Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ کی تکفیر کا موقف


امام مالکؒ، احمد اور بخاری کی طرح کے کبار ائمہ اسلام کا یہی موقف ہے۔ ذیل میں اثناء عشریہ اور جعفریہ کے نام سے موسوم روافض کے بارے میں ائمہ اسلام اور علماے مسلمین کے فتوے ذکر کیے جاتے ہیں۔

(کتاب: آئینہ مذہبِ شیعہ کا صفحہ (121، 124، 127) دیکھیں)
 نیز شیعہ کے مشہور مقالات و نظریات کے متعلق، جو ان کی بنیادی کتابوں میں مذکور ہیں، علمائے اسلام کا موقف پیش کیا جاتا ہے۔ میں سب سے پہلے امام مالکؒ کا فتویٰ ذکر کروں گا، اس کے بعد امام احمدؒ کا، پھر امام بخاریؒ، ان کے بعد باترتیب وفات کے مطابق باقی ائمہ کرام کے فتویٰ جات کا ذکر کروں گا۔ میں نے ائمہ کبار کے فتاویٰ اور شیعہ کے ساتھ ایک ہی شہر میں رہنے والے علمائے کرام یا شیعہ کے بارے میں لکھنے والے اور شیعہ کے مذہب کی تحقیق کرنے والے علمائے کرام کے فتاویٰ کا انتخاب کیا ہے۔
1: امام مالک رحمۃ اللہ:
خلال نے ابوبکر مروزی سے روایت کیا ہے کہ میں نے ابو عبداللہؒ سے سنا کہ انہوں نے کہا:
”مالک نے کہا: جو اصحاب النبیﷺ (گذشتہ صفحات (صفحہ، 766) سے یہ امر واضح ہو چکا ہے کہ شیعہ صحابہ کرامؓ پر لعنت کرنا دین اور شریعت قرار دیتے ہیں اور معدود چند صحابہؓ کے علاوہ دیگر تمام صحابہ کرامؓ کو کافر قرار دیتے ہیں۔) کو سب وشتم کرتا ہے، اس کا اسلام میں کوئی نام یا حصہ نہیں۔
(الخلال: السنة: جلد، 2، صفحہ 558 اس کتاب کے محقق نے کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔)
حافظ ابنِ کثیرؒ جملے اس آیت:
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ‌ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ تَرٰٮهُمۡ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانًا‌ سِيۡمَاهُمۡ فِىۡ وُجُوۡهِهِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ‌ ذٰ لِكَ مَثَلُهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ وَمَثَلُهُمۡ فِى الۡاِنۡجِيۡلِ كَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطْئَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰى عَلٰى سُوۡقِهٖ يُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَـغِيۡظَ بِهِمُ الۡكُفَّارَ‌ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡهُمۡ مَّغۡفِرَةً وَّاَجۡرًا عَظِيۡمًا ۞
(سورۃ الفتح: آیت، 29)
ترجمہ: محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں، کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے، جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے سے کافروں کو غصہ دلائے ۔
کی تفسیر میں ذکر کرتے ہیں: ایک روایت میں امام مالکؒ نے اس آیت سے روافض کی تکفیر کا حکم نکالا ہے، جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کے ساتھ بغض رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا:
"کیونکہ وہ ان کو بھڑکاتے ہیں اور جس کو صحابہؓ نے بھڑکایا، وہ اس آیت کے موجب کافر ہے اور علماء کے ایک گروہ نے ان کے ساتھ اس بات پر اتفاق کیا ہے۔"
(تفسیر ابنِ کثیر: جلد، 6 صفحہ، 219 نیز دیکھیں: روح المعاني للألوسي: جلد، 26، صفحہ، 116 اس آیت سے یہ حکم استنباط کرنے کے سلسلے میں مزید دیکھیں: الصارم المسلول: صفحہ، 579)
امام قرطبیؒ کہتے ہیں کہ امام مالکؒ نے بڑی اچھی بات کہی ہے اور آیت کی صحیح تاویل کی ہے۔ جس نے کسی ایک صحابی کی بھی عیب جوئی کی یا اس کی روایت پر طعن کیا، (شیعہ مرجع کا یہ بیان گزر چکا ہے کہ صحابہ کرامؓ جیسے ابو ہریرہؓ، عمرو بن العاصؓ، اور سمرة بن جندبؓ کی روایات شیعہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتیں۔ صفحہ، 375) اس نے اللہ رب العزت کا رد کیا اور مسلمانوں کے احکام کو جھوٹا قرار دیا۔
(تفسير القرطبی: جلد، 16 صفحہ، 298)
2: امام احمد رحمۃ اللہ:
ان سے روافض کی تکفیر کے متعلق کئی روایات مروی ہیں:
خلال نے ابوبکر مروزی سے روایت کیا کہ میں نے ابو عبداللہؒ سے ان کے بارے میں پوچھا، جو حضرت ابوبکرؓ، عمرؓ اور عائشہؓ کو گالیاں دیتے ہیں، تو انھوں نے کہا: میں اس کو اسلام پر نہیں سمجھتا۔
(الخلال: السنة: جلد، 2 صفحہ، 557 کتاب کے محقق نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ نیز دیکھیں: شرح السنة لابن بطة: صفحہ، 161 الصارم المسلول: صفحہ، 571)
خلال نے کہا ہے: مجھے عبدالملک بن عبد الحمید نے بتایا، اس نے کہا: میں نے ابو عبداللہؒ سے سنا، انھوں نے کہا:
“جس نے گالی دی، مجھے اس پر روافض کی طرح کفر کا خدشہ ہے۔“
پھر کہا: ”جس نے صحابہ کرامؓ کو گالی دی، بعید نہیں کہ وہ دین سے نکل چکا ہو۔“
(الخلال: السنة: جلد، 2 صفحہ، 558 اس کی سند بھی صحیح ہے۔)
خلال نے کہا:
ہمیں عبداللہ بن احمد بن حنبلؒ نے بتایا، اس نے کہا: میں نے اپنے والد سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا، جو کسی صحابہؓ کو گالی دیتا ہے، تو انھوں نے کہا: میں اس کو اسلام پر نہیں سمجھتا۔
(الخلال: السنة: جلد، 2 صفحہ، 558 نیز دیکھیں: مناقب الإمام أحمد لابن الجوزی: صفحہ، 214)
امام احمدؒ کی کتاب "السنة" میں ان کا روافض کے متعلق یہ قول مذکور ہے:
یہ لوگ اصحابِ محمدﷺ پر تبرا کرتے ہیں، ان کو دشنام طرازی کرتے ہیں، ان میں کیڑے نکالتے ہیں اور علیؓ، عمارؓ، مقدادؓ اور سلیمانؓ کے سوا ائمہ کو کافر کہتے ہیں، رافضہ کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
(السنة للإمام أحمد: صفحہ، 82تصحيح الشيخ إسماعيل الأنصاری)
 اثناء عشریہ چند ایک صحابہؓ کے سوا جن کی تعداد انگلیوں کے بھی برابر نہیں، سب صحابہؓ کو کافر کہتے ہیں۔ یہ اپنی دعاؤں، زیارتوں، درگاہوں اور بڑی بڑی بنیادی کتابوں میں ان پر لعنت بھیجتے اور قیامت تک ان کی پیروی کرنے والوں کو کافر کہتے ہیں۔
(اسی کتاب کا صفحہ، 766)
امام ابنِ عبد القوی کہتے ہیں:
جو شخص صحابہؓ سے براءت کا اظہار کرتا اور حضرت عائشہؓ کو گالی دیتا اور ان پر وہ بہتان لگاتا، جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بری قرار دیا ہے، تو امام احمدؒ اس کو کافر کہتے ہیں اور وہ یہ آیت پڑھتے: 
يَعِظُكُمُ اللّٰهُ اَنۡ تَعُوۡدُوۡا لِمِثۡلِهٖۤ اَبَدًا اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‌۞
(سورۃ النور: آیت، 18)
ترجمہ: اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے، اس سے کہ دوبارہ کبھی ایسا کام کرو، اگر تم مومن ہو۔
(ما يذهب إليه الإمام أحمد للإمام أبي محمد رزقا الله بن عبد القوي التميمي المتوفى ٤٨٠هـ الورقة: 21)
لیکن امام ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ نے مجموعہ فتاویٰ میں امام احمدؒ وغیرہ سے روافض کی تکفیر میں اختلاف نقل کیا ہے۔ (الفتاوىٰ: جلد، 3 صفحہ، 352)
امام احمدؒ کی جو پہلی عبارتیں گزری ہیں وہ صریحاً اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ امام صاحب ان کی تکیفر کے قائل تھے۔ تاہم شیخ الاسلام نے، جو لوگ روافض کو صحابہ کرامؓ کو سب وشتم کرنے کی وجہ سے کافر نہیں کہتے، ان کی اس انداز میں توجیہ کی ہے، جس سے امام احمدؒ کے اقوال میں خیال کیا جانے والا تعارض رفع ہو جاتا ہے:
لیکن جس نے ان (صحابہؓ) کے بارے میں اس طرح کی بد زبانی کی، جس کی وجہ سے ان کی دیانت داری یا دین داری پر کوئی حرف نہ آتا ہو، مثلاً : بعض صحابہؓ کو بخیل، بزدل، کم علم یا دنیا دار کہنا، اس طرح کی باتیں کرنے والا تعزیر اور تادیب کا سزا وار ہے، صرف اس کی وجہ سے ہم اس کو کافر نہیں کہہ سکتے ، اہلِ علم میں جو ان کو کافر نہیں کہتا تو اس کے کلام کو اسی مفہوم پر محمول کیا جائے گا۔
(الصارم المسلول: صفحہ، 586 قاضی ابو یعلی نے عدمِ تکفیر کی روایت کی ایک توجیہ کی ہے۔ دیکھیں: الصارم المسلول: صفحہ، 581)
اس کا یہ مطلب ہوا کہ جو ان کے بارے میں ایسی بد زبانی کرتا ہے، جو ان کی دیانت، عدالت اور تدوین پر جرح کرتی ہو، اہلِ علم کے نزدیک اس پر کفر کا حکم لگایا جائے گا، لیکن جو تمام صحابہؓ کو مرتد خیال کرتا ہے، اس کا پھر کیا حال ہو گا؟
امام بخاریؒ المتوفی 257ھ
امام بخاریؒ نے کہا ہے:
"مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں کسی جہمی اور رافضی کے پیچھے نماز پڑھوں یا کسی یہودی اور عیسائی کے پیچھے (یعنی یہ چاروں برابر ہیں) ان کو سلام نہیں کہنا چاہیئے، نہ ان کی عیادت کرنی چاہیئے، نہ ان کے ساتھ نکاح کیا جائے، نہ ان کے جنازوں میں شرکت کی جائے، اور نہ ان کے ذبیحے کھائے جائیں۔
(الامام البخاری خلق افعال العباد: صفحہ، 125)
4: عبداللہ بن ادریس:
 (عبد الله بن ادريس بن يزيد بن عبد الرحمٰن الأودی امام ابو حاتمؒ کہتے ہیں: وہ حجت اور مسلمانوں کے امام ہیں امام احمد کے بقول وہ بے مثال ہیں ابنِ سعد کہتے ہیں کہ ثقہ مامون، کثیر الحدیث، حجت، اہلِ سنت و الجماعت والے ہیں یہ 198ھ کو فوت ہوئے تکذيب التہذيب: جلد، 5 صفحہ، 144، 145 الجرح و التعديل لابنِ أبی حاتم: جلد، 5 صفحہ، 8، 9 یہ کوفے کے بڑے ائمہ میں سے ہیں الصارم المسلول: صفحہ، 570 یہ کوفہ روافض کی جائے پیدائش ہے، لہٰذا وہ رافضہ اور ان کے مذہب کو بہ خوبی جاننے والے ہیں، کیونکہ گھر والا دوسروں سے زیادہ گھریلو اشیاء کو جانتا ہے)
وہ کہتے ہیں رافضی کو شفعہ کا حق حاصل نہیں ہے۔ (الصارم المسلول: صفحہ، 570 السيف المسلول على من سب الرسوله علي بن عبد الكافی السبكی: الورقة، 71 أ مخطوط) 
5: عبد الرحمٰن بن مہدی: 
(الامام الحافظ العلم عبد الرحمٰن بن مهدی بن حسان بن عبد الرحمٰن العنبری، البصری، المتوفى 198ھ تہذيب التکذيب: جلد، 6 صفحہ، 281 ،279)
امام بخاریؒ نے کہا ہے: عبد الرحمٰن بن مہدی نے کہا: یہ دونوں علاحدہ ملتیں ہیں، ایک جہمیہ اور دوسرے رافضہ۔
(خلق أفعال العباد للبخاری: صفحہ، 125 نیز دیکھیں: مجموع فتاوىٰ شيخ الإسلام ابنِ تيميہؒ: جلد، 35 صفحہ، 415)
6: الفريابی:
(محمد بن يوسف الفريابی امام بخاریؒ نے ان سے 26 احادیث روایت کی ہیں۔ یہ اپنے زمانے کے افضل ترین انسان تھے یہ 212ھ کو فوت ہوئے تہذیب التہذيب: جلد: 9 صفحہ، 535) 
خلال نے روایت کیا ہے کہ مجھے حرب بن اسماعیل کرمانی نے بتایا، اس نے کہا: ہمیں موسیٰ بن ہارون بن زیاد نے بیان کیا، اس نے کہا: میں نے فریابی سے سنا کہ ایک آدمی ان سے اس شخص کے بارے میں پوچھا رہا تھا، جس نے سیدنا ابوبکرؓ کو گالی دی، تو انہوں نے کہا: وہ کافر ہے، اس نے پوچھا: کیا اس کا جنازہ پڑھا جائے گا؟ انہوں نے کہا: نہیں، اس نے کہا: وہ لا الہ الا اللہ پڑھتا ہے، اس کے ساتھ کس طرح پیش آیا جائے؟ انہوں نے کہا کہ اس کو ہاتھ نہ لگاؤ، اس کو لکڑی کے ساتھ اٹھاؤ اور گڑھے میں دفنا دو۔
(الخلال السنة: جلد، 6 صفحہ، 566 کتاب کے محقق نے کہا ہے کہ اس کی سند میں ایک راوی موسیٰ بن ہارون بن زیاد ہے، جس کے متعلق مجھے علم نہیں ہو سکتا۔ البتہ امام ابنِ تیمیہؒ نے الصارم المسلول صفحہ، 570 میں حتمی طور پر اسے فریابی کی طرف منسوب کیا ہے۔
7: احمد بن یونس: 
(أحمد بن عبدالله بن يونس: یہ اہلِ سنت کے امام اور کوفہ کے رہنے والے ہیں، جو رافضہ کا گڑھ اور جائے پیدائش ہے، لہٰذا یہ روافض اور ان کے مذہب سے خوب باخبر ہیں امام احمدؒ ایک شخص کو وصیت کرتے ہیں: احمد بن یونس سے جا کر علم حاصل کرو، کیوں کہ وہ شیخ الاسلام ہیں کتب ستہ کے مؤلفین نے ان کی حدیث بیان کی ہے۔ امام ابو حاتمؒ فرماتے ہیں: ثقہ اور متقن ہیں۔ نیز امام نسائیؒ نے انہیں ثقہ اور امام ابنِ سعد نے ثقہ صدوق و صاحب سنة و جماعة کہا ہے۔ حافظ ابنِ حجرؒ ذکر کرتے ہیں کہ احمد بن یونس فرماتے ہیں: میں حماد بن زید کے پاس آیا تو میں نے ان سے کہا کہ مجھے کچھ فضائلِ سیدنا عثمانؓ بھی لکھوا دیں تو انہوں نے کہا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: کوفہ کا رہنے والا ہوں۔ یہ سن کر انہوں نے تعجب کرتے ہوئے کہا: ایک کوفہ کا رہنے والا فضائلِ سیدنا عثمانؓ عالی کا خواستگار ہے پھر انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں صرف اس شرط پر تمہیں یہ فضائل لکھواؤں گا کہ تم بیٹھ کر لکھو اور میں تمہیں کھڑے ہو کر بہ طورِ اکرام لکھواتا ہوں۔ احمد بن یونس نے 227ھ کو وفات پائی۔ 
(تہذیب التہذيب: جلد، 1 صفحہ، 50 تقريب التہذيب: جلد،1 صفحہ، 29) 
انہوں نے کہا: اگر کوئی یہودی ایک بکری ذبح کرے اور کوئی رافضی بھی ذبح کرے تو میں یہودی کا ذبیحہ کھالوں گا لیکن رافضی کا ذبیحہ نہیں کھاؤں گا، کیوں کہ وہ اسلام سے مرتد ہو چکا ہے۔
(الصارم المسلول: صفحہ، 570 ابوبکر بن ہانی نے بھی ایسے ہی کہا ہے۔ المصدر السابق نیز دیکھیں: السيف المسلول على من سب الرسول: علی بن عبد الكافی السبكج: صفحہ، 71 مخطوط)
8: ابو زرعہ رازی:
 (عبد الله بن عبد الکریم بن یزید بن فروخ: امام ابو زرعہ کبار حفاظِ حدیث اور ائمہ میں سے ہیں۔ انہیں ایک لاکھ حدیث یاد تھی اور کہا جاتا تھا کہ ہر وہ حدیث جسے ابو زرعہ نہیں پہچانتے وہ حدیث بے بنیاد ہے۔ یہ 264ھ کو فوت ہوئے) 
انہوں نے کہا: اگر آپ کسی آدمی کو دیکھیں جو اصحابِ رسولﷺ میں عیب نکال رہا ہے تو جان لیں وہ زندیق ہے، کیوں کہ اس کا قول قرآن اور سنت دونوں کی تردید پر منتج ہو گا۔ 
(ديكھيں الكفاية: صفحہ، 49)
9: ابنِ قتیبہ: 
(ابو محمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ الدینوری بے مثال کتابوں کے مصنف ہیں، جو بڑے مفید علوم و فنون پر مشتمل ہیں، جیسا کہ حافظ ابنِ کثیرؒ فرماتے ہیں۔ یہ 276ھ کو فوت ہوئے دیکھیں: وفيات الأعيان: جلد، 3 صفحہ، 43، 44 تاریخ بغداد: جلد، 10 صفحہ، 170، 171 البداية والنہاية: جلد، 11 صفحہ، 48)  
رافضہ کا حبِ علیؓ میں غلو جس کے نتیجے میں وہ اس کو اس پر مقدم کرتے ہیں، جس کو رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان سے (سیدنا علیؓ) مقدم رکھا اور ان کا یہ دعویٰ کہ وہ رسول اللہﷺ کی نبوت میں شریک ہے اور اس کی اولاد میں سے ائمہ کے لیے علمِ غیب کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان تمام اقوال اور خفیہ امور نے جھوٹ اور کفر کے ساتھ جہالت اور بیوقوفی کو ایک ساتھ اکٹھا کر دیا ہے۔ 
(الاختلاف فی اللفظ والرد على الجهمية والمشبهة: صفحہ، 47 مطبعة السعادة بمصر 1349ھ)
10:عبد القاہر بغدادی: 
(عبد القاہر بن طاہر بن محمد البغدادی اپنے زمانے میں ان کو صدر الاسلام کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ یہ 17 فنون میں درس دیتے تھے۔ انہوں نے 469ھ کو وفات پائی۔ دیکھیں: السبكی: طبقات الشافعية: جلد، 5 صفحہ، 145 القفطی: أبناء الرواة: جلد، 2 صفحہ، 185، 186 السيوطی: بغية الوعاة: جلد، 2 صفحہ، 105) 
