Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

جنگ جمل: تاریخ اسلام

  مفتی ہدایت اللہ

جنگ جمل

جنگ جمل کا واقعہ نصف جمادی الاولیٰ یا عند البعض جمادی الثانی 36ھ میں پیش آیا تھا۔
شہادت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا گیا اور بیعت کی گئی تو اس میں حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ، دیگر اکابر صحابہ اور اہل مدینہ نے بھی بیعت کی۔ جب بیعت ہوچکی تو اس وقت حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور دیگر اکابر صحابہ کرام حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مطالبہ پیش کیا کہ آپ مسند خلافت پر تشریف فرماچکے ہیں اب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کے متعلق انتطام فرمادیں کیونکہ اگر ہم شہید مظلوم کا انتقام نہ لیں اور فسادیوں کا قلع قمع نہ کریں تو اللہ تعالیٰ کے عتاب و غضب کے مستحق ٹھہریں گے تو اس مطالبہ کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ عذر پیش کیا کہ:

ان ھولاء لہم مدد واعوان انہ لا یمکنہ ذلک یومہ ھذا.
(البدایہ لابن کثیر ج7ص229 تحت ذکر بیعت خلافت علوی )

ان لوگوں کو مدد گار اور حمایتی میسر ہیں اس لیے یہ کام اس وقت نہیں ہوسکتا حالات کے سازگار ہونے کے بعد یہ ہوسکے گا۔
بہرحال اس جواب پر ان حضرات کو تشفی نہ ہوئی کیونکہ قاتلان حضرت عثمان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر کے پناہ لی تھی جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے:
وقاتلان بجز آنکہ پناہی بحضرت مرتضیٰ بردند با او بیعت کنند علامے نیافشند وکیف ماکان عقد بیعت واقع شد .
(قرۃ العینین ص143 طبع مجتبائی دہلی )
یعنی قاتلان عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ملا کہ حضرت علی کی بیعت کریں اور اس کی پناہ میں آئیں جیسا کہ یہ معاملہ ہوا بھی، بہر کیف یہ بیعت منعقد ہوئی۔
تو ان دو حضرات؛ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما نے عمرہ کی غرض سے مکہ کا سفر شروع کیا، جب مکہ پہنچے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ اور امہات المومنین بھی عمرہ کی غرض سے مکہ پہنچ چکی تھیں۔ بعد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر حضرات مکہ تشریف لے گئے۔ یوں مکہ میں صحابہ کرام، امہات المومنین اور دیگر حضرات کا اجتماع ہوا، ان تمام کا مقصد ایک ہی تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خون ناحق اور ظلماگرادیا گیا ہے اس لیے ان کے قصاص کا مسئلہ سب سے پہلے طے ہونا چاہیے اور مجروں کو جلد سے جلد سزا ملنی چاہیے۔ اس سلسلے میں مختلف آراء سامنے آئیں۔ بالآخر طے ہوا کہ اس سلسلے میں بصرہ پہنچنا چاہیے۔ منشاء یہ تھا کہ مسلمانوں کی ایک کثیر جماعت اگر مطالبہ پر جمع ہوجائے تو امید ہے کہ فریق ثانی بھی اس کی طرف توجہ کرے گا اور باہمی موافقت کی صورت پیدا ہوجائے گی۔ اس سفر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی شامل رہنے کی درخواست کی گئی تاکہ اصلاح کی کوئی صورت پیدا ہوجائے۔ چنانچہ علامہ آلوسی فرماتے ہیں:

فسارت معہم بقصد الاصلاح وانتظام الامور .
(تفسیر روح المعانی ج22ص10 تحت آیت وقرن فی بیوتکن )

اس کے بعد بہت سارے حضرات ان اکابر (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم وغیرہ) کے ساتھ شریک ہوگئے اور بصرہ کی طرف سفر شروع کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب اطلاع ملی تو انہوں نے بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بصرہ کی طرف سفر شروع کیا۔ بصرہ کے قریب جب دونوں جماعتیں اپنے اپنے مقام پر پہنچیں تو بعض معتمد حضرات کے ذریعے مصالحت کی گفتگو جاری ہوئی۔ اسی موقعہ پر حضرت قعقاع بن عمر التمیمی حضرت عائشہ اور ان کی جماعت کے پاس آئے اور عرض کیا:

ای اُمُّہ ما اشخصک وما اقدمک ھذہ البلدۃ قالت: ای بنی! اصلاح بین الناس.
(روح المعانی ج22ص9، 10 وقرن فی بیوتکن )

حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اے ام المومنین! اس شہر میں آپ کا تشریف لے آنا کسی مقصد کے لیے ہے؟ تو ام المومنین نے فرمایا اے بیٹے !لوگوں کے درمیان اصلاح کی صورت پیدا کرنے کے لیے۔
اس پر حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کریں تاکہ مسلمانوں میں انتشار کی یہ فضا ختم ہوجائے اور اتفاق پیدا ہوجائے تاکہ حضرت عثمان کا بدلہ لینا آسان ہوجائے۔
افہام و تفہیم کے اس بیان کے بعد حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم نے ارشاد فرمایا:
اصبت واحسنت فارجع الخ
یعنی آپ کی بات درست ہے ہم اس پر آمادہ ہیں۔ آپ جائیں (اور فریق ثانی کو اطلاع دیں)

فرجع الی علی فاخبرہ فاعجبہ ذالک واشرف القوم علی الصلح کرہ ذالک من کرہہ ورضیہ من رضیہ وارسلت عائشۃ الی علی تعلمہ انہا انما جاءت للصلح ففرح ھولاء وھولاء.
(البدایہ لابن کثیر ج7ص239 روح المعانی ج22 ص9، 10)

مختصر یہ کہ جب یہ اطلاع حضرت علی کو ملی تو بہت خوش ہوئے اور باقی لوگ بھی صلح پر متوجہ ہوئے۔ البتہ بعض لوگوں کو یہ چیز ناگوار گزری اور بعض کو پسند آئی۔ بہرحال فریقین نے صلح ومصالحت پر اتفاق ظاہر کیا۔
اس موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک تاریخی خطبہ دیا اور اس میں یہ بھی اعلان فرمایا کہ :

الا وانی راحل غدا فارتحلوا الا ولا یرتحلن غدا احد اعان علی عثمان بشئی فی شئی من امور الناس.
(الفتنۃ وقعۃ الجمل لسیف بن عمر الضی ص147 البدایہ لابن کثیر ج7ص237)

ہم کل یہاں سے روانہ ہوں گے (اور دوسرے فریق کے پاس جائیں گے) اور خبردار جس نے بھی حضرت عثمان کے قتل پر اعانت کی ہے وہ ہم سے الگ ہوجائے، ہمارے ساتھ نہ رہے۔
جب یہ اعلان ہوا تو فتنہ انگیز پارٹی کے سربراہ شریح بن اوفیٰ، علباء بن الہیثم، سالم بن ثعلبہ العبسی، عبداللہ بن سبا المعروف بابن السوداء وغیر ہ سخت پریشان ہوئے اور انہیں اپنا انجام تاریک نظر آنے لگا۔ قابل غور بات یہ تھی کہ اس پارٹی میں ایک بھی صحابی نہ تھا۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:

ولیس فیہم صحابی وللہ الحمد.
( البدایہ لابن کثیر ج7ص238)

اس پارٹی نے ایک خفیہ مشورہ کے تحت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن باہم اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام رہا۔ چنانچہ شیخ عبدالوہاب شعرانی لکھتے ہیں:

فان بعضہم کان عزم علی الخروج علی الامام علی رضی اللہ عنہ وعلی قتلہ لما نادیٰ یوم الجمل بان یخرج عن قتلۃ عثمان الخ .
(کتاب الیواقیت والجواہر ج2ص77)

بہرحال یہ دشمن تو اپنے اس مذموم عمل میں ناکام رہے، ادھر دونوں جماعتیں دو مقام پر جمع ہوئیں۔ حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ ”زابوقہ“ کے مقام پر پہنچے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی جماعت کے ساتھ ”ذاقار“ کے مقام پر تشریف لائے۔ قعقاع کے میدان میں فریقین کی صلح ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ قاتلین کو شرعی سزا دینے پر راضی ہوگئے اور دوسری جماعت (حضرت طلحہ وغیرہ) بیعت پر راضی ہوگئے اور اس صلح پر کوئی شک نہ رہا۔

