شیعہ لٹریچر میں منقبت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ایک روایت
نقیہ کاظمیملا محمد بن یعقوب الکلینی (328ھ) فروع کافی میں سیدنا جعفر صادقؒ کی زندگی کا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ان کے ہاں کچھ صوفی لوگ آ نکلے اور انہوں نے دیکھا کہ حضرت امام نے ایک قیمتی جبہ زیب تن کر رکھا ہے۔ ان صوفیوں نے آپ کو اپنے زہد و تقویٰ کی دعوت دی۔ آپ نے ان کے سامنے حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت ابوذر غفاریؓ اور حضرت سلمانؓ کے زہد سے استدلال فرمایا اور اپنے عمل پر ان کی شہادتیں پیش کیں اور اس پر سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا اول نمبر پر ازهد الناس ہونا واضح طور پر بیان فرمایا اور انہیں اور سیدنا ابوذرؓ اور سیدنا سلمانؓ کو ایک فہرست میں ذکر کیا۔
یہاں دوسرے نمبر پر سیدنا ابوذرؓ کو لانا بتلاتا ہے کہ حضرت امام اس وقت کوئی الزامی بات نہ کر رہے تھے کیونکہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا موقف جمع مال کے بارے میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے موقف سے کھلے طور پر مختلف تھا گو جمہور صحابی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ شیعہ لوگ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عام لہر ارتداد سے مستثنیٰ رکھتے ہیں وہ تین صحابی ہیں۔
1: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ
2: حضرت سلمان رضی اللہ عنہ
3: حضرت مقداد رضی اللہ عنہ
سو واضح ہے کہ سیدنا جعفر صادقؒ اسلامی زہد کی اس وضاحت میں حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت ابوذرؓ اور حضرت سلمانؓ کو الزاماً پیش نہیں کر رہے اور نہ حضرت امام کے ہاں ان صوفی حضرات کی یہ حاضری کسی مجلسِ مناظرہ کے طور پر تھی۔ صوفیوں کو مناظرہ سے کیا مطلب؟
پھر ان دنوں شیعہ مذہب بھی ابھی مدون نہ ہوا تھا۔ سیدنا جعفر صادقؒ کی وفات (148 ہجری) میں ہوئی اور شیعہ مذہب کی سب سے پہلی حدیث کی کتاب الکافی چوتھی صدی ہجری کے شروع میں مرتب ہوئی اور اس سے اثناء عشری مذہب آگے چلا۔ سیدنا جعفر صادقؒ کی مجلسوں میں سنی شیعہ عقائد کے یہ فاصلے نہ تھے جو آج ان دو حلقوں میں پائے جاتے ہیں۔ اثناء عشری عقائد کا خاتم المحدثین ملا محمد باقر مجلسی (1110ھ) اس وقت کے حالات کا نقشہ اس طرح کھینچتا ہے۔
"جمعے از راویاں کہ در اعصار ائمه بوده انداز شیعان اعتقاد بعصمت ایشان نداشته اند بلکه ایشان را از علماء نیکو کار مے دانسته اند چنانچه از رجال کشی ظاہری شود ومع ذلک ائمہ حکم بایمان بلکہ بعدالت ایشاں مے کردہ اند‘‘
(حق الیقین: صفحہ، 544 طبع ایران)
ترجمہ: ’’راویوں کا ایک طبقہ جو ائمہ اہلِ بیتؓ کے دور میں بطور شیعہ معروف رہا ہے وہ ان ائمہ اھل البیتؓ کو معصوم نہ جانتے تھے۔ انہیں وہ علماء نیکو کار کے طور پر جانتے تھے جیسا کہ رجال کشی سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس عقیدہ عدمِ عصمت کے باوجود ائمہ اہل البیتؓ انہیں مومن قرار دیتے تھے بلکہ انہیں عادل راوی جانتے تھے۔”
