Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

صلح حدیبیہ اور شیعوں کے ساتھ اتحاد کی حقیقت


سوال: بعض لوگ شیعہ کے ساتھ اتحاد کرنے پر یہودِ مدینہ کے ساتھ میثاق اور صلح حدیبیہ کے واقعات کو بطورِ حوالہ پیش کرتے ہیں؟

جواب: از مولانا محمد اعظم طارق شہیدؒ میں بصد احترام ایسے حضرات سے عرض کرتا ہوں کہ یہود سے معاہدہ کے وقت انہیں مسلمان تسلیم نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی معاہدہ میں کہیں کوئی یہ شق تھی کہ یہود کے عقائدِ باطلہ کا رد نہیں ہوا کرے گا۔ صلح حدیبیہ میں بھی مشرکینِ مکہ کے شرک و کفر کو برداشت کرنے پر سمجھوتہ نہیں ہوا ہے، بلکہ یہ معاہدہ باہم جنگ نہ کرنے کا معاہدہ تھا، جبکہ اس معاہدہ کے باوجود شرک و کفر کا علی الاعلان رد اور معبودانِ باطلہ کے تردید وحی الٰہی کے ذریعے جاری رہی اور زبانِ نبوتﷺ سے بھی ہوتی رہی۔

سپاہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قائدین کے بارے میں لب کشائی کرتے ہوئے طعن و تشنیع کے تیر چلانے اور اٹھتے بیٹھتے فرقہ پرست، تخریب کار، دہشت گرد اور انتہا پسندی کے القابات سے قیادت و کارکنان کو نوازنے سے اگر کسی کا دل سکون پاتا ہے تو ہم خوش ہیں، مگر یہ بتا دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم ان الزامات و اتہامات سے خوفزدہ ہو کر اپنی پُر امن جد و جہد کو ترک نہیں کر سکتے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طبقہ حضور اکرمﷺ کے بعد بارہ شخصیات کو معصوم قرار دے کر انہیں تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے بر ملا افضل قرار دے، قرآن مجید کو شراب خور خلفاءؓ کی خاطر تبدیل شدہ مانے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، امہات المومنینؓ کو تحریراً و تقریراً معاذ اللہ کافر و زندیق قرار دے کر ان پر لعنت و ملامت کو عبادت کا حصہ جانے، اور ہم لوگ اس گروہ و طبقہ کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اتحاد بین المسلمین کے نعرے بلند کر کے امتِ مسلمہ کو دھوکہ دینے کا شرمناک فعل سر انجام دیتے رہیں۔

مجھے حیرت ہے ان دینی جماعتوں اور لیڈران کی سوچ پر جو اپنی ذات و جماعت اور اپنے اکابرؒ و مشائخ کے بارے میں تو ادنیٰ سی بھی بے ادبی برداشت نہیں کرتے ہیں، حتیٰ کہ اپنی تقریر کے دوران اپنی پسند کے نعرے سے ہٹ کر کسی دوسرے جائز نعرے تک کو برداشت کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں، مگر جب بات اس گروہ و طبقہ کی آتی ہے جو اٹھتے بیٹھتے اصحابِِؓ رسولﷺ پر تبراء کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہے، تو یہ حضرات نا صرف ہمیں صبر و برداشت کا درس دیتے ہیں بلکہ اس طبقہ کو مسلمان بھائی تسلیم کرنے اور اتحاد و اتفاق کا نعرہ بلند کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔

میں ان حضرات سے مؤدبانہ طور پر صرف اتنا ہی کہتا ہوں کہ اب آپ کی ایسی نصیحت سے ہم لوگ متاثر ہونے سے قاصر ہیں۔ خدارا ہمیں ان باتوں سے معاف رکھیں۔ اگر ہمارے اس جواب پر آپ کے قلب و جگر میں غیض و غضب کی آتش بھڑک اٹھتی ہے تو پھر ہاتھ اٹھا کر اپنے حق میں دعا کریں کہ اے رب العالمین تو روزِ محشر ہمارا حشر گستاخانِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ کرنا تاکہ ہم وہاں بھی اتحاد و اتفاق کے نعرے بلند کر سکیں، اور سپاہ صحابؓہ والوں کا حشر ان کے ساتھ کرنا جن کی عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے ساری دنیا سے ناطہ توڑ کر یہ لوگ اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔

(میرا جرم کیا ہے: جلد، 1 صفحہ، 18)