Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ کے ساتھ اتحاد نہیں ہو سکتا


امیر عزیمت حضرت مولانا علامہ حق نواز جھنگوی شہید رحمۃ اللہ کے فرمودات

 سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ اکابرین نے بھی شیعہ کے ساتھ اتحاد کیا تھا؟

جواب: علامہ حق نواز جھنگوی شہیدؒ اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں کہ شیعہ نے اسلام کا مذاق اڑایا ہے، انہوں نے اسلام کے پرخچے اڑائے ہیں۔ انہوں نے نصِ قطعی کا انکار کیا ہے۔ 

جب تک شیعہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نہیں مانتا میرا بھائی نہیں بن سکتا۔ وہ کون سا اسلام ہے جس میں یہ تحریر ہو کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بد معاش عورت ہے۔ شیعہ مصنف، شیعہ مجتہد، ملا باقر مجلسی اپنی کتاب جلاء العیون میں لکھتے ہیں۔ سیدہ عائشہؓ ملعونہ اور دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ جو حضرت عمرؓ کی کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔

مولویو، پیرو، وڈیرو، پڑھ لو، ہمیں شرارتی کہنے والو، اپنے دماغ کا علاج کرواؤ، اگر یہ شیعہ لٹریچر نہیں تو ہم شرارتی ہیں، اور اگر یہ شیعہ لٹریچر ہے تو مجھے اس کفر کے خلاف یلغار کر لینے دیجئے۔ اگر تم میں سکت نہیں رہی تو ہمارا راستہ نہ روکیے، اگر تمہاری زبانیں گنگ ہو گئی ہیں تو ہمیں ترجمانی کر لینے دیجئے، اگر تیرا جگر برداشت نہیں کرتا تو ہمیں میدان میں آنے دیجئے، ہمارا دشمن بن کے راستے میں رکاوٹ مت بنیے۔ ہم دیکھتے ہیں کب تک حضرت صدیق اکبرؓ کا دشمن چلتا ہے تم ایجنٹ نہ بنو نہیں مقابلہ کر سکتے بیٹھ جاؤ، ہم لاکھ احترام کریں گے، ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دشمن کا راستہ روکنے کے لیے چھوڑ دیجئے۔

جب تک شیعہ اس کلمہ کو نہ مانے جو امتِ مسلمہ کا کلمہ ہے، جب تک شیعہ قرآن کو غیر محرف نہ مانے، جب تک شیعہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل کا قائل نہ بن جائیں، جب تک شیعہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی عفت کا قائل نہ بن جائیں، اس وقت تک شیعہ الگ ہے سنی الگ ہے، کوئی اتحاد نہیں ہو سکتا۔

ممکن ہے کہ کسی کو مغالطہ ہو جائے کہ جی اتحاد تو ہوا ہے، سن 53ء میں ہوا، مسئلہ ختم نبوت کے لیے ہوا

تو کہہ دینا چاہتا ہوں، یوں تو اتحاد گاندھی سے بھی ہوا تھا۔ پھر ہندو مسلمان بھائی بھائی ہے؟ میں اُن سے کہہ رہا ہوں جو اکابرین کے حوالے سے بات کرتے ہیں غیر سے نہیں، گاندھی سے اتحاد ہوا یا نہیں ہوا؟ ہوا۔ گانگریس بنی یا نہیں بنی؟ بنی۔ ہوا اتحاد؟ جی ہاں۔ پھر ہندو مسلمان بھائی بن گئے؟ نہیں۔ ہندو کو اب بیٹی دے دی جائے؟ نہیں۔ ہندو مرے تو اب جنازہ پڑھ لیا جائے؟ نہیں۔ ہندو کا ختم شریف پڑھ لیا جائے؟ نہیں۔ کیوں؟ اتحاد تو ہوا ہے، گانگریس تو بنی ہے، جلوس تو ایک ساتھ نکلی ہے، کانفرنسیں بھی اکٹھے تو ہوئے ہے، اسٹیج پہ بھی اکھٹے بیٹھے ہیں لیکن جنازہ تو نہیں پڑھا جائے گا، بیٹی تو نہیں دی جائے گی۔ کیوں؟ اس لیے کہ اتحاد ہوا ملکی آزادی کے لیے، نہ اس لیے کہ مذہب الگ الگ نہ رہا، بلکہ مذہب الگ الگ تھا اتحاد کسی اور چیز کے لیے تھا۔

