شہادت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ (قسط پنچم)
نقیہ کاظمیشہادتِ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ قسط پنجم
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنے گھر میں قید ہوئے تقریباً چالیس دن ہو رہے تھے آپؓ کے لیے پانی بند کر دیا گیا آپؓ کو مسجد نبویﷺ میں جانے سے روک دیا گیا آپؓ یہ سب کچھ صبر کے ساتھ برداشت کر رہے تھے مگر باغیوں کا مطالبہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے اور مانتے بھی کیسے حضورﷺ نے آپؓ کو سختی سے منع کر دیا تھا اور فرمایا تھا کہ تم کبھی خلافت سے دستبردار نہ ہونا خواہ کچھ ہو جائے۔
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا عثمانؓ کے پاس آیا آپؓ کو سلام کیا تو آپؓ نے فرمایا کہ رات میں نے حضورﷺ کو خواب میں دیکھا آپﷺ نے فرمایا کہ تمہیں محصور (بند) کیا ہے میں نے کہا ہاں آپﷺ نے فرمایا ان لوگوں نے تمہیں پیاسا رکھا ہے میں نے کہا جی ہاں پس آپﷺ نے ایک ڈول لٹکایا جس میں پانی تھا میں نے وہ پیا یہاں تک کہ میں سیر ہو گیا اور میں اب بھی اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک پاتا ہوں آپﷺ نے فرمایا اگر تو چاہے کہ دشمنوں پر تجھے فتح ملے اور اگر تو چاہے کہ ہمارے ساتھ افطار کر لے۔ سو میں نے ان دونوں میں سے آپﷺ کے ساتھ افطار کرنا چن لیا۔ سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسی دن آپؓ شہید کر دیئے گئے۔
(البدایہ: جلد، 7 صفحہ، 182)
سو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اس بات کا اشارہ مل چکا تھا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہیں گے بہت جلد اپنے رب کے حضور پہنچنے والے ہیں آپؓ کی اہلیہ سیدہ نائلہؓ کہتی ہیں کہ شہادت سے ایک روز قبل آپؓ کمزوری کی وجہ سے غنودگی میں تھے جب ہوش میں آئے تو آپؓ نے فرمایا کہ ایسا لگتا ہے کہ میری قوم مجھے قتل کر دے گی سیدہ نائلہ رضی اللہ عنہا نے کہا امیر المؤمنین ایسا نہیں ہو گا۔ آپؓ نے فرمایا
رایت رسول اللّٰہﷺ و ابابکر وعمر فقالوا افطر عندنا اللیلۃ او قالوا انک تفطر عندنا اللیلۃ۔
(طبقات: جلد، 3 صفحہ، 55)
(مستدرک: جلد، 3 صفحہ، 110)
(سنن سعید بن منصور: جلد، 2 صفحہ، 337)
میں نے خواب میں حضورﷺ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا اور وہ سب کہہ رہے تھے کہ آج تم ہمارے ساتھ روزہ افطار کرنا یا کہا تم آج شام ہمارے ساتھ افطار کرو گے۔
یعلی بن حکیم اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیدنا عثمانؓ اس دن روزہ سے تھے اور اسی شام شہید کر دیے گئے۔
فاصبح صائما وقتل فی ذالک الیوم رحمہ اللہ (ایضاً)
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ خواب دیکھ کر اندازہ کر لیا تھا کہ وہ وقت شہادت آن پہنچا ہے جس کی پیشگوئی حضورﷺ دے کر گئے ہیں آپؓ نے خادم سے فرمایا کہ میرا پاجامہ لے آؤ آپؓ نے کبھی پاجامہ نہیں پہنا تھا مگر اس دن آپؓ نے پہنا
دعا بسراویل فشدھا علیہ یلبسھا فی جاھلیۃ ولا اسلام