یہ کہتے ہیں: جارودیہ، ہشامیہ، جہمیہ اور امامیہ میں سے خواہش پرست لوگ جنہوں نے بہترین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کافر قرار دیا ہم ان کو کافر کہتے ہیں، ہمارے لیے نہ ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے نہ ان کی نمازِ جنازہ ہی ادا کرنا روا ہے۔
(الفرق بين الفرق: صفحہ، 357 نیز وہ کہتے ہیں: ان کی تکفیر واجب ہے، کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے لیے بدا (ظہورِ علم) کے قائل ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، پھر اس کے لیے کوئی نیا امر ظاہر ہوتا ہے۔ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جب کسی چیز کا حکم دیتا ہے، پھر اس کو منسوخ کرتا ہے تو منسوخ اس لیے کرتا ہے، کیوں کہ اس کو اس میں بدا ہوتا ہے۔ ہم نے کفر کی جس نوع کے بارے میں بھی سنایا اس کو دیکھا ، اس کی کسی نہ کسی فرع کو رافضہ کے مذہب میں ضرور پایا۔
(الملل والنحل: صفحہ، 35، 36 تحقيق البير نصری نادر)
11: قاضی ابو یعلیٰ:
(محمد بن الحسین بن محمد بن خلف بن الفراء اپنے زمانے کے اصول و فروع کے ممتاز عالم تھے۔ انہوں نے 458ھ کو وفات پائی۔ دیکھیں: طبقات الحنابلة: جلد، 2 صفحہ، 103، 230)
کہتے ہیں: رافضہ کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اگر وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کافر کہیں یا اس معنیٰ میں فاسق کہیں جو ان کے لیے جہنم کو واجب قرار دے، تو وہ کافر ہے۔
(المعتمد: صفحہ، 267) 
روافض کے بارے میں شیعہ کی کتابوں کے عام ہو جانے کے بعد یہ واضح ہو چکا ہے کہ وہ اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کافر کہتے ہیں۔
12: ابنِ حزمؒ:
امام ابنِ حزمؒ کہتے ہیں:
ان کا عیسائیوں کا یہ کہنا کہ روافض قرآن میں تبدیلی کا دعویٰ کرتے ہیں تو روافض تو مسلمان ہی نہیں (یعنی مسلمانوں اور قرآن کے خلاف ان کا قول حجت نہیں بن سکتا) بلکہ یہ ایک فرقہ ہے، جو رسول اللہﷺ کی وفات کے پچیس سال بعد پیدا ہوا یہ فرقہ جھوٹ اور کفر میں یہود و نصاریٰ کے قائم مقام ہے۔ 
(الفصل: جلد، 2 صفحہ، 213)
وہ کہتے ہیں: امامیہ کا قدیم اور جدید دور میں یہ مؤقف ہے کہ قرآن میں تبدیلی ہوئی ہے۔ 
(انہوں نے ان سے صرف تین کو مستثنیٰ کیا ہے، جیسا کہ گزر چکا ہے) 
پھر کہتے ہیں: یہ کہنا کہ کتابی صورت میں دو جلدوں کے درمیان جو قرآن ہے، اس میں تبدیلی ہوئی ہے، یہ صریح کفر اور رسول اللہﷺ کی تکذیب ہے۔ 
(الفصل: جلد، 5 صفحہ، 40)
وہ مزید کہتے ہیں اہلِ سنت، معتزلہ، خوارج، مرجیہ اور زیدیہ، ان تمام اسلامی فرقوں کا اتفاق ہے کہ قرآنِ کریم میں جو کچھ ہے، سب کو لینا واجب ہے اور ہمارے ہاں اس کی تلاوت کی جاتی ہے، لیکن اس کی غالی رافضیوں کی ایک جماعت نے مخالفت کی ہے۔ یہ کافر ہیں اور اس کی وجہ سے وہ تمام اہلِ اسلام کے نزدیک مشرک ہیں۔ ہمارا کلام ان کے ساتھ نہیں، بلکہ ہمارا کلام اپنے ہم مذہب کے ساتھ ہے۔
(الإحكام فی أصول الأحكام: جلد،1 صفحہ، 96)
وہ مزید کہتے ہیں:
جان لو! رسول اللہﷺ نے شریعت کا ایک کلمہ بلکہ ایک حرف بھی چھپایا ہے نہ آپﷺ نے اپنی کسی بیٹی، چچا زاد بھائی، بیوی یا دوست یا ان جیسے کسی سب سے قریب اور مخصوص فرد کو شریعت کی کوئی ایسی چیز بتانے کے لیے مخصوص کیا، جو آپﷺ نے کسی کالے گورے، بکریوں کے چرواہے یا عام آدمی سے چھپائی ہو۔ آپﷺ نے تمام لوگوں کو جو دعوت دی، اس کے سوا آپﷺ کے پاس کوئی راز تھا نہ رمز اور نہ کوئی باطن، اگر آپﷺ نے ان سے کچھ چھپایا ہوتا تو آپﷺ رسالت کو اس طرح نہ پہنچانے والے ہوتے، جس طرح آپﷺ کو حکم دیا گیا تھا اور جس نے یہ بات کہی وہ کافر ہے۔
(الفصل: جلد، 2 صفحہ، 273، 275 جس عقیدے کے حامل کو امام ابنِ حزمؒ کافر قرار دیتے ہیں آج یہ اثناء عشری مذہب کا بنیادی عقیدہ بن چکا ہے اور اس مذہب کے سابقین اور معاصرین علماء اسی نظریے کی تاکید کرتے ہیں اس کتاب کا صفحہ، 344 دیکھیں)
13: الاسفرائینی:
(أبو المظفر شہفور بن طاہر بن محمد الإمام الأصول الفقیه المفسر ان کی متعدد تصانیف ہیں جن میں التفسير الكبير اور التبصير فی الدین شامل ہیں۔ یہ 471ھ کو فوت ہوئے دیکھیں: طبقات الشافعية: جلد، 5 صفحہ، 11 الأعلام: جلد، 3 صفحہ، 360)
انہوں نے ان کے جملہ عقائد جیسے وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تکفیر کرتے ہیں، قرآن میں تحریف اور کمی زیادتی کے قائل ہیں، مہدی کا انتظار کرتے ہیں، جو آ کر ان کو شریعت کی تعلیم دے گا نقل کرنے کے بعد کہا ہے: امامیہ کے تمام فرقے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے، وہ ان عقائد پر متفق ہیں، اس کے بعد انہوں نے ان الفاظ میں ان پر حکم لگایا ہے: یہ فی الحال دین کی کسی چیز پر قائم نہیں، کفر کی اس نوع میں مزید اضافے کی کوئی گنجائش نہیں، کیوں کہ اس میں دین کی تو کوئی چیز باقی نہیں رہی۔
(الفصل: جلد، 5 صفحہ، 40)
14: ابو حامد غزالیؒ: 
(محمد بن محمد بن احمد الغزالی حافظ ابنِ کثیرؒ فرماتے ہیں: دنیا کے ذہین ترین انسان تھے، جو اپنے مختلف علوم و فنون میں مہارت رکھتے تھے ان کی متعدد فنون میں معروف کتب ہیں ان کی ایک کتاب فضائح الباطنية ہے انہوں نے 505ھ کو وقات پائی دیکھیں: البداية والنہاية: جلد، 12 صفحہ، 173، 174 مرآة الجنان: جلد، 3 صفحہ، 177، 192)
امام غزالیؒ کہتے ہیں: روافض نے اس مسئلے میں کم فہمی کی وجہ سے بدا کا ارتکاب کیا۔ 
(جو شخص رافضیت کا مطالعہ کرے گا، اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ کم فہمی نہیں ہے، بلکہ یہ ان کا یقینی نظریہ ہے، جس کا سبب شیعہ کا اپنے ائمہ میں غلو کرتا ہے۔ امام غزالی کا یہ کلام آمدی کے کلام سے ملتا جلتا ہے وہ فرماتے ہیں کہ رافضہ پر سخ اور بدا میں فرق مخفی رہ گیا ہے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ عبد الرزاق عفیفییؒ فرماتے ہیں: جو شخص رافضہ کی حالت سے آگاہ ہے، ان کے باطن کے فساد سے واقف ہے اور ان کے ظاہراً اسلام اور باطناً کفر کے عقیدے و زندیقیت سے آشنا ہے اور یہ جانتا ہے کہ انہوں نے اپنے اصول و مبادی یہود سے اخذ کیے ہیں اور اسلام کے خلاف چالبازیوں میں ان ہی کے طور طریقوں پر عمل پیرا ہیں تو وہ یہ امر پہچان لیتا ہے کہ ان کی اس افترا پردازی اور بہتان طرازی (بدا) کا سبب بدنیتی، حق اور اہلِ حق کے خلاف کینہ اور مذموم تعصب ہے، جس نے انہیں اس دھوکا دہی اور شرعی احکام اور اس بنیاد پر قائم حکومتوں کے خلاف سرا و ظاہر آ سازشیں تیار کرنے پر اکسایا ہے الإحكام فی أصول الأحكام: جلد، 3 صفحہ، 110،109 حاشيہ) 
انہوں نے سیدنا علیؓ سے نقل کیا کہ وہ اس خدشے کے پیشِ نظر غیب کی خبر نہیں دیتے تھے کہ کہیں اللہ تعالیٰ کو اس میں بدا ہو جائے اور وہ اس میں تبدیلی کر دے۔
(یہ روایت مجالسی کے ہاں موجود ہے اور اس نے اسے قرب الإسناد کی طرف منسوب کیا ہے بحار الأنوار: جلد، 4 صفحہ، 97 ایک دوسری روایت میں شیعہ نے یہ قول علی بن حسین کی طرف منسوب کیا ہے دیکھیں: تفسير العياشی: جلد، 2 صفحہ، 215، بحار الأنوار: جلد، 4 صفحہ، 117 البرہان: جلد، 2 صفحہ، 299، تفسير الصافی: جلد، 3 صفحہ، 75) 
انہوں نے جعفر بن محمد سے بیان کیا کہ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ کو جس طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں بدا ہوا، کسی اور معاملے کے بارے میں اس طرح نہیں ہوا، یعنی ان کو ذبح کرنے کا حکم دینے کے متعلق یہ صریح کفر ہے۔
