Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ اور شیعہ سنی اتحاد ایک حقیقت آج کل یہ بات بڑی زور و شور سے کہی جا رہی ہے کہ سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ نے بھی تو شیعوں کے ساتھ ختم نبوت کے معاملے پر اتحاد کیا تھا:


میرے محترم قارئینِ کرام!

امیرِ شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کا شیعوں کے ساتھ اتحاد اور پھر آخری عمر میں اس سے رجوع تاریخ کے آئینے میں ملاحظہ کرنے سے قبل ایک ضروری وضاحت ملاحظہ فرمائیں تاکہ آگے چل کر بات کے سمجھنے میں آسانی ہو-

حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحبؒ اپنی کتاب ارشاد الشیعہ کے صفحہ 19 پر رقمطراز ہیں، اس سوال کے جواب میں کہ علماء نے شیعہ کو کافر کہنے میں تأمل اور مداہنت کیوں کی؟ اس کے متعدد وجوہ ہیں

  1.  متقدمین اور متاخرین کے اصطلاح لفظ شیعہ کے بارے میں جدا جدا ہونے کی وجہ سے۔ 
  2. شیعہ کی کتابوں کا عدمِ مطالعہ اور ان تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے۔
  3. شیعہ کے نزدیک ان کے دین کے دس حصوں میں نو حصے تقیہ میں مضمر ہیں، اس وجہ سے۔

جہاں تک تعلق امیرِ شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کے ختمِ نبوت کے معاملے پر شیعوں کے ساتھ اتحاد کا ہے تو اس میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ امیرِ شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ بہت بڑے خطیب اور علماء اہلِ حق میں سے تھے، لیکن یہ اصول اہلِ سنت و الجماعت کا بحر حال مقدم ہے کہ معصوم عن الخطاء صرف حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی جماعت ہے اور محفوظ عن الخطاء صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت ہے، لہٰذا امیرِ شریعتؒ سے اجتہادی خطاء ہوئی وجہ اس کی وہی ہے جس کو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحبؒ نے اپنی کتاب ارشاد الشیعہ کے صفحہ 19 پر لکھی ہے- جو ابھی آپ نے اوپر ملاحظہ فرمایا ورنہ امیرِ شریعتؒ کا تعلق ان علماء حق سے ہے جنہیں انگریز کے کالے قانون کے خلاف بغاوت کے جرم میں جیل کی کال کوٹھڑیوں میں ڈالا گیا، انگریز اور ان کے حواریوں کا ظلم و تشدد حضرت امیرِ شریعتؒ کے حوصلوں کو پست نہ کر سکا اور حضور اکرمﷺ کی ختمِ نبوت کے تحفظ کے لیے حضرت امیرِ شریعتؒ کی بے مثال قربانیاں تھیں، جن کی بنا پر محدث العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ کاشمیریؒ نے بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے شیروانوالہ گیٹ لاہور کے عظیم الشان جلسے میں درجنوں اکابرین کی موجودگی میں سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کو امیرِ شریعت کا لقب دیا، لیکن شیعوں کے کفریہ قائد و نظریات سے حضرت امیرِ شریعتؒ کا من کل الوجوہ مطلع نہ ہونا ان کی شخصیت میں عیب کا باعث نہیں۔

حضرت امیرِ شریعت رحمۃ اللہ کا شیعوں کے ساتھ اتحاد کے نظریہ سے رجوع:

حضرت مولانا ارشاد احمد دیوبندی دامت برکاتہم حضرت امیرِ شریعتؒ کے سفر و حضر کے ساتھی ہیں، پنجاب اور سندھ کی اکثر جیلیں حضرت امیرِ شریعتؒ کے ساتھ کاٹیں، اور مجلس احرار اسلام میں حضرت امیرِ شریعتؒ کے ساتھ تحریکِ ختمِ نبوت میں بھرپور کردار ادا کیا۔

 مولانا ارشاد احمد صاحب ایک سوال کے جواب فرماتے ہیں کہ 1953ء کی تحریکِ ختمِ نبوتﷺ میں مجلس احرار اسلام کا بڑا کردار ہے، ختمِ نبوت کی تحریک میں اس جماعت نے ہمیشہ ہر اول دستے کا ثبوت پیش کیا ہے، اگرچہ یہ تحریک بظاہر نا کام ہو گئی تھی لیکن حوصلے نہیں ٹوٹے تھے۔

حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی صاحبؒ نے سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کے پاس پیغام بھیجا کہ شاہ جی میں نے استخارہ کیا ہے کہ تحریک کی نا کامی کی وجہ شیعوں کے ساتھ اتحاد ہے وگرنہ تاریخ گواہ ہے کہ کبھی مجلس احرار اسلام کی کوئی تحریک نا کام نہیں ہوئی۔

شاہ جی نے پیغام لانے والے قاصد سے فرمایا کہ میرا سلام کہنا اور حضرت صاحبؒ کو میری طرف سے عرض کرنا کہ میں نے ہر مسلمان کے دل میں ایٹم بم رکھ دیا ہے وقت آنے پر یہ پھٹ جائے گا اور مرزائیت اپنی موت آپ مر جائے گی- باقی شیعہ کے ساتھ اتحاد تو اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ میں خنزیر کا شکار کرنے نکلا تو جاتے ہوئے کتوں کو بھی ساتھ لے گیا- یہ ساری گفتگو کے دوران میں امیرِ شریعتؒ کے ساتھ موجود رہا میں نے عرض کیا کہ شاہ جی آپ کتے اور خنزیر کا تعین نہیں کر سکے، آپ نے مرزائیوں کو خنزیر کہا ہے اور شیعوں کو کتا، حالانکہ ایسی بات نہیں ہے، شیعہ تو مرزائیوں سے بڑا کافر ہے- مرزائی ختمِ نبوت کا انکار کرنے کی وجہ سے کافر ہے، اور وہ حضور اکرمﷺ کے بعد ایک کو نبی مانتا ہے وہ آپ کی نظر میں اتنا بڑا کافر ہے کہ آپ اسے خنزیر کہتے ہیں- اور شیعہ نبی کریمﷺ کے بعد بارہ ائمہ کو معصوم اور مفترض الطاعتہ مانتا ہے وہ آپ کی نظر میں مرزائی کے مقابلے میں چھوٹا کافر ہے؟ قادیانی، ایک کو نبی مان کر بڑا کافر اور شیعہ بارہ کو مان کر چھوٹا کافر کیوں؟ میری اس بات کو سننے کے بعد حضرت نے مجھے حکماً فرمایا کہ چوکہرا میں جا کر مناظر اسلام سید احمد شاہ صاحبؒ کے ہاں شیعیت پر مناظرہ پڑھوں، اور مستقبل میں اس فتنے کے خلاف کام کرنا ہے-

حضرت مولانا ارشاد صاحب کی گفتگو سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حضرت امیرِ شریعتؒ کتنی عظیم شخصیت کے مالک تھے کہ حق بات کے واضح ہونے پر اس کے قبول کرنے میں ذرا بھر بھی تأمل نہیں کیا۔ فورا اپنے موقف سے رجوع کرتے ہوئے مولانا ارشاد صاحب کو حکم دے دیا کہ آپ نے شیعیت کے خلاف کام کرنا ہے۔

نیز اس گفتگو سے ان احباب کو بھی سبق حاصل کر لینا چاہیے کہ جو اپنے آپ کو سیاستِ مدنی کے ترجمان کہتے نہیں تھکتے- حضرت مدنی صاحبؒ کی سوچ تو یہ ہے کہ مجلس احرار اسلام کی 1953ء میں نا کامی کا سب سے بڑا سبب شیعوں کے ساتھ اتحاد ہے آج سیاست مدنی کے نام نہاد ترجمان کس حیثیت سے شیعوں کے ساتھ اتحاد کر کے قرآن و سنت کے نفاذ کی بات کرتے ہیں؟

امیرِ شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ کی حق گوئی اور حق پسندی:

حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحبؒ خلیفہ مجاز شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی صاحبؒ اپنی معرکتہ الاراء کتاب کشف خارجیت کے صفحہ 106 پر رقمطراز ہیں۔