( مسند احمد جلد1 صفحہ116)
(تاریخ دمشق جلد16 صفحہ218)
(ریاض: جلد، 3 صفحہ، 67)
ہمارے نزدیک اس کا سبب شدت حیاء تھا آپؓ کو خطرہ ہوا کہ اگر باغی میرے ساتھ ظلم و زیادتی کا ارتکاب کریں تو اس کے نتیجے میں کہیں میرا ستر نہ کھل جائے نیز اگر میں شہید بھی کر دیا جاؤں تو بھی میرے ستر کی حفاظت رہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپؓ کس قدر حیاء والے تھے آپؓ کی شدت حیاء پر تو پیغمبرﷺ کی گواہی بھی موجود ہے۔
باغی اس بات پر پکے تھے کہ سیدنا عثمانؓ خلافت چھوڑ کر نکل جائیں آپؓ ان کا ہر مطالبہ تسلیم کرنے کے لیے تیار تھے مگر آپؓ نے صاف کہہ دیا تھا کہ ترکِ خلافت کا مطالبہ کسی صورت منظور نہیں سو باغیوں کا پیمانہ ظلم اب لبریز ہو چکا تھا وہ معاملہ کو اب اپنے اس آخری انجام تک لے جانا چاہتے تھے جس کا وہ پہلے سے پلان بنا چکے تھے اور انہیں یہ خدشہ بھی لاحق تھا کہ کہیں دوسرے علاقوں سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی حمایت میں لوگ نہ نکل آئیں اور حاجی حج سے واپس نہ آجائیں وہ آپس میں کہنے لگے کہ اس معاملہ کو جلدی مٹاؤ۔
نعاجلہ قبل ان تقدم الامداد
(طبقات: جلد، 3 صفحہ، 53)
قبل اس کے کہ آپؓ کے پاس باہر سے کوئی مدد پہنچے جلدی کرو چنانچہ انہوں نے آپؓ پر تیر برسانے شروع کیے ان میں سے سیدنا حسن بن علیؓ کو بھی ایک تیر لگا اور وہ زخمی ہو کر گر پڑے مگر آپؓ اپنی جگہ سے نہ ہٹے کنانہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو زخمی حالت میں اٹھا کر ان کے گھر پہنچایا۔
(تاریخ دمشق: جلد، 16 صفحہ، 219)
حضرت محمد بن طلحہؓ بھی زخمی ہوئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے غلام قنبر کے سر پر بھی ایک تیر لگا باغیوں کو جب حضرت حسن بن علیؓ علی کے زخمی ہونے کی خبر ملی تو وہ چونک پڑے اور کہا کہ سیدنا حسنؓ کے زخمی ہونے میں اگر بنو ہاشم ہم سے بگڑ بیٹھے تو ہمارا سارا منصوبہ خاک میں مل جائے گا قبل اس کے کہ یہ بات ان تک پہنچے کوشش کرو کہ کسی جانب سے دیوار پھاند یا کسی پڑوسی کے مکان سے نقب لگا کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں داخل ہو جاؤ اور جتنی جلدی ہو سکے ان کا کام تمام کر دو چنانچہ یہ لوگ کسی نہ کسی طرح اندر داخل ہو گئے۔ کسی کو اس کی خبر نہ ہو سکی کیونکہ سیدنا عثمانؓ کے محافظین بالا خانے پر تھے۔
(تاریخ الخلفاء: صفحہ، 165)
ابنِ تیمیہؒ نے ان لوگوں کو مفسد اور اللہ کی مخلوق میں بد ترین بتایا ہے۔
(منہاج السنہ: جلد، 2 صفحہ، 186)
(فتاویٰ: جلد، 3 صفحہ، 411)
اور کہا ہے کہ یہ لوگ فتنہ پرور اوباش تھے۔
وانما قتلہ طائفۃ من المفسدین فی الارض من اوباش القبائل واھل الفتن۔
(منہاج: جلد، 4 صفحہ، 323) حضرت امام ذہبیؒ انہیں ظالم سرکش شریر بتاتے ہیں۔
(المنتقی: صفحہ، 225)
علامہ عبدالحی ابن العلماء حنبلیؒ نے انہیں پرلے درجے کا اوباش گروہ بتایا ہے۔
ارذال من اوباش القبائل فقتلوہ۔
(شذرات الذہب: جلد، 1 صفحہ، 40)