(یہ روایت كتاب التوحيد لابنِ بویہ: صفحہ:336 میں دیکھیں) 
اور اللہ تعالیٰ کی طرف جماعت اور تبدیلی کی نسبت، نیز اللہ تعالیٰ کے ہر چیز کے علم پر محیط ہونے کے مستحیل ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
(المستصفى: جلد، 1 صفحہ، 110)
اگر کوئی شخص کھلے لفظوں میں سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کے کفر کا اظہار کرے تو اس نے اجماع کی مخالفت کی، اور جو ان کی تعریف، ان کے ایمان کی صحت، ان کے یقین کی ثابت قدمی، ان کی تمام لوگوں پر افضلیت اور ان کو جنت کی بشارت کے متعلق بہت زیادہ روایات ذکر ہوئی ہیں، ان کی اس شخص نے نفی کی ہے۔
پھر وہ کہتے ہیں: اس کے قائل کو اگر یہ تمام روایات پہنچی ہیں، اس کے باوجود وہ ان کے کفر کا عقیدہ رکھتا ہے تو ایسا شخص کافر ہے کیوں کہ وہ رسول اللہﷺ کو جھٹلاتا ہے اور جو شخص آپﷺ‎ کے اقوال میں سے کسی ایک لفظ کو بھی جھٹلاتا ہے، وہ بالاجماع کافر ہے۔ 
(فضاںٔح الباطنیۃ: صفحہ، 149)
15: قاضی عیاض:
(عیاض بن موسیٰ بن عیاض بن عمرون یحصبی مغرب کے بڑے عالم اور اپنے وقت میں اہلِ حدیث کے امام تھے، وہ 544ھ کو فوت ہوئے دیکھیں: وفيات الأعيان: جلد، 3، صفحہ، 483، والعبر للذہبی: جلد، 2 صفحہ، 467، الضبی: بغية الملتمس، صفحہ، 437، النباهی: تاريخ قضاة الأندلس: صفحہ،101)
قاضی صاحب فرماتے ہیں:
ہم غالی رافضہ کے اس قول کی وجہ سے کہ ائمہ انبیاء سے افضل ہیں۔
(اسی کتاب کا صفحہ، 659 دیکھیں، شیعہ معاصرین اس کفر کو اپنا بنیادی اور ضروری عقیدہ قرار دیتے ہیں اور ان کے ضروری عقیدے کا انکار کفر ہوتا ہے، اسی کتاب کا صفحہ، 1151 دیکھیں شیعہ عالم ممقانی کہتا ہے: ہمارے مذہب کا ضروری عقیدہ ہے کہ ہمارے ائمہ علیہم السلام انبیاۓ بنی اسرائیل سے افضل ہیں، جیسا کہ متواتر روایات میں صراحت موجود ہیں، اہلِ بیتؓ کی روایات کی ممارست کرنے والے کے نزدیک اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ائمہ سے انبیائے بنی اسرائیل کی خوارق ظاہر ہوتے تھے، بلکہ ان سے کہیں زیادہ خرقِ عادت امور رونما ہوتے تھے، نیر انبیاء اور سلف کے لیے علم کے ایک یا دو دروازے وا ہوتے تھے، جبکہ ائمہ کے لیے عبادت و طاعت کی بنا پر، جو بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرح بنا دیتی ہے کہ جب وہ کسی شے کو کہتا ہے: ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے، تمام دروازے کھل جاتے ہیں تنقيح المقال: جلد، 3، صفحہ، 232 دیکھیں شروع میں کس طرح وہ اپنے ائمہ کو انبیاء پر فوقیت دیتا ہے اور بعد ازاں انہیں اللہ تعالیٰ کی طرح بنا دیتا ہے، کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی زندیقیت و الحاد ہو سکتا ہے) 
ان کی یقینی تکفیر کرتے ہیں، اسی طرح جو شخص یہ کہتا ہے کہ سیدنا علیؓ اور ان کے بعد والے امام رسول اللہﷺ کی نبوت میں شریک ہیں اور ہر امام نبوت اور حجت میں نبی کے قائم مقام ہیں، وہ بھی کافر ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہے: یہ اکثر رافضہ کا مذہب ہے۔
(شیعہ اثناء عشریہ کا دعویٰ ہے کہ امامت، نبوت سے زیادہ بڑا مقام ہے۔ دیکھیں: صفحہ، 702 اور یہ کہ ائمہ تمام لوگوں پر رسولوں کی طرح حجت ہیں۔ دیکھیں: صفحہ، 669) 
اسی طرح جس نے یہ دعویٰ کیا کہ ائمہ کی طرف وحی ہوتی ہے، اگرچہ اس نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔
(یہ بھی روافض کا نظریہ ہے اسی کتاب کا صفحہ، 339 دیکھیں)
وہ مزید کہتے ہیں: اسی طرح جس نے قرآن کے ایک حرف کا بھی انکار کیا یا اس میں کسی چیز کو بدلا یا اس میں کسی چیز کا اضافہ کیا، جس طرح باطنیہ اور اسماعیلیہ نے کیا ہے تو اس کو بھی ہم کافر کہتے ہیں۔
(یہاں ایک انتہائی اہم امر ملحوظ خاطر رہے کہ بعض ائمہ دین تحریفِ قرآن کا نظریہ اسماعیلیہ کی طرف منسوب کرتے ہیں، جب کہ یہ اثناء عشریہ کا قول ہے اور اسماعیلیہ کا یہ نظریہ نہیں ہے، بلکہ وہ باطنی تاویل کی راہ پر چلتے ہیں)
16: سمعانی المتوفى 562ھ: 
(الإمام الحافظ المحدث ابو سعد عبد الكريم بن محمد بن منصور التميمی السمعانی: یہ كتاب الأنساب وغیرہ کے مؤلف ہیں، انہوں نے طلبِ علم میں کئی سفر کیے اور بہت سے علماء سے سماع کیا، حتیٰ کہ چار ہزار اساتذہ سے لکھا، حافظ ابنِ کثیرؒ فرماتے ہیں کہ امام ابنِ خلکان نے ذکر کیا ہے کہ ان کی متعدد تصانیف ہیں اور ان کی ایک کتاب ہے، جس میں انہوں نے ایک سو استاد سے ایک ہزار حدیث جمع کی ہے اور ان پر سنداً و متناً بحث کی ہے، یہ کتاب انتہائی مفید ہے، یہ 562ھ کو فوت ہوئے۔ وفيات الأعيان: جلد، 3، صفحہ، 209، البداية والنہاية: جلد، 12، صفحہ، 175)
فرماتے ہیں: امامیہ کی تکفیر پر امت کا اجماع ہے، کیوں کہ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین گمراہ ہو گئے تھے، نیز وہ ان کے اجماع کا انکار کرتے ہیں اور ان کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں، جو ان کی شان کے لائق نہیں۔
(الأنساب: جلد، 6 صفحہ، 341)
17: رازی: 
(محمد بن عمر بن الحسين المعروف بالفخر الرازی یہ بہت بڑے مفسر، متکلم اور اصولی ہیں، ان کی تصانیف میں تفسیر کبیر اور محصول وغیرہ ہیں، ان کی طرف کچھ تشیع بھی منسوب ہے یہ 606ھ میں فوت ہوئے۔ (لسان المیزان: جلد، 4 صفحہ، 426 السيوطی: طبقات المفسرين: صفحہ، 115 عيون الأنباء: صفحہ، 414، 427)
رازی ذکر کرتے ہیں کہ ان کے اصحاب اشاعرہ تین وجوہ کی بناء پر رافضہ کو کافر کہتے ہیں:
1: انہوں نے مسلمانوں کے سادات اور سربر آوردہ شخصیات کو کافر قرار دیا اور جو کسی مسلمان کو کافر کہتا ہے، وہ خود کافر ہوتا ہے، کیوں کہ آپﷺ کا فرمان ہے: جس شخص نے اپنے بھائی سے کہا: او کافر تو ان دونوں میں سے کوئی ایک تو ضرور اس کا بوجھ اٹھائے گا (اس کی تخریج آگے آئے گی) لہٰذا ان کی تکفیر واجب ہے۔
2: انہوں نے ایسی جماعت کو کافر کہا، جن کی تعریف اور تعظیم رسول اللہﷺ نے واضح لفظوں میں کی ہے، لہٰذا ان کو کافر کہنا رسول اللہﷺ کو جھٹلانا ہے۔
3: امت کا اجماع ہے کہ جس نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سادات اور معزز ترین افراد کو کافر کہا، وہ خود کافر ہے۔
(الرازی: نہایۃ العقول: صفحہ، 212 أپمخطوط)
18: ابنِ تیمیہؒ:
شیخ الاسلام فرماتے ہیں: جنہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ قرآن سے آیات کم ہوئی ہیں یا انہیں چھپا لیا گیا ہے، یا یہ دعویٰ کیا کہ اس کی باطنی تاویلات ہیں، جو مشروع اعمال کو ساقط کر دیتی ہیں تو ان کے کفر میں کوئی شک نہیں۔ جس نے یہ دعویٰ کیا کہ چند اشخاص کے سوا تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہﷺ کے بعد مرتد ہو گئے، یا ان کی اکثریت فاسق ہوگئی، تو ایسے شخص کے کافر ہونے میں بھی کوئی شک نہیں، کیوں کہ وہ قرآن کریم کی اس آیت: رَّضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ الخ۔
(سورۃ التوبہ: آیت، 100) 
اور ان کی تعریف کے بارے میں قرآنی آیات کو جھٹلانے والا ہے، بلکہ کون ہے جو ایسے شخص کے کافر ہونے میں شک کرے؟ اس کا کفر تو متعین ہو چکا ہے، کیوں کہ ان کے اس نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ کتاب و سنت کو نقل کرنے والے کافر یا فاسق ہیں اور یہ آیت: كُنۡتُمۡ خَيۡرَ اُمَّةٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ الخ۔
