Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اہلسنت کا خدا اونٹ پر چڑھ کر گھومتا بھی تھا اور کبھی کبھی مریض بھی ہو جاتا تھا(معاذاللہ)!

  راجہ وقاص علی حیدری

اہلِ سنت کے خدا کو منیٰ میں اونٹ پر سوار دیکھا گیا! مریض بھی ہو جاتا۔
فیس بک سے ایک تحریر وٹس ایپ گروپ میں بھیجی گئی اس تحریر کو یہاں پیش کر کے جواب دیا جائے گا
"اہلِ سنت کا خدا اونٹ پر چڑھ کر گھومتا بھی تھا اور کبھی کبھی مریض بھی ہو جاتا تھا!
اہلِ سنت کے خدا کو منیٰ میں اونٹ پر سوار دیکھا گیا!مریض بھی ہو جاتا
عن أبی رزین عن النبی قال رأيت ربی بمنى عند النفر على جمل أورق عليه جبة
ترجمہ: أبی رزین کھتا ہے: پیغمبرﷺ نے فرمایا: میں نے خدا عالم کو منیٰ میں دیکھا، وہ زمانہ کہ منیٰ سے طرف مکہ کوچ کرتے سیاہ و سفید رنگ کے اونٹ پر اور خداوند کے کندھوں بدن پر ایک بلند پیراھن تھا۔
(سیر اعلام النبلاء ذہب:، جلد، 18 باب أحمد بن محمد بن عبدوس الزعفرانی، صفحہ، 16 دارالنشر: مؤسسة الرسالة بيروت 1413، الطبعة: التاسعة، تحقيق: شعيب الأرناؤوط محمد نعيم العرقسوسی)
(لسان المیزان عسقلانی: جلد ،2 باب من اسمه حسن، صفحہ، 238 دارالنشر: مؤسسة الأعلمی للمطبوعات بيروت 1406، 1986، الطبعة: الثالثة، تحقيق: دائرة المعرف النظامية الهند)
اہلِ سنت کا خدا مریض بھی ہو جاتا تھا!
اور اہم بات یہ ہے کہ اہلِ سنت والوں کا خدا بعض اوقات میں مریض بھی ہو جاتا تھا، آنکھیں درد کرتی تھیں اور ملائکہ ان کی عیادت کے لیے بھی جاتے تھے!
اشتكت عيناه فعادته الملائكة
ترجمہ: بعض اوقات، خداوند کی آنکھوں میں درد ہوتا، اور ملائکہ ان کی ملاقات کے لیے جاتے۔
خدایا عذاب نازل کر اس قوم پر
(الملل و النحل، شهرستانی: جلد، 1 صفحہ، 106 دارالنشر: دار المعرفة بيروت 1404، تحقيق: محمد سيد كيلانی)
معمولاً جب بھی کوئی آدمی کسی کی عیادت پر جاتا ہے لازماً فروٹ و دیگر کھانے پینے کی اشیاء بھی لے کر کے جاتا ہے شاید ملائکہ نے بھی ایسا ہی کیا ہو۔
جواب اول:
رافضی (شیعہ) کی جاہلانہ تحریر کا جواب پیشِ خدمت ہے
1: سیر اعلام النبلاء کی روایت پیش کی گئی ہے اس میں بنیادی راوی
حسن بن علی بن ابراھیم الاھوازی ہے جو محدثین کے نزدیک متروک ضعیف ہے جس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔
زیرِ بحث کتاب جس سے رافضی (شیعہ) نے حوالہ دیا اسی میں امام ذہبی رحمۃ اللہ نے اس راوی کا رد کیا ہے۔
اور دوسری جگہ میزان الاعتدال میں بھی اس پر جرح کی گئی ہے یہ قرآت اور روایت دونوں میں قابلِ حجت نہیں ہے۔
(میزان الاعتدال: جلد، اول سیر اعلام النبلاء: جلد، 18 صفحہ، 16)
2: دوسری روایت جو شہرستانی کی ملل والنحل سے پیش کی گئی ہے اس اعتقاد کا اہلِ سنت کی طرف جھوٹی نسبت کی گئی ہے اس کے مصنف نے مختلف فرقوں اور مذاہب کے عقائد لکھے ہیں نہ کہ جمہور اہلِ سنت کے نظریہ کے طور پر زیرِ بحث عقیدہ لکھا ہے۔
