علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ کے بارے میں علمائے دیوبند کی رائے
نقیہ کاظمیسوال: علامہ ابنِ تیمیہؒ کے بارے میں علمائے دیوبند کی کیا رائے ہے؟ خدا کی ذات اور صفات کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا صحیح تھا؟ کیا ان کا ماننا تھا کہ اللہ عرش کے اوپر ہے؟ کیا انہوں نے بہت سارے مسائل میں اجماع امت کی خلاف ورزی کی تھی؟ مہربانی کر کے ضرور جواب دیں۔
جواب:
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 809-792/N=8/1438
1: علامہ ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ سے بعض اصولی و فروعی مسائل میں سخت چوک ہوئی ہے، اُن میں انہوں نے جمہور علماء کی روش سے ہٹ کر شذوذ و تفرد کی رائے اختیار کی ہے۔
2: اللہ رب العزت کی ذات و صفات کے مسئلہ میں بھی علامہ ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ نے غلو کا موقف اختیار کیا ہے، اس سے احتراز ضروری ہے۔
3: علامہ ابنِ تیمیہؒ نے اللہ تعالیٰ عرش پر ہونے کی جو تشریح کی ہے، وہ اہلِ سنت والجماعت کی تحقیق کے خلاف ہے۔
4: جی ہاں! انہوں نے متعدد اصولی و فروعی مسائل میں اجماعِ امت کی مخالفت کی ہے۔
Fatwa: 1028-999/sd=10/1438
1: علامہ ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ ایک حنبلی المسلک عالم تھے، لیکن عقائد و عبادات سے متعلق بہت سے مسائل میں اُنھوں نے جمہور سے علیحدگی کی تھی، جس پر بہت سے علماء، مثلاً علامہ ابنِ حجر عسقلانی، ابنِ حجر ہیتمی، علامہ تاج الدین سبکی، فقیہ ولی الدین العراقی اور تقی الدین سبکی رحمہم اللہ وغیرہ نے سخت رد فرمایا ہے۔
2: اللہ کی ذات و صفات کے بارے میں اُن کا عقیدہ صحیح نہیں تھا، عرش کے سلسلے میں بھی اُن کا نظریہ صحیح نہیں تھا، نیز بہت سے مسائل میں انھوں نے جمہور سے الگ مستقل رائے قائم کی تھی۔
قال ابن حجر الہیتمی: واعْلم أَنہ خَالف النَّاس فِی مسَائِل نبہ عَلَیْھَا التَّاج السُّبْکِیّ وَغَیرہ فمما خرق فِیہِ الْإِجْمَاع قَوْلہ فِی: علیَّ الطَّلَاق أنَّہ لَا یَقع عَلَیْہِ بل عَلَیْہِ کَفَّارَة یَمِین، وَلم یقل بِالْکَفَّارَةِ أحد من الْمُسلمین قبلہ، وَأَن طَلَاق الْحَائِض لَا یَقع، وَکَذَا الطَّلَاق فِی طُھر جَامع فِیہِ، وَأَن الصَّلَاة إِذا ترکت عمدا لَا یجب قَضَاؤھا، وَأَن الْحَائِض یُبَاح لَھَا بِالطّوافِ بِالْبَیْتِ وَلَا کَفَّارَة عَلَیْھَا، وَأَن الطَّلَاق الثَّلَاث یُردُّ إِلَی وَاحِدَة، وَکَانَ ہُوَ قبل ادّعائہ ذَلِک نقل أجماع