مولانا قاسم نانوتویؒ نے انہیں لوگوں کو اوباش کوفہ بد معاشانِ مصر اور منافقانِ امت لکھا ہے۔
(ہدیۃالشیعہ: صفحہ، 210)
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ مقامِ شہادت پر:
حضرت عثمانؓ اپنے گھر کے ایک حصہ میں تھے آپؓ کی اہلیہ آپؓ کے ہمراہ تھی باغی گروہ بڑی ہوشیاری سے آپؓ کے گھر داخل ہو گیا اور پھر گھر کے دروازہ کو آگ لگا دی جس کی وجہ سے گھر کا ایک حصہ بھی جل گیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر کہا کہ دروازہ اس لیے جلایا گیا ہے کہ اس سے بڑھ کر انہیں کوئی اور اہم کام کرنا مقصود ہے سو اب تم لوگ منتشر ہو جاؤ گے اگر میں تم سے دور رہوں گا تو بھی یہ لوگ مجھے قتل کر دیں گے میں حضورﷺ کے اس ارشاد پر سر تسلیم خم کر کے صبر کروں گا۔
(طبری: جلد، 3 صفحہ، 390)
سیدنا حسان بن ثابتؓ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا دروازہ جلایا گیا تھا آپؓ کہتے ہیں۔
آج ابنِ اروی یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا گھر تباہ ہو گیا ہے اس کا ایک دروازہ گرا ہوا ہے اور دوسرا جل کر ویران ہو گیا ہے یہ وہ گھر تھا جہاں حاجت مند لوگ آتے اور وہ ان کی حاجت روائی کرتا تھا اور اس گھر میں ذکر الہٰی اور شرافت کے کاموں کا ہی چرچا تھا۔
(طبری: جلد، 3 صفحہ، 427)
آپؓ کے گھر میں داخل ہونے والوں میں حضرت محمد بن ابی بکرؓ اور ان کے کچھ ساتھی تھے سیدنا محمد ابی بکر رضی اللہ عنہ جب آپؓ کے کمرہ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ سیدہ نائلہؓ کے ساتھ ہیں اور قرآن کریم آپؓ کی گود میں رکھا ہوا ہے آپؓ اس کی تلاوت فرما رہے ہیں حضرت محمد بن ابی بکرؓ نے آگے بڑھ کر حضرت عثمانؓ کی داڑھی پکڑی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا کہ اللہ کی قسم اگر تمہارے والد تمہیں یہ کام کرتے دیکھتے تو انہیں بہت دکھ ہوتا یہ سنتے ہی سیدنا محمد بن ابی بکرؓ نے آپؓ کی داڑھی چھوڑ دی اور گھر سے نکل گیا۔
علامہ ابن کثیرؒ کا بیان ہے کہ حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ وہاں سے باہر چلا گیا اور جو لوگ آپؓ کو شہید کرنا چاہتے تھے ان سے بات چیت کی اور انہیں اس سے روکنے کی کوشش کی مگر انہوں نے سیدنا محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی بات نہ مانی اور وہ اندر داخل ہو گئے
(البدایہ: جلد، 7 صفحہ، 184)
اور آپؓ پر حملہ کر کے شہید کر دیا پھر وہ لوگ جس راستے سے آئے تھے اسی راستے سے نکل کر فرار ہو گئے
(تاریخ: صفحہ، 165)
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے بھی ان لوگوں کو روکنے کی کوشش کی اور ان سے کہا کہ اے لوگو! اپنے اوپر اللہ کی تلوار نہ نکالو خدا کی قسم اگر تم اس تلوار کو نیام سے نکالو گے تو دوبارہ اس تلوار کو نیام کے اندر نہیں رکھ سکو گے تم پر افسوس ہے کہ تمہارا مدینہ فرشتوں کی حفاظت پر ہے اگر آج تم نے انہیں قتل کر دیا تو وہ فرشتے اس شہر کو چھوڑ کر چلے جائیں گے۔
(طبری: جلد، 3 صفحہ، 399)