دوسرا یہ کہ شہرستانی خود اہلِ سنت کے ہاں قابلِ حجت نہیں اور نہ اس کی کتاب اس قابل ہے کہ اہلِ سنت کو اس کی کسی عبارت کی وجہ سے طعنہ دیا جائے۔ یہ فرقہ اسماعیلیہ کی طرف مائل تھا۔
یہ شخص بے دین تھا اور بے دینی کی وجہ سمجھ بدنام تھا۔ یہ غالی شیعہ تھا۔
(طبقات الشافعیۃ: جلد، چہارم صفحہ، 79 منہاج السنۃ جلد، سوم صفحہ، 207 209 سیر اعلام النبلاء: جلد، 20 صفحہ، 286)
3: دوسری روایت جو صحیح بخاری سے پیش کی اس میں جو مطلب لیا گیا وہ ہمارے ہاں ہے ہی نہیں۔
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کے نزول کی کیفیت کا ہم کو علم نہیں۔ (شرحِ فقہ اکبر: صفحہ، 60)
قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ اور ہر جگہ موجود ہونے کا ذکر ہیں اس کا جواب خود شیعہ مجتہدین ہی سے ہم شیعہ معترض کے لیے نقل کر دیتے ہیں جس کے ساتھ صحیح بخاری کی روایت کی تشریح بھی ان ہی کے قلم سے ہو جائے گی اور مخالف کے اپنے اکابرین سے اتمامِ حجت ہو جائے گی چنانچہ خود شیعہ کی کتب عقائد میں یہ اصول موجود ہے کہ قرآن مجید کی آیات یا روایات میں جہاں بھی اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس طرح کے الفاظ موجود ہوں ان کا وہی مطلب بیان کیا جائے گا جو قرآن کریم میں موجود اس طرح کی آیات کا لیا جاتا ہے۔
چنانچہ شیخ صدوق لکھتے ہیں کہ:
جن روایات سے جاہل یہ خیال کرتے ہیں کہ ان روایات میں مخلوق خدا سے تشبیہ کا ذکر ہے تو ان کے وہی معانی مراد لیے جائیں گے جو اس قسم کی قرآن مجید کی آیات کا لیا جاتا ہے۔
(اعتقاد شیخ صدوق: صفحہ، 16، 17)
اسی طرح شیعہ عالم جعفر سبحانی اس طرح کی آیات اور روایات کی تشریح رقم طراز ہے کہ:
اس طرح کی صفات کو صفاتِ خبری کہنے کی وجہ یہ ہے کہ صرف آیات و روایات ان کے بارے میں خبر دیتی ہیں۔ یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ عقل و فہم ان صفات کو ان کے عرفی اور دنیاوی معنی میں تفسیر نہیں کر سکتی کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ تجسیم و تشبیہ ہوتا ہے اس لیے ان صفات کی حقیقی تفسیر کو پانے کے لیے قرآن مجید میں موجود اس قسم کی تمام آیات کو مدِنظر رکھنا ضروری ہے۔
(عقائد امامیہ شیخ جعفر سبحانی: صفحہ، 109)
اب اسی طرح کی صحیح سند سے شیعہ کے اپنے مصادر کی روایات ملاحظہ فرمائیں۔
اللہ کا آسمانِ دنیا پر آنا شیخ طوسی کے تہذیب الاحکام کی "صحیح السند روایت" جس میں اللہ تعالیٰ کے آسمانِ دنیا پر نزول کا ذکر موجود ہے۔
وعنه، عن عبدالله بن محمد، عن علی بن الحكم، عن أبان، عن أبی عبدالله عليه‌السلام قال: إن للجمعة حقا وحرمة، فاياك أن تضيع أو تقصر فی شیء من عبادة الله والتقرب إليه بالعمل الصالح، وترك المحارم كلها، فان الله يضاعف فيه الحسنات، ويمحو فيه السيئات، ويرفع فيه الدرجات، قال: و ذكر أن يومه مثل ليلته، فان استطعت أن تحييه بالصلاة والدعاء فافعل، فان ربك ينزل فی أول ليلة الجمعة إلى سماء الدنيا يضاعف فيه الحسنات، ويمحو فيه السيئات، وإن الله واسع كريم(9620)