الْمُسلمین علی خِلَافہ، وَأَن المکوس حَلَال لمن أقطعھا، وَأَنَّھَا إِذا أخذت من التجَّار أجزأتھم عَن الزَّکَاة وَإِن لم تکن باسم الزَّکَاة وَلَا رسمھا، وَأَن الْمَائِعَات لَا تنجس بِمَوْت حَیَوَان فِیھا کالفأرة، وَأَن الْجنب یصلی تطوّعہ بِاللَّیْلِ وَلَا یُؤِخِّرہُ إِلَی أَن یغْتَسل قبل الْفجْر، وإنْ کَانَ بِالْبَلَدِ، وَأَن شَرط الْوَاقِف غیر مُعْتبَر، بل لَو وقف علی الشَّافِعِیَّة صرف إِلَی الْحَنَفِیَّة وَبِالْعَکْسِ، وعَلی الْقُضَاة صُرِف إِلَی الصُّوفِیَّة، فِی أَمْثَال ذَلِک من مسَائِل الْأُصُول مَسْأَلَة الْحسن والقُبْح الْتزم کل مَا یرد عَلَیْھَا، وَإِن مُخَالف الْإِجْمَاع لَا یکفر وَلَا یفسق، وَأَن رَبنَا سُبْحَانَہُ وَتَعَالیٰ عَمَّا یَقُول الظَّالِمُونَ والجاحدون علوّاً کَبِیرا مَحلُّ الْحَوَادِث تَعَالیٰ اللہ عَن ذَلِک وتقدس، وَأَنہ مْرکَّبٌ تفْتَقر ذَاتہ افتقار الْکل للجزء تَعَالیٰ اللہ عَن ذَلِک وتقدس، وَأَن الْقُرْآن مُحدث فِی ذَات اللہ تَعَالیٰ اللہ عَن ذَلِک، وَأَن الْعَالم قدیم بالنوع، وَلم یزل مَعَ اللہ مخلوقاً دَائِما فَجعلہ مُوجبا بِالذَّاتِ لَا فَاعِلا بِالِاخْتِیَارِ تَعَالیٰ اللہ عَن ذَلِک، وَقَولہ بالجِسْمِّیة والجھة والانتقال، وَأَنہ بقَدَر الْعَرْش لَا أصْغَرَ وَلَا أکبر تَعَالیٰ اللہ عَن ھذَا الافتراء الشنیع الْقَبِیح، وَالْکفْر البراح الصَّرِیح، وخذل مُتَّبِعیہ وشتت شَمْل معتقدیہ، وَقَالَ: إِن النَّار تفنی، وَأَن الْأَنْبِیَاء غیر معصومین، وَأَن رَسُول اللہ صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم لَا جاہ لَہُ وَلَا یتوسل بِہِ، وأنَّ إنْشَاء السّفر إِلَیْہِ بِسَبَب الزِّیَارَة مَعْصِیّة لَا تُقصر الصَّلَاة فِیہِ، وسیحرم ذَلِک یَوْم الْحَاجة ماسَّة إِلَی شَفَاعَتہ، وَأَن التَّوْرَاة وَالْإِنْجِیل لم تبدل ألفاظھما وَإِنَّمَا بدلت معانیھما
(الفتاویٰ الحدیثیة: جلد، 1 صفحہ، 85 طبع: دارالفکر، بیروت)
قال ابنِ حجر العسقلانی: وَمن ثمَّ نسب أَصْحَابہ إِلَی الغلو فِیہِ وَاقْتضی لَہُ ذَلِک الْعجب بِنَفسِہِ حَتَّی زھا علی أَبنَاء جنسہ واستشعر أَنہ مُجْتَھد فَصَارَ یرد علی صَغِیر الْعلمَاء وَکَبِیرھمْ قویھم وحدیثھم حَتَّی انْتھی إِلَی عمر فخطأہ فِی شَیْء فَبلغ الشَّیْخ إِبْرَاھیم الرقی فَأنْکر عَلَیْہِ فَذھب إِلَیْہِ وَاعْتذر واستغفر وَقَالَ فِی حق عَلیّ أَخطَأ فِی سَبْعَة عشر شَیْئا ثمَّ خَالف فِیھا نَص الْکتاب مِنْھا اعْتِدَاد