معلوم ہوا کہ ان دنوں عقیدہ عصمتِ ائمہ ابھی پورے طور پر قائم نہ ہوا تھا۔ نہ ان ائمہ کو عمومی پیرایہ میں کہیں معصوم سمجھا جاتا تھا ورنہ صوفی حضرات کو کبھی جرأت نہ ہوتی کہ امام کو نصیحت کرنے کے درپے ہوتے۔“
پس جب ان دنوں سنی شیعہ فاصلے اس طرح قائم نہ تھے جیسا کہ اب ہیں تو ظاہر ہے کہ ان دنوں ان ائمہ کی مجالس میں مناظرے نہ ہوتے تھے نہ اصولِ مناظرہ کے حوالے سے ائمہ کرام کسی سوال کرنے والے کو الزامی جواب دیتے تھے۔ ائمہ کی ان مجالس میں ان کی اپنی تشریف فرمائی بھی انہیں ایک مقتدر سنی عالم سمجھنے کے طور پر تھی اور شیعوں کے اپنے علیحدہ عقائد ابھی مرتب نہ ہو پائے تھے ورنہ یہ ائمہ کرام اپنی مجالس کے ان سنی راویوں کو حدیث کے عادل راوی ہونے کا بھی درجہ نہ دیتے۔ عبداللہ بن سباء جو اس سے بہت پہلے ہوا وہ یہودیوں کے ایجنٹ کے سوا کچھ نہ تھا اور حضرت علی مرتضیٰؓ نے اسے سزائے موت دی تھی۔
شیعہ کے بعض اصولِ حدیث
نامناسب نہ ہو گا کہ ہم یہاں شیعہ نقطہ نظر سے روایتِ حدیث کا ایک مختصر خاکہ ہدیہ قارئین کر دیں، تاکہ معلوم ہو کہ ان کی کتابوں میں کسی روایت کے کسی راوی کا سنی ہونا اس روایت کو ہرگز مسترد نہیں کرتا۔ ان کے ہاں ثقہ کے نیچے ممدوح کا ایک درجہ ہے جس میں راوی پھر بھی لائق مدح ہی رہتا ہے۔ شیعہ روایات حدیث کے راویوں کا یہ خاکہ ملاحظہ فرمائیں۔
“راوی ثقہ ہوں مگر عقیدہ امامت نہ رکھتے ہوں تو ان کی حدیث قوی شمار ہو گی۔ بعض راوی امامی ہوں اور بعض غیر امامی مگر ہوں ثقہ تو بھی حدیث قوی سمجھی جائے گی۔ کسی حدیث کے بعض راوی ممدوح ہوں اور امامی ہوں اور بعض دوسرے راوی ثقہ ہوں مگر غیر ممدوح ہوں تو یہ حدیث بھی قوی ٹھہرے گی‘‘
(دیکھیئے جامع الرواۃ: جلد، 2 صفحہ، 470)
صوفی لوگ علماء کی مجالس میں مناظرہ کرنے نہیں آتے تھے۔
صوفی حضرات کا ایک اپنا خاص مشرب ہے وہ مطلق جمع مال کے حق میں نہیں ہوتے، گو وہ اسے حرام بھی نہیں کہتے وہ صرف اسے پسندیدہ نہیں سمجھتے۔ ہاں ان کی اس بات کو شریعت نہیں کہا جاتا۔ اگر اسے قانون کی شکل دی جائے تو پھر زکوٰۃ آخر کن لوگوں پر فرض ہو گی؟ یہ تو انہی لوگوں پر فرض ہوتی ہے جن کے پاس مال ہو۔ صوفی حضرات کے ہاں نہ جمع مال ہے نہ حولان حول اور نہ فرضیتِ زکوٰۃ۔ ظاہر ہے کہ فقہاء ان کا ساتھ نہ دے سکتے تھے۔ سیدنا علی مرتضیٰؓ نے خود کہا:
فما وجبت علی زكوة مال
وهل تجب الزكوة على الجواد
ترجمہ: مجھ پر کبھی مال کی زکوٰۃ فرض نہیں ہوئی کیا، کبھی سخی پر بھی زکوٰۃ دینے کی نوبت آتی ہے۔
یہ کسی صحیح روایت میں نہیں کہ حضرت علی المرتضیٰؓ ہر سال محتاجوں اور مسکینوں کو مسجد میں بیٹھنے کے لیے کہتے اور پھر نماز میں رکوع کی حالت میں ان کی طرف زکوٰۃ کی ادائیگی میں انگوٹھی پھینکتے تھے۔
ایک حدیث بھی روایت کی جاتی ہے کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے رکوع کی حالت میں ایک محتاج کی طرف اپنی انگوٹھی پھینکی۔
حافظ ابنِ کثیرؒ سورہ مائدہ کی تفسیر میں زیر آیت 5، 6 لکھتے ہیں:
بعض دیگر مفسرین نے بھی یہ تفسیر کی ہے لیکن سند ایک کی بھی صحیح نہیں۔ رجال ایک کے بھی ثقہ اور ثابت نہیں پس یہ واقعہ بالکل غیر ثابت ہے اور صحیح نہیں ٹھیک وہی ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ یہ سب آیتیں حضرت عبادہ بن صامتؓ کے بارے میں نازل ہوئیں۔
