Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کیا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں جھوٹی روایات گھڑی گئی ہیں؟

  مولانا علی معاویہ

پارٹ (2)

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

دوستو پہلے حصہ میں آپ کے سامنے اس بات پر بحث کی تھی کہ سیدنا معاویہؓ کی فضیلت میں صحیح روایات ہیں کہ نھیں؟؟

اس پوسٹ میں سیدنا معاویہؓ کے فضائل میں امام نسائیؒ اور امام حاکم کے موقف کے ساتھ اس پوائنٹ پر بات ھوگی کہ ‘‘سیدنا معاویہؓ کے فضائل میں جھوٹی روایات گھڑی گئی ہیں’’۔

یہ بات ذھن میں رکھیں کہ سیدنا معاویہؓ کے فضائل میں صحیح اور حسن دونوں قسم کی روایات ہیں،

اگر ضعیف بھی مان لیں تب بھی اصول کے مطابق ضعیف روایات مل کر حسن بن جاتی ہیں جیسا کہ حصہ اول میں دلائل سے ثابت کرچکا۔

[سیدنا معاویہؓ کے فضائل میں امام نسائیؒ کا قول]

منکرین فضائل معاویہ، سیدنا معاویہ ؓ کے فضائل کا انکار کرتے ھوئے امام نسائیؒ کا واقعہ پیش کرتے ہیں کہ وہ دمشق گئے تو وہاں بہت سارے ایسے لوگ ان کو ملے جو سیدنا علیؓ کے مخالف تھے، تو امام نسائیؒ نے ان کی ھدایت کی امید رکھتے ھوئے ‘‘ خصائص علی’’ کے نام سے کتاب لکھی اور لوگوں کو پڑھ کر سنائی، اس پر لوگوں نے ان سے کہا کہ معاویہؓ کے فضائل پر کتاب کیوں نھیں لکھتے؟؟ تو امام صاحب نے کہا کہ کیا چیز لکھوں؟؟ کہ اے اللہ معاویہ کا پیٹ نہ بھرے۔

الجواب۔

اس واقعے کی سند پر بحث سےقطع نظر کرتے ھوئے اس کے متن پر بات کرتے ہیں۔

۱، پہلی بات تو یہ کہ امام نسائیؒ سیدنامعاویہؓ کے فضائل کے منکر نھیں تھے، جیسا کہ تھذیب الکمال میں ھے

عَن أَبِي الْحَسَن علي بْن مُحَمَّد القابسي، قال: سمعت أَبَا علي الْحَسَن بْن أَبي هلال يَقُول: سئل أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ النَّسَائي عَنْ معاوية بْن أَبي سفيان صاحب رَسُول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَقَالَ: إنما الإسلام كدار لها باب، فباب الإسلام الصحابة، فمن آذى الصحابة إنما أراد الإسلام، كمن نقر الباب إنما يريد دخول الدار، قال: فمن أراد معاوية فإنما أراد الصحابة

تهذيب الكمال في أسماء الرجال جلد 1 صفحہ 339 ،340

شاملہ کا لنک

یعنی ان سے معاویہؓ کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ

‘‘اسلام ایک گھر کی طرح ھے جس کا دروازہ ہے، تو اسلام کا دروازہ صحابہؓ ہیں، جس نے صحابی کو تکلیف دی گویا اس نے اسلام پر حملہ کیا، جیسے کوئی دروازے کو کھٹکھٹاتا ھے تو وہ گھر میں داخل ھونے کا ارادہ رکھتا ھے، تو جس نے معاویہؓ کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا گویا اس نے سارےصحابی کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا’’۔

۲، کیونکہ امام نسائی کا واسطہ ان لوگوں کے ساتھ پڑا تھا جو سیدنا علیؓ کی فضیلت کے منکر تھے، اور اس وقت امام نسائیؒ کا دھیان بھی اسی طرف تھا کہ یہ لوگ سیدنا علیؓ کے فضائل مان جائیں، لیکن امام نسائیؒ نے اپنی سوچ کے خلاف ان کی بات سن کر غصے میں یہ الفاظ کہہ دئے کہ ‘‘ان کی فضیلت میں کیا چیز لکھوں؟؟ کہ اے اللہ معاویہ کا پیٹ نہ بھرے’’۔

