Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شہادت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ (قسط چہارم)

  نقیہ کاظمی

شہادتِ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ قسط چہارم:

ان ظالموں نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ایک نہ سنی اور کھانے پینے کی چیزیں روک رکھیں، ام المؤمنین حضرت ام حبیبہؓ کو پتہ چلا کہ انہوں نے سیدنا عثمانؓ کا پانی بند کر دیا ہے تو آپؓ ان کے لیے ایک مشکیزہ میں پانی لے کر آئیں، باغیوں نے ان کے خچر پر تلوار سے حملہ کیا تو خچر بدک کر بھاگنے لگا۔ اس دوران حضرت ام المومنینؓ گرتے گرتے بچیں، پھر آپؓ کو اپنے گھر پہنچا دیا گیا۔ ام المؤمنین سیدہ صفیہؓ نے بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حمایت و نصرت میں کوئی کمی نہ کی آپؓ نے کوشش کی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تک کھانا اور پانی پہنچتا رہے۔
(سیر اعلام النبلاء: جلد، 3 صفحہ، 237)
اس قدر سخت حالات میں بھی حضرت عثمانؓ صبر و تحمل کا پیکر بنے رہے، آپؓ نے ایک بیان میں لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا
️تم اللہ کو گواہ بنا کر بتانا کہ جب مسجد مسلمانوں کے لیے تنگ ہو گئی تھی اور حضورﷺ نے ساتھ والی زمین خریدنے کی ترغیب دی تو میں نے اپنے خالص مال سے وہ جگہ خریدی اور اسے مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا تھا اور آج یہ وقت آ گیا ہے کہ تم مجھے اسی مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے کے لیے بھی جانے سے روک رہے ہو۔
وانتم تمنعونی ان اصلی فیہ رکعتین۔ 
(البدایہ: جلد، 7 صفحہ، 178) 
تم اللہ کو گواہ بن کر بتانا کہ جب حضورﷺ مدینہ تشریف لائے تو مسلمانوں کو میٹھے پانی کی سخت ضرورت تھی حضورﷺ نے بئر رومہ خریدنے کی ترغیب فرمائی تو میں نے اسے بھاری قیمت دے کر مسلمانوں کے لیے خرید لیا اور آج یہ وقت آ گیا ہے کہ تم نے اسی کا پانی میرے لیے روک دیا ہے۔
وانتم تمنعونی ان اشرب منھا۔ (ایضاً) 
آپؓ نے انہی دنوں ایک اور بیان میں فرمایا کہ 
️تم میرے قتل کے درپے کیوں ہو میں نے کسی کو قتل نہیں کیا، نہ کبھی زنا کیا اور نہ میں اسلام سے پھرا ہوں۔
انی اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وان محمدا عبدہ ورسولہ
(البدایہ: جلد، 7 صفحہ، 179) 
آپؓ نے ان سے یہاں تک فرمایا کہ اے لوگو میرے خون سے اپنے ہاتھوں کو نہ رنگنا، خدا کی قسم اگر تم نے ایسا کیا تو تم پھر کبھی اکٹھے نماز نہ پڑھ سکو گے، کبھی دشمنوں کے خلاف اکٹھے ہو کر جہاد نہ کر سکو گے، تم آپس میں مختلف ہو جاؤ گے۔
(طبقات: جلد، 3 صفحہ، 49)
(المصنف لابن ابی شیبہ: جلد، 7 صفحہ، 441)
(البدایہ: جلد، 7 صفحہ، 180)
پھر آپؓ نے قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت فرمائی۔
وَ یٰقَوۡمِ لَا یَجۡرِ مَنَّکُمۡ شِقَاقِیۡۤ اَنۡ یُّصِیۡبَکُمۡ مِّثۡلُ مَاۤ اَصَابَ قَوۡمَ نُوۡحٍ اَوۡ قَوۡمَ ہُوۡدٍ اَوۡ قَوۡمَ صٰلِحٍ ؕ وَ مَا قَوۡمُ لُوۡطٍ مِّنۡکُمۡ بِبَعِیۡدٍ۔
(سورۂ ہود: آیت نمبر، 89)
اور اے میری قوم! میرے ساتھ ضد کا جو معاملہ تم کر رہے ہو، وہ کہیں تمہیں اس انجام تک نہ پہنچا دے کہ تم پر بھی ویسی ہی مصیبت نازل ہو جیسی حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر یا حضرت ہود علیہ السلام کی قوم پر یا حضرت صالح علیہ السلام کی قوم پر نازل ہو چکی ہے۔ اور حضرت لوط علیہ السلام کی قوم تو تم سے کچھ دور بھی نہیں ہے۔
(المصنف لابن ابی شیبہ: جلد، 7 صفحہ، 442)
(ابن سعد: جلد، 3 صفحہ، 52)
(موسوعۃ آثار الصحابہ: جلد، 2 صفحہ، 32) 
آپؓ نے فرمایا کہ کیا تمہیں پتہ نہیں کہ جب میں رسول اللّٰہﷺ کے ساتھ پہاڑ پر کھڑا تھا اور پہاڑ حرکت کرنے لگا تو آپؓ نے فرمایا اے حرا ٹھہر جا تجھ پر ایک نبی ایک صدیق اور ایک شہید کھڑے ہیں۔ کیا تم اس بات سے بے خبر ہو کہ جب حضورﷺ نے مکہ میں مشرکین کے پاس مجھے بھیجا اور میرے قتل کی افواہ پھیلی تو آپﷺ نے بیعت لی تھی اور اپنے دستِ مبارک کو میرا ہاتھ فرما کر بیعت لی تھی.