(تفسیر ابنِ کثیر جلد، 1 صفحہ، 113)
ہاں یہ صحیح ہے کہ آپؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اپنی رعایا میں زکوٰۃ کا نظام اسی تسلسل میں قائم رکھا جو پہلے تین خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے قائم کیا ہوا تھا اور آپ اپنے نظامِ خلافت میں بالکل پہلے تین خلفاء کرام رضی اللہ عنہم کے نقشِ قدم پر ہی چلے۔
تاریخ گواہ ہے کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے زکوٰۃ کو اپنے ادوار میں کبھی اسلام کے معاشی نظام سے خارج نہیں کیا تھا۔ غریب کی تمام ضرورتیں پوری ہوں تو بھی کوئی شخص مستحقِ زکوٰة مل ہی جاتا ہے۔ یہ صرف دورِ آخر میں ہو گا کہ مال اس قدر بڑھ جائے گا کہ اب اسے قبول کرنے والا کوئی نہ ملے گا۔ لا یقبلہ احد۔
اس وقت ہمارا یہ موضوع نہیں۔ ہم یہاں صرف صوفیوں کے زہد و تقویٰ پر بات کر رہے ہیں جو مطلقاً جمع مال کے حق میں نہیں ہوتے اور وہی لوگ سیدنا جعفرؒ کی مجلس میں آئے تھے۔
یہ لوگ جب درویشوں کی ادا میں بات کرتے ہیں تو ایک پیرائے میں زہد و تقویٰ کی تلقین ہوتی ہے۔ اسے شریعت کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا۔ علماء جب حدیث و فقہ کا درس دیتے ہیں تو اسے شریعت اور فتویٰ کی زبان ملتی ہے۔ اہلِ طریقت کے اپنے احوال اور ظروف ہیں۔ صوفی لوگ ہر ایک سے ملتے ہیں۔ ان میں انسانی محبت جاگتی ہے۔ ان میں تعصب نہیں ہوتا۔ یہ ترکِ دنیا کی تعلیم نہیں دیتے۔ البتہ دنیا کے فانی ہونے کا نقشہ ہر وقت ان کی آنکھوں کے سامنے کھچا رہتا ہے اور وہ دوسروں کو بھی تصویر کا یہی رخ دکھاتے ہیں۔
صوفی حضرات کا ایک گروہ کہیں چلتے چلتے سیدنا جعفر صادقؒ کے پاس آ نکلا اور ان سے آپ کے لباس فاخرہ پر سوال کیا۔ اس وقت سنی شیعہ کے فاصلے کہیں قائم نہ تھے اور نہ سنی شیعہ تفریق کہیں قائم تھی۔ یہ لوگ حضرت امام کے ہاں انہیں ایک بزرگ سمجھ کر حاضر ہوئے اور وہ سمجھنا چاہتے تھے کہ مسلمان کس حد تک مال سے دور رہ سکتا ہے۔ ان حضرات نے اپنے موقف پر کوئی دلائل پیش نہ کیے تھے اور نہ وہ آپ کے پاس کسی مناظرہ کے لیے آئے تھے نہ صوفیوں اور درویشوں کا یہ انداز ہوتا ہے نہ یہ حضرت امام کی شان کے لائق تھا کہ ہر آنے والے وفد سے مناظرے کے لیے تیار ہو جائیں۔ وہ تو اس وقت سب کے بزرگ سمجھے جاتے تھے۔ ایسا کوئی نہ تھا جو اس وقت ان کو اپنا مقابل سمجھتا ہو اور یہ ائمہ حضرات ان پر اصولِ مناظرہ کی مشقیں کرتے ہوں۔ آپ نے انہیں اس وقت جو کچھ کہا سمجھانے کے لیے کہا، مناظرہ کرنے کے لیے نہ کہا تھا۔ ہر چھوٹے سے چھوٹے آدمی کے لیے وہ مناظرہ کرنے کے لیے تیار ہو جائیں یہ ان کے (حضرت امام) مرتبہ علمی اور بزرگی کے خلاف تھا۔ کسی ڈھگو کی یہ بات قبول کرنے کے لائق نہیں کہ اتنا بڑا علم کا پہاڑ ان درویشوں سے مناظرے پر اترا ہوا تھا، عقل کو بالکل فارغ کر دینا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
عام پند و نصائح میں کیا موقف اختیار کیا جاتا ہے؟