جناب والد صاحب مولانا (کرم الدین دبیرؒ) نے ایک دفعہ خود بیان کیا تھا کہ بٹالہ ضلع گورداسپور میں انجمن شباب المسلمین کا جلسہ تھا، جس میں میری تقریر بھی تھی اور امیرِ شریعتؒ کی تقریر بھی تھی جلسہ کے منتظمین نے میری تقریر کا اعلان کیا تو میں نے کہا کہ میری تقریر کے بعد متصل مولانا عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کی تقریر نہ رکھیں، ممکن ہے کہ وہ میری تقریر سے اختلاف کریں لیکن منتظمین نے میری تقریر کے بعد ہی بخاری صاحبؒ کی تقریر رکھ دی میں نے تقریر شروع کی تو بخاری صاحبؒ اور مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی صاحبؒ دونوں میری تقریر میں آ کر بیٹھ گئے، میں نے شیعیت کی تردید کی اور ان کی کتابوں سے ان کے باطل عقائد بیان کیے، میری تقریر کے بعد بخاری صاحبؒ اسٹیج پر آئے تو کہا کہ میں نے مولوی کرم الدین صاحب کی تقریر سنی ہے جب وہ شیعوں کے عقائد بیان کر رہے تھے تو میں یہ سمجھتا تھا کہ میرے سینے پر کوئی ہتھوڑے مار رہا ہے کہ تو ان شیعوں کو ساتھ ملاتا ہے جن کے ایسے ایسے عقائد ہیں۔

میرے محترم قارئین کرام!

اب آپ دیانت داری کے ساتھ فیصلہ کریں کہ امیرِ شریعتؒ کے الفاظ کہ میرے سینے پر کوئی ہتھوڑے مار رہا ہے الخ- کیا یہ شیعہ سنی اتحاد کے نظریہ سے رجوع پر دلالت نہیں؟ کیا یہ شیعوں کے ساتھ کیے جانے والے اتحاد پر ندامت کا اظہار نہیں؟ اگر ہے اور یقیناً ہے تو پھر امیرِ شریعتؒ کے اس عمل سے دلیل پکڑنا کہاں کی دانش مندی ہے۔

خنزیر اور کتے کی مثال تحقیق کے آئینے میں:

جب بھی شیعہ سنی اتحاد کے شرعی اور غیر شرعی کا سوال اٹھتا ہے تو فوراً خنزیر اور کتے کی مثال بیان کر کے اس سوال کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور حضرت امیرِ شریعتؒ کے اس قول کو دلیل بنایا جاتا ہے- جس میں حضرت امیرِ شریعتؒ فرماتے ہیں کہ میں خنزیر کے شکار کو نکلا تھا تو ان کتوں کو بھی ساتھ ملا لیا۔

نوٹ: امیرِ شریعتؒ اپنے اس قول سے رجوع فرما چکے ہیں جیسا کہ آپ نے اوپر ملاحظہ فرمایا ہے۔

محترم قارئین کرام!

سب سے پہلے تو اس بات کو سمجھیں کہ خنزیر کے شکار کے لیے کس کتے کی ضرورت ہوتی ہے؟ کیونکہ کلب (کتے) کی دو قسمیں ہیں۔ کلب معلم۔ کلب غیر معلم۔ جب کہ شکار کے لیے کلب معلم کا ہونا ضروری ہے۔ (ھدایۃ: جلد نمبر 4: صفحہ نمبر 506)

اب ذرا انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں کہ کیا شیعہ کلب معلم ہے؟ کیا کلب معلم کی تعریف اہلِ تشیع پر صادق آتی ہے؟ بقول شیعہ سنی اتحاد کے حامیوں کے اگر واقعی شیعہ کلب معلم ہیں تو پھر ذرا آزما کر دیکھیں کیا شیعہ آپ کے کہنے پر اپنے عقیدہ امامت جو حضور اکرمﷺ کی ختمِ نبوت کے خلاف پُر فریب بغاوت ہے، سے رجوع کرنے کو تیار ہے؟ کیا شیعہ اپنے اجماعی عقیدے تحریفِ قرآن سے بیزاری کا اظہار کرنے کو تیار ہے؟ کیا شیعہ اپنے اذان سے علی ولی اللہ، و وصی رسول اللہ و خلیفتہ بلا فصل کہ کفریہ الفاظ حذف کرنے کو تیار ہے؟ کیا شیعہ اصحابِؓ رسول اکرمﷺاور ازواجِ مطہراتؓ پر تبرا بازی سے بھرپور کتب کو جلانے اور ان کے مصنفین کو کافر کہنے کے لیے تیار ہے؟ اگر شیعہ یہ سب باتیں آپ کی ماننے کے لیے تیار نہیں تو پھر یہ کلب معلم کیسے بن گئے؟ 