تو امام نسائیؒ کے یہ الفاظ اس لئے نھیں تھے کہ معاویہؓ کے کوئی فضیلت ہی نھیں، بلکہ اس لئے تھے کہ

تم لوگ سیدنا معاویہؓ کے فضائل تو مانتے ھو لیکن جو ان سے افضل ھے (علیؓ ) اس کے فضائل کے منکر ہو اور سننے کو تیار نہیں۔

۳، جو الفاظ امام نسائی نے کہے کہ ‘‘اللہ اس کا پیٹ نی بھرے’’، یہ الفاظ سیدنا معاویہؓ کی تنقیص یا شان گھٹانے کے لئے نھیں ہیں، بلکہ ان الفاظ سے بھی معاویہؓ کی فضیلت ثابت ھوتی ھے۔ جیسا کہ تاریخ دمشق میں ھے کہ

قال بعض أهل العلم: وهذه أفضل فضيلة لمعاوية لأن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «اللهم إنما أنا بشر، أغضب كما يغضب البشر، فمن لعنته أو سببته فاجعل ذلك له زكاة ورحمة

تاريخ دمشق لابن عساكر جلد 71 صفحہ 174

 شاملہ کا لنک

یعنی بعض اھل علم نے کہا ھے کہ یہ الفاظ معاویہؓ کی سب سے افضل فضیلت میں سے ہیں، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ھے کہ

‘‘ اے اللہ میں بھی ایک انسان ہوں، مجھے بھی غصہ آتاھے جیسے دوسرے انسان کو آتا ھے ،

توجس پر میں نے لعنت کی ہو یا برا بھلا کہا ہو تو اس برا بھلا کہنے کو اس کے لئے رحمت بنا۔۔

تو یہ الفاظ معاویہؓ کے لئے بددعا نھیں بلکہ دعا ھے، اس پر اور بھی کافی علماء کے حوالاجات ہیں لیکن فی الحال ایک حوالہ پیش کررہا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔

[امام حاکم کے قول کی حقیقت]

سیف الاسلام جھنگوی رافضی نے امام حاکم کا قول نقل کیا ھے کہ

ابو عبدالرحمٰن السلمی نے کہا کہ میں حاکم کے پاس اس وقت گیا جب وہ امیہ سے چھپ رہے تھے اور اس وجہ سے اپنے گھر سے باہر بھی نہیں نکل سکتے تھے، تو میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ معاویہ کی فضیلت میں حدیث بیان کردیں تو آپ اس صورتحال سے نکل آئینگے۔ حاکم نے جواب دیا، میں ایسا نہیں کرسکتا، میں ایسا نہیں کرسکتا۔ (ترجمہ جھنگوی رافضی کا ھے)

الجواب۔

امام حاکم ک بارے میں علامہ ذھبیؒ لکھتے ہیں کہ

وكان منحرفًا عن معاوية وآله, متظاهرًا بذلك ولا يعتذر منه.

قلت: أما انحرافه عن خصوم علي فظاهر، وأما أمر الشيخين فمعظم لهما بكل حال فهو شيعي

تذكرة الحفاظ للذهبي جلد 3 صفحہ 166

 شاملہ کا لنک

یعنی امام حاکم سیدنا معاویہؓ اور ان کے خاندان کے مخالف تھے، اور اس بات کو وہ ظاھر کرتے تھے اور اس کو برا بھی نھیں سمجھتے تھے، میں (علامہ ذھبیؒ) کھتا ہوں کہ حاکم کا سیدنا علیؓ کے مخالفین سے انحراف تو ظاھر ھے، لیکن شیخین (ابوبکر ؓو عمرؓ) کی ھر حال میں تعظیم کرتے تھے اور وہ شیعہ تھے۔

تو امام حاکم تو ویسے بھی معاویہؓ کے مخالفین میں سے تھے تو معاویہؓ کے خلاف ان کےقول کی اہمیت نھیں۔

جیسے آج کل کے مخالفین معاویہؓ کے قول کی معاویہؓ کے خلاف کوئی اہمیت نہیں۔

------

[سیدنا معاویہؓ کے فضائل میں جھوٹی روایات گھڑی گئی ہیں]

منکرین فضائل معاویہ کی طرف سے یہ اعتراض بھی ھوتا ھے، جیساکہ سیف الاسلام جھنگوی رافضی نے لکھا کہ