وہم لا یشکون فی الصلح .
(الفتنۃ وقعۃ الجمل ص155 روح المعانی ج22ص9، 10)

ان حالات میں تمام حضرات نے خیر اور سلامتی سے رات گذاری لیکن مفسدین اور قاتلین عثمان پوری رات فتنہ کھڑا کرنے کی تدابیر میں مصروف رہے آخر کار تاریکی میں دفعۃ لڑائی کرادینے پر ان کا اتفاق ہوگیا۔
اس واقعہ جمل کو علامہ قرطبی نے اپنی مشہور تفسیر احکام القرآن میں سورۃ الحجرات کی آیات کے تحت اس طرح بیان فرمایا ہے:

قلت : فهذا قول في سبب الحرب الواقع بينهم. وقال جلة من أهل العلم : إن الوقعة بالبصرة بينهم كانت على غير عزيمة منهم على الحرب بل فجأة ، وعلى سبيل دفع كل واحد من الفريقين عن أنفسهم لظنه أن الفريق الآخر قد غدر به ، لأن الأمر كان قد انتظم بينهم ، وتم الصلح والتفرق على الرضا. فخاف قتلة عثمان رضي الله عنه من التمكين منهم والإحاطة بهم ، فاجتمعوا وتشاوروا واختلفوا ، ثم أتفقت آراؤهم على أن يفترقوا فريقين ، ويبدأوا بالحرب سحرة في العسكرين ، وتختلف السهام بينهم ، ويصيح الفريق الذي في عسكر علي : غدر طلحة والزبير. والفريق الذي في عسكر طلحة والزبير : غدر علي. فتم لهم ذلك على ما دبروه ، ونشبت الحرب ، فكان كل فريق دافعا لمكرته عند نفسه ، ومانعا من الإشاطة بدمه. وهذا صواب من الفريقين وطاعة لله تعالى ، إذ وقع القتال والامتناع منهما على هذه السبيل. وهذا هوالصحيح المشهور. والله أعلم.
(تفسیر قرطبی ج16ص318، 319)

اس کا مفہوم یہ ہے کہ بصرہ میں جنگ جمل کا جو واقعہ پیش آیا تھا وہ قتال کے ارادہ سے وقوع پذیر نہیں ہوا تھا بلکہ یہ صورتحال اچانک قائم کردی گئی تھی، ایک فریق یہ گمان کرتے ہوئے کہ دوسرے فریق نے بد عہدی کی ہے اپنے دفاع کے لیے قتال کررہا تھا کیونکہ ان کے درمیان صلح کی بات تو ہوچکی تھی وہ اپنی اپنی جگہ باہمی اعتماد اور رضا مندی سے ٹھہرے ہوئے تھے لیکن قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو خوف لاحق ہوا کہ یہ صلح ہوگئی تو ہماری خیر نہیں لہذا وہ جمع ہوئے اور مشورہ کرنے لگے، پہلے ان کا کچھ آپس میں اختلاف ہوا لیکن بعد میں اس امر پر متفق ہوگئے کہ ہم دو جماعتوں میں تقسیم ہوجائیں کچھ حضرت علی کی جماعت میں شامل ہوجائیں اور کچھ دوسرے فریق میں گھس جائیں اور علی الصباح دونوں لشکروں میں لڑائی کی ابتداء کریں، ایک فریق کی جانب سے دوسرے فریق پر تیر اندازی کریں اور جو فریق حضرت علی کے لشکر میں پہنچے وہ فریاد کرے کہ حضرت طلحہ والوں نے عہد شکنی کی ہے اور جو حضرت طلحہ والو ں کے لشکر میں ہوں وہ فریاد کریں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ والوں نے عہد شکنی کی ہے۔ مختصر یہ ہے کہ یہ قتال اور دفاع دونوں فریق کی طرف سے مذکورہ نوعیت میں واقع ہوا تھا۔ یہی بات درست اور صحیح ہے۔
اس کو جنگ ”جمل“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آخر کار اس لڑائی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت غالب آگئی اور دوسرے فریق کے اکابر حضرت زبیر اور حضرت طلحہ وغیرہم شہید ہوگئے اور یہ فریق مغلوب ہوگیا۔ اس کے بعد امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے ام المؤمنین کو حفاظتی انتظام کے ساتھ لایا گیا۔ حضرت علی نے سلام عرض کیے اور خیریت دریافت کی، حضرت صدیقہ نے فرمایا: میں بخیریت ہوں، اس کے بعد چند ایام بصرہ میں گذارنے کے بعد جب حجاز کی طرف سفر کا ارادہ فرمایا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ضروریات سفر مہیا کر کے بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ روانہ فرمایا۔ چونکہ یہ واقعہ دشمنوں کی ناپاک حرکتوں کی وجہ سے سرزد ہوا اس لیے اس واقعہ پر دونوں فریقین کی طرف سے اظہارِ افسوس روایات بھی منقول ہیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اظہار افسوس