یاد رہے کہ روایت سے ان الفاظ کا ترجمہ اڑا دیا گیا ہے۔
فان ربك ينزل فی أول ليلة الجمعة إلى سماء الدنيا يضاعف فيه الحسنات
(تہذیب الاحکام: جلد، اول کتاب الصلاۃ باب العمل فی لیلہ الجمعہ و یومھا رقم روایت نمبر، 3141 صفحہ، 330)
جواب دوم:
اگر پھر بھی پیٹ میں مروڑ پڑ رہے ہیں اور آرام نہیں آ رہا تو یہ لیں گھر کی گواہی
شیعہ کے ہاں اللہ ایک بڑی کوہان والے اونٹ پر بیٹھ کر زمین پر اترتا ہے۔
زید (النرسی) عن عبدالله بن سنان قال: سمعت ابا عبدالله يقول: إن الله ينزل فی يوم عرفة فی اول الزوال الی الارض علی جمل أفرق
ترجمہ: عبداللہ ابنِ سنان کہتے ہیں: میں نے ابو عبداللہ سے سنا "وہ کہہ رہے تھے: بے شک اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن زوال کے بعد ایک کشادہ کوہان والے اونٹ پر بیٹھ کر زمین پر اترتے ہیں۔"
(كتاب الأصول الستة عشر: صفحہ، 54 أصل زيد النرسى كتاب زيد النرسى، ریاض العلماء: جلد، 2 صفحہ، 404)
4: شیعہ کا خدا ہنستا بھی ہے ظاہر سی بات ہے اس کے دانت بھی ضروری ہیں۔
عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد بن خالد، عن ابن فضال، عن أبی جميلة، عن سعد بن طريف، عن الأصبغ بن نباتة قال: قال أمير المؤمنين (صلوات الله عليه): يضحك الله عز وجل إلى رجل فی كتيبة يعرض لهم سبع أو لص فحماهم أن يجوزوا
(اصول کافی: جلد، اول)
شیعہ کے ہاں خدا کی باقاعدہ انگلیاں ہیں انسانوں کے قلوب اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔
حدثنا احمد بن محمد عن ابيه عن محمد بن احمد عن موسى بن عمر عن ابن سنان عن ابی سعيد القماط عن حمران، قال: سمعت ابا جعفر (ع) يقول: اذا كان الرجل على يمينك على رای ثم تحول الى يسارك فلا تقل الا خيرا ولا تبرأ منه حتى تسمع منه ما سمعت وهو على يمينك فان القلوب بين إصبعين من أصابع الله يقلبها كيف يشاء ساعة كذا وساعة كذا وان العبد ربما وفق للخير(علل الشرایع: جلد، اول)
شیعہ کے ہاں اللہ کے دو ہاتھوں کا ذکر جو دائیں طرف ہیں۔
کلینی امام ابو جعفر سے ایک روایت نقل کرتا ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اللہ کے عرش کے سائے میں اس کے دائیں طرف ہوں گے اور اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں طرف ہیں۔
عنه، عن محمد بن علی، عن عمر بن جبلة الاحمسی، عن ابی الجارود، عن ابی جعفر (عليه السلام) قال: قال رسول الله (صلى الله عليه وآله): المتحابون فی الله يوم القيامة على ارض زبر جدة خضراء، فی ظل عرشه عن يمينه وكلتا يديه يمين وجوههم اشد بياضا واضوء من الشمس الطالعة، يغبطهم بمنزلتهم كل ملك مقرب وكل نبی مرسل، يقول الناس: من هؤلاء؟ فيقال: هؤلاء المتحابون فی اللهفی ظل عرشه عن يمينه وكلتا يديه يمين