ایسے مواقع پر اخبارِ احاد سے کام نہیں لیا جاتا۔ اخبارِ متواترہ اور عام مشاہدات سے استدلال کیا جاتا ہے۔اخبارِ احاد مفید ظن ہوتی ہیں ان سے علم قائم نہیں ہوتا۔ اخبارِ متواترہ مفید علم ہوتی ہیں، علم کی دنیا میں کسی کو اس سے انکار نہیں۔ حضرت امام نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عمل سے استدلال کیا۔ اس میں ایک وجہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں وہ شہرت عام تھی کہ آپؓ اپنے پرائے سب کے ہاں ایک بڑے زاہد مانے ہوئے تھے۔ ایک جزو اس روایت کا یہ ہے کہ آپؓ نے اپنی وفات سے پہلے اپنے مال سے پانچویں حصے کی وصیت عام صدقات کی کی تھی۔ اس سے سیدنا جعفرؒ کا استدلال یہ تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت بھی کچھ نہ کچھ اپنا مال ضرور تھا۔ سو اپنے پاس مال کا ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔ آپ کے اس استدلال سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے زہد و تقویٰ کی عام شہرت تھی جو ان درویشوں کو بھی معلوم تھی۔ اور یہ اس طرح عام تھی جس طرح حضرت ابوذر غفاریؓ اور حضرت سلمان فارسی کے زہد و تقویٰ کے عام چرچے تھے۔
شیعہ کتبِ حدیث میں فضائل صحابہ کے موضوع پر کسی حدیث کا اس درجے میں بھی ثابت ہو جانا بلکہ پوری روایت میں ایک پہلو اس تیز روشنی کا نکل آنا یہ بھی دراصل انہی بزرگوں کی کرامت ہے جس کا مقابلہ کوئی سخت حیلہ جو بھی نہیں کر سکتا۔ جو لوگ مخالفانِ لٹریچر سے اس قسم کی حدیثوں کے طالب ہوتے ہیں۔ جو اہلِ سنت کے ہاں فضائل صحابہ میں باب در باب پائی جاتی ہیں۔ وہ علمی دنیا کی اس چمک سے پورے اندھیرے میں ہیں۔ ہم شیعہ لٹریچر سے بس اتنی روایت بھی سامنے لے آئیں تو اس کے بوجھ سے ان کا بڑا سے بڑا مجتہد بھی نہ نکل سکے گا۔
يقول: إن الناس قد يسألونك ولا يعذرونك فإذا أعطيت جميع ما عندك من المال كنت قد حسرت من المالفهذه أحاديث رسول الله (صلى الله عليه وآله) يصدقها الكتاب والكتاب يصدقه أهله من المؤمنين وقال أبوبكر عند موته حيث قيل له: أوص فقال: أوصی بالخمس والخمس كثير فإن الله تعالى قد رضی بالخمس فأوصى بالخمس وقد جعل الله عزوجل له الثلث عند موته ولو علم أن الثلث خير له أوصى به، ثم من قد علمتم بعده فی فضله وزهده سلمان وأبوذر رضی الله عنهما فأما سلمان فكان إذا أخذ عطاه رفع منه قوته لسنته حتى يحضر عطاؤه من قابل فقيل له: يا أبا عبدالله أنت فی زهدك تصنع هذا وأنت لا تدری لعلك تموت اليوم أو غدا فكان جوابه أن قال: مالكم لا ترجون لی البقاء كما خفتم علی الفناء، أما علمتم يا جهلة أن النفس قد تلتاث على صاحبها إذا لم يكن لها من العيش ما يعتمد عليه فإذا هی أحرزت معيشتها اطمانت، وأما أبوذر فكانت له نويقات و شويهات يحلبها ويذبح منها إذا اشتهى أهله اللحم أو نزل به ضيف أو رأى بأهل الماء الذين هم معه خصاصة نحر لهم الجزور أو من الشياه على قدر ما يذهب عنهم بقرم اللحم فيقسمه بينهم ويأخذ هو كنصيب واحد منهم لا يتفضل عليهم، ومن أزهد من هؤلاء وقد قال فيهم رسول الله (صلى الله عليه وآله) ما قال ولم يبلغ من أمرهما أن صارا لا يملكان شيئا البتة كما تأمرون الناس بإلقاء أمتعتهم وشيئهم ويؤثرون به على أنفسهم وعيالاتهم.