المتوفی عَنْھا زَوجھا أطول الْأَجَلیْنِ وَ کَانَ لتعصبہ لمَذْہَب الْحَنَابِلَة یَقع فِی الأشاعرة حَتَّی أَنہ سبّ الْغَزالِیّ فَقَامَ عَلَیْہِ قوم کَادُوا یقتلونہ وَلما قدم غازان بجیوش التتر إِلَی الشَّام خرج إِلَیْہِ وَکَلمہ بِکَلَام قوی فھم بقتْلہ ثمَّ نجا و اشتہر أمرہ من یَوْمئِذٍ وَاتفقَ الشَّیْخ نصر المنبجی کَانَ قد تقدم فِی الدولة لاعتقاد بیبرس الجاشنکیر فِیہِ فَبَلغہُ أَن ابْن تَیْمِیة یَقع فِی ابْن الْعَرَبِیّ لِأَنَّہُ کَانَ یعْتَقد أَنہ مُسْتَقِیم وَأَن الَّذِی ینْسب إِلَیْہِ من الِاتِّحَاد أَو الْإِلْحَاد من قُصُور فھم من یُنکر عَلَیْہِ فَأرْسل یُنکر عَلَیْہِ وَ کتب إِلَیْہِ کتابا طَویلا وَ نسبہ وَأَصْحَابہ إِلَی الِاتِّحَاد الَّذِی ہُوَ حَقِیقَة الْإِلْحَاد فَعظم ذَلِک عَلَیْھم وأعانہ عَلَیْہِ قوم آخَرُونَ ضبطوا عَلَیْہِ کَلِمَات فِی العقائد مُغیرَة وَقعت مِنْہُ فِی مواعیدہ وفتاویہ فَذکرُوا أَنہ ذکر حَدِیث النُّزُول فَنزل عَن الْمِنْبَر دَرَجَتَیْنِ فَقَالَ کنزولی ھذَا فنسب إِلَی التجسیم وردہ علی من توسل بِالنَّبِیِّ صلّی اللہ عَلَیْہِ وسلّم أَو اسْتَغَاثَ فأشخص من دمشق فِی رَمَضَان سنة خمس وَسَبْع مائة فَجری عَلَیْہِ مَا جری وَحبس مرَارًا فَأَقَامَ علی ذَلِک نَحْو أَربع سِنِین أَو أَکثر وَھوَ مَعَ ذَلِک یشغل ویفتی إِلَی أَن اتّفق أَن الشَّیْخ نصرا قَامَ علی الشَّیْخ کریم الدّین الآملی شیخ خانقاہ سعید السُّعَدَاء فَأخْرجہُ من الخانقاہ وعَلی شمس الدّین الْجَزرِی فَأخْرجہُ من تدریس الشریفیة فَیُقَال أَن الآملی دخل الْخلْوَة بِمصْر أَرْبَعِینَ یَوْمًا فَلم یخرج حَتَّی زَالَت دولة بیبرس وخمل ذکر نصر وَأطلق ابْن تَیْمِیة إِلَی الشَّام وافترق النَّاس فِیہِ شیعًا فَمنھمْ من نسبہ إِلَی التجسیم لما ذکر فِی العقیدة الحمویة والواسطیة وَغَیرہمَا من ذَلِک کَقَوْلِہ أَن الْیَد والقدم والساق وَالْوَجْہ صِفَات حَقِیقِیَّة للہ وَأَنہ مستوٍ علی الْعَرْش بِذَاتِہِ فَقیل لَہُ یلْزم من ذَلِک التحیز والانقسام فَقَالَ أَنا لَا أسلم أَن التحیز والانقسام من خَواص الْأَجْسَام فألزم بِأَنَّہُ یَقُول بتحیز فِی ذَات اللہ
(الدرر الکامنة فی أعیان المائة الثامنة: جلد، 1 صفحہ، 178 ذکر من اسمہ احمد، طبع: مجلس دائرة المعارف العثمانیة، حیدر آباد الہند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
یہ تحریر دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کی سائیٹ سے لی گئی ہے۔