(سورة آل عمران: آیت، 110) 
ترجمہ: تم سب سے بہتر امت چلے آئے ہو، جو لوگوں کے لیے نکالی گئی، جن میں بہترین قرنِ اول کے مسلمان تھا، ان کی اکثریت کافر یا فاسق تھی۔ شیعہ کے نظریے کا موضوع یہ ہے کہ یہ امت تمام امتوں سے بدتر ہے اور اس امت کے سابقہ پیروکار بد ترین لوگ تھے، العیاذ باللہ اس نظریے کے حامل شخص کا کافر ہونا دین کے ان امور میں داخل ہے، جن کا معلوم ہونا بداہتاً ہر کسی کو معلوم ہے۔
(الصارم المسلول: صفحہ، 586، 587)
شیخ الاسلام فرماتے ہیں: یہ عام بد عقیدہ لوگوں سے بدتر لوگ ہیں اور ان کے خلاف جنگ کرنا خوارج کے خلاف جنگ کرنے سے زیادہ اہم ہے۔
(مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام: جلد، 28، صفحہ، 482)
انہوں نے رسول اللہﷺ کی پیش کردہ شریعت کے ساتھ بےشمار انداز سے کفر کیا، کبھی یہ آپﷺ سے ثابت شدہ احادیث کی تکذیب کرتے ہیں تو کبھی قرآن کریم کے معانی کی تکذیب کرتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعریف کی اور ان پر اپنی رضا مندی کا اظہار کیا، جس کی حقیقت کا یہ لوگ انکار کرتے ہیں، اس نے اپنی کتاب میں جمعے، جہاد اور اولی الامر کی فرمانبرداری کا حکم دیا، یہ اس سے خارج ہیں، اس نے اپنی کتاب میں مومنوں کے ساتھ محبت، موالات اور ان کے درمیان اصلاح کرنے کا حکم دیا، جس سے یہ لوگ خارج ہیں، اس نے اپنی کتاب میں کافروں کے ساتھ دوستی رکھنے اور ان کے ساتھ تعلقات بڑھانے سے منع کیا، اس سے یہ لوگ خارج ہیں، اس نے اپنی کتاب میں مسلمانوں کے خون، اموال، عزتیں، ان کی غیبت اور ان پر طنز و تعریض حرام کی، یہ لوگ سب سے زیادہ ان کو حلال قرار دیتے ہیں۔
اس نے اپنی کتاب میں اتفاق و اتحاد کا درس دیا، اختلاف اور فرقے بندی سے منع کیا، لیکن یہ تمام لوگوں سے زیادہ اس حکم سے دور ہیں، اس نے اپنی کتاب میں رسول کی فرمانبرداری، محبت اور اتباع کا حکم دیا، جس کی یہ مخالفت کرتے ہیں، اس نے اپنی کتاب میں رسول اللہﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ کے حقوق بیان کیے، جن سے یہ لوگ بری ہیں، اس نے اپنی کتاب میں اپنی توحید، خالص عبادت اور شرک نہ کرنے کا حکم دیا، یہ اس کے مخالف ہیں، یہ مشرک ہیں، کیوں کہ یہ ان قبروں کی بہت زیادہ تعظیم کرتے ہیں، جن کو انھوں نے اللہ کے سوا بت بنایا ہوا ہے۔
اس نے اپنی کتاب میں اپنے اسما و صفات کا ذکر کیا، یہ ان کا انکار کرتے ہیں، اس نے اپنی کتاب میں ذکر کیا کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ ہر چیز کا خالق ہے، جو وہ چاہتا ہے، اس کو کوئی روک نہیں سکتا، نیکی کی استطاعت اللہ کی توفیق سے ہوتی ہے، لیکن وہ ان تمام امور کا انکار کرتے ہیں۔
اس کے بعد شیخ الاسلام فرماتے ہیں: جو کوئی اہلِ علم کی نسبت رکھنے والا یا کوئی دوسرا شخص یہ سمجھتا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ جنگ کرنا کسی جائز اور معقول تاویل کے ہوتے حاکم وقت کے خلاف بغاوت کرنے والی باغیوں کی جماعت کے خلاف جنگ کرنے کے مترادف ہے، تو ایسا انسان غلط ہے اور شریعت اسلام کے حقائق سے ناواقف ہے، کیوں کہ یہ لوگ بذاتِ خود رسول اللہﷺ کی شریعت اور آپﷺ کی سنتوں ہی سے خارج ہیں، جو حروری خوارج کے خروج سے بڑا شر ہے، ان کے پاس کوئی جائز اور معقول تاویل نہیں۔ 
(دیکھیں، الفتاویٰ: جلد، 28، صفحہ، 484، 485)
جائز تاویل وہ ہوتی ہے، جس کا کوئی جواب نہ ہو اور آدمی اس پر برقرار ہے، جس طرح اجتہاد کے مواد کے متعلق اختلاف کرنے والے علماء کی تاویل جب کہ ان لوگوں کی یہ تاویل کتاب و سنت اور اجماع کے ساتھ نہیں، ان کی تاویل یہود و نصاریٰ کی تاویل کی قسم ہے اور ان کی تاویل خواہش پرستوں اہلِ سنت کی تاویل سے بھی بدتر تاویل ہے۔ 
(دیکھیں، الفتاویٰ: جلد، 28، صفحہ، 486)
شیخ الاسلام ان نظریات کے حامل افراد کی تکفیر کرتے ہیں، لیکن ان کے نزدیک کسی مخصوص اور متعین شخص کی تکفیر اس پر حجت قائم کرنے اور اس تک حقیقت پہنچانے کے ساتھ مشروط ہے، اس لیے آپ نے ان رافضہ کے متعلق جن کو گرفتار کیا گیا، درج ذیل فتویٰ دیا۔
رافضہ کو مغلوب کرنے کے بعد ان کے متعلق شیخ الاسلام کا فتویٰ
آپؒ فرماتے ہیں: یہ سب کو معلوم ہے کہ شام کے ساحل پر ایک بہت بڑا پہاڑ تھا، جہاں ہزاروں رافضہ رہتے تھے، جو لوگوں کا خون بہاتے اور ان کا مال لوٹتے، انہوں نے ایک بھاری مقدار میں لوگوں کو قتل کیا اور ان کے اموال لوٹے، جب غازان (اسی کتاب کا صفحہ 1242 دیکھیں) کے عہد میں مسلمانوں کو شکست سے دو چار ہونا پڑا تو انہوں نے گھوڑے، اسلحہ، قیدی سب کو پکڑا اور قبرص کے عیسائی کافروں کو بیچ دیا، جو لشکر ان کے پاس سے گزرتا، اس کو پکڑ لیتے، یہ مسلمانوں کے لیے تمام دشمنوں سے زیادہ ضرر رساں تھے، ان کے ایک سردار نے تو عیسائیت کے جھنڈے تک لہرا دیے، انہوں نے اس سے پوچھا: مسلمان بہتر ہیں یا عیسائی؟ اس نے کہا: عیسائی، انہوں نے پوچھا: قیامت کے دن تم کس کے ساتھ اٹھائے جاؤ گے؟ اس نے کہا: عیسائیوں کے ساتھ، انہوں نے مسلمانوں کے بعض علاقے تک ان کو دے دیے، اس کے باوجود جب ایک مسلمان حاکم نے ان کے خلاف جنگ کرنے کے متعلق مشورہ کیا اور میں نے ان سے قتال کے متعلق ایک تفصیلی فتویٰ لکھا۔ 
(شاید وہ یہ ہے الفتاویٰ: جلد، 28 صفحہ، 398) 
ہم ان کے علاقے میں گئے تو میرے پاس ان کی ایک جماعت آئی، پھر میرے اور ان کے درمیان مناظرے اور مذاکرات ہوئے، جن کی تفصیل لکھنا طوالت کا باعث ہوگا، جب مسلمانوں نے ان کے علاقے فتح کر لیے اور مسلمان ان پر غالب آ گئے تو میں نے مسلمانوں کو انہیں قتل کرنے اور انہیں جنگی قیدی بنانے سے منع کر دیا اور انہیں مسلمانوں کے علاقوں میں منتشر کر دیا، تاکہ وہ اکٹھے نہ ہوسکیں۔ 
(منہاج السنۃ: جلد، 3 صفحہ، 39) 
دیکھیے یہ اپنے وقت کے امام اہلِ سنت کا فتویٰ ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اہلِ سنت اس حق کی اتباع کرتے ہیں، جو ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے آیا ہے اور جس کو رسول اللہﷺ نے پیش کیا، وہ ہر ایک مخالف کو کافر نہیں کہتے، بلکہ وہ حق کو زیادہ جاننے والے اور مخلوق کے ساتھ زیادہ رحم کرنے والے ہیں، خواہش پرستوں کے بالکل برعکس جو خود ایک رائے کو ایجاد کر لیتے ہیں اور جو ان کی اس میں مخالفت کرے، اس کو کافر قرار دے دیتے ہیں۔ 
(المصدر السابق)
19: ابنِ کثیرؒ: 
(أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير الإمام المحدث المفتى المؤرخ جيسا كہ امام ذہبی نے کہا ہے امام شوکانی فرماتے ہیں کہ ان کی بڑی مفید تصانید ہیں، جن میں ایک تفسیر قرآن ہے، جو سب سے اچھی نہیں تو بہترین تفاسیر میں سے ہے، وہ 774ھ کو فوت ہوئے۔ (ابنِ حجر الدرر الكامنة: جلد، 1 ، صفحہ، 372، 374 الشوكانی: البدر الطالع: جلد، 1، صفحہ، 153)
