ام المؤمنین سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا
جعفر صادقام المؤمنین سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا
نوٹ: سیدہ ماریہ قبطیہؓ کو اکثر مؤرخین سیرت نگاروں نے ازواج میں شامل نہیں کیا جو کہ غلط ہے اور حقیقتاً ازواجِ مطہراتؓ میں شامل ہیں۔
وہ حرمِ نبوی میں آنے والی واحد مصری خاتون تھیں۔
ان کا آبائی تعلّق عیسائی مذہب سے تھا۔
وہ شاہی گھرانے سے تعلّق رکھتی تھیں۔
انہیں ایک بادشاہ نے نبی کریمﷺ کی خدمت میں بھیجا تھا۔
نہ صرف یہ بلکہ ان کا ذکرِ مبارک اشارے کنایوں ہی میں سہی "زبور'' میں بھی آیا چنانچہ نبی کریمﷺ کے حوالے سے جومختلف پیشین گوئیاں بائبل کے مختلف مقامات پر آئی ہیں ان میں سے ایک پیشیں گوئی یہ بھی ہے:
تیری معزز خواتین میں شاہزادیاں ہیں۔ ملکہ تیرے دہنے ہاتھ اوفیر کے سونے سے آراستہ کھڑی ہے۔
(زبور: جلد، 9 صفحہ، 45۔ 10)
قاضی سلیمان سلمان منصور پوریؒ رقمطراز ہیں:
داہنے ہاتھ کے الفاظ پر غور کرنا چاہیے یہ ''ملکِ یمین کا ترجمہ ہے'' سب مؤرخین سیدہ ماریہ خاتونؓ کو ملک یمین بتاتے ہیں پیش گوئی بالا میں پہلے بتایا گیا ہے کہ وہ شاہزادی ہونگی اور ان کا آنا ملک یمین کی شان میں ہوگا۔
(رحمة اللعالمینﷺ: جلد، 2 صفحہ، 99 حاشیہ)
زبور کی عبارت سے یہی عیاں ہوتا ہے کہ ایک خاتون جو خانوادہ شاہی سے تعلّق رکھتی ہونگیں وہ نبی کریم کی خدمت میں پیش کی جائیں گی ہجرت کے چھٹے سال کے بالکل آخر اور ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں رسول اللہﷺ نے دنیا بھر کے بڑے بڑے بادشاہوں کے نام خطوط ارسال فرمائے۔ جس میں اس بادشاہ اور اس کی قوم کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی،اس میں کہا گیا کہ اسلام لے آؤ سلامتی میں رہو گے اور دہرے اجر کےمستحق قرار دیے جاؤ گے ورنہ دوسری صورت میں تمہاری قوم کے اسلام قبول نہ کرنے کا گناہ تمہارے اوپر بھی ہو گا۔
اس کے بعد سورۃ آلِ عمران کی آیت نمبر 64 اس میں درج فرمائی گئی اور خط کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر مبارک لگائی گئی جواوپر نیچے تین سطروں پر مشتمل تھی۔ سب سے اوپر والی سطر میں لفظ اللہ دوسری میں رسول اور تیسری سطر میں محمد لکھا ہوا تھا۔
یہ خط جامعیت و اختصار کے حسین امتزاج کا عظیم شاہکار ہے۔ تمام بادشاہوں کو بھیجے جانے والے خط کا مضمون تقریباً ایک ہی ہے۔ ان خطوط مبارک کو لے کر جانے کی ذمہ داری رسول اللہﷺ نے مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سونپی۔ اسی تسلسل کی ایک کڑی تھی کہ آپﷺ نے 7 ہجری کے ابتدائی دنوں میں ایک خط شاہ مصر و اسکندریہ کو لکھا، جس کا نام جُریج بن متیٰ قبطی تھا اور اس کا لقب مُقَوْقَسْ تھا۔ سیدنا حاطب بن ابی بلتعہؓ کو ان کے پاس بھیجا، انہوں نے جاکر رسول اللہﷺ کا نامہ مبارک پیش کیا۔
نوٹ: مُقَوْقَسْ میم پر پیش اور دونوں ق پر زبر ہے۔
شاہِ مقوقس کے نام رسول اللہﷺ کا خط:
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِاللهِ وَ رَسُوْلِہِ إِلَى الْمُقَوْقَسْ عَظِيْمِ الْقِبْطِسَلَامٌ عَلٰى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدىٰ!