آپؓ نے ان سے یہ بھی کہا کہ خدا کے لیے سیدنا عثمانؓ پر ہاتھ نہ اٹھاؤ یہ دنیا میں زیادہ نہیں جئیں گے خدا کی قسم اگر تم نے آپؓ کو شہید کر دیا تو پھر تم کبھی اکٹھے نماز نہ پڑھ سکو گے۔
(المصنف لابن ابی شیبہ: جلد، 7 صفحہ، 515)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی شہادت کے وقت تلاوت قرآن مجید میں مصروف تھے جب قاتلوں نے آپؓ کے سر پر لوہے کی لاٹ ماری تو آپؓ کی زبان سے (بسم اللہ توکلت علی اللہ) بے ساختہ نکلا اور خون آپؓ کے سر سے بہہ کر آپؓ کی داڑھی کو تر کر رہا تھا قرآن آپؓ کی گود میں تھا آپؓ نے بائیں جانب سہارا لیا اور آپؓ کی زبان پر (سبحان اللہ العظیم) کے الفاظ جاری تھے اور آپؓ کے خون کا قطرہ سامنے رکھے ہوئے قرآن کریم پر آ گرا اور قرآن کریم کی آیت (فسیکفیکھم اللہ وھو السمیع العلیم) آپؓ کے خون سے سرخ ہو گئی۔
قال عثمانؓ بسم اللہ توکلت علی اللہ واذا الدم یسیل علی اللحیۃ یقطر و المصحف بین یدیہ فاتکا علی شقہ الایسر وھو یقول سبحان اللّٰہ العظیم وھو فی ذالک یقرء المصحف و الدم یسیل علی المصحف حتی وقف الدم عند قولہ تعالیٰ فسیکفیکھم اللّٰہ وھو السمیع العلیم۔
(طبقات: جلد، 3 صفحہ، 54)
سیدنا عبداللہ بن سعیدؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا وہ مصحف جس پر آپؓ کا خون گرا تھا دیکھا تھا۔
رأیت مصحف عثمانؓ ونضح الدماء فی علی اشیاء من الوعد و الوعید فکان ذالک عند الناس من الآیات
(تاریخ دمشق: جلد، 16 صفحہ، 227)
سیدہ نائلہ رضی اللہ عنہا نے جب اپنے شوہر امیر المؤمنینؓ کو اس طرح خون میں لت پت دیکھا تو چیخ پڑیں اور آگے بڑھ کر آپؓ کو بچانا چاہا تو ظالموں نے آپؓ کے ہاتھ پر تلوار ماری جس سے ان کی انگلیاں بھی کٹ گئیں تھیں مگر ظالموں نے اس کی پرواہ کیے بغیر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے سینے پر برچھا مارا اور پھر تلوار کی نوک آپؓ کے پیٹ میں اتار دی عون بن کنانہ نے آپؓ کے قاتلوں میں کنانہ بن بشر سودان بن حمران کا نام لیا ہے اور کہا کہ انہوں نے آپؓ کو نیزے سے نو ضربیں ماری تھیں فطعنہ تسع طعنات۔
(البدایہ: جلد، 7 صفحہ، 175)
اور اس طرح آپؓ کو شہید کر دیا گیا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
آپؓ زندگی کی آخری سانسوں میں بھی حضورﷺ کی امت کے درمیان اتحاد کی دعا کرتے رہے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا عثمانِ غنیؓ خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے اور ان کی زبان پر اللہ کے حضور یہ دعا تھی اللھم اجمع امۃ محمدﷺ
(ریاض: جلد، 3 صفحہ، 73)
ترجمہ: اے اللہ حضورﷺ کی امت کو آپس میں جوڑے رکھنا۔
سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم اگر آپؓ اس وقت یہ دعا فرماتے کہ یہ لوگ کبھی متحد نہ ہوں تو پھر قیامت تک ان میں کبھی اتفاق نہ ہوتا۔
(ریاض: جلد، 3 صفحہ، 73)
