شیعہ کے ساتھ اتحاد کرنا
کافروں کی دو قسمیں ہیں:
- کفار مجاہرین۔
- کفار منافقین۔
کفار مجاہرین وہ ہیں جو اپنے آپ کو کھلے طور پر اسلام کا مخالف کہتے ہیں، اور کفار منافقین وہ ہیں جو صریح کفریہ عقائد کے با وجود اپنے آپ کو صفِ اسلام سے باہر نہیں کرتے۔
ان دوسری قسم کے کافروں کو کسی مصلحت کے لیے کچھ وقت کے لیے اپنے ساتھ ملایا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اس دوران وہ ہمارے حلقوں میں اپنے کفر کی اشاعت نہ کریں۔ آنحضرتﷺ نے بھی کچھ عرصے کے لیے انہیں باہر نہ نکالا، آپﷺ سے عرض بھی کی گئی تو آپﷺ نے فرمائی مجھے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں (ابھی) روک رکھا ہے۔
اس کا مقصد شاید یہ ہو کہ یہ کھلے طور پر کفار مجاہرین سے نہ جا ملیں، یا عام لوگوں کو اُس وقت صفِ اسلام کچھ بھاری نظر آئے۔ اس وقت ہمیں ان مصالح سے بحث نہیں کہ انہیں کچھ وقت کے لیے اپنے ساتھ کیوں رکھا گیا؟ بتانا صرف یہ ہے کہ کفار منافقین کو کبھی کبھار مجاہرین کے مقابلہ میں اپنے ساتھ ملایا جا سکتا ہے۔
کسے پتہ نہیں کہ ہمارے اکابرؒ تحریک ختمِ نبوت میں علامہ کفایت حسین کو ساتھ لے کر چلے تھے، لیکن یہ بات بھی سب کے سامنے ہے کہ اُس وقت شیعوں کا یہ جارحانہ اندازِ عمل نہ تھا جو خمینی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد پیدا ہوا، نہ انہوں نے اس وقت اہلِ سنت و الجماعت کے اکثریتی ملک میں فقہ جعفریہ کے کبھی یہ امن سوز اور اشتعال انگیز نعرے لگائے تھے۔ اس مرحلے پر پہنچ کر ہر درد مند مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اب ہم انہیں مجاہرین میں کیوں نہ شمار کریں؟ اور مصلحت کا وہ پردہ درمیان سے کیوں نہ ہٹا دیں جو پہلے کفار مجاہرین اور کفار منافقین میں فرق کرتا تھا؟
پھر یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں کہ ان تحریکوں میں جن میں ہمارے بعض اکابرؒ ان کو ساتھ لے کر چلے اس اتحاد میں غلبہ ہمیشہ اسلام کا ہوتا تھا، اور ان شیعوں کو ان محافل و مجالس میں کبھی ان کفریات کے جہر و اعلان کی جرأت نہ تھی جو آج یہ کھلے بندوں کر رہے ہیں۔ ان حالات میں اور ان حالات میں خمینی کا اقتدار اور نفاذ فقہ جعفریہ کا اعلان حدِّ فاصل ہے، جس پر آج ان کا حکم کچھ پہلے سے مختلف ہو گیا ہے۔
(عبقات: جلد، 2 صفحہ، 257)