أَمَّا بَعْدُ! فَإِنِّی أَدْعُوْكَ بِدَعَايَةِ الإِسْلَامِ، أَسْلِمْ تَسْلِمْ یَؤْتِکَ اللہُ اَجْرَکَ مَرَّتَینِ، فَاِنْ تَوَلَّیْتَ فَعَلَیْکَ اِثْمُ الْقِبْطِ قُلۡ يٰۤاَهۡلَ الۡكِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۢ بَيۡنَـنَا وَبَيۡنَكُمۡ اَلَّا نَـعۡبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشۡرِكَ بِهٖ شَيۡئًا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡهَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ۞
ترجمہ: اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد کی طرف سے مقوقس عظیم ِ قِبط کی جانب!!
اس پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اما بعد:
میں تمہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں، اسلام لے آؤ، سلامت رہو گے اور اللہ تعالیٰ تمہیں دوگنا اجر عطاء فرمائیں گے اگر تم روگردانی کرو گے تو سارے قبطیوں کی گمراہی کا گناہ تمہارے اوپر ہوگا۔
اے اہلِ کتاب! آؤ ایک ایسی مشترکہ بات پر جمع ہو جائیں کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی اور کو معبود نہیں مانیں گے اور ہم اس کی ذات و صفات (خاصہ) کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور اللہ کے علاوہ کوئی کسی اور کو رب نہ مانے۔ اگر وہ اس عہد و پیمان سے پھر گئے تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو ماننے والے ہیں۔
نوٹ: عموماً جب خط لکھتے ہیں تو اس کی ابتداء میں "السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" تحریر کرتے ہیں۔ جبکہ اس خط میں السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ نہیں لکھا گیا بلکہ سلام علی من اتبع الھدیٰ لکھا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ایک دعا ہے جس کے مستحق صرف اہلِ اسلام ہیں۔ غیر مسلموں کو خط لکھتے وقت سلام علی من اتبع الھدیٰ لکھا جاتا ہے۔ چونکہ شاہِ مصر مقوقس عیسائی تھا اس لیے اسے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ لکھنے کے بجائے سلام علی من اتبع الھدیٰ تحریر کیا۔
قاصدِ رسول کی مقوقس کے دربار میں تشریف آوری:
آپﷺ کا نامہ مبارک لے کر سیدنا حاطب بن ابی بلتعہؓ شاہِ مقوقس کے دربار میں پہنچے اورمتانت کے ساتھ ان کو جا کر کہا: اے شاہِ مقوقس! آپ سے پہلے اس ملک میں ایک شخص گزرا ہے جو اپنے آپ کو رب اعلیٰ سمجھتا تھا۔ اللہ نے اسےنشان عبرت بنا دیا۔ پہلے تو اس کے ذریعے لوگوں سے انتقام لیا پھر خود اس کو انتقام کا نشانہ بنایا۔ لہٰذا دوسرے سے عبرت حاصل کرو ایسا نہ ہو کہ دوسرے تم سے عبرت حاصل کریں۔
شاہِ مقوقس سے مکالمہ:
مقوقس: مجھےمحمدﷺ کے بارے میں بتائیے، کیا وہ اللہ کے نبی ہیں؟
سیدنا حاطب بن ابی بلتعہؓ: وہ نبی ہی نہیں، بلکہ اللہ کے رسول بھی ہیں۔
مقوقس: اگر وہ واقعی اللہ کے رسول ہیں تو پھر کیا وجہ ہے جب ان کی قوم نے انہیں اپنی بستی (مکہ) سے نکالا تو انہوں نے اس کے لیے اللہ کے عذاب کی بد دعا نہیں کی؟
سیدنا حاطب بن ابی بلتعہؓ: کیا آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا رسول نہیں مانتے؟
مقوقس: بالکل مانتے ہیں۔
سیدنا حاطب بن ابی بلتعہؓ: تو پھر آپ بتائیے کہ جب ان کی قوم نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا اور انہیں سولی دینے کا ارادہ کیا اور پھر اللہ انہیں آسمان پر اٹھا کر لے گیا تو انہوں نے اس بات کی دعا کیوں نہیں کی کہ ان کا رب بنی اسرائیل کو ہلاک کر دے؟
شاہِ مقوقس کا اعتراف:
آپ ایک حکیم عقل مند (آدمی ہیں اور ایک حکیم) دانا آدمی کی طرف سے آئے ہیں۔ میں محمدﷺ کے لیے یہ تحفے آپ کے ساتھ بھیجتا ہوں اور یہ نگہبان مابور نام تھا جو آپ کے علاقے تک آپ کی نگہبانی کریں گے۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ کے خط کا جواب لکھوایا۔
شاہِ مقوقس کا خط:
لمحمد بن عبدالله، من المقوقس عظيم القبط
سلام عليك!