امام ابنِ کثیرؒ نے وہ بعض صحیح احادیث نقل کیں، جو نص اور وصیتِ علی کے دعوے کی نفی کرتی ہیں، اس کے بعد ان الفاظ میں ان پر تبصرہ کیا: اگر معاملہ ایسے ہی ہوتا، جس طرح یہ دعویٰ کرتے ہیں، تو کوئی صحابی بھی اس کی تردید نہ کرتا، کیوں کہ وہ لوگ رسول اللہﷺ کی زندگی میں بھی اور آپﷺ کی وفات کے بعد بھی تمام لوگوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے اطاعت گزار تھے، لہٰذا وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتے تھے کہ آپﷺ پر افتراء پردازی کرتے، سیدنا علیؓ کو محروم کر دیتے اور دوسرے کو ان پر مقدم کر دیتے، جس کو وصیت نے مقدم کیا تھا، اس کو مؤخر کر دیتے، حاشا و کلا وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے جو صحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں یہ گمان رکھتا ہے، وہ ان تمام کو نافرمانی، رسول کی مخالفت اور آپ کے حکم اور وصیت کی روگردانی کی طرف منسوب کرتا ہے اور جو شخص اس حد تک پہنچ جائے، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور ائمہ اعلام کے اجماع کے ساتھ کافر ہو جاتا ہے، اس کا خون بہانا شراب بہانے سے زیادہ حلال ہے۔
(البداية والنہاية: جلد، 5 صفحہ، 252)
رافضہ کے بارے میں یہ ثابت ہے، جس طرح پہلے گزر چکا ہے کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے سیدنا علیؓ کے متعلق وصیت کی تھی صحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین نے اس نص سے روگردانی کی اور اس کی وجہ سے مرتد ہو گئے۔ معاصر رافضہ اور ان کے بزرگ یہی کہتے ہیں۔
(اس کتاب کا صفحہ 766 1134 دیکھیں)
20: ابو حامد المقدسی:
(محمد بن خليل بن يوسف الرملی المقدسی، یہ بہت بڑے شافعی فقیہ ہیں۔ انہوں نے 888ھ کو وفات پائی۔ دیکھیں: السخاوی: الضوء اللامع: جلد، 7 صفحہ، 234 الشوكانی: البدر الطالع: جلد، 2 صفحہ، 169)
وہ شیعہ کے فرقوں اور ان کے عقائد کے بارے میں گفتگو کے بعد کہتے ہیں: ہر صاحبِ بصیرت اور سمجھ دار مسلمان پر یہ پوشیدہ نہیں کہ اس سے پہلے باب میں ہم نے اس رافضی فرقے کی مختلف اصناف کے ساتھ جن عقائد کا ذکر کیا ہے، وہ صریح کفر اور بدتر جہالت کے ساتھ عناد بھی ہے، ان سے واقف ہو جانے کے بعد کوئی شخص بھی ان کے کافر ہونے اور ان پر دینِ اسلام سے خارج ہونے کا حکم لگانے میں دیر نہیں لگائے گا۔
(رسالة فی الرد على الرافضة: صفحہ، 200)
21: ابو المحاسن يوسف الواسطی: 
(يوسف الجمال أبو المحاسن الواسطی، يہ نویں صدی ہجری کے عالم ہیں۔ دیکھیں: السخاوی الضوء اللامع: جلد، 10 صفحہ، 338، 339)
انہوں نے رافضہ کے جملہ کفریہ عقائد ذکر کیے اور ان کے ضمن میں کہا: یہ لوگ صحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین کی تکفیر کی وجہ سے کافر ہیں، جن کی عدالت، دیانت داری اور تزکیہ قرآن کریم میں ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ۞
(سورة البقرة: آیت، 142)  
ترجمہ: تاکہ تم لوگوں پر شہادت دینے والے بنو۔ 
اللہ تعالیٰ کی ان کے بارے میں گواہی ہے کہ یہ کافر نہیں ہوئے تھے:
فَإِن يَكْفُرْ بِهَا هَؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوا بِهَا بِكَفِرِينَ۞
(سورة الأنعام: آیت، 89)
ترجمہ: پھر اگر یہ لوگ ان باتوں کا انکار کریں تو ہم نے ان کے لیے ایسے لوگ مقرر کیے ہیں، جو کسی صورت ان کا انکار کرنے والے نہیں۔
یہ لوگ قبرِ حسین کی زیارت کو حج کا بدل قرار دے کر حج سے مستغنی ہو جانے کی وجہ سے بھی کافر ہیں، ان کا نظریہ ہے کہ اس سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور وہ اس کو حج اکبر کہتے ہیں۔ یہ کفار کے خلاف جہاد ترک کرنے کی وجہ سے بھی کافر ہیں، جن کے بارے میں شیعہ کا دعویٰ ہے کہ یہ صرف معصوم امام کی معیت میں جائز ہے، جو غائب ہے۔
(المناظرة بين أهل السنة والرافضة: صفحہ، 66 مخطوط)
یہ لوگ رسول اللہﷺ کی ادا کردہ ان متواتر سنتوں، جیسے: جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا ، نفلی نمازوں، فرضی نماز سے پہلے اور بعد کی سنتوں اور ان کے علاوہ دیگر موکدہ سنتوں میں عیب جوئی کی وجہ سے بھی کافر ہیں۔
(المناظرة بين أهل السنة والرافضة: صفحہ، 67 مخطوط)
22: علی بن سلطان بن محمد قاری:
کہتے ہیں: جس نے کسی ایک صحابی کو بھی گالی دی وہ فاسق اور بالاجماع بدعتی ہے، لیکن اگر وہ یہ عقیدہ رکھے کہ ان کو گالی دینا جائز ہے، جس طرح بعض شیعہ کا مذہب ہے، یا ان کو گالی دینا موجبِ ثواب ہے یا وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہلِ سُنّت کے کافر ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے تو ایسا شخص بالاجماع کافر ہے۔
(شسم العوارض فی دوم الروافض: صفحہ، 6 أمخطوط) 
اس کے بعد انہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مدح سرائی میں قرآن و سُنت سے دلائل پیش کیے اور ان سے یہ نتیجہ کیا کہ روافض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اپنا مذہب رکھنے کی وجہ سے کافر ہیں۔
(دیکھیں: المصدر السابق: صفحہ، 252، 254) 
اس کے بعد انہوں نے رافضہ کے جملہ کفریہ عقائد کا تذکرہ کیا کہ وہ کتاب الله کی تبدیلی کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ان کے بعض اقوال بھی درج کیے ہیں۔
(المصدر السابق: صفحہ، 259)
23: محمد بن عبد الوہاب: 
(محمد بن عبد الوہاب بن سلیمان بن احمد التمیمی النجدی: بارہویں صدی عیسوی میں جزیرہ عرب میں اسلام کی تجدید کرنے والے امام تھے۔ ان کی توحید خالص اور ترک بدعات کی دعوت و بیداری کی پہلی چنگاری تھی۔ جس نے ان کا تذکرہ تمام عالمِ اسلام میں پھیلا دیا، حتیٰ کہ ہند، مصر، عراق اور شام وغیرہ میں اصلاح پسند افراد نے ان کا گہرا اثر لیا۔ یہ 1206ھ کو فوت ہوئے۔
(دیکھیں عبد العزیز بن باز: الشیخ محمد عبد الوہاب دعوته وسيرتهو مسعود عالم الندوی محمد بن عبد الوہاب مصلح مظلوم و مفتری علیہ وبھجته الأثری محمد بن عبد الوہاب داعیته التوحید التجدید فی العصر الحدیث وغیرھا نیز دیکھیں: أحمد أمین: زعما الاصلاح: صفحہ، 10 مجلته الزھراء، جلد، 3 صفحہ، 82، 98)
امام محمد بن عبد الوہاب نے اثناء عشریہ کے جملہ عقائد پر یہ حکم لگایا ہے کہ وہ کفر ہیں۔ انہوں نے اثناء عشریہ کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تبرا بازی کا عقیدہ ذکر کرنے اور الله تعالیٰ کے قرآن میں ان کی ثناء خوانی کا تذکرہ کرنے کے بعد کہا ہے:
جب آپ نے یہ جان لیا کہ ان کی فضیلت کے بارے میں قرآنی آیات بے شمار ہیں اور متواتر احادیث ان کے کمال پر نص ہیں تو جس نے ان کے فاسق ہونے یا ان کے ایک گروہ کے فاسق ہونے، ان کے مرتد ہونے یا ان کی اکثریت کے مرتد ہونے کا عقیدہ رکھا یا ان کو گالی دینے کے جواز کا عقیدہ رکھا یا اس کے اعتقاد کہ ساتھ ان کو گالی دی کہ وہ اس کا حق رکھتے ہیں تو اس نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ کفر کیا۔
متواتر اور قطعی طور پر ثابت شدہ بات کا علم نا ہونے کا عذر غیر مقبول ہے، اس کی تاویل کرنا اور کسی معتبر دلیل کے بغیر اس کے معنیٰ کو حقیقی مفہوم سے پھیرنا غیر مفید ہے، مثلاً کوئی شخص اس بناء پر پانچ فرض نمازوں کا انکار کرتا ہے کہ اس کو ان کی فرضیت کا علم نہیں تو وہ اس لاعلمی اور جہالت کی بنا پر کافر ہوجاتا ہے، کیونکہ قرآنی نصوص اور احادیث رسولﷺ کے ذریعے ان کی فضیلت کے بارے میں حاصل ہونے والا علم قطعی ہے، جو بعض کو بدزبانی کے لیے مخصوص کرتا ہے اگر وہ ان میں سے جن کی فضیلت اور کمال تواتر کے ساتھ ثابت ہے جس طرح خلفاء اگر وہ ان کو گالی دینے کے حلال ہونے کا ان کے استحقاق ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے تو وہ رسول اللّٰہﷺ سے قطعی طور پر ثابت ہونے والی بات کی تکذیب کی وجہ سے کافر ہوجاتا ہے کیونکہ آپﷺ کی تکذیب کرنے والا کافر ہے، اگر وہ ان کو گالی دیتا ہے لیکن ان کو گالی دینے کے جواز اور برحق ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتا تو ایسا شخص فاسق ہے کیونکہ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے۔