(ایضاً: صفحہ، 179)
حضرت عثمانؓ انہیں بار بار پوچھ رہے تھے کہ اگر انہوں نے کوئی سنگین جرم کیا ہو کہ جس کے نتیجے میں انہیں قتل کر دیا جائے یا ان سے خلافت چھین لی جائے تو وہ انہیں بتائیں مگر وہ ایک بھی ایسا جرم ثابت نہ کر سکے جس سے وہ اپنا مؤقف درست بتا سکیں آپؓ انہیں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کی جانے والی ان خدمات کو یاد دلاتے رہے جن کی حضورﷺ نے تعریف فرما کر آپؓ کو دعاؤں سے نوازا تھا مگر انہوں نے آپؓ کی ایک نہ سنی کیونکہ وہ سننے کے لیے آئے ہی نہ تھے، ان کا مقصد سوائے اس کے کچھ اور نہ تھا کہ اسلامی خلافت کا تختہ الٹ جائے اور مسلمانوں کو اندرونی خلفشار اور انتشار میں مبتلا کر دیا جائے تا کہ وہ دشمنوں کے بارے میں بالکل غافل ہو جائیں۔
جیسا کہ ہم بتا آئے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک بڑی تعداد حج کے لیے جا چکی تھی اگر انہیں یہ بات معلوم ہو جاتی کہ مصر، کوفہ، بصرہ اور دیگر جگہوں سے جو لوگ حج کے نام پر آ رہے ہیں اور ایک جگہ آہستہ آہستہ جمع ہو رہے ہیں وہ صرف ایک دھوکہ ہے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بڑی تعداد کبھی مکہ مکرمہ نہ جاتی، اسی طرح اگر مدینہ والوں پر یہ بات کھل جاتی کہ یہ لوگ حضرت عثمانؓ کے عمال کے ظلم کے نام پر درحقیقت سیدٹ عثمان رضی اللہ عنہ اور آپؓ کی خلافت کا خاتمہ چاہتے ہیں تو وہ بھی پہلے ہی مرحلہ پر ان کا راستہ روک دیتے، یہ حضرات اس گمان میں رہ گئے کہ بات اتنی دور تک نہ جائے گی۔ انہیں پتہ نہ چلا کہ یہ لوگ حضرت عثمانؓ کے خلاف انتہائی ظالمانہ قدم اٹھانے سے بھی نہ چوکیں گے۔
ابنِ عباس مخزومی کے مولیٰ ابو جعفر القاری کہتے ہیں:
وکان اصحاب النبیﷺ الذین خذلوہ کرھوا الفتنۃ وظنوا ان الامر لا یبلغ قتلہ فندموا علی صنعوا فی امره ولعمری ولو قاموا او قام بعضھم فحثا وجہہم التراب لانصرفوا خاسرین۔
(طبقات: جلد، 3 صفحہ، 53)
( تاریخ دمشق: جلد، 16 صفحہ، 210) 
حضورﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین محض فتنہ کے اندیشہ کے پیشِ نظر آگے نہ بڑھے اور ان کا گمان تھا کہ معاملہ اس انتہاء تک نہ پہنچے گا پس بعد میں جو کچھ ہوا انہیں اپنے اس کردار پر ندامت ہوئی بخدا اگر یہ لوگ اٹھ کھڑے ہوتے یا ان میں سے کچھ ہی کھڑے ہو جاتے اور ان کے منہ پر مٹی ہی پھینک دیتے تو وہ ناکام ہو کر لوٹ جاتے۔
حضرت علیؓ نے جب حالات کی سنگینی بڑھتی دیکھی تو آپؓ نے اپنے دونوں صاحبزادوں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو سیدنا عثمانؓ کے دروازے پر کھڑا ہونے کا حکم دیا اور فرمایا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کرنا اور کسی بھی باغی کو آپؓ تک پہنچنے نہ دینا، سیدنا طلحہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہما نے بھی اپنے جوان بچوں کو آپؓ کی حفاظت پر مامور کر دیا یہ نوجوان حضرت عثمانؓ کے دروازے پر کھڑے ہو گئے تا کہ باغی اندر جانے میں کامیاب نہ ہوں۔
آپؓ کا عقیدہ تھا کہ اس موقع پر سیدنا عثمانؓ کی نصرت اور ان کی حفاظت نہ کرنا گناہ ہے، آپؓ خود فرماتے ہیں
واللہ قد دفعت عنہ قد خشیت ان اکون آثما۔
(نہج البلاغہ: جلد، 2 صفحہ، 261) 
خدا کی قسم میں نے حضرت عثمانؓ کی طرف سے پورا دفاع کیا یہاں تک کہ مجھے خوف ہوا کہ کہیں میں گنہگار نہ ٹھہروں.