ترجمہ: اس کے عرش کے سائے میں اس کے دائیں طرف اور اس کے دونوں ہاتھ دائیں طرف ہیں۔ مجلسی نے روایت کو حسن کہا ہے۔
(اصول کافی: جلد، اول)
شیعہ کے نزدیک اللہ پوری زمین پر مستوی ہے چنانچہ پوچھا گیا کہ
اَلرَّحۡمٰنُ عَلَى الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰى ۞ (سورۃ طه: آیت، 5)
کا کیا مطلب ہے تو جواب دیا گیا۔
استوی علی کل شیء
اللہ ہر چیز پر مستوی ہے۔
(اصول کافی: جلد، اول کتاب التوحید باب حرکت والانتقال رقم روایت نمبر، 329 صفحہ، 59)
اس میں شیعہ کے پاسپورٹ تاویل کے بغیر امام کو بچانا مشکل ہے۔
شیعہ کے ہاں ائمہ اللہ کا چہرہ، آنکھیں اور ہاتھ ہیں۔
چنانچہ سورة رحمان کی آیت کے تحت امام جعفر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ:
ونحن وجھہ اللہ نتقلب فی الارض بین اظھرکم ونحن عین اللہ فی خلقہ ویدہ المبسوطتہ
ترجمہ: ہم اللہ کا چہرہ ہیں ہم ہی اللہ کی آنکھیں ہیں اور ہم اللہ کے ہاتھ ہیں۔
(اصول کافی: جلد، اول کتاب التوحید باب النوادر رقم روایت نمبر، 354 صفحہ، 66)
ائمہ خود خدا ہیں!
چنانچہ خلیفہ چہارم کا اقرار موجود ہے کہ
انا الذین مفاتیح الغیب وانا بکل شیء علیم۔ وان عذاب لھو العذاب العلیم انا دعوت الشمس والقمر فاجابی انا الذین بعثیت النبیین والمرسلین وان مت لم امت وان قتلت لم قتلت 
ترجمہ: میں ہی وہ ہوں جس کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں، میں ہر چیز پر قادر ہوں میں ہی عذاب دینے والا ہوں میں ہی سورج اور چاند کو چلانے والا ہوں جنہوں نے میری اطاعت کی میں نے ہی انبیاء علیہم السلام اور رسولوں کو مبعوث فرمایا اگر مجھے موت دی جائے تو میں مروں نہیں اگر مجھے قتل کیا جائے تو میں قتل نہ ہو سکوں۔
(خطبتہ البیان مع شروع تقی مجلسی: صفحہ، 77 تا 90)
شیعہ کے اماموں کے صحابیوں کا عقیدہ کہ اللہ تیس سالہ نوجوان جس کا دھڑ ناف تک خالی ہے۔
چنانچہ ابراھیم بن خزار اور محمد بن الحسین نے بیان کیا کہ
ان محمد صلی اللہ علیہ وسلم رای ربہ فی صور الشباب الموفق فی سن الابناء ثلاثین سنہ وقلنا ان ھشام بن سالم صاحب الطاق والمیثمی ویقولون انہ اجوف الی السرہ والبقیہ
ہم دونوں امام رضا کے پاس حاضر ہوئے اور ہم نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے معراج کی رات اللہ تعالیٰ کو ایک تیس سالہ نوجوان کی شکل میں دیکھا اور ہم نے کہا کہہ ہشام، صاحب طاق اور میثمی (ہشام بن سالم وغیرہ شیعہ کے ہاں اماموں کے ثقہ صحابی ہیں جو یہ عقیدہ بیان کر رہے ہیں۔ حیدری) کہتے ہیں کہ اللہ کا دھڑ ناف تک خالی تھا اؤر اس سے نیچے یعنی قدموں تک سخت اور ٹھوس تھا۔
(اصول کافی: جلد، اول کتاب التوحید باب النھی عن الصفتہ بغیر ما وصف رقم روایت نمبر، 271 صفحہ، 39)