بعض علماء نے شیخین کو مطلق گالی دینے والے کو کافر کہا ہے اگر جس صحابی کو وہ گالی دیتا ہے وہ ان میں سے نہیں، جس کی فضیلت و کمال تواتر کے ساتھ نفل ہوا ہے، تو ظاہر یہی ہے کہ اس کو گالی دینے والا فاسق ہے، لیکن اگر وہ اس اعتبار سے گالی دے کہ وہ نبیﷺ کے صحابہ ہیں تو یہ کفر ہے۔ ان روافض کی اکثریت جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں دشنام طرازی کرتے ہیں، یہ ان کو گالی حق یا جائز بلکہ واجب سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی دین کا ایک اہم معاملہ ہے۔
(رسالة فی الرد علی الرافضة: صفحہ، 19، 18 بلکہ یہ لوگ گالیوں کی تکفیر کی حد تک تجاوز کر چکے ہیں، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ جو سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کے اسلام کا اعتقاد رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھیں گے کہ نہ اس سے کلام کریں گے اور ایسے شخص کے لیے دردناک عذاب ہے، اسی کتاب کا صفحہ، 773 دیکھیں دن بہ دن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق ان کی طعن و تشنیع بڑھتی جاتی ہے حتیٰ کہ آج کل یہ غلو اپنی آخری حدوں کو چھو چکا ہے)
اس کے بعد کہتے ہیں: علماء سے جو کہ صحیح معقول ہے کہ اہلِ قبلہ کا کافر نہیں کہا جائے گا تو یہ قاعدہ اس پر صادق آتا ہے، کس کی بدعت کفریہ نہ ہو۔ یقیناً رسول اللہﷺ سے جو ثابت ہے بلا شبہ اس کی تکذیب کفر ہے اور اس جیسے معاملے میں جہالت کوئی عذر نہیں۔
(رسالة فی الرد الرافضته: صفحہ، 20)
وہ ان کی کتابوں میں قرآنِ کریم میں کمی اور تبدیلی کے دعوت کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں: اس سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حتیٰ کہ سیدنا علیؓ کی بھی تکفیر لازم آتی ہے، کیونکہ وہ اس عمل پر راضی تھے اور ان آیات کی تکذیب بھی ہوتی ہے جس میں مذکور ہے: 
لَّا یَاۡتِیۡہِ الۡبَاطِلُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ لَا مِنۡ خَلۡفِہٖ تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ حَکِیۡمٍ حَمِیۡدٍ۞
(سورة فصلت، حم السجد: آیت، 42)
ترجمہ: باطل اس کے آگے اور نا اس کے پیچھے سے لگ آتا ہے، ایک کمال حکمت والے تمام خوبیوں والے کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔
اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡن۞
(سورة الحجر: آیت، 9) 
ترجمہ: بے شک ہم ہی نے یہ نصیحت نازل کی ہے اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔
جس نے یہ عقیدہ رکھا کہ قرآن ساقط ہونے سے محفوظ نہیں اور جو اس سے ساقط ہے،وہ اس کا حصہ تھا تو وہ کافر ہے۔
(رسالة فی الرد على الرافضة: صفحہ، 14، 15)
شیخ مزید فرماتے ہیں: جس نے اللہ اور اپنے درمیان کسی کو وسیلہ بنایا وہ رافضہ کی طرح ہے، جو اپنے ائمہ کو وسیلہ بناتے ہیں جو اپنے درمیان اور اللہ کے درمیان وسیلے مقرر کرتا ہے، پھر انہیں پکارتا ہے، ان سے شفاعت طلب کرتا ہے اور پھر ان پر بھروسا کرتا ہے وہ بالاجماع کافر ہے۔
(رسالة نوافض الاسلام: صفحہ، 283 ضمن الجامع الفریدط: الجمیع)
وہ مزید کہتے ہیں:
جس نے ائمہ کو انبیاء پر فضیلت دی، وہ بالاجماع کافر ہے، یہ بات کئی اہلِ علم نے نقل کی ہے۔
(رسالة فی الرد على الرافضة: صفحہ، 29 نیز اسی کتاب کا صفحہ، 259 دیکھیں)
24: شاہ عبد العزیز دہلویؒ: 
(عبد العزیز بن أحمد الشاہ ولی اللہ بن عبد الرحیم العمری الفاروقی الملقب سراج الہند علامہ محب الدین خطیب فرماتے ہیں: ہند میں اپنے وقت میں بہت بڑے عالم تھے اور شیعہ کی کتب میں انہیں تجربہ حاصل تھا وہ 1239ھ کو فوت ہوئے۔ دیکھیں: الاعلام: جلد، 3 صفحہ، 138 مقدمہ مختصر التحفۃ الأثنیٰ عشربة لمحب الدین الخطیب،ص: یب)
وہ اثناء عشریہ کے معتبر مصادر و مراجع کی روشنی میں اس مذہب کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد کہتے ہیں: جو ان کے خبیث عقائد اور جن پر وہ مشتمل ہیں، ان تمام امور کی حقیقت تلاش کرتا ہے، وہ یہ جان لیتا ہے کہ ان کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں اور اس کے نزدیک ان کا کفر ثابت ہو جاتا ہے۔
(مختصر التحفۃ الأثنیٰ عشریہ: صفحہ، 300)
25: محمد بن علی شوکانی:
(امام محمد بن علی بن محمد عبداللہ الشوکانی یمن کے بہت بڑے عالم تھے ان کی کتابوں میں فتح القدیر اور نیل الاوطأر وغیرہ مفید تالیفات شامل ہیں یہ 1250ھ کو فوت ہوئے دیکھیں: فی ترجمۃ البدر الطالع: جلد، 2 صفحہ، 214، 225 )
علامہ شوکانیؒ ذکر کرتے ہیں کہ روافض کی دعوت کی بنیاد دین کے خلاف ریشہ دوانی اور مسلمانوں کی شریعت کی مخالفت پر مبنی ہے۔ علمائے اسلام اور دین کے سلاطین پر تعجب ہوتا ہے کی انہوں نے ان کو کس طرح اس انتہائی زیادہ قبیح، منکر اور برائی پر چھوڑ دیا ہے!یہ زلیل لوگ جب اس شریعت مطہرہ کی مخالفت اور تردید کرنا چاہتے ہیں تو اس دین کے حاملین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عزتوں کو نشانہ بناتے ہیں کہ جن کی راہ کے بغیر دین تک پہنچنے کے لیے ہمارے پاس کوئی راہ نہیں۔
انہوں نے اس شیطانی ذریعے اور ملعون وسیلے کی وساطت سے کم عقلوں کو ورغلایا ،جو تمام مخلوق کی بہترین ہستیوں کو علی الاعلان دشنام درازی کا نشانہ بناتے ہیں ،شریعت کے خلاف اپنے دلوں میں بغض رکھتے ہیں اور لوگوں کو احکام شریعت سے بےزار کرتے ہیں اور ان کو غیر فعال کرتے ہیں ۔کبیرہ گناہوں میں اس سے بد ترین کوئی وسیلہ نہیں،یہ سب سے قبیح وسیلہ ہے ،کیونکہ اس میں اللہ ،اس کے رسول اور اس کی شریعت کے خلاف عناد چھپا ہوا ہے ۔یہ جس روش پر قائم ہے ،اس کے نتیجے میں یہ چار کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کر رہے ہیں ،جن میں ہر ایک کھلم کھلا کفر ہے۔
1: اللہ کے ساتھ عناد
2: اللہ کے رسول کے ساتھ عناد 
3: شریعتِ مطہرہ کے ساتھ عناد اور اس کو غیر فعال بنانے کی کوشش
4: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تکفیر رضوان اللہ علیہم اجمعین جن کی کتاب اللہ میں یہ صفت ذکر ہوئی ہے کہ وہ کفار پر بڑے سخت ہیں، کفار ان کو دیکھ کر غضبناک ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے حالانکہ شریعت مطہرہ میں ثابت ہے کہ جس نے کسی مسلمان کو کافر کہا، وہ خود کافر ہے، جس طرح صحیحین میں سیدنا ابنِ عمرؓ کی حدیث ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: جب آدمی اپنے بھائی سے کہتا ہے ،اے کافر تو دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہوگی یا تو وہ کافر ہو گا جس طرح اس نے کہا اور اگر نہیں تو پھر یہ کفر اس کہنے والے کی طرف لوٹ آئے گا۔