عن قیس بن عبادۃ قال قال علی یوم الجمل یا حسن لیت اباک مات منذ عشرین سنۃ فقال لہ یا ابہ قد کنت انہاک عن ھذا قال یا بنی انی لم ار ان الامر یبلغ ھذا.
(البدایہ لابن کثیر ج2ص240)

حضرت امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا اظہار افسوس

فقالت انما ارید ان یحجز بین الناس مکانی قالت ولم احسب ان یکون بین الناس قتال ولو علمت ذالک لم اقف ذالک الموقف ابدا.
(مصنف عبدالرزاق ج5ص475 غزوات ذات السلاسل وخیر علی و معاویہ )

یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرا خیال تھا کہ میں اپنے مقام و مرتبہ کی بنا پر لوگوں کے درمیان جنگ و قتال سے مانع ہوں گی اور مجھے یہ گمان ہی نہ تھا کہ لوگوں کے درمیان لڑائی واقع ہوگی۔ اگر یہ بات مجھے پہلے معلوم ہوتی تو میں اس مقام پر ہرگز نہ پہنچتی۔

امی عائشہ رضی اللہ عنہا پر اعتراضات کا جائزہ

جنگ جمل میں شرکت کی وجہ سے حضرت سیدہ ام المومنین عائشہ پر جو سطحی قسم کے اعتراضات کیے گئے ہیں ذیل میں ان میں سے کچھ اعتراضات کا تحقیقی جائزہ پیش کیا جاتا ہے:

اعتراض1
قرآن پاک میں ازواج مطہرات کو اپنے گھر میں ٹھہرے رہنے کا حکم دیا گیا ہے حضرت عائشہ نے جنگ جمل میں شرکت کر کے قرآن مجید کے احکام کی صریح خلاف ورزی کی ہے۔
جواب

مشہور مثال ہے

"المعترض کالاعمیٰ"

یہی حال مذکورہ اعتراض کرنے والوں کا بھی ہے۔ سورۃ الاحزاب کی آیت کریمہ ”و قرن فی بیوتکن ولا تبرجن“ میں استقرار فی البیوت کا جو حکم دیا گیا ہے وہ عام نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ایک خاص نوعیت اور کیفیت کے ساتھ ہے اور وہ جاہلیت کی رسم کے مطابق زیب و زینت کے ساتھ بغیر پردے کے گھر سے باہر نکلنا ہے۔ اعتراض کرنے والوں کے قول کے مطابق اگر امہات المومنین کو گھروں سے نکلنا منع ہوتا تو وہ درج ذیل احکام شرع پر کیسے عمل کرتیں حالانکہ بالاتفاق مندرجہ ذیل احکام ان کے حق میں بھی وارد ہوئے ہیں اور انہوں نے یہ امور سر انجام بھی دیے ہیں:
٭ حج و عمرہ کے لیے جانا
٭غزوات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانا
٭نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے وقت اپنے حجروں سے نکل کر عیادت کے لیے حضرت عائشہ کے حجرہ مقدسہ میں جانا
٭فوت شدگان کی تعزیت کے لیے جانا
٭ والدین اور اقارب کی ملاقات کے لیے تشریف لے جانا
٭عیادت مریض کے لیے تشریف لے جانا
٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب امہات المومنین سفر حج کے لیے جانے لگیں تو ان کے ساتھ محافظ کے طور پر سیدنا عثمان غنی اور سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف کو امیر المومنین سیدنا عمر فاروق نے روانہ کیا۔
(روح المعانی ج22 ص12 تحت الایہ قرن فی بیوتکن )
اس سے معلوم ہوا کہ ازواج مطہرات کا اپنے گھروں سے نکلنا مطلقا منع نہ تھا، اس لیے امہات المومنین مذکورہ بالا امور شرعیہ کو پوری زندگی سر انجام دیتی رہیں اور دینی معاملات کو پورا کرنے کے لیے تستر اور حجاب کے ساتھ گھروں سے نکلتی رہیں اور آج گئے گزرے دور میں بھی پردہ نشین عورتیں ستر وحجاب کی پابندیوں کے ساتھ سفر کے لیے نکلتی ہیں خاص طور پر وہ سفر جو دینی، ملی یا دنیاوی مصالح پر مبنی ہو جیسے حج و عمرہ اور جہاد وغیرہ
جنگ جمل کے موقع پر ام المومنین سیدہ عائشہ نے بھی ایک دینی مصلحت یعنی اصلاح بین الناس اور مطالبہ قصاص ازخلیفہ عادل کے لیے سفر اختیار فرمایا تھا جو کہ بالکل صحیح تھا اور اس کا جواز حج و عمرہ کی طرح ہے۔ چنانچہ امام المحدثین حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ سفر بھی اس نوعیت کا تھا کہ مسلمانوں میں باہم رخنہ پڑگیا تھا اس کی اصلاح ہو اور امام عادل کے قتل کے قصاص کے مطالبہ میں سب مسلمان متفق اور شریک ہوں... آپ کا یہ سفر حج و عمرہ کے سفر کی مانند تھا۔
تحفہ اثنا عشریہ ص630 عالمی مجلس تحفظ اسلام کراچی

