حضرت مولانا قاضی مظہر حسین رحمۃ اللہ کا فرمان عربی دینی مدارس کے سنی شیعہ طلبہ کا اتحادی فتنہ
حضرت مولانا قاضی مظہر حسین رحمۃ اللہ کا فرمان
(امیرِ خدام اہلِ سنت پاکستان)
عربی دینی مدارس کے سنی شیعہ طلبہ کا اتحادی فتنہ:
ماہِ اپریل کے ہی گزشتہ ہفتہ میں ایک خط ناظم اتحاد طلباء مدارس عربیہ لاہور کی طرف سے موصول ہوا جس میں ہمارے مدرسہ اظہارالاسلام کے طلبہ کو بھی سنی شیعہ مدارس کے طلبہ کی متحدہ تنظیم میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی۔ اور اس میں یہ اطلاع بھی تھی کہ قریباً تین سو عربی مدارس کو چھٹیاں ارسال کر دی گئی ہیں، نیز ایک وفد اس اتحاد کے لیے عنقریب دورہ کرنے والا ہے۔
چونکہ ہمارے نزدیک اس قسم کا سنی شیعہ اتحاد دینی مدارس کے طلباء کے لیے انجام کار بہت خطرناک ہے، کیونکہ اب تک تو صبائیت کے جراثیم سے اہلِ سنت کے دینی مدارس محفوظ رہے ہیں، اکابر علمائے اہلِ سنت نے ہمیشہ فتنہ روافض سے تحفظ کے لیے بڑی محنت کی ہیں۔ لیکن افسوس آج دینی مدارس کے طلباء کو بھی تحفظ ناموسِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف کم توجہ ہے الا ماشاء اللہ اور اسی ذہن کی وہ کمزوری ہے جو شیعیت اور صبائیت کے ساتھ بھی اتحاد کی دعوت دے رہی ہے۔
اس پُر فتن دور میں اتحاد اتحاد کا نعرہ بلند ہے جس کی وجہ سے اتحاد کی مخالفت کرنے والا ہدف طعن بنایا جاتا ہے، لیکن قابلِ فکر امر یہ ہے کہ کیا شہد اور زہر کا، مرض اور صحت کا، اور حب اور بغض کا اتحاد بھی کار گر ہو سکتا ہے؟
جس طرح سیلاب کی روک تھام کے لیے سیلاب میں ڈبونے والوں کو اور آگ سے بچاؤ کے لیے آگ میں جھونکنے والوں کو شریک کار اور معاون نہیں بنایا جا سکتا، اسی طرح منکرینِ سنت اور منکرینِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی ان خالص دینی مدارس کی تنظیم و اتحاد میں شریک کار نہیں بنایا جانا چاہیے جو کہ سنت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے شرعی مقام کی تعلیم و حفاظت کے لیے قائم کیے گئے ہیں اور معمولی مشکلات و موانع کو اضطراری صورتوں پر قیاس نہیں کیا جا سکتا جن میں بقدرِ ضرورت حرام کا استعمال مباح ہو جاتا ہے۔ طلبہ کے لیے سفر سہولت حاصل کرنا اتنی اہمیت نہیں رکھتا کہ اس کی وجہ سے اہلِ سنت کے دینی مدارس کو ایک نئے ابتلاء میں ڈال دیا جائے اور ایسا کرنے سے سنیت اور شیعیت کی امتیازی حدود ہی ختم ہو جائیں گی۔
اگر تنظیم و اتحاد کی بنیاد صرف طلباء کی برادری کو بنایا جائے قطع نظر بنیادی عقائد کے تو پھر اس متحدہ تنظیم میں مرزائی طلبہ کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے، اور عیسائی طلباء کو بھی کیونکہ ان کے بھی اپنے اپنے مذہبی ادارے قائم ہیں، آخر یہ سلسلہ کہاں تک جائے گا؟
دینی مدارس عربیہ کو سرکاری کالجوں اور سکولوں پر قیاس نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ ان کا مقصد محض دنیوی مال و جاہ کا حصول ہوتا ہے، اور دینی مدارس کا مقصدِ قیام تحفظِ دینِ حق ہے جس کے لیے بسا اوقات مال و جاہ کی قربانی دینی پڑتی ہے۔
ہم سب اہلِ سنت و الجماعت اگر حسبِ ذیل ارشادِ نبویﷺ کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیں تو یہ نصرتِ خداوندی مذہبِ اہلِ سنت میں محفوظ مستحکم ہو جائے گی۔
اللہ اللہ فی اصحابی لا تتخذوھم غرضا من بعدی، من احبھم فبحبی احبھم ومن ابغضھم فببغضی ابغضھم۔
ترجمہ: حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے اصحابِ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا، اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا، ان کو میرے بعد ملامت کا نشانہ نہ بنانا، جو ان سے محبت کرے گا وہ میری محبت کی وجہ سے ہی محبت کرے گا، اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ میرے ساتھ بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا۔
(اتحادی فتنہ: صفحہ، 3)