(الكافی، الشيخ الكلينی: جلد، 5 صفحہ، 68)
شیعہ کی اس روایت میں ایک اور چمک
اس روایت میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ازهد الناس ہونا ہی مذکور ہیں، آپؓ کا اپنے آخری وقت میں اپنے مال میں وصیت کرنے کا بھی ذکر ہے۔ اگر خدانخواستہ آپؓ کی خلافت حضور اکرمﷺ سے بغاوت ہوتی اور آپ رضی اللہ عنہ معاذ اللہ اندر سے مومن نہ ہوتے تو آپؓ کا آخری عمل شریعت کی تابعداری میں وصیت کرنے کا بھی نہ ہوتا۔ افسوس کہ ملا کلینی اس واقعہ کو روایت کرتے بھی اپنے تعصب کا لاوا آپ پر گرانے سے نہیں چوکا۔ اس کے ان الفاظ پر غور کریں:
’’وہ جانتا ہوتا کہ تیسرے حصے کی وصیت میں زیادہ ثواب ہے تو وہ ایسا ہی کرتا۔‘‘
نفلی ثواب کے زیادہ لینے اور کم لینے سے کسی پر جرح نہیں کی جا سکتی۔ تیسرے حصے کی وصیت سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے مال سے زیادہ سے زیادہ تیسرے حصے کی ہی وصیت کر سکتا ہے۔ اس سے زیادہ وصیت کرنا وارثوں کے حقوق میں دخل اندازی ہو گی۔ ہاں اس سے کم وہ جو وصیت بھی کرے شریعت اسے مسترد نہیں کرتی۔ سو پانچویں حصے کی وصیت میں شرعاً کوئی جرح راہ نہیں پاتی۔ مگر ملا کلینی کا تعصب دیکھیئے، کس طرح وہ اسے بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی اس منقبت پر کہ سیدنا جعفر صادقؒ آپ کو ازهد الناس سمجھتے تھے بہت جلا ہوا ہے اور وہ اسے صرف بادل نخواستہ روایت کر رہا ہے۔
پھر حضرت امام کا یہ کہنا کہ وہ جانتا ہوتا کہ تیسرے حصے کی وصیت میں ثواب زیادہ ہے تو وہ ایسا ہی کرتا، بتلاتا ہے کہ
آپ کے ہاں حضرت صدیقِ اکبرؓ کس طرح دل سے شریعت کے پاسدار تھے اگر انہوں نے تیسرے حصے کی وصیت نہ کی تو یہ بات اس وقت ان کے ذہن میں نہ آئی۔ ورنہ وہ بھی شریعت سے ایک انچ بھی نہ ہٹتے۔
ملا محمد بن یعقوب الکلینی نے یہاں سیدنا جعفر صادق سے سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے زہد کا اقرار محض اس کی شہرت عام سے کیا ہے یہ نہیں کہ ملا کلینی ان کے لیے کوئی قصیدہ منقبت پڑھ رہا ہے۔ سچی بات کبھی دشمنوں کی زبان پر بھی بے اختیار آ جاتی ہے اور وہ اسے چھپائے بھی چھپا نہیں سکتے۔ اس خلافِ ارادہ کہی بات کا وزن بہت زیادہ ہونا چاہیے نہ کہ اس کی سندوں پر بحث شروع کر دیں۔
مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری
دیکھے کلینی دل سے جو سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو مومن بھی نہیں جانتا کس بے خبری میں اس نے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے زہد و تقویٰ کی شہرتِ عام کے آگے سر جھکا دیا ہے اور کس طرح اس نے اپنے عقیدہ میں حضرت ابوبکرؓ کو دل سے شریعت کا شیدا بنا دیا اور وہ سیدنا جعفر صادق کی زبان سے سیدنا ابوبکرؓ کی اس روحانی فضیلت کا مدعی بن گیا ہے۔
شیعہ سیدنا ابوذرؓ اور سیدنا سلمانؓ کو اپنے حلقے کے لوگوں میں سمجھتے ہیں اور انہیں ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جگہ نہیں دیتے جو خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہے۔ حضرت امام نے اپنے اس ارشاد میں ان دونوں کا نام بھی لیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ان تینوں کو ایک مسلک کے افراد سمجھتے تھے۔ سو آپ کے اس ارشاد کو الزامی صورت جواب کسی طرح نہیں کہا جا سکتا۔