اور پھر تو جو کرو، مسئلہ ختمِ نبوت کے لیے امیرِ شریعتؒ نے اتحاد کیا، کیوں کیا؟ اس لیے کہ پھر وہاں کی حکومت کہے گی اگر آج قادیانیوں کے بارے میں بات مانتے ہیں تو پھر تم شیعہ کے کفر کا مسئلہ کھڑا کر دوں گے، لہٰذا ہم یہ بھی نہیں مانتے۔ اس لیے امیرِ شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے شیعوں کو اپنے ساتھ اٹھا لیا۔

الحرب خداعة جہاد میں دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔ پیغمبرﷺ کا ارشاد ہے کہ جب مجاہد جہاد کے میدان میں کھڑا ہو، بیشک دشمن کو دھوکہ دے، اس کو دھوکہ بد نہیں سمجھا جائے گا، اس کو مجاہد سمجھا جائے گا۔ امیر شریعتؒ جہاد کے میدان میں کھڑے تھے اس نے حکومتِ وقت کو دھوکہ دیا۔ مطالبانہ دھوکہ، نہ کہ ملعونہ دھوکہ۔ حکومت کہتی تھی کہ ہم نہیں مانتے کہ قادیانی غیر مسلم ہے، کیوں؟ آج ان کو کہتے ہو کل کسی اور کو کہو گے ۔ امیرِ شریعتؒ نے جہاد کے میدان میں اس حدیث پر عمل کیا کہ نہیں نہیں یہ تو ہمارے ساتھ آ گئے ہیں، دیکھو، ہم اکھٹے کھڑے ہیں تاکہ حکومت کا منہ بند ہو جائیں، حکومت کا منہ بند کیا تاکہ اس منزل کو حاصل کریں، پھر وہ منزل حاصل ہو گئی۔ اس منزل کے حصول کے بعد اب شیعیت کو ساتھ ملانا، اور وہ بھی کسی مشترکہ مسئلے کے لیے نہیں، بین الاقوامی مسئلے کے لیے نہیں، بلکہ ایک شہر کی گلی کے لیے۔

ڈوب مرو، یہی سمجھے ہو اکابرینؒ کے موقف کو۔ ظالمو، اگر کسی بین الاقوامی مسئلے کے حصول کے لیے کوئی اتحاد کرے تو تم اس کو ایک گلی کے لیے فٹ کرتے ہو؟

دوسری مثال مؤلفۃ القلوب تھے۔ پیغمبرﷺ نے زیادہ پیسے دیئے بنسبت دوسروں کے، پوچھا گیا، آقاﷺ کیوں؟ فرمایا تازه تازہ اسلام میں داخل ہوئے ہیں زیادہ تعاون کیا جائے گا تو احسان سمجھیں گے۔

مؤلفۃ القلوب تھے۔ وقت آیا، سیدنا ابنِ خطابؓ نے کہا؛ بند کرو ان کا وظیفہ، پوچھا گیا حضرت عمرؓ آقاﷺ دیا کرتے تھے۔ فرمایا اب ضرورت نہیں ہے۔ مؤلفۃ القلوب کی، اسلام مضبوط ہو گیا۔ اب کوئی آتا ہے آئے نہیں آتا نہ آئے ضرورت تھی کبھی اب نہیں ہے۔ جب ضرورت تھی کیا، اب ضرورت نہیں تو کیوں کیا جائے۔

ہاں اگر پھر بھی کسی بزرگ نے بین الاقوامی مسائل کو سامنے رکھ کر اس حد تک اتفاق کیا ہو کہ آواز ایک اٹھائیں تو وہ بھی اور نوعیت رکھتا ہے۔ لیکن یہ اتحاد کہ ایک گلی کے لیے اتحاد ہو، پھر اس کو سربراہ بنا لیا جائے، پھر اس کو اپنا قائد کہا جائے، پھر اس کو سر جی کہا جائے، پھر اس کو سلام کیا جائے، یہ اتحاد کبھی تھا نہ ہو سکتا ہے، اس کا تو کوئی جواز نہیں ہے۔