أما بعد! فقد قرأت كتابك، وفهمت ما ذكرت فيه، وما تدعوا إليه، وقد علمت أن نبيا بقی، وكنت أظن أنه يخرج بالشام، وقد أكرمت رسولك، وبعثت لك بجاريتين لهما مكان فی القبط عظيم، وبكسوة وهديت إليك بغلة لتركبها۔
والسلام عليك
ترجمہ: محمد بن عبداللہ کے حضور منجانب مقوقس عظیم القبط!
اما بعد! میں نے آپ کا گرامی نامہ پڑھا اور جو کچھ اس میں تحریر تھا اور جس کی آپ نے دعوت دی، میں نے اس سمجھ لیا۔ میں جانتا ہوں ایک نبی نے آنا تھا لیکن میرا خیال ہے اس کا ظہور ملک شام سے ہوگا۔بہرحال! میں نے آپ کے قاصد کی عزت کی ہے، میں آپ کی طرف دو کنیزیں ماریہ اور سیرین کو بھیجتا ہوں جو کہ قبط میں عظیمُ المرتبت ہیں اور کچھ لباس و تحائف بھی پیش خدمت کرتا ہوں اور خچر بھی آپ کی سواری کے لیے روانہ کر رہا ہوں۔
آپ پر سلامتی ہو۔
شاہِ مقوقس کے تحائف:
خط کے ہمراہ چند تحائف بھی آپﷺ کی خدمت میں بھیجے جن میں دو کنیزیں سیدہ ماریہ قبطیہؓ اور سیدہ سیرینؓ بھی تھیں۔ اس کے علاوہ ایک اونٹ، ایک سفید رنگ کا خچر، ایک نیزہ، قیمتی لباس، قیمتی خلعت اور ہزار مثقال سونا شامل تھا۔ بعض روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ شاہِ مقوقس نے ایک طبیب معالج، حکیم، ڈاکٹر بھی ساتھ بھیجا جسے آپﷺ نے یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ: إِنَّا قَوْمٌ لَا نَأكُلُ حَتّٰى نُجُوْع، وَإِذَا أَكَلْنَا لَا نَشْبَعُ۔
ترجمہ: ہم لوگ سخت بھوک کے وقت کھانا کھاتے ہیں اور ابھی بھوک باقی ہوتی ہے ہم کھانے سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں۔
اور سیدنا حاطب بن ابی بلتعہؓ کو شاہِ مقوقس نے تحفے میں سو مثقال سونا اور پانچ قیمتی لباس دیے تھے۔
سیدہ ماریہؓ و سیدہ سیرینؓ کا قبول اسلام:
دوسرے دن چار افراد سیدنا حاطب بن ابی بلتعہؓ، سیدہ ماریہؓ، سیدہ سیرینؓ اور مابور پر مشتمل چھوٹا سا قافلہ اونٹ، خچر اور دیگر سامان کے ہمراہ مصر سے مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔ راستہ میں سیدنا حاطب بن ابی بلتعہؓ نے قافلے کی تمام افراد کو اسلام کی دعوت دی۔ مابور نےانکار کیا جب کہ سیدہ ماریہؓ اور سیدہ سیرینؓ نے راستے میں ہی اسلام قبول کر لیا۔
مدینہ منورہ آمد:
کئی دنوں کی طویل مسافت کے بعد یہ قافلہ مدینہ منورہ داخل ہوا۔ سیدنا حاطب بن ابی بلتعہؓ سیدہ ماریہؓ اور سیدہ سیرینؓ کو لے کر سیدھے سیدہ ام سلیم بنتِ ملحانؓ کے گھر تشریف لے گئےاور اس کے بعد رسول اللہﷺ کے دربار میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا اور شاہِ مقوقس کا خط نکال کر پیش کیا۔