ہم نہیں کہتے کہ فروع کافی کی یہ پوری روایت حضرت ابوبکر صدیقؓ کی منقبت میں ہے۔ یہ ساری روایت ایک شیعہ عقیدے کی ہے لیکن اسے اسلام کا اعجاز کہیے یا خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کا صدق و خلوص کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی منقبت کا کوئی نہ کوئی جزئیہ پھر بھی ان کی زبان پر بھی آ ہی جاتا ہے۔
ملا محمد بن یعقوب الکلینی (328ھ) کی فروع کافی کی اس روایت کو دیکھیئے:
”کچھ صوفی حضرات سیدنا جعفر صادقؒ کے پاس گئے۔ حضرت امام کو اچھے لباس میں دیکھا۔ حضرت سفیان الثوریؒ نے آپ کو کہا کہ یہ لباس آپ کا معلوم نہیں ہوتا۔ حضرت امام نے فرمایا کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنی وفات سے پہلے اپنے مال کے پانچویں حصے کی وصیت کی تھی اس سے ظاہر ہے کہ وہ سارا مال خرچ کر دینے کے حق میں نہ تھے۔ اور ان کے بعد تم جانتے ہو کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی مال پورا خرچ کر دینے کے حق میں نہ تھے۔ اس پر حضرت امام نے یہ جملہ فرمایا:
ثم من قد علمتم بعده فی فضله و زهده سلمان و ابوذر
(فروع کافی کتاب المعیشہ: جلد، 5 صفحہ، 28 جلد، 42 لکھنو)
ترجمہ: ”پھر آپ کے فضل و زہد میں آپ کے بعد تم جانتے ہی ہو حضرت سلمانؓ اور حضرت ابوذرؓ ہیں۔”
ہم پہلے کہہ آئے ہیں کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب اثناء عشری مذہب ابھی قائم نہ ہوا تھا۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ حضرت ابوذرؓ اور حضرت سلمانؓ سب ایک ہی عقیدے کے لوگ سمجھے جاتے تھے۔ ائمہ اہلِ بیتؓ کے حلقوں کے سنی رواۃ بھی ان ائمہ کے ہاں مؤمن شمار ہوتے تھے۔ عصمتِ ائمہ کا مسئلہ ابھی وضع نہ کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت آپس میں کوئی مناظرہ کی فضا نہ تھی۔ صرف اس لیے کہ روایت کا انکار ہو سکے اسے خواہ مخواہ مناظرہ قرار دینا اور جواب کو الزامی بتانا کسی صاحبِ علم کو زیب نہیں دیتا۔ پھر حضرت امام کا یہ کہنا کہ اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوتا کہ تیسرے حصے کی وصیت میں ثواب زیادہ ہے تو وہ ویسا ہی کرتے بتلا رہا ہے کہ حضرت امام سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دل سے پورا مومن سمجھتے تھے ورنہ جو دل سے مسلمان نہ ہو، اس کے بارے میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اسے اس نیکی کا علم ہوتا تو وہ ضرور اس پر عمل کرتا۔ آپ نے ان کے علم پر تو جرح کی لیکن ایمان پر نہیں۔ رہی یہ بات کہ وصیت کرنے والا اگر اس سے پہلے کچھ وصیت کر چکا تھا تو ضروری نہیں کہ اب وہ اس کا بھی اعلان کرے۔ اس روایت میں سب سے پہلے ازهد کا لفظ حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں ہے اور پھر سیدنا سلمان فارسیؓ اور پھر سیدنا ابوذر غفاریؓ کے بارے میں ہے۔ اس ترتیبِ کلام سے مفہوم ہوتا ہے کہ سیدنا سلمانؓ اور سیدنا ابوذرؓ اپنے زہد و فضل میں سیدنا ابوبکرؓ کے طریقہ پر تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اول تھے اور یہ دونوں ان کے بعد اس وصف میں معروف ہوئے۔ا ب ان تینوں کو زاہدین و متقین میں شمار کرنا اور من ازهد من هولاء میں ان تینوں کو لانا، ان میں کوئی بات خلافِ سباق نہیں ہے۔ ہاں حالات تینوں کے اپنے اپنے رہے۔