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے آس پاس جو حضرات موجود تھے یا جو لوگ کسی نہ کسی طریقے سے آپؓ کے پاس آ سکتے تھے انہوں نے حالات کی سنگینی دیکھ کر سیدنا عثمانؓ سے عرض کیا کہ اگر آپؓ ہمیں اجازت دیں تو ہم ان لوگوں سے قتال کریں اور انہیں ان کی اس حرکت کا سختی سے جواب دیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں اس کی اجازت نہ دی اور نہایت سختی سے ان سب کو ہاتھ اٹھانے سے روک دیا، حضرت علیؓ نے پیغام بھیجا کہ میرے ساتھ پانچ سو کے قریب زرہ پوش لوگ موجود ہیں اگر آپؓ اجازت دیں تو انہیں آپؓ کے دفاع کے لیے بھیج دیا جائے اس لیے کہ آپؓ نے کوئی ایسا جرم نہیں کیا جس کی بناء پر آپؓ کا خون کرنا حلال ٹھہرے، آپؓ نے حضرت علیؓ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ آپؓ کو اس کی جزا دے میں پسند نہیں کرتا کہ میری وجہ سے یہاں خون خرابہ ہو۔
فانک لم تحدث شیئا یستحل بہ دمک فقال جزیت خیرا ما احب ان یھراق دم فی سببی۔
(تاریخ دمشق: جلد، 16 صفحہ، 220)
اب یہاں تک کہ اس جھوٹ کو بھی دیکھیں جو شیعہ علماء دن رات بولتے ہیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت پر خوش ہوتے ہوئے نہیں شرماتے.
ہندوستان کے علاقہ اودھ کے ایک رافضی ملا حسین بخش کا بغضِ باطنی ملاحظہ کیجئے وہ لکھتا ہے۔
قتلِ عثمانؓ قطعی کوئی جرم نہیں تھا بلکہ یہ تو اسلامی معاشرے کے اعلیٰ مقاصد کے عین مطابق تھا اور خود حضرت علیؓ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دفاع کے لیے راضی نہ تھے۔
(امامت و ملوکیت: صفحہ، 123) 
یہ جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا سیدنا علیؓ نے سیدنا عثمانؓ کو دفاع کی پیشکش نہیں کی؟ آپؓ نے اپنے بچوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کے لیے نہیں بھیجا؟ کیا سیدنا حسن رضی اللہ عنہ حضرت عثمانؓ کی مدافعت کرنے میں زخمی نہیں ہوئے تھے؟ ان سب کے باوجود بھی اگر ملا حسین بخش اور اس قبیل کے لوگ جھوٹ پر جھوٹ بولتے رہیں تو پھر اس یقین سے چارہ نہیں کہ یہ لوگ واقعی ابنِ سبا کی روحانی اولاد ہیں۔ 
جلیل القدر صحابی حضرت زیدؓ بن ثابت حضرت عثمانؓ کے پاس آئے اور کہا کہ بہت سے لوگ آپؓ کے پاس آنا چاہتے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر آپؓ چاہیں تو ہم اللہ کے لیے آپؓ کی مدد کرنے کی تیاری کر رہے ہیں ہم اللہ کی فوج بن جائیں اور انہیں ان کے بھولے ہوئے دن پھر سے یاد دلا دیں اور ان کی شرارتوں کا مزہ انہیں چکھا دیں، آپؓ ہمیں اس کی اجازت دیں آپؓ نے فرمایا کہ نہیں میں تمہیں قتال کی اجازت نہیں دیتا۔
ان شئت کنا انصار اللہ مرتین قال فقال عثمانؓ اما القتال فلا۔
(طبقات ابن سعد: جلد، 3 صفحہ، 51) 
آپؓ سے جن لوگوں نے بھی قتال کی اجازت مانگی اور کہا کہ انہیں مقابلہ کی اجازت دیں تو آپؓ نے انہیں منع کر دیا اور فرمایا کہ میرے دفاع کی ضرورت نہیں اور تم اپنے ہاتھوں اور ہتھیاروں کو روکے رکھو۔ سیدنا عامر بن ربیعہؓ کہتے ہیں۔
ان اعظمکم عنی غناء رجل کف یدہ و سلاحہ۔
(المصنف لابن ابی شیبہ: جلد، 7 صفحہ، 442)
(سنن سعید بن منصور: جلد، 2 صفحہ، 336)