(صحيح البخاری، كتاب الأدب، باب من كفر أخاه من غير تأويل فهو كما قال: جلد، 7 صفحہ، 97 صحیح مسلم، کتاب الإيمان، باب بيان حال إيمان من قال لأخيه المسلم يا کافر جلد، 7 روح، 997 سنن أبی داؤد، كتاب السنة، باب زيادة الإيمان ونقصانه: جلد، 5 صفحہ: 64 رقم الحديث:378 سنن الترمذی: كتاب الإيمان، باب ما جاء فيمن رمى أخاه بكفر: جلد، 5 صفحہ، 22 رقم الحديث، 2637) موطأ الإمام مالك: كتاب الكلام، باب ما يكره من الكلام: صفحہ، 974 مسند أحمد: جلد، 2 صفحہ، 18، 44 23 الطيالسی: صفحہ: 253 رقم الحديث، 1842)
اس سے ثابت ہوا کہ ہر رافضی کسی ایک صحابی کو کافر کہنے کی وجہ سے خود کافر ہو جاتا ہے ،تو جو سب کو کافر قرار دے اور کم عقلوں کی عقلوں پر پردہ ڈالنے کے لیے محض چند ایک کو مستثنیٰ قرار دے اس کا کیا حال ہوگا۔
(الشوكانی نثر الجوهر على حديث أبی ذر: صفحہ، 15، 17 مخطوط)
سلطنتِ عثمانیہ کے علما و شیوخ:
زین العابدین بن یوسف الاسکوبی نے عثمانی سلطان محمد خان بن سلطان ابراہیم خاں کے عہد میں ایک رسالہ لکھا جس میں اس نے نقل کیا: سلطنتِ عثمانیہ کے تمام متاخر علماء نے ان کے کافر ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔
(الاسکوبی الرد علی الشیعۃ: صفحہ، 5 ب)
ماوراء النہر کے علماء:
(اس سے مراد خراسان کے علاقے جیحون کی نہر کے پیچھے والے لوگ ہیں اس کی مشرقی طرف والے علاقوں کو بلاد الهباطلة کہتے ہیں اور اسلام میں ان کا نام ما وراء النهر رکھا گیا ہے۔ اس کی مغربی جانب تو خراسان اور خوارزم کا صوبہ ہے۔ 
(معجم البلدان: جلد، 5 صفحہ، 45 نہج السلامة: صفحہ، 20، 30 مخطوط)
تفسیر روح المعانی کے مؤلف علامہ آلوسی کہتے ہیں:
علمائے ماوراء النہر کی اکثریت اثنا عشریہ کے کافر ہونے کی قائل ہے، انہوں نے ان کے خون، اموال اور عورتیں حلال قرار دی ہیں، کیوں کہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بالخصوص شیخین ابوبکرؓ و عمرؓ کو سبِ و شتم کرتے ہیں، جو آپﷺ کی آنکھ اور کان تھے، وہ صدیقؓ کی خلافت کا انکار کرتے ہیں، ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ پر وہ بہتان لگاتے ہیں، جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بَری قرار دیا ہے، وہ سیدنا علیؓ کو اولو العزم نبیوں کے سوا ان تمام پر ترجیح دیتے ہیں، بلکہ ان میں سے بعض ان کو ان پر بھی ترجیح دیتے ہیں اور یہ لوگ قرآن کریم کے کمی و زیادتی سے محفوظ رہنے کا بھی انکار کرتے ہیں۔ 
(نہج اسلامۃ: صفحہ، 29، 30 مخطوط)
یہ اس مسئلے کے متعلق بعض ائمہ مسلمین اور علمائے مسلمین کے فتوے ہیں، میں اسی قدر فتاویٰ پر اکتفاء کرتا ہوں۔ فقہ کی کتابوں میں ان کی تکفیر کے متعلق بے بہا اقوال موجود ہیں، جن کی طرف بڑی آسانی سے رجوع کیا جا سکتا ہے، اس لیے ان کو ذکر کرنے کی کو ضرورت نہیں۔ 
(مثلاً دیکھیں: العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ لابنِ عابدین اس میں مؤلف نے شیخ نوحی حنفی کا فتویٰ ذکر کیا ہے، جنہوں نے رافضہ کو متعدد وجوہ کی بنا پر کافر قرار دیا ہے یہ فتویٰ بہت طویل ہے دیکھیں: العقود الدریۃ، صفحہ: 92 اسی طرح مؤلف نے مفسرِ قرآن سیدنا ابو مسعود کا قول بھی ذکر کیا ہے اور رافضہ کی تکفیر اپنے علماء کا اجماع نقل کیا ہے المصدر السابق فتاویٰ بزازیہ لابنِ البزار المتوفی 827ھ میں ہے: کیسانیہ کی نظر یہ بدا کی وجہ سے تکفیر ضروری ہے اور رافضہ کی تکفیر عقیدہ رجعت کی وجہ سے لازمی ہے الفتاویٰ البزازیۃ المطبوعۃ علی ھامش الفتاویٰ الھندیہ: جلد، 7 صفحہ، 318 امام ابنِ نجیم حنفی کہتے ہیں کہ شیخین کو گالی دینا اور ان پر لعنت کرنا کفر ہے الأشباہ والنظائر: صفحہ:190 نیز دیکھیں:نواقض الروافض لمخدوم الشیرازی)
چند ضروری امور:
یہاں چند امور ملحوظ خاطر رہیں:
1: علمائے اسلام کا روافض پر یہ حکم اس وقت کا ہے جب ان کی کتابوں اور ان کے عقائد کا علی الاعلان اظہار اور اشاعت اس وسیع پیمانے پر نہیں تھا،جس طرح آج ہے ،اس لیے اس مقابلے کے صفحات پر اثناء عشریہ کے ایسے عقائد بھی ذکر ہوئے ہیں جنہیں علمائے اسلام باطنی فرقے قرامطہ کی طرف منسوب کرتے تھے، مثال کے طور پر قرآنِ مجید میں کمی اور تحریف کا نظریہ جو ان کی کتابوں میں مشہور تھا۔اسی طرح ان کے اکثر اعتقادی اور اصول دین کے مسائل بھی انہی کی طرف منسوب تھے ،پھر ان کے کچھ ایسے بھی عقائد تھے ،جو معروف نہیں تھے ،جیسے شیعی خمیر اور خاک کا عقیدہ وغیرہ ہے،اس کا یہ مطلب ہوا کہ ان علماء کا آج رافضہ پر حکم اس سے بھی زیادہ سخت ہوتا۔
2: متاخر اور معاصر رافضہ نے مذہب کا گھٹیا اور خطرناک ترین مواد اکھٹا کیا ہے۔ انہوں نے تقدیر کی نفی میں قدریہ کا نظریہ صفات کی تردید میں جہمیہ کا نظریہ اور خلق قرآن کا عقیدہ صوفیہ سے وحدۃ الوجود کی گمراہی، سبائیہ سے سیدنا علیؓ کی الوہی صفات کا حامل قرار دینے کا قول،خوارج اور وعیدیہ سے مسلمانوں کی تکفیر اور مرجیہ کے عقیدے کے مطابق حبِ علیؓ کے ہوتے ہوئے کوئی برائی برائی نہیں رہتی،کا عقیدہ کشید کر کے شیعت کو ان تمام گمراہیوں کا ملغوبہ بنا دیا ہے بلکہ قبروں کی تعظیم،ان کا طواف ان کی طرف منہ اور قبلے کی طرف پشت کر کے نماز پڑھنے ،جیساکہ شرکیہ اعمال کے ذریعے سے وہ مشرکین کی راہ پر بھی چل نکلے ہیں۔ جو عین مشرکوں کا مذہب ہے۔ 
(اس کی تفصیل اور اثنا عشریہ کا اس عقیدے کو اپنانے کے ثبوت کے لیے اسی کتاب کا صفحہ، 1102 دیکھیں)  
کیا اس کے بعد بھی اس میں کوئی شک باقی رہتا ہے کہ اس فرقے نے اپنے لیے اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا مذہب پسند کیا ہوا ہے؟ یہ لوگ اگرچہ کلمہ پڑھتے ہیں ،لیکن انہوں نے بہت سے کفریہ اعمال کے ذریعے سے اس کلمے کا کام تمام کر دیا ہوا ہے ،لیکن پھر بھی کسی کو کافر کہنے کے بارے میں اہلِ سنت کے طریقے کار اور ان کے منہج تکفیر کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے :یہ تمام اقوال اور نظریات جن کے وہ قائل ہیں اور ان کے متعلق معلوم ہے کہ یہ رسول اللہﷺ کی پیش کردہ تعلیمات کے خلاف ہیں یہ تمام اقوال کفر ہیں، اسی طرح ان کے وہ افعال جو کافروں کے اعمال و افعال و اعمال کی جنس سے ہیں اور کافر اس طرح کا رویہ مسلمانوں سے رکھتے ہیں یہ بھی کفر ہیں لیکن اہلِ قبلہ میں سے کسی ایک مخصوص اور متعین شخص کو کافر قرار دینا اور اس پر دائمی جہنمی ہونے کا حکم لگایا شروطِ تکفیر کے ثبوت اور عدمِ مانع پر موقوف ہے ہم وعدو وعید اور تکفیر و تفسیق کی نصوص و آیات کا مطلقاً ذکر کرتے ہیں اور ان کے عام معنیٰ میں کسی مخصوص شخص کو اس وقت تک داخل نہیں کر سکتے جب تک اس میں تکفیر کا تقاضا کرنے والا کوئی عمل ثابت نہ ہو جائے جس کا کوئی مخالف نہ ہو، اس لیے علمائے اسلام ایسے شخص کو کافر نہیں کہتے، جو نیا نیا مسلمان ہونے کی وجہ سے یا کسی درو دراز کے علاقے اور عملی طور پر پسماندہ بستی کے ساتھ تعلق رکھنے کی وجہ سے کسی حرام کام کو حلال کر لے۔ کفر کا حکم پیغام اسلام تک پہنچنانے کے بعد ہوتا ہے، اس لیے ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کو وہ نصوص اور دلائل نہ ملے ہوں گے، جو ان کے موقف کے خلاف ہوں۔ ہو سکتا ہے،اس کو علم ہو نہ کہ رسول اللہﷺ اس کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں۔ اس لیے مطلقاً کہا جائے گا کہ یہ قول کفر ہے اور اس کو کافر کہا جائے گا، جس پر وہ حجت قائم ہو جائے، جس کے تارق کو کافر کہا جا سکے،دوسرے کو نہیں۔
(الفتاویٰ: جلد، 28 صفحہ، 501،502 اس مسئلے کی تفصیل کے لیے دیکھیں: الفتاویٰ: جلد، 12 صفحہ، 466 وما بعدها: جلد، 23 صفحہ: 340 وما بعدها)