Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعوں کو اسلامی اتحادوں میں شامل کرنا افسوس ناک المیہ ہے


وقاص حسن خان صاحب کا فرمان

(فاضل: مدینہ یونیورسٹی)

آج اس پُر فتن دور میں امتِ مسلمہ کے لیے افسوس ناک المیہ یہ ہے کہ وہ فتنہ جس کے متعلق حضور اکرمﷺ نے فرمایا تھا اے سیدنا علیؓ میری امت میں ایک گروہ ہو گا جو اہلِ بیتؓ کی محبت کا دعویٰ کرے گا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر طعن و تشنیع ان کی علامت ہو گی، ان کو رافضہ کہا جائے گا، ان سے جنگ کرنا کیونکہ وہ مشرک ہوں گے۔

اور اسی فتنے کے متعلق دوسری حدیث شریف میں حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے مجھے چن لیا، اور میرے لیے میرے اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، میرے انصار، میرے قرابت داروں کو منتخب کیا، اور عنقریب ایک قوم آئے گی جو ان (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کو گالی دے گی اور ان میں نقص نکالے گی، پس تم نا ان کے ساتھ بیٹھنا، نہ ان کے ساتھ پینا، نہ ان کے ساتھ کھانا اور نہ ان سے نکاح کے معاملات کرنا-

آج اس مکار اور موذی فتنے کو اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے دینی جماعتوں کے بنائے جانے والے اتحاد میں شامل کر کے جہاں قرآن و سنت کے واضح احکامات کے خلاف ورزی کی جا رہی ہے، وہیں پر علمائے حق کی اس فتنے کے خلاف شبانہ روز کاوشوں کو بھی ضائع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

وائے نا کامی متاعِ کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

اے کاش!

اپنے آپ کو علمائے حق کے جانشین کہنے والے ذی وقار علمائے کرام اس بات کو بھی سوچتے کہ جن علمائے کرام کے ہم اپنے آپ کو جانشین کہتے نہیں تھکتے وہ علماء تو قادیانیت کو غیر مسلم اقلیت دلوانے کے لیے صرف اس بناء پر محنت کرتے رہیں کہ انہوں نے آنحضرتﷺ کی ختمِ نبوت کا انکار کیا اور مرزا قادیانی ملعون کو نبی مانا۔

اے ذی وقار علمائے کرام!

کیا آپ کے پاس اس سوال کا جواب ہے کہ قادیانیوں نے تو صرف ایک مرزا قادیانی کو نبی مانا تو وہ بد ترین کافر ٹھہرے، ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، ان کے ساتھ اتحاد کو تو کفر کہا جائے، اور گنبدِ خضریٰ میں دل مصطفیﷺ کو دکھانے کا سبب کہا جائے کیا شیعوں کا عقیدہ امامت ختم نبوت کا بد ترین انکار نہیں ہے؟ قادیانیوں نے تو صرف ایک شخص کو نبی مانا، جبکہ شیعوں نے عقیدہ امامت کی آڑ میں بارہ اماموں کو نبی کا درجہ دیا بلکہ اپنے ائمہ کو تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے افضل سمجھنے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ اگر قادیانیوں کے ساتھ اتحاد کرنا گنبدِ خضریٰ میں دلِ مصطفیﷺ کو دکھانے کا سبب ہے تو شیعوں کے ساتھ اتحاد کرنا گنبدِ خضریٰ میں دلِ مصطفیﷺ کو دکھانے کا سبب کیوں نہیں ہے؟

میرے محترم اور قابل قدر علمائے کرام!

میں دین کا ادنیٰ رضا کار ہونے کی حیثیت سے آپ کی توجہ محدث اعظم برصغیر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی مایہ ناز تصنیف تفہیمات الہٰیہ کی طرف دلوانا چاہتا ہوں جس میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ مجھے نیند کی حالت میں آنحضرتﷺ کی زیارت ہوئی، میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ میں شیعوں کو کیا سمجھوں؟ آقا مدنیﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان کے عقیدہ امامت کا مطالعہ کرو۔

حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ جب میں نے شیعوں کے عقیدہ امامت کا مطالعہ کیا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ شیعہ ختمِ نبوت کے قائل نہیں بلکہ بد ترین منکر ہیں۔

ختمِ نبوت کے لیے قادیانیت کے خلاف پُر جوش تقریر کرنے والے اور دارالعلوم دیوبند کے نام پر بڑی بڑی خدماتِ دیوبند کانفرنسیں کرنے والے ذی وقار علماء کرام دارالعلوم دیوبند کا شیعہ اثناء عشریوں کے متعلق ختمِ نبوت کے عالمی نمائندگان کے اجلاس میں کیا جانے والا فیصلہ ملاحظہ فرمائیں اور دیانت داری کے ساتھ فیصلہ دیں کہ علمائے دیوبند سے فکری و نظریاتی طور پر بغاوت کس نے کی؟

29 اکتوبر 1986ء دارالعلوم دیوبند میں ختمِ نبوت کانفرنس ہوئی اور تحفظِ ختمِ نبوت کے عالمی نمائندگان کا اجلاس بھی منعقد ہوا، اجلاس میں حضرت مولانا منظور احمد نعمانی صاحبؒ نے ایک تجویز پیش کی جو بحث و تمحیص کے بعد منظور کر لی گئی۔ ہم اس تجویز کا متن دارالعلوم دیوبند کے ترجمان ماہنامہ دارالعلوم دیوبند جنوری 1987ء سے بلا تبصرہ نقل کر رہے ہیں۔

شیعہ اثناء عشریوں کے متعلق علماء دیوبند کا فیصلہ:

یہ اجلاس اعلان کرتا ہے کہ شیعہ اثناء عشری کا جو فی زمانہ دنیا کے شیعوں کی اکثریت کا مسلک ہے اور ایران میں اسی مسلک کے ذریعے ماضی قریب میں ایک انقلاب برپا ہوا، جس کو اسلامی انقلاب کہہ کر عالمِ اسلام کو ایک زبردست دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ اس مسلک کا ایک بنیادی عقیدہ، عقیدۀ ختمِ نبوت کا انکار ہے۔ اسی بناء پر حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے صراحت کے ساتھ ان کی تکفیر کی ہے۔

لہٰذا یہ اجلاس تحفظِ ختمِ نبوت اعلان کرتا ہے کہ یہ مسلک موجبِ کفر اور ختمِ نبوت کے خلاف پُر فریب بغاوت ہے۔ نیز اجلاس تمام اہلِ علم سے اس فتنہ کے خلاف سر گرم ہونے کی اپیل کرتا ہے۔

(حرمین کی پکار: صفحہ، 33)