میرا سب سے بڑا مددگار وہ ہے جو میرے دفاع میں ہاتھ اور تلوار نہ اٹھائے۔
آپؓ کے غلام آپؓ کی حمایت میں آگے بڑھنے اور آپؓ پر جان نچھاور کرنے کے لیے تیار تھے، صرف انہیں آپؓ کے حکم کا انتظار تھا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جب انہیں دیکھا تو ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جو شخص بھی اپنے ہاتھوں کو روک رکھے وہ آزاد ہے۔
من کف یدہ فھو حر۔
(منہاج السنہ: جلد، 6 صفحہ، 286) 
حضرت عبداللہ بن عامرؓ کہتے ہیں کہ میں اس وقت حضرت عثمانؓ کے ساتھ ان کے گھر میں موجود تھا آپؓ نے فرمایا کہ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے میری بات سننا اور ماننا ضروری ہے اسے لازم ہے کہ وہ اپنے ہاتھ اور ہتھیار کو لڑائی سے روکے رکھے۔ 
اعزم علی کل من رأی ان علیہ سمعا وطاعۃ الا کف یدہ و سلاحہ
(العواصم من القواصم: صفحہ، 138) 
حضرت حسنؓ نے آپؓ سے کہا کہ امیر المؤمنینؓ میں سیدنا حسن بن علیؓ ہوں آپؓ امام برحق ہیں آپؓ مجھے حکم دیں تو میں اس بلوہ کا راستہ روکوں
تو امام برحق مرا فرمان دہ تابلائے ایں از قوم تو دفع کنم
(کشف المحجوب: صفحہ، 52)
آپؓ نے فرمایا بھتیجے بیٹھ جائیے اور انتظار کیجئے کہ اللہ کیا فیصلہ فرماتے ہیں میرے لیے اب اس دنیا میں کوئی دلچسپی نہیں ہے یا فرمایا کہ میرے لیے جنگ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
اجلس یا ابن اخی حتیٰ یاتی اللّٰہ بامرہ فانہ لا حاجۃ لی فی الدنیا او قال فی القتال۔
(المصنف لعبد الرزاق: جلد، 11 صفحہ، 447)
حافظ ابنِ کثیرؒ لکھتے ہیں۔
و معہ السیف متقلدا بہ یحاجف عن عثمانؓ فخشی عثمانؓ علیہ لیرجعن الی منازلھم تطییبا لقب علیؓ وخوفا علیہ۔
(البدایہ: جلد، 8 صفحہ، 37)
فیھم عبداللہ بن عمر و فیھم الحسن بن علی فی عنقہ السیف ولکن عثمانؓ عزم علیہم الا یقاتلوا۔
(تاریخ دمشق: جلد، 16 صفحہ، 219) 
حضرت حسن رضی اللہ عنہ گلے میں تلوار ڈالے آپؓ کی مدافعت کے لیے تیار تھے سیدنا عثمانؓ کو اس بات کا ڈر ہوا کہ کہیں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو کوئی نقصان نہ پہنچے، آپؓ نے سیدنا حسنؓ کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر جائیں یہ بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دلجوئی کے لیے بھی تھی اور اس لیے بھی کہ حضرت حسنؓ کو گزند نہ پہنچے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ حضورﷺ کو مدینہ سے بڑی محبت تھی، یہ آپﷺ کا دار الہجرت ہے اور حضورﷺ یہاں آرام فرما ہیں۔ اب اگر آپؓ اپنے ساتھیوں کو بھی قتال کی اجازت دیں گے تو نتیجہ مسلمانوں کے خون کے ساتھ ساتھ مدینہ منورہ کی بے حرمتی کی صورت میں ہو گا اور آپؓ یہ برداشت نہ کر سکتے تھے کہ مدینہ کی حرمت کسی طرح بھی پامال ہو۔
جب سیدنا ابوھریرہؓ سیدنا عثمانؓ کی حمایت میں تلوار لٹکائے نکلنے لگے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں روکا اور فرمایا آپؓ اپنی تلوار پھینک دو میں تمہارے ہاتھوں کسی کا خون ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا، کیا تو چاہتا ہے کہ تو ہم سب کو قتل کر دے؟ اگر تو نے ایسا کیا تو یہ ایک آدمی کا قتل نہ ہو گا بلکہ پوری انسانیت کا قتل ہو گا.