اعتراض2
حضرت عائشہ کا یہ سفر بغیر محرم کے تھا لہذا، عند الشرع صحیح نہ تھا۔
جواب

یہ بات بالکل غلط ہے۔ اس لیے کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ سفر ایک نیک مقصد کے لیے تھا اور شرعی محارم کے ہمراہ تھا، علماء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ اماں جی کے ساتھ آپ کی بہنوں؛ حضرت اسماء اور ام کلثوم کے صاحبزادے اس سفر میں موجود تھے۔ امام المحدثین حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
دریں سفر عبداللہ بن زبیر ہمشیرہ زادہ حقیقی وے ہمراہ وے بود وطلحہ بن عبیداللہ شوہر خواہرش ام کلثوم بنے ابی بکر وزبیر بن العوام شوہر خواہر دیگرش بود اسمائ بنت ابی بکر واولاد ایں ہر دو نیز ہمراہ بود
تحفہ اثناء عشریہ ص330 طبع لاہور در تحت جواب طعن اول
نیز عظیم مفسر سید محمود آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

وکان معہا ابن اختہا عبداللہ بن الزبیر وغیرہ من ابناء اخواتہا ام کلثوم زوج طلحہ واسماء زوج الزبیر بل کل من معہا بمنزلۃ الابناء فی المحرمیۃ وکانت فی ہودج من حدید
روح المعانی ج22ص10 تحت الایۃ وقرن فی بیوتکن

خلاصہ یہ ہے کہ اماں جی رضی اللہ عنہا کا یہ سفر محارم کے ساتھ ہوا تھا۔ اس لیے یہ اعتراض ساقط الاعتبار ہے۔

اعتراض3
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے یہ قتال حضرت علی سے عناد اور عداوت کی وجہ سے کیا تھا اور اس میں ناکامی کی وجہ سے بعد میں شرمندگی کا اظہار کرتی تھیں اور رویا کرتی تھیں۔
نیز یہ اعتراض حضرت طلحہ اور حضرت زبیر پر بھی عائد ہوتا ہے کیونکہ ان دونوں حضرات کو بھی حضرت علی کی خلافت سے شدید عداوت تھی، حضرت عثمان کے قصاص کا مطالبہ ایک بہانہ تھا۔
جواب