سیدہ ماریہؓ امِ ولد بنتی ہیں:
سیدہ ماریہ قبطیہؓ کو سیدہ عائشہؓ کے پڑوس میں سیدنا حارثہ بن نعمانؓ کے مکان میں ٹھہرایا گیا اگرچہ آپؓ کنیز تھیں لیکن اس کے باوجود آپؓ کو دیگر ازواجِ مطہراتؓ کی طرح پردہ میں رہنے کا حکم دیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر مبارک 20 سال کی تھی۔کچھ عرصہ بعد سیدہ ماریہ قبطیہؓ امید سے ہوگئیں۔آپؓ کی دیکھ بھال کے لیے سیدنا ابورافعؓ کی اہلیہ سیدہ سلمیٰؓ گاہے بگاہے تشریف لاتیں۔ سیدہ ماریہؓ ایک بچے کی ماں بن گئیں لونڈی جب بچے کی ماں بنے تو اسے "اُمِّ وَلَدْ" کہتے ہیں سیدہ سلمیؓ نے اپنے خاوند کو بچے کی خوشخبری دینے کے لئے رسول اللہﷺ کے پاس بھیجا، انہوں نے جا کر اطلاع دی، آپﷺ بہت خوش ہوئےاور "ابراہیم" نام رکھا۔
قبطیوں سے حسنِ سلوک کا حکم:
آپﷺ نے ارشاد فرمایا: قبطیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرو اس لئے کہ ان سے عہد اور نسب دونوں کا تعلق ہے۔ ان کے نسب کا تعلق کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (حضرت حاجرہ علیہا السلام) اور میرے بیٹے ابراہیمؓ دونوں کی ماں اسی قوم سے ہے اور عہد کا تعلق یہ ہے کہ ان سے معاہدہ ہوچکا ہے۔
سیدنا ابراہیمؓ کی وفات:
پیدائش کے بعد 18 ماہ تک سیدنا ابراہیمؓ زندہ رہے اور پھر وفات پاگئے۔ سیدنا فضل بن عباسؓ نے فرزندِ رسول کو غسل دیا اور ایک چھوٹے سے تختے پر اٹھا کر بقیع کی طرف چل پڑے۔ نمازِ جنازہ رسول اللہﷺ نے خود پڑھائی۔ آپﷺ سے پوچھا گیا کہ ان کو کہاں دفن کریں؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: سیدنا عثمان بن مظعونؓ کے پاس۔ چنانچہ سیدنا ابراہیمؓ کی قبر وہاں کھودی گئی تو اس میں سیدنا اسامہ بن زیدؓ اترے اور سیدنا ابراہیمؓ کو آسودہ خاک فرمایا۔
سیدہ ماریہؓ کی وفات:
سن 16 ہجری محرمُ الحرام میں سیدہ ماریہ قبطیہؓ نے وفات پائی سیدنا عمرؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپؓ کو جنتُ البقیع میں دفن کر دیا گیا۔
نوٹ: امہات المومنینؓ کے مبارک تذکرے کے بعد سیدہ ماریہ قبطیہؓ کا ذکر اس لیے ضروری سمجھا کہ یہ آپﷺ کے فرزند سیدنا ابراہیمؓ کی والدہ ہیں۔ جب کہ سیدہ سیرینؓ رضی اللہ عنہا سیدنا حسان بن ثابتؓ کے پاس رہیں اور ان سے عبدالرحمٰن پیدا ہوئے۔