1: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے یہ وقوع میں آیا کہ آپؓ نے اپنے مال سے پانچواں حصہ کی راہِ خدا میں وصیت کی، سو پانچویں حصے کی وصیت پر اصولاً کسی کو اعتراض نہ ہونا چاہیے۔ یہ تیسرے حصے سے کم ہے۔ تیسرے حصے سے زیادہ کرنا منع ہے۔اس سے کم کسی مقدار میں بھی وصیت کی جا سکتی ہے۔
یہ آپؓ کا اس وقت وصیت کرنا بتلاتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ اس وقت بفضلہٖ تعالیٰ اس ایمان و یقین سے اپنے سفرِ آخرت پر روانہ ہو رہے تھے جو آپؓ نے حضور اکرمﷺ سے حاصل کیا تھا اور آپؓ حضورﷺ کی اس تعلیم پر عمل کا مظاہرہ کر رہے تھے کہ وقتِ وفات تہائی مال کے اندر اندر کسی مقدارِ مال کی وصیت کی جا سکتی ہے۔ یہ اس بات کی شہادت ہے اور آپؓ اس وقت ہرگز ایمان سے تہی دامن نہ تھے جیسا کہ اثناء عشری لوگ خیال کرتے ہی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا پورا دورِ خلافت حضور اقدسﷺ کی پیروی میں گزرا اور آپؓ آخر دم تک ایمان و عمل پر قائم رہے۔
اگر خدانخواستہ آپؓ کی خلافت حضور اکرمﷺ سے بغاوت ہوتی اور معاذ اللہ آپؓ اندر سے مومن نہ ہوتے تو آپؓ کا آخری عمل شریعت کی تابعداری میں وصیت کرنے کا نہ ہوتا۔
2: حضرت سلمانؓ اور حضرت ابوذرؓ سے جو وقوع میں آیا وہ یہ رہا کہ یہ دونوں حضرات پوری عمر میں کبھی اس مقام پر نہ آئے کہ ان کے پاس کچھ نہ رہا ہو۔ حضرت امام نے فرمایا:
ولم يبلغا من امرهما بان صارا لا يملكان شياء البتعة كما تأمرون الناس بالقاء امتعتهم و شيئهم ويوثرون به على انفسهم و عیالاتهم.
ترجمہ: ”اور یہ دونوں اپنی عمر میں بھی اس مقام پر نہ پہنچے کہ وہ کسی چیز کے مالک نہ رہے ہوں جیسا کہ تم (صوفی لوگ) لوگوں کو اپنا پورے مال دے ڈالنے کا حکم دے رہے ہو۔‘‘
یہ تثنیہ کے صیغے ان دو کے اپنے حالات کے لیے ہیں۔ رہا زہد و تقویٰ تو اس میں یہ تینوں اپنے اپنے درجہ میں پورے ممتاز رہے۔
من ازهد من هولاء میں یہ تینوں حضرات مذکور ہیں۔ اور یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اس دور میں ان کے زہد و تقویٰ کی یہ شان درجہ شہرت میں عام تھی۔ سیدنا جعفر صادق یہاں اس خبرِ متواتر اور استفاضہ عام سے استدلال کر رہے ہیں کوئی الزامی جواب نہیں دے رہے۔ الزامی جواب کی باری تحقیقی جواب کے بعد آتی ہے۔ کیا یہاں سیدنا جعفر صادقؒ کا کوئی تحقیقی جواب موجود ہے کہ کہا جا سکے اب حضرت امام سے ایک الزامی جواب بھی سن لو۔ یہاں جمع حقیقت میں تین ہی کے لیے ہے۔ دو کے لیے تثنیہ کا جدا صیغہ ہے۔ جمع فوق الواحد عمومِ مجاز کے طور پر آتی ہے۔ اگر حقیقی جمع مراد لی جا سکے تو جمع فوق الواحد کا سہارا کا کوئی جواز پیدا نہیں کرتا۔ اگر اس تاویل کو جگہ بھی دی جائے تو بھی اس روایت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اوّل درجے کے فضل و زھد کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔
