حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ کا فرمان کفار کے ساتھ دوستی اور تعلقات رکھنے کی ممانعت
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ کا فرمان
کفار کے ساتھ دوستی اور تعلقات رکھنے کی ممانعت
اسلامی اخوت (یعنی اسلامی برادری) حق ہے۔ بحق ایمان و اسلام روئے زمین کے تمام مسلمانوں کو دینی اور اسلامی بھائی سمجھنا فرض ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَةٌ۔ (سورۃ الحجرات: آیت، 10) اور حدیث میں آیا ہے۔ المسلم اخو المسلم۔ اور روئے زمین کے تمام کافروں کو اپنا دشمن سمجھنا فرض ہے اور ان سے موالات دوستانہ تعلقات رکھنا حرام ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ اِنَّ الۡـكٰفِرِيۡنَ كَانُوۡا لَـكُمۡ عَدُوًّا مُّبِيۡنًا۔ (سورۃ النساء: آیت، 101)
ترجمہ: بیشک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں۔
وقال اللہ تعالیٰ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡكٰفِرِيۡنَ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ۔ (سورۃ النساء: آیت، 144)
ترجمہ: اے ایمان والو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بناؤ۔
وقال اللہ تعالیٰ وَمَنۡ يَّتَوَلَّهُمۡ مِّنۡكُمۡ فَاِنَّهٗ مِنۡهُمۡ۔ (سورۃ المائدة: آیت، 51)
ترجمہ: اور تم میں سے جو شخص ان کی دوستی کا دم بھرے گا تو پھر وہ انہی میں سے ہو گا۔
قرآن کریم اور حدیث سے یہ امر روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد دین و ملت پر ہے وطن اور زبان پر نہیں، ایمان اور اسلام کے رابطہ اور تعلق کی بناء پر تمام مسلمان ایک قوم ہیں۔ شریعت کے احکام اسی ایمان اور کفر کی تقسیم پر دائر ہیں، خاص کر احکامِ جہاد وہ تو صراحتاً ایمان اور کفر کی تقسیم پر مبنی ہیں۔
ایک ملک کے باشندے اور زبان کے بولنے والے عرف زمانہ میں اگرچہ ایک قوم کہلاتے ہیں مگر شریعت مطہرہ کی نظر میں قومیت اور اخوت کا دار و مدار ایمان اور کفر پر ہے۔
شریعت کی نظر میں کافر اور مسلمان دو قومیں علیحدہ ہیں۔ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو سکتا اگرچہ باپ بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ کافر کی نمازِ جنازہ نہیں اور نہ ہی کافر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہو سکتا ہے۔ اور مسلمان کے جنازے پر کافر کو حاضر ہونے کی اجازت نہیں اور مسلمان کو کافر کے جنازے میں شریک ہونے کی اجازت نہیں جیسا کہ قرآن کریم میں صراحتاً آیا ہے کہ۔ وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓى اَحَدٍ مِّنۡهُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمۡ عَلٰى قَبۡرِهٖ۔ (سورۃ التوبة: آیت، 84)
ترجمہ: اور (اے پیغمبر) ان (منافقین) میں سے جو کوئی مر جائے، تو تم اس پر کبھی نمازِ (جنازہ) مت پڑھنا، اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔
اور مسلمان کا باپ یا بیٹا یا بھائی یا چچا بحالتِ کفر مر گیا ہو تو مسلمان رشتہ دار کو اس مردہ کافر کے لیے دعائے مغفرت جائز نہیں۔ کما قال اللہ تعالیٰ مَا كَانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡاۤ اَنۡ يَّسۡتَغۡفِرُوۡا لِلۡمُشۡرِكِيۡنَ وَ لَوۡ كَانُوۡۤا اُولِىۡ قُرۡبٰى مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمۡ اَنَّهُمۡ اَصۡحٰبُ الۡجَحِيۡم۔ (سورۃ التوبة: آیت، 113)
ترجمہ: یہ بات نہ تو نبی کو زیب دیتی ہے اور نہ دوسرے مومنوں کو کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کریں، چاہے وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جبکہ ان پر یہ بات پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ وہ دوزخی لوگ ہیں۔
شریعت نے کافروں سے جہاد کو فرض کیا اور عند الضرورت بقدر ضرورت و مصلحت کافروں سے صلح کی اجازت دی اور صلح کے معنی ترکِ جنگ کے ہیں نہ کہ اتحاد کے اس لیے فقہاء کرامؒ نے صلح کا نام موادعت رکھا ہے جو ودع یدع بمعنی ترک یترک سے مشتق ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ایک دوسرے کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اس سے لڑائی نہ کی جائے۔
قرآن کریم نے کفار کو اللہ تعالیٰ جل شانہ کا اور رسولﷺ کا اور اسلام کا اور مسلمانوں کا دشمن بتایا ہے۔ اور ان سے موالات اور دوستی کو نا جائز قرار دیا ہے اگرچہ وہ کافر اپنے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔
پس ان احکام کے ہوتے ہوئے کافروں سے اتحاد کب جائز ہو سکتا ہے۔ اور قرآن و حدیث میں جو کافروں سے ترکِ موالات کا حکم آیا ہے سو اس کی علت کفر ہے نہ کہ غیر ملکی اور پردیسی ہونا۔
(عقائد الاسلام: حصہ دوم: صفحہ، 404)