فانک واللہ ان قتلت رجلا واحدا فکانما قتل الناس جمیعا قال فرجعت ولم اقاتل۔
(دیکھئے طبقات ابنِ سعد: جلد، 3 صفحہ، 51) 
فقال واللہ لئن قتلت رجلا واحدا فکانما قتل الناس جمیعا فرجعت ولم اقاتل۔
(سنن سعید بن منصور: جلد، 2 صفحہ، 334) 
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ابو سھلہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عثمانؓ سے کہا 
اے امیر المؤمنینؓ ان سے لڑئیے. حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ نہیں میں ان سے نہیں لڑوں گا، حضورﷺ نے مجھ سے ایک بات کا وعدہ لیا ہے اور میں اس وعدے پر قائم ہوں۔ 
وعدنی رسول اللہﷺ امرا فانا صائر الیہ۔ 
(اسد الغابہ: جلد، 3 صفحہ، 551)
(سنن ابنِ ماجہ: صفحہ، 11) 
چونکہ حضورﷺ نے مجھے صبر کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور میں نے آپﷺ سے اس بارے میں وعدہ کیا ہے سو میں اپنے وعدہ پر قائم ہوں، کوئی شخص بھی میرے لیے اپنی تلوار نہ اٹھائے۔ پھر آپؓ نے ہر اس شخص کو روک دیا جو آپؓ کی طرف سے ان باغیوں کا مقابلہ کرنا چاہتا تھا۔
انہی دنوں حضرت مغیرہ بن شعبہؓ آپؓ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ آپؓ عوام کے امام ہیں اور آپؓ جس حال سے دو چار ہیں وہ بھی آپؓ سے مخفی نہیں اس وقت تین باتوں میں سے کوئی ایک بات اختیار کر لیں۔
1: آپؓ باہر نکلیں اور ان کا مقابلہ کریں ہم آپؓ کے ساتھ ہیں آپؓ حق پر ہیں آپؓ کی حمایت میں لوگ کھڑے ہیں۔ 
2: آپؓ کے لیے پیچھے سے دروازہ کھولتے ہیں آپؓ وہاں سے نکل جائیں اور مکہ مکرمہ چلے جائیں وہاں کوئی شخص آپؓ کے خون سے ہاتھ رنگنے کی ہمت نہ کرے گا۔ 
3: ملک شام چلے جائیں وہاں حضرت معاویہؓ موجود ہیں، وہاں یہ لوگ کسی طرح آپؓ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے.
آپؓ نے اس کے جواب میں فرمایا:
اما ان اخرج فاقاتل فلن اکون اول من خلف رسول اللّٰہﷺ فی امتہ بسفک الدماء واما ان اخرج الی مکۃ فانہم لن یستحلونی بہا فانی سمعت رسول اللّٰہﷺ یقول یلحد رجل من قریش بمکۃ یکون علیہ نصف عذاب العالم فلن اکون ایاہ وانا ان الحق بالشام فانھم اہل الشام و فیھم معاویۃ فلم افارق دار ھجرتی ومجاورۃ رسول اللہﷺ۔
(مسند احمد: جلد، 1 صفحہ، 108)
(تاریخ دمشق: جلد، 16 صفحہ، 217)
(ریاض: صفحہ، 69) 
یہ نہیں ہو سکتا کہ میں حضورﷺ کا خلیفہ ہو کر امت مسلمہ کو خون ریزی میں جھونک دوں۔ اور مکہ مکرمہ اس لیے نہیں جا سکتا کہ حضورﷺ سے میں نے سنا ہے کہ جو قریشی حرم مکہ میں خون خرابہ کرے گا اور ظلم کرانے کا باعث بنے گا اس پر آدھی دنیا کے باشندوں کا عذاب ہو گا جہاں تک شام جانے کا تعلق ہے تو یہ اس لیے نہیں ہو سکتا کہ میں دار الہجرت اور حضورﷺ کی مجاورت اور ہمسائیگی نہیں چھوڑ سکتا۔