الَّذِيۡنَ فَرَّقُوۡا دِيۡنَهُمۡ وَكَانُوۡا شِيَـعًا لَّسۡتَ مِنۡهُمۡ فِىۡ شَىۡءٍ‌۔ (سورۃ الأنعام: آیت، 159)

ترجمہ: (اے پیغمبر) یقین جانو کہ جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا ہے، اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں، ان سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ 

صفائی سے یہ تفریق واضح کر دی گئی کہ لَسۡتَ مِنۡهُمۡ

 (تو ان میں سے نہیں) لَسۡتَ مِنۡهُمۡ کی حقیقت اس کی ضد اَنۡتَ مِنۡهُمۡ سے واضح ہو سکتی ہے۔ یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ دو شخصیتیں واحد نہیں ہو سکتیں۔ 

زید اور عمرو جب دو ہیں تو ایک نہیں ہو سکتے۔ اس لیے جب یہ کہا جائے کہ میں تجھ سے ہوں اور تو مجھ سے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ تو میری نوع سے ہے، میرے اُمور میں شریک ہے، مجھ جیسا ہے اور میں تجھ جیسا ہوں، تیرا شریک اور تیرا ہمنوا ہوں۔

مسلمانوں کے ذات البین اور ان کے باہمی اختلاف و ارتباط کو اسی قسم کے الفاظ میں ظاہر فرمایا ہے کہ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ۔ (سورۃ آل عمران: آیت، 195)

تم آپس میں ایک ہی ہو۔ یعنی یہ سب بعض بعض مل کر ایک ہی نوع مقصود کے دو شریک ہیں۔

آنحضرتﷺ نے حضرت علیؓ کی نسبت فرمایا

انت منّی وانا منک۔

ترجمہ: تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔ یعنی تیری اور میری ایک بات ہے، ہمارا معاملہ واحد ہے، ایک خاص حقیقت میں ہم متحد ہیں۔ 

پس جب یوں فرمایا گیا کہ لَسۡتَ مِنۡهُمۡ۔ (تو ان میں سے نہیں) تو یہ نفی اس پچھلے اثبات پر وارد ہوگی۔ یعنی تیری اور ان کی ایک بات نہیں، تیرا اور ان کا معاملہ ایک نہیں، تو اور وہ کسی نوعِ مقصود کے دو شریک نہیں بلکہ الگ الگ ہیں۔ اسی حقیقت کو حق تعالیٰ جل شانہ نے فرمایا کہ، اے رسولﷺ لَّسۡتَ مِنۡهُمۡ فِىۡ شَىۡءٍ‌۔ یعنی تو کسی چیز کے اعتبار سے کفار میں سے نہیں، ان کا شریک نہیں، ان کے ساتھ متحد نہیں، تو جس نوعِ مقصود کا ایک فرد ہے، وہ اور ہے اور کفار جس نوع کے شرکاء ہیں وہ اور ہیں۔ اسی لیے سورہ کافرون میں اس تبری و علیحدگی کو واضح کر دیا گیا۔

قُلْ يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ۔ لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۔ وَلَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُ۔ وَلَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ۔ وَلَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُ۔ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ۔ (سورۃ الكافرون)

ترجمہ: تم کہہ دو کہ اے حق کا انکار کرنے والو۔ میں ان چیزوں کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ اور تم اس کی عبادت نہیں کرتے جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ اور نہ میں (آئندہ) اس کی عبادت کرنے والا ہوں جس کی عبادت تم کرتے ہو۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔

یہ تبری اور برأت ایسی ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی کافر قوم اور اپنے کافر باپ سے فرمائی تھی۔ وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهِيۡمُ لِاَبِيۡهِ وَقَوۡمِهٖۤ اِنَّنِىۡ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعۡبُدُوۡنَ۔ (سورۃ الزخرف: آیت 26)

ترجمہ: اور وہ وقت یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔

پس جبکہ انبیاء کرام علیہم السلام کا طریقہ، کفار سے تبری کا اعلان کر دینا ہے تو ان کے پیرو اور حلقہ بگوش کیوں اسی طریق کے رہروی پر مجبور نہ کیے جائیں گے۔ آخر رسول نے اپنا ہی طریقہ تو اس کے سامنے پیش کیا ہے، جس کی پیروی کے وہ مدعی بھی ہیں۔