اس اعتراض کے متعلق چند باتیں پیش خدمت ہیں:
[۱]: یہ اعتراض بھی جہلاء نے اہلِ بیتِ رسول سے بغض و عداوت کی وجہ سے وضع کیا ہے حالانکہ اہل بیت رسول کے ساتھ امیر المومنین سیدنا علی اور دیگر اصحاب رسول کا بہت ہی اچھا برتاؤ تھا اور اہل بیت بھی حضرت علی المرتضی اور اصحاب رسول سے محبت و مودت کا تعلق رکھتے تھے۔
[۲]: واقعہ جمل پر صرف حضرت عائشہ نے ندامت اور افسوس کا اظہار نہیں کیا بلکہ امیر المومنین محبوب المسلمین سیدنا علی سے بھی اس واقعہ پر اظہار افسوس اور متاسفانہ کلام منقول ہے ذیل میں دو حوالے درج کیے جاتے ہیں:
1: سید محمود آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فقد صح انہ رضی اللہ عنہ لما وقع الا نہزام علی من مع ام المومنین وقتل من قتل من الجمعین طاف فی مقتل القتلیٰ کان یضرب فخذیہ ویقول : یا لیتنی مت من قبل ھذا وکنت نسیا منسیا .
(روح المعانی ج22ص11 )

2 : امام المحدثین حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حضرت امیر قتلی را ملاحظہ فرمود، را نہائے خود را کوفتن گرفت و مے فرمود یالیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیا منسیا .
(تحفہ اثناء عشریہ ص335)
مذکورہ دونوں حوالہ جات کا خلاصہ یہ ہے کہ امیر المومنین سیدنا علی نے جب جمل کے مقتولین پر نظر ڈالی تو اس وقت بے ساختہ طور پر اپنی رانوں پر ہاتھ مارتے تھے اور فرماتے تھے کہ کاش میں اس سے قبل فوت ہوگیا ہوتا اور بھلا دیا گیا ہوتا۔
کیا معترضین اب حضرت علی کے بارے میں بھی وہی کہیں گے جو انہوں نے اماں جی کے بارے میں کہاہے بلکہ اس مقام پر حضرت علی المرتضی کے کلام سے جو مراد لیا گیا ہےحضرت عائشہ کے فرمان میں بھی اسی قسم کا کلام پایا گیا ہے اور اس کا مقصد و محمل بھی وہی ہے۔
[۳]: حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ کرام کا واقعہ جمل کے بعد اس پر تاسف کرنا اور پریشان ہونا خشیت الہی اور تقوی کی بناء پر تھا اور مسلمانوں کے باہم قتال اور افتراق بین المسلمین پر تھا۔ اس سے جانبین کی باہمی عداوت اور عناد کا تصور قائم کرنا اصل کلام کے محمل سے بعید تر ہے اور مقصد کلام کے خلاف ہے اور توجیہ القول بمالا یرضی بہ القائل کے قبیل سے ہے۔


اعتراض4
حضرت عائشہ نے جنگ جمل کے سفر میں نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی بلکہ اس پر جمی بھی رہیں وہ اس طرح کہ اہل تشیع کی عام روایات اور اہل السنۃ کی بعض روایات میں ہےکہ حضرت عائشہ کا لشکر مکہ سے بصرہ کی طرح جب عازم سفر ہوا تو راستہ میں ایک ایسے مقام سے گزرا جہاں پانی تھا تو وہاں کتوں نے بھونکنا شروع کردیا۔ حضرت عائشہ نے پوچھا کہ یہ کونسامقام ہے؟ تو محمد بن طلحہ نے جواب دیا کہ اس جگہ کو ”حوآب“ کہتے ہیں۔ یہ سن کر آپ فرمانے لگیں کہ ”ردونی“ مجھے واپس لے چلو کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنی ازواج مطہرات سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ تم میں سے اس کا کیا حال ہوگا جس پر حوآب کے کتے بھونکیں گے۔ اس پر حضرت طلحہ و زبیر اور لشکر کے دیگر نے تحقیق کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ مقام ماء الحوآب نہیں ہے۔ لوگوں کی شہادت کے بعد حضرت عائشہ نے پھر آگے سفر شروع کردیا۔
اس روایت کی بناء پر مخالفین صحابہ سیدہ پر سخت معترض ہوئے کہ انہوں نے اس فرمان نبوی کی علانیہ مخالفت کی اور بصرہ کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔
جواب

اس اعتراض کا جواب دو طرح سے دیا جاسکتا ہے:
1: روایت کے اعتبار سے

2: درایت کے اعتبار سے۔
روایت کے اعتبار سے:
[۱]: مستند کتب احادیث میں یہ روایت نہیں ہے۔
[۲]: واقعہ کی اکثر سندوں کا آخری راوی قیس بن ابی حازم ہے جس کے بارے میں علماء رجال نے تصریح کی ہے کہ یہ شخص منکر الحدیث ہے اور اس سے کئی منکر روایات مروی ہیں جن میں سے ایک روایت ”کلاب الحوآب“ بھی ہے۔ چنانچہ حافظ ابن الحجر العسقلانی تحریر کرتے ہیں:

قال ابن المدینی قال لی یحیی بن سعید: قیس بن ابی حازم منکر الحدیث ثم ذکر لہ یحیی احادیث مناکیر منہا حدیث کلاب الحوآب.
( تہذیب التہذیب ج8ص388 تحت قیس بن ابی حازم )

[۳]: اس واقعہ کی بعض روایات میں عبدالرحمان بن صالح ازدی پایا جاتا ہے جس کے بارے میں علماء رجال نے تصریح کی ہے کہ یہ جلنے والا شیعہ ہے اور صحابہ کرام کے حق میں مثالب و مصائب کی بری روایات بیان کرتا ہے اور کوفہ کے مشہور غالی جلنے والے شیعوں میں سے ہے۔
(الکامل لابن عدی ج4ص1627 تحت عبدالرحمان بن صالح، العلل المتناہیہ فی الاحادیث الواہیۃ لامام ابن الجوزی ج2ص366)
[۴]: عظیم محقق مولانا محمد نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس واقعہ کی عام روایات عموما عند المحدثین سقیم پائی جاتی ہیں اور بیشتر علماء کےنزدیک اس واقعہ کی روایت منکر و مجروح ہیں۔
( سیرت سید علی المرتضی ص241)
[۵]: واقعہ حوآب مورخین کے نزدیک کوئی متفق علیہ امر نہیں ہے کہ جس کا انکار کرنا مشکل ہو کیونکہ قدیمی مورخین میں سے اکثر نے اس واقعہ کو اس مقام میں ذکر ہی نہیں کیا شہادت کے طور پر ہم فریقین کے ایک ایک مؤرخ کا فقط نام ذکر کرتے ہیں:
1: خلیفہ بن خیاط م240ھ
2: صاحب اخبار الطوال احمد بن داود دینوری شیعی م282ھ
بعض مورخین نے اس واقعہ کو ذکر کیا ہے لیکن اس کی سند انتہائی کمزور اور مجروح ہے مثلا مورخ الطبری نے اپنی تاریخ میں اپنی سند کے ساتھ اس واقعہ کو نقل کیا ہے اور اس کی سند علماء فن کے نزدیک مجروح ہے۔ مثلا:
1: طبری کا استاد اسماعیل بن موسی فزاری ہے جو غالی شیعہ ہے
2: پھر اس کا استاد علی بن عابس الرزاق بالکل غیر معتبر ہے۔
3: اس کے بعد دو راوی ابو الخطاب الہجری اور صفوان بن قبیصہ الاحمسی دونوں مجہول ہیں
4: پھر ان سے اوپر والے راوی صاحب الجمل العرنی اور اس کے بعد العرش کو ایک سوار ملتا ہے العرنی اور سوار دونوں مجہول ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ طبری کی یہ روایت مذکورہ بالا کوائف کی وجہ سے بالکل بے حکم ہے، ہرگز قابل اعتماد نہیں ہے، بعد والے لوگوں نے طبری سے ہی نقل کی ہے۔
درایت کے اعتبار سے:
اگر بالفرض ”روایت حوآب “کو درست تسلیم کر لیا جائے اور علماء کی تنقیدات سے صرف نظر کرلیا جائے تب بھی درایت کے اعتبار سے جواب یہ ہے کہ پیش کردہ روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عامر کے پانیوں سے گزرنے سے منع نہیں فرمایا اور نہ ہی اس کی طرف کوئی اشارہ پایا جاتا ہے بلکہ خود حضور صلی ا للہ علیہ وسلم نے اپنے ازواج مطہرات کو بطور پیش گوئی یہ ارشاد فرمایا تھا کہ تم میں ایک کو یہ مصیبت پیش آئے گی جو بعد میں صحیح ثابت ہوئی۔ اس حدیث سے نہی سمجھنا اور مخالفت رسول پر اصرار اور ضد کی نسبت سیدہ صدیقہ کی طرف کرنا بالکل غلط ہے اور سیدہ اس اعتراض سے بری ہیں۔