جب کلب معلم نہیں تو پھر اسلامی نظام کے نفاذ کا نعرہ لگا کر ختمِ نبوت کے بد ترین منکروں اصحابِؓ رسولﷺ کے دشمن شیعوں کے ساتھ اتحاد جو قرآن و سنت اور اکابر علمائے حق کے فتاویٰ جات کی روشنی میں مکمل طور پر غیر شرعی ہے۔ ان کو خنزیر اور کتے والی مثال کے ساتھ تشبیہ دینا کہاں کی دانشمندی اور دین کی خدمت ہے؟

اپنی اداؤں پہ خود ہی غور کرو ذرا

عرض کیا اگر ہم نے تو شکایت ہو گی

شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ کا فعل شرعی حجت نہیں ہے:

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے میں کہ زید نے ایک شیعہ اثناء عشری کا جنازہ پڑھایا ہے اور اس بارے میں مولانا شبیر احمد عثمانی صاحبؒ کا فعل بطورِ دلیل پیش کرتا ہے کہ مولانا شبیر احمد عثمانی صاحبؒ نے بانی پاکستان محمد علی جناح کا جنازہ پڑھایا تھا جو کہ ایک شیعہ تھا، اور جس شخص کا زید کہتا ہے کہ میں نے جنازہ پڑھایا ہے اس کا اور محمد علی جناح کا عقیدہ ایک ہے، تو اگر محمد علی جناح کا جنازہ پڑھانے سے مولانا شبیر احمد عثمانی صاحبؒ پر کوئی جرم از روئے شریعت عائد نہیں ہوتا تو مجھ پر بھی کوئی جرم نہیں-

اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید کا مولانا شبیر احمد عثمانی صاحبؒ کے فعل سے دلیل پکڑنا صحیح ہے یا نہیں؟ اور زید کا شیعہ اثناء عشری کا جنازہ پڑھانا از روئے شریعت جرم ہے یا نہیں؟ کیا اس قسم کے جرم سے زید کی امامت میں کوئی فرق آتا ہے، اگر زید کسی مسجد کا امام ہو تو اس کی اقتداء میں نماز کیسی ہے؟

جواب: موجودہ وقت میں پاکستان کے شیعہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سب (گالی دینے) کو حلال موجبِ ثواب سمجھتے ہیں، یہ اسلام سے خارج، ان کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں، پیشِ امام مذکور دینی غیرت سے محروم ہے، ایسے شخص کی امامت جائز نہیں اسے معزول کر دینا واجب ہے۔ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی صاحبؒ کے فعل سے استدلال صحیح نہیں ہے وہ اپنے فعل کے خود ذمہ دار ہے ان کا فعل شرعی حجت نہیں-

(فتاویٰ مفتی محمودؒ: جلد، 3 صفحہ، 66)

میرے محترم قارئین کرام!

امیرِ شریعتؒ کے موقف کو دلائل سے مزین ملاحظہ کرنے کے با وجود اگر کسی کا پھر بھی شرح صدر نہیں ہوتا تو پھر ہم اسے وہی جواب دیں گے جو امام انقلاب حضرت مولا مفتی محمود صاحبؒ نے اپنے فتویٰ میں دیا کہ امیرِ شریعتؒ کہ فعل سے استدلال صحیح نہیں وہ اپنے فعل کے خود ذمہ دار ہے ان کا فعل کوئی شرعی حجت نہیں-

اب جس کے جی میں آئے وہ لے اس سے روشنی 

ہم نے تو دل جلا کر سرِ عام رکھ دیا بے