بہرحال قلب اور انسان دونوں کے ذریعہ کفار کا تعلق مسلمین سے منقطع کرا دیا گیا، اور یہی دو چیزیں انسان میں واصل ہیں۔ بقول شاعر،

آدمی آدھا زبان ہے اور آدھا دل، 

آگے سوائے خون اور گوشت کے اس میں اور کیا باقی رہا۔

ترکِ معاملات

پھر شریعثِ الٰہی نے صرف اتنی ہی مجانبت اور قطعِ اختلاط و التباس پر کفایت نہیں کی بلکہ اس امتیاز و تفریق کو اور زیادہ یوں نمایاں فرما دیا کہ ان سے معاملات بھی منقطع کر لو۔ اگر اسلام سطوت و صولت اور اس کی حکومت کا علم لہرا رہا ہو، محاکمِ شرعیہ اور عدالتیں کھلی ہوئی ہوں تو خلافتِ راشدہ اور حکومتِ دینیہ کے دستور العمل کے موافق مسلمان کفار سے استعانت و استمداد نہ لیں گے، سیاسیات میں ان کو شریک نہ کریں گے اور اشتراکِ عمل سے حتیٰ الامکان بچیں گے۔ کیونکہ یہ معاملات کی ظاہری شرکت بھی آخر کار وہی موالات و موانست پیدا کر دیتی ہے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ کی گہری سیاست نے اس پر کافی روشنی ڈال دی۔ ممالکِ خلافت میں حضرت فاروق اعظمؓ کا یہ فرمان شائع کیا گیا تھا کہ

ذمیوں کے ساتھ مکاتبت کا تعلق مت رکھو، کہیں تم میں اور ان میں اس بہانہ سے مودت نہ پیدا ہو جائے اور ان کو پناہ مت دو اور تم ان کو ذلیل رکھو مگر ہاں ان پر تعدی نہ کرو۔

سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے اس مکالمہ سے قطع تعلقات و معاملات اور اس کی پنہانی حکمت کا پورا پورا اندازہ ہو سکے گا، جس کو امام احمد بن حنبلؒ نے اپنی مسند میں سندِ صحیح کے ساتھ روایت فرمایا ہے۔

سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

میں نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے یہاں ایک نصرانی کاتب ملازم ہے۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔

تجھے کیا ہوا، خدا تجھے غارت کرے، کیا تو نے اللہ تعالیٰ جل شانہ کا یہ حکم نہیں سنا کہ یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناؤ، کیوں نہ تو نے کسی مسلمان کو ملازم رکھا؟

میں نے کہا اے سیدنا امیر المؤمنینؓ میرے لیے اس کی کتابت ہے اور اس کے لیے اس کا دین ہے۔ (مجھے اس کے دین سے کیا تعلق؟)

سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

 میں ان کی تکریم نہیں کروں گا جن کی اللّٰه تعالیٰ جلّ شانہ نے توہین کی اور میں ان کو عزت نہ دوں گا ، جن کو اللہ تعالیٰ جل شانہ نے ذلیل کیا، اور میں انہیں مقرّب نہ بناؤں گا جن کو اللہ تعالیٰ جل شانہ نےدور کیا ہے۔

اس پُر مغز مکالمہ سے (جو سیدنا فاروق اعظمؓ جیسے بیدار مغز خلیفۂ رسالت کی ہدایت پر مشتمل ہے) یہ واضح ہو جاتا ہے کہ۔