ابن تیمیہ اپنی کتاب منہاج السنہ، میں اقرار کرتا ہے

لوگوں کی ایک جماعت نے معاویہ کے فضائل گھڑے اور اس سلسلے میں رسول اللہ (ص) سے احادیث بیان کردیں جن میں سے سب جھوٹی ہیں۔

اس کےعلاہ اور علماء کے اسی طرح کے حوالاجات بھی پیش کئے جاتے ہیں

الجواب۔۔

یہ اعتراض کم علمی پر مبنی ھے کہ اگر کسی کے فضائل میں جھوٹی روایات گھڑی گئی ہوں تو گویا اس کی شان میں کوئی بھی صحیح روایت نھیں، جو جھوٹی ہیں ان کو جھوٹی کہیں گے اور جو صحیح ہیں ان کو صحیح کہیں گے۔ جھوٹی روایات کی وجہ سے صحیح یا حسن روایات کا انکارکیسے ھوگا؟؟

اگر اس طرح بات سمجھ میں نھیں آ رھی تو سیدنا علیؓ کے فضائل میں بھی جھوٹی روایات گھڑی گئیں ہیں،تو کیا ان کی شان میں صحیح روایات کا انکار کیا جائے گا؟؟

علامہ ابو الحسن کنانی لکھتے ہیں کہ

قَالَ الذَّهَبِيّ فِي تَلْخِيص الموضوعات لم يرو لأحد من الصَّحَابَة فِي الْفَضَائِل أَكثر مِمَّا رُوِيَ لعَلي بن أبي طَالب رَضِي الله عَنهُ وَهِي ثَلَاثَة أَقسَام قسم صِحَاح وَحسان، وَقسم ضِعَاف، وفيهَا كَثْرَة، وَقسم مَوْضُوعَات وَهِي كَثِيرَة إِلَى الْغَايَة۔۔

تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة جلد 1 صفحہ 407


 

امام ذھبیؒ نے تلخیص الموضوعات میں کہا ھے کہ

جتنے فضائل سیدنا علیؓ کے منقول ہیں اتنے کسی اور صحابی کے نھیں، اور وہ تین اقسام کی ہیں

صحیح، حسن اور ضعیف۔۔ ضعیف روایات بہت ہیں۔۔ اور موضوعات تو حد سے زیادہ ہیں۔

ملا علی قاری حنفیؒ لکھتے ہیں کہ

وَأَمَّا مَا وَضَعَهُ الرَّافِضَةُ فِي فَضَائِلِ عَلِيٍّ فَأَكْثَرُ مِنْ أَنْ يُعَدّ

الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة جلد 1 صفحہ 454

یعنی رافضیوں نے سیدنا علیؓ کی شان میں جو روایات گھڑی ہیں وہ حد سے زیادہ ہیں۔

 

تو یہ حالت دیکھ کر منکرین فضائل معاویہ کیا سیدنا علیؓ کے فضائل کا بھی انکار کریں گے؟؟

تو قارئین آپ کے سامنے ان اعتراضات کی حقیقت واضح کردی گئی ھے،اللہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔


امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب میں یے بھی رقم طراز ہیں:

" قَدْ ثَبَتَ بِالنُّصُوصِ الصَّحِيحَةِ أَنَّ عُثْمَانَ وَعَلِيًّا وَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ وَعَائِشَةَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ. بَلْ قَدْ ثَبَتَ فِي الصَّحِيحِ " أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ بَايَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ " وَأَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ وَعَمْرُو بْنُ العاص وَمُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ هُمْ مِنْ الصَّحَابَةِ وَلَهُمْ فَضَائِلُ وَ مَحَاسِنُ "

(مجموع الفتاوى، ج:4، ص:431)

" البتہ صحیح احادیث و دلائل ثابت ہیں کہ سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر، اور ام المؤمنین عائشہ رضوان اللہ علیھم اجمعین جنتی ہیں، بلکہ یہ بات صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ " جن حضرات نے (صلح حدیبیہ کے دن) درخت کے نیچے بیعت کی، ان میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔" اور سیدنا ابو موسی اشعری، سیدنا عمرو بن عاص اور سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم اجمعین صحابہ میں سے ہیں اور ان کے فضائل اور محاسن (ثابت) ہیں۔"

یعنی خود امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی فضائل معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے قائل و معترف ہیں۔"

 شاملہ کا لنک