شیعہ کے ساتھ اتحاد کرنا اور ان کے ساتھ بیٹھنا منافقت ہے
سوال: کیا شیعہ کے ساتھ اتحاد ہو سکتا ہے؟
جواب: شیعہ تین بنیادی عقائد میں مسلمانوں سے جدا ہیں۔ ان میں سے دو باتیں ایسی ہیں جنہیں آپ ان کا ذاتی معاملہ کہہ کر نظر انداز کر سکتے ہیں، لیکن ان کا ایک عقیدہ ایسا ہے جو مسلمانوں اور شیعہ کے درمیان اتحاد میں رکاوٹ ہے۔ وہ عقیدہ سبِّ شیخینؓ ہے۔ اس کے علاوہ عقیدہ تحریفِ قرآن اور عقیدہ امامت بھی مسلمانوں سے علیحدہ ہیں لیکن ان دونوں عقائد کی موجودگی میں شیعہ کے ساتھ ملکی امن و استحکام کے لیے بطور غیر مسلم کوئی نہ کوئی صورت نکل سکتی ہے، لیکن سبِّ شیخینؓ کے عقیدہ کی موجودگی میں شیعہ کے ساتھ اتحاد کرنا ان کے ساتھ بیٹھنا، کسی معاملہ میں بھی ان کی رعایت کرنا بہت بڑی بے عزتی، منافقت اور کھلا دھوکہ ہے۔
جہاں اصولی اور نظریاتی اختلاف ہو تو اس اختلاف میں مسلمان کے دل میں سوائے ایمان کے کوئی اور چیز سما ہی نہیں سکتی۔ اس لیے فروعی اختلاف میں اتحاد ہوا ہے اور ہو سکتا ہے لیکن جہاں نظریاتی اختلاف ہو، کفر اور اسلام کا اختلاف ہو، وہاں مسلمان تو کٹ سکتا ہے اتحاد نہیں کر سکتا۔ کافر کے کفر پر اتحاد کر لینا اتحاد نہیں بے غیرتی ہے۔
ہاں قرآن وحدیث اتحاد کی دعوت دیتا ہے، مگر اتحاد کا مطلب مداہنت نہیں، اتحاد کا مطلب کتمانِ حق نہیں، اتحاد کا مطلب ضروریاتِ دین کا انکار نہیں، اتحاد کا مطلب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت کا سودا نہیں۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ اہلِ ایمان کا آپس میں اتحاد ہو، اس لیے ہر مالی جانی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ لیکن ایسا اتحاد جس سے عقیدہ الوہیت و عقیدہ ختمِ نبوتﷺ پر زد پڑتی ہو، ایسا اتحاد جس سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمتوں اور قربانیوں کا انکار ہوتا ہو، ایسا اتحاد جس میں اللہ تعالیٰ جل شانہ، رسول اکرمﷺ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قرآن اور تمام دین کے گستاخ کو بھائی کہا جائے، اور ایسا اتحاد جس سے اسلام کا اصلی چہرہ مسخ ہوتا ہو۔ ہم ایسے اتحاد پر کروڑوں لعنت کرتے ہیں اور اس کو اتحاد نہیں بلکہ ایمان پر ڈاکہ تصور کرتے ہیں۔
اکابرین رحمۃ اللہ کا شیعوں کے ساتھ اتحاد کی وضاحت:
چودہویں صدی برصغیر پاک و ہند کی بہت اہم صدی گزری ہے، اس میں انگریز سامراج کے خلاف بہت سی تحریکوں نے جنم لیا، ان میں ایسی سیاسی تحریکیں بھی تھیں جو خاص مسلمانوں کی تھی اور سیاسی رہنما انہیں قومی سطح پر اٹھانے کے لیے سنی شیعہ فاصلے کے بغیر آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ ان تمام سیاسی تقاضوں، بلکہ مشترکہ سیاسی عمل کے باوجود مقتدر علماء اہلِ سنت شیعوں سے ہمیشہ اصولی فاصلے پر رہے اور شیعوں کے مخصوص عقائدِ سبعہ میں سے کسی کو صفِ اسلام میں جگہ نہ دی۔ اگر کسی کو ساتھ ملایا تو محض تالیفِ قلب کے طور پر کہ شاید حق کا چہرہ ان پر کھل جائے۔ ان کی مذہبی قیادت سے کبھی اسلام کے نام پر سمجھوتہ نہ کیا گیا۔ پھر یہی وہ صدی ہے جس میں ہندوستان میں مرزا غلام احمد قادیانی نے انگریزی حکومت کے زیرِ اثر مسیح موعود اور پھر نبی ہونے کا دعویٰ کیا، یہ جانتے ہوئے کہ قادیانیت انگریزی حکومت کے سیاسی مقاصد پورا کرنے کے لیے سامراج کا خود کاشتہ پودا ہے، کئی جگہوں پر سنی اور شیعہ دونوں قادیانیت کے خلاف کام کرتے رہے۔ یہ اتحاد اپنے سیاسی مقاصد و برطانوی سامراج کی مخالفت میں ہوا، اس لیے نہیں کہ سنی شیعوں کو مسلمان سمجھتے تھے۔ سنی مسلمانوں نے کبھی کسی ایسے شخص کو مسلمان تسلیم نہیں کیا جو شیعہ کے عقائدِ سبعہ میں سے کسی ایک عقیدے کا بھی حامل ہو۔ اس پسِ منظر میں اثناء عشری شیعوں کے بارے میں اہلِ سنت کے ہاں اگر کچھ نرمی آ سکتی تھی تو اس چودہویں صدی میں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وقت کے سیاسی تقاضوں اور مفادات کے باوجود اس صدی کے علمائے حق اس فیصلے سے بالکل متفق رہے، جو سلطان اورنگ زیب عالمگیرؒ کی زیرِ نگرانی اسی وقت کی قومی اسمبلی نے کیا تھا۔ شیعہ سنی بھائی بھائی کی آواز اسلام کی چودہ صدیوں میں کبھی کسی عالمِ حق کے ہاں پذیرائی حاصل نہیں کر سکتی۔ رہے عوام تو انہیں کالانعام ہونے کے سبب اس شہادت میں نہیں لایا جا سکتا۔
(عبقات: جلد، 2 صفحہ، 248)