فروعِ کافی کی اس روایت کا درجہ اسناد
محمد بن یعقوب الکلینی (328 ھجری) نے الکافی (اصول بھی اور فروع دونوں) حضرت امام منتظر کی غیبتِ صغریٰ میں مرتب کی تھی اور حضرت امام نے اپنے پہلے ظہور میں اس پوری کتاب کو دیکھا اور اس کی تصدیق فرما دی تھی۔ هذا كاف لشيعتنا
ترجمہ: یہ کتاب ہمارے شیعوں کے لیے کافی ہے ۔
آپ کا یہ تاریخی جملہ فروع کافی طبع لکھنو کے سرورق پر جلی الفاظ میں لکھا ہوا ہے۔ یہ کتاب اثناء عشریوں کے اصولِ اربعہ میں سب سے پہلی کتاب شمار ہوتی ہے۔ سو امام کی اس تصدیق کے بعد اس کے راویوں کی تعدیل کی کوئی مزید ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ اگر کوئی ضد کا مارا پھر بھی سند کے پیچھے لگا رہے تو اسے کون روک سکتا ہے۔
کہتے ہیں اس کا ایک راوی سعدہ بن برقہ سنی تھا۔ سو جاننا چاہیے کہ حسبِ اصولِ شیعہ کسی راوی کے سنی ہونے سے اس کی روایت مسترد نہیں ہو سکتی۔ مشہور شیعی محدث عبدالرزاق لاہجی نے شیعہ اصولِ حدیث پر ایک رسالہ گوہر مراد لکھا ہے۔ اس میں اہلِ سنت کے تمام علماء میں محدثین کو اہلِ انصاف تسلیم کیا ہے۔ سو اگر ان کی روایت قبول نہ ہو گی تو اور کس کی ہو گی۔ علامہ حیدر علی نے منتہی الکلام میں اسے نقل کیا ہے:
بہار (بھارت ) کے مقتدر عالم جناب ولایت حسین نے گوہر مراد کی یہ عبارت اس طرح نقل کی ہے:
’’اہلِ انصاف در فرقہ سنیاں محدثین ایشانند که هرچه از جناب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بآنهار سیدہ بے کم و کاست روایت مے کنند مختصراً کذافی منتهی الکلام‘‘
(کشف التلبیس: حصہ، اول صفحہ، 24 سید ولایت حسین بہاری)
یہ کہنا ہرگز صحیح نہیں کہ سیدنا جعفر صادقؒ نے ان زاہدوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ذکر محض اپنے جذبہ پسری کی وجہ سے کیا ہے آپ ان کی اولاد میں سے تھے اکثر فرماتے: ولدنی ابوبکر مرتین اور آپ کی والدہ حضرت اُمِ فروہ حضرت ابوبکرؓ کی حقیقی پوتی تھیں۔ حضرات اہلِ بیتؓ نے ایمان کے مقابل کبھی اپنے آباء سے خیر خواہی روا نہیں رکھی۔حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ اپنے ایک خطبہ میں کہتے ہیں:
ولقد كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم نقتل ابائنا وابناءنا واخواننا و اعمامنا ما يزيد ذلك الا ايمانا و تسليما و مضياء على اللقم و صبراً على مضف الالم
(نہج البلاغہ جلد، 1 صفحہ، 403 خط نمبر، 55)
ترجمہ: اور ہم بیشک حضور اکرمﷺ کے ساتھ اپنے باپ دادوں، اپنے بیٹوں اور اپنے بھائیوں اور اپنے اعمام کو قتل کرتے رہے اس سے ہمارا ایمان اور بڑھتا اور سر تسلیم کرنے کی اور ہمت ہوئی اور تکالیف پر صبر کا جذبہ اور ابھرتا۔
علامہ طبرسی صاحبؒ تفسیر مجمع البیان ایک مقتدر شیعہ عالم ہیں مگر دیکھئے وہ کس طرح اپنی کتاب میں مجاہد قتادہ اور سعدی سے روایات لائے ہیں اور انہیں رد نہیں کرتے کہ یہ سنیوں کی روایات ہیں۔ اس سے پتہ چلا کہ شیعہ علماء نے سنی روایات سے اصولاً کبھی انکار نہیں کیا۔ وہ سنی رواۃ حدیث کو ہمیشہ اہلِ انصاف تسلیم کرتے آئے ہیں۔