حضرت مولانا منظور احمد مینگل صاحب کا فرمان (استاد جامعہ فاروقیہ کراچی)
حضرت مولانا منظور احمد مینگل صاحب کا فرمان
(استاد جامعہ فاروقیہ کراچی)
فرمایا: حضرت مولانا محمد اعظم طارق شہید رحمۃ اللہ نے وقت کی اہم ترین ضرورت دفاع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر مثبت انداز سے بغیر دل آزاری کے جو کام کیا وہ کسی اور کی قسمت میں نہیں آیا خاص کر متحدہ مجلس عمل کی تشکیل کے سانحہ اور نازک ترین موقع پر جبکہ بہت سی دینی جماعتوں کے اور عظیم ترین قابلِ قدر شخصیات کے پاؤں بھی ڈگمگانے لگے۔ الیکشن جیتنے کے شوق میں جادۀ حق سے اس قدر دُور جا پڑے کہ ایک غیر اسلامی فرقہ سے متعلق کل کا وہ تاریخی فتویٰ اور کفر و اسلام کے درمیان خطِ امتیاز کھینچنے والی وہ اہم دستاویز (جس پر کراچی سے لے کر پشاور تک کے اکابر و اصاغر علماء کے دستخط ہے اور جس کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہونے پائی تھی) نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
ظاہر ہے علمائے کرام کے اس طرزِ عمل سے کفر و اسلام خلط ہو گیا اور حضرت مولانا مفتی احمد الرحمٰن صاحبؒ بنوری ٹاؤن جن کو پاکستان بھر کے علماء عام جلسوں میں جنتی کے لقب سے پکارتے تھے، ان کے قیادت میں چلنے والا وفد (جس نے فرقہ اثناء عشری کو کافر قرار دلوایا تھا) کی دھول ابھی ساکن نہیں ہوئی تھی کہ خود دستخط کرنے والے علماء اثناء عشری قائدین کے ساتھ بغل گیر ہو گئے۔
حد درجہ افسوس ناک بات یہ تھی کہ فتویٰ کی اس دستاویز کو ایسے غائب کر دیا گیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ کسی کو یہ کہنے کی جرأت نہیں ہوئی کہ کل کا فتویٰ درست تھا یا کہ آج کا اتحادی عمل درست ہے۔
متحدہ مجلس عمل کی تشکیل سے علماء کے فتوؤں کے وقار پر کس قدر زد پڑی تاریخ نے اس کو محفوظ کر لیا ہے، فتوؤں کی اس بے وقعتی کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔
حضرت مولانا محمد اعظم طارق شہیدؒ ایسے نازک ترین حالات سے متاثر نہیں ہوئے، شیوخِ حدیث مفسرین وعظ و ارشاد کے دعویداروں کے وعظ و نصیحت کی طرف نہ دیکھا اور اپنا اسلامی تشخص بر قرار رکھا۔
حد یہ ہے کہ الیکشن جیتنے کے شوق میں اسلامی تاریخ کو مسخ کیا جانے لگا، کفار کے ساتھ معاہدات اور معاملات کی نوعیت گڈمڈ کرتے ہوئے دفاعی معاہدات کی مثالیں دی جانے لگیں، اسلام کے دفاعی معاہدوں پر غیر مسلموں کے ساتھ انتخابی معاہدوں کو قیاس کر لیا گیا۔
کیا حضور اکرمﷺ کے زمانہ میں یا اسلامی تاریخ میں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا پیش کیا جا سکتا ہے کہ کفار کے ساتھ انتخابی معاہدہ ہوا ہے؟ اسلامی تاریخ کے دفاعی معاہدات و معاملات کو اپنی مطلب برآری کے لیے انتخابی معاہدہ سمجھ لیا گیا۔
آج اس غلط اتحاد کا پھل آنے لگا ہے تو اتحاد میں شامل نسبتاً دین دار جماعتیں چیخ رہی ہیں کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔ متحدہ مجلس عمل میں شامل تمام جماعتیں ایک دوسرے سے صرف بیزار نہیں بلکہ ایک دوسرے پر نفریں بھیج رہی ہیں۔
جو کچھ اتحاد کے نتیجہ میں سامنے آیا وہ تو آ گیا، جمہوریت مرتی ہے مولوی بیرون ملک دورے منسوخ کر کے جنازہ میں پہنچتے ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایک عاشقِ صادق کو درد ناک انداز سے ظالم شہید کرتے ہیں، کسی اتحادی مولوی کو جنازہ میں شامل ہونے کی توفیق نہیں ہوتی۔ اور اس مقبول بارگاہ الہٰی کے جنازہ سے ان لوگوں کی محرومی ایک غیبی فیصلہ معلوم ہوتا ہے۔
پریشانی یہ ہے کہ اتحاد کی جو برکات سامنے آئی وہ اس سے بدتر ہیں۔ ایسے حالات میں اگر حضرت مولانا محمد اعظم طارق شہیدؒ اپنے موقف پر قائم رہتا ہے تو میں ان کی شہادت پر یہ نہ کہوں تو کیا کہوں کہ
چھوٹی بڑی اسمبلیوں کے چھوٹے بڑے مولوی سب مر جاتے تو اتنا دکھ نہ ہوتا جتنا آج ہو رہا ہے۔
(اعظم طارق شہید نمبرؒ: صفحہ، 412)