  1.  جب تک کوئی مضطرانہ ضرورت داعی نہ ہو، اصل یہی ہے کہ غیر مسلمین سے استغاثہ اور وہ بھی ایسی کہ جس میں ان کی تکریم ہوتی ہو قرینِ عقل و دین نہیں۔
  2.  یہ عذر کسی طرح قابلِ سماعت نہیں کہ ہمیں صرف ان کی خدمات درکار ہیں، نہ کہ ان کا مذہب۔ کیونکہ اس تحصیلِ خدمات کے ذیل میں ان کے ساتھ معیت اس شدت و تغلیظ کو کم یا محو کر دے گی جو ایک مسلمان کا اسلامی شعار بتلایا گیا ہے۔ اور یہی قلتِ تغلیظ بالآخر مداہنت، چشم پوشی اور اعراض عن الدین کا مقدمہ لے کر کتنے ہی شرعی منکرات کے نشو و نما کا ذریعہ ثابت ہو گی۔
  3. سیدنا فاروق اعظمؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے بعد کوئی شخص ان جیسا دین نہیں لا سکتا۔ لیکن اگر بالفرض لے بھی آئے تو کوئی وجہ نہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ تو کفار کی خدمات حاصل کرنے کے سے روک دیئے جائیں اور اسے نہ روکا جائے۔ مانا کہ ایک شخص پختہ اور راسخ الایمان بھی ہے اور اس اشتراکِ عمل سے اس میں کوئی تزلزل بھی نہیں آ سکتا لیکن یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایسی ذمہ دار ہستی کا اشتراکِ عمل عامہ المسلمین کے لیے بڑی استعانت اور زیادہ سے زیادہ اختلاط کا دروازہ کھول دے۔ عوام اپنے لیے اس طرزِ عمل کو حجت شمار کریں اور اس طرح یہ اختلاط و التباس عام ہو کر نا قابلِ تدارک مفاسد کا باعث بن جائے۔ 
  4. جس مخلوق کی اس کے خالق نے تکریم نہ کی اور ان کے لیے عزت کا کوئی شمہ گوارا نہ کیا اس خالق کے پرستاروں کی غیرت و حمیت کے خلاف ہے کہ وہ اس کے دشمنوں کی تکریم کریں۔ وہ جسے پھٹکار دے یہ اسے پیار کریں، ورنہ یہ تو پھر اسلام کے نام سے شرائعِ الٰہی کی توہین اور خود افعالِ باری ہی کی صریح تکذیب ہو جائے گی۔ (نعوذ باللہ منہ) 
  5. اسلام میں سیاستِ محضہ مقصود نہیں بلکہ محض دین، سیاسی الجھنیں محض تحفظ دین کے لیے گوارا کی جاتی ہیں، پس اگر سیاست ہی کا کوئی شعبہ تخریبِ دین یا مداہنت و حق پوشی کا ذریعہ بننے لگے تو بے دریغ اس کو قطع کر کے دین کی حفاظت کی جائے گی، ورنہ در صورت خلاف قلبِ موضوع اور انقلابِ ماہیت لازم آ جائے گا، کہ وسیلہ مقصود ہو جائے اور مقصود وسیلہ کے درجہ پر بھی نہ رہے۔

ترکِ مجالست:

پھر اس تحفظِ خود اختیاری اور رفعِ التباس میں شریعت نے ایک قدم اور بڑھایا کہ غیر مسلموں کے ساتھ مجالست بھی ترک کر دی جائے۔ اگر ان کے ساتھ نشست و برخاست اور میل جول عام ہو جائے تو رفتہ رفتہ اسی موالات اور مودت کی تولید کا پھر قوی اندیشہ ہے جس سے مسلمانوں کے مخصوص قومی و مذہبی شعائر التباس کی زد میں آ جائیں اور دین ضائع ہو جائے، کیونکہ مجالسِ کفر و نفاق کا عام انداز تحقیرِ دین اور استہزاءِ آیات اللہ کے ساتھ مسلمانوں کو ان کے دین سے بدظن بنانے کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے فرمایا۔

وَقَدۡ نَزَّلَ عَلَيۡكُمۡ فِى الۡـكِتٰبِ اَنۡ اِذَا سَمِعۡتُمۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ يُكۡفَرُ بِهَا وَيُسۡتَهۡزَاُبِهَا فَلَا تَقۡعُدُوۡا مَعَهُمۡ حَتّٰى يَخُوۡضُوۡا فِىۡ حَدِيۡثٍ غَيۡرِهٖۤ‌۔ (سورۃ النساء: آیت، 140)

ترجمہ: اور اس نے کتاب میں تم پر یہ حکم نازل کیا ہے کہ جب تم اللہ کی آیتوں کو سنو کہ ان کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو ایسے لوگوں کے ساتھ اس وقت تک مت بیٹھو جب تک وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہو جائیں۔

نیز جبکہ ایک منافق محض ظاہری میل جول اور زبانی جمع خرچ کی بناء پر مسلم کہلایا جا سکتا ہے تو کیا ایک مسلم حنیف پر اس ظاہری مشارکت یا مجالست کے سبب کفر و نفاق کے احکام جاری نہیں ہو سکتا؟ قرآن کریم نے خود ہی فیصلہ فرما دیا۔ اِنَّكُمۡ اِذًا مِّثۡلُهُمۡ‌۔ (سورۃ النساء: آیت، 140)

