شیعہ اثنا عشریہ کا جنازہ اور امام احمد رضا خان بریلوی
جو مولوی کسی شیعہ کا جنازہ پڑھائے تو ایسے مولوی کو امامت سے معزول کرنا واجب ہے ایسے مولوی کو کوڑے مارے جائیں اور اگر حاکم وقت چاہے تو سزا سے قتل بھی کر سکتا ہے کیونکہ اس مولوی نے شیعہ کا جنازہ پڑھا کر مذہب کی توہین کی ہے۔
(فتاویٰ رضویہ: جلد، 9 صفحہ، 174)
مسئلہ نمبر 36: از ثمن برج وزیر آباد ضلع گوجرانوالا ، پنجاب مرسلہ محمد خلیل اللہ صاحب پنشنر رسالدار، 23 ربیع الاول 1327 ہجری
کیا فرماتے ہیں علماۓ دین مندرجہ ذیل صورت میں ایک شخص جو شیعہ اثناء عشری مذہب رکھتا ہے اور کلمہ لا الہ الاللہ محمد رسول اللہ علی خلیفہ بلا فصل وغیرہ اعتقادات مذہب شیعہ کا معتقد ہے، فوت ہوا ہے اس کا جنازہ ہمارے امام حنفی المذہب جامع مسجد میں پڑھایا اور اس کو غسل دیا، نیز اس کے ختم میں شامل ہوا، شیعہ جماعت نے امام مذکور کے نماز جنازہ پڑھانے کے بعد دوبارہ شیعہ امام سے متوفی مذکور کی نماز جنازہ پڑھائی۔ کیا امام مذکور حنفی المذہب کا یہ فعل ائمہ احناف کے نزدیک جائز ہے۔ اگر ناجائز ہے تو کیا امام صاحب مذکور کا یہ فعل شرعاً قابل تعزیر ہے اور کیا تعزیر ہونی چاہیئے؟
الجواب: صورت مذکورہ میں وہ امام سخت اشد کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا، اس نے حکمِ قرآنِ عظیم کا خلاف کیا۔
قال اللہ تعالیٰ وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓى اَحَدٍ مِّنۡهُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمۡ عَلٰى قَبۡرِهٖ (سورۃ التوبہ: آیت، 84)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور ان میں سے کوئی مر جائے تو کبھی اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر (جا کر) کھڑے ہونا۔
تعزیر یہاں کون دے سکتا ہے، اس کی سزا حاکم اسلام کی رائے پر ہے، وہ چاہتا تو پچھتر کوڑے لگاتا اور چاہتا تو قتل کر سکتا تھا کہ اس نے مذہب کی توہین کی، اس کے پیچھے نماز جائز نہیں اور اسے امامت سے معزول کرنا واجب ، تبیین الحقائق وغیرہ میں ہے:
لان فی تقدیمہ للامامۃ تعظیمہ و قد وجب علیھم اهانة شرعا۔
(تبیین الحقائق باب الاماة والحدث في الصلوۃ مطبوعہ مطبعه کبری امیریۃ مصر جلد، 1 صفحہ، 134)
اس لیے کہ اسے امام بنانے میں تعظیم ہے جبکہ شرعاً ان پر اس کی اہانت واجب ہے۔
فتاوی حجہ وغنیہ میں ہے:
لوقد موافاسقایا ثمون
(غنیة المستملی فصل فی الاماة سہیل اکیڈمی لاہور صفحہ، 513)
ترجمہ: اگر لوگوں نے کسی فاسق کو امام بنایا تو گنہگار ہوں گے۔
یہ سب اس صورت میں ہے کہ اس نے کسی دنیوی طمع سے ایسا کیا ہو ، اگر دینی طور پر اسے کار ثواب اور رافضی تبرائی کو مستحق عنسل و نماز جان کر یہ حرکات مردودہ کیں تو وہ مسلمان ہی نہ رہا۔ اگر عورت رکھتا ہو اس کے نکاح سے نکل گئی کہ آج کل رافضی تبرائی عموماً مرتدین ہیں۔
کما حققناه في ردالرفضة
جیسا کہ ہم نے اپنے رسالہ "ردالفضہ" میں اس کی تحقیق کی ہے۔ اور بحکم فقہائے کرام تو نفس تبرا کفر ہے۔
کما فی الخلاصة وفتح القدير وغيرہا كتب کثیرۃ
جیسا کہ خلاصہ اور فتح القدیر وغیرہ بہت سی کتابوں میں ہے: كما في الاعلام وغيره وبيناه في فتاونا
جیسا کہ الاعلام بقواطع الاسلام میں ہے اور ہم نے اسے اپنے فتاویٰ میں بیان کیا ہے۔
و اللہ تعالیٰ اعلم۔