ترجمہ: ورنہ تم بھی انہی جیسے ہو جاؤ گے۔ 

اعلان بغض و عداوت:

قلب و قالب کے یہ تمام رشتے منقطع کر دینے کے بعد اب شریعت نے ایک اور قدم اٹھایا کہ مسلمین ان اللہ تعالیٰ جل شانہ کے دشمنوں سے اگر کوئی تعلق رکھیں تو وہ عداوت اور بغض فی اللہ کا تعلق ہونا چاہیے نہ کہ حب اور انس کا۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کے دشمن ہیں اور مسلمانوں کو وہ سب کے سب اور ان کا قائد اعظم (شیطان) اپنی انتہائی عداوت کے سبب جہنم کی طرف دھکیل دینا چاہتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

اِنَّ الشَّيۡطٰنَ لَـكُمۡ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوۡهُ عَدُوًّا ؕ اِنَّمَا يَدۡعُوۡا حِزۡبَهٗ لِيَكُوۡنُوۡا مِنۡ اَصۡحٰبِ السَّعِيۡرِ۔(سورۃ فاطر: آیت، 6)

ترجمہ: یقین جانو کہ شیطان تمہارا دشمن ہے، اس لیے اس کو دشمن ہی سمجھتے رہو۔ وہ تو اپنے ماننے والوں کو جو دعوت دیتا ہے وہ اس لیے دیتا ہے تاکہ وہ دوزخ کے باسی بن جائیں۔

نیز جبکہ یہ عداوت کسی نفسانی داعیہ سے نہیں بلکہ محض اس لیے قائم ہوئی کہ انہوں نے حق کے خلاف علم بغاوت بلند کیا، تو اس کی بنا محض صداقت پر ہوئی اس لیے بے دھڑک اس عداوت کا اعلان بھی کر دو تاکہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کے دشمن تم کو اپنی طرف کھینچنے اور ملا لینے سے مایوس ہو جائیں۔ جیسا کہ قومِ ابراہیم نے اعلان کیا تھا اور صاف طور پر پکار دیا تھا کہ۔ كَفَرۡنَا بِكُمۡ وَبَدَا بَيۡنَنَا وَبَيۡنَكُمُ الۡعَدَاوَةُ وَالۡبَغۡضَآءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَحۡدَهٗۤ۔ (سورۃ الممتحنة: آیت، 4)

ترجمہ: ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں، اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض پیدا ہو گیا ہے جب تک تم صرف ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ۔ 

پھر فرمایا کہ اعلانِ عداوت کے بعد خاموش نہ بیٹھ جاؤ بلکہ حسبِ استطاعت سامانِ جنگ کی تیاری بھی جاری رکھو تاکہ یہ عداوت اس وقت تک مستحکم رہے جب تک وہ کفر سے تائب نہ ہو جائیں۔

 وَاَعِدُّوۡا لَهُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّةٍ وَّمِنۡ رِّبَاطِ الۡخَـيۡلِ تُرۡهِبُوۡنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمۡ وَاٰخَرِيۡنَ مِنۡ دُوۡنِهِمۡ‌۔ (سورۃ الأنفال: آیت، 60)

ترجمہ: اور (مسلمانو) جس قدر طاقت اور گھوڑوں کی جتنی چھاؤنیاں تم سے بن پڑیں ان سے مقابلے کے لیے تیار کرو جن کے ذریعے تم اللہ کے دشمن اور اپنے (موجودہ) دشمن پر بھی ہیبت طاری کر سکو، اور ان کے علاوہ دوسروں پر بھی نہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے ساتھ مسلمانوں کی آمادگئ عداوت پھر اعلانِ عداوت پھر ابقاءِ عداوت کے سبب ان کا خطاب ہی بارگاہِ الٰہی سے اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ۔ (سورۃ الفتح: آیت، 29) نازل ہو گیا اور وہ خدا تعالیٰ کی فوج کے سپاہی بن گیا۔ جن کو اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اپنے دشمنوں کے مقابلہ کے لیے چن لیا۔ پس مسلم و کافر دو نوعیں ہیں جو ہمیشہ ایک دوسرے کے بالمقابل، صف آراء اور جنگ آزما رہی ہیں۔ 

(اسلامی تہذيب و تمدن: صفحہ، 61)