ابنِ تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ سیدنا عثمانؓ نے باوجود ی کہ آپؓ امیر سلطنت تھے آپؓ کے پاس فوج کی کمی نہ تھی پھر بھی آپؓ نے ان کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا نہ اپنے بچاؤ کی کوشش کی آپؓ صبر کا پیکر بنے رہے اور شہید کر دیے گئے۔
فلا ریب ان عثمان ان تولی ثنتی عشرۃ سنۃ ثم قصد الخارجون علیہ قتلہ و حصروہ وھو خلیفۃ الارض و المسلمون کلھم رعیۃ وھو مع ھذا کم یقتل مسلما ولا دفع عن نفسہ بقتال بل صبر حتی قتل۔
(منہاج السنہ: جلد، 8 صفحہ، 221)
فعثمان حاصروہ و طلبوا خلعہ من الخلافۃ او قتلہ ولم یزالوا بہ حتی قتلوہ وھو یمنع الناس من مقاتلتھم الی ان قتل شہیدا وما دافع عن نفسہ فھل ھذا الا من اعظم الصبر علی المصائب۔
(ایضاً: صفحہ، 455)
وقاتلوہ قاتلھم اللہ فصبروا کف نفسہ وعبیدہ حتی ذبح صبرا فی دارہ والمصحف بین یدیہ و زوجتہ نائلۃ عندہ۔
(تذکرہ: جلد، 1 صفحہ، 9)
سبائی باغی ٹولے نے آپؓ کو شہید کر دیا اللہ انہیں غارت کرے آپؓ نے صبر کا مظاہرہ کیا اپنے ہاتھ کو روکے رکھا اور اپنے خادموں کو بھی اس سے روک دیا حتیٰ کہ آپؓ کو آپؓ کے گھر میں شہید کر دیا گیا آپؓ اس وقت قرآن کی تلاوت کر رہے تھے آپؓ کی اہلیہ آپؓ کے پاس تھیں۔
شہادت کے بعد قاتلوں میں سے ایک شخص جب آپؓ کے قریب سے گزرا تو دیکھا کہ آپؓ کا سر قرآن پر ہے تو اس بدبخت نے اپنا پاؤں آپؓ کے سر پر مارا اور اسے مصحف سے دور کر دیا اور کہنے لگا کہ میں نے آج تک کسی کافر (معاذ اللہ) کا چہرہ اتنا حسین اور کسی کافر (معاذ اللہ) کے لیٹنے کی جگہ (یعنی قرآن) اتنی باعزت نہیں دیکھا۔
ما رایت کالیوم وجہ کافر احسن ولا مضجع کافر اکرم۔
(البدایہ: جلد، 7 صفحہ، 175)
یہ بدبخت شیعہ سبائی لوگ سیدنا عثمانؓ کو شہید کرنے کے بعد جب فرار ہوئے تو حضرت نائلہ رضی اللہ عنہا نے آواز دی کہ لوگوں امیر المؤمنین کو شہید کر دیا گیا ہے تو قریب کھڑے لوگ آمد کی جانب دوڑے اور گھر آکر دیکھا تو پتا چلا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید کئے جا چکے تھے اور جونہی یہ خبر حضرت علی حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کو پہنچی تو وہ بھی دوڑے دوڑے آئے اور سیدنا عثمانؓ کے جسد خاکی کو دیکھا تو ان کے ہوش اڑ گئے انہیں آپؓ کی شہادت پر بڑا رنج ہوا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وہیں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو سخت ڈانٹا اور کہا کہ
تم دونوں کو میں نے ان کے دروازے پر پہرہ بٹھانے کے لیے بھیجا تھا تمہارے ہوتے ہوئے قاتل کس طرح اپنے کام میں کامیاب ہو گئے پھر آپؓ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو زور سے ایک تھپڑ مارا اور سیدنا حسینؓ کے سینہ پر بھی زور سے ہاتھ مارا آپؓ نے سیدنا طلحہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہما کے بچوں کو بھی ڈانٹا اور وہاں سے انتہائی رنج اور غصہ کے ساتھ واپس نکل آئے۔
(تاریخ الخلفاء: صفحہ، 165)
حضرت عثمانؓ کی شہادت 18 ذوالحج 35 ہجری جمعہ کے روز عصر کے وقت ہوئی۔
(تاریخ: صفحہ، 167)
اس وقت آپؓ کی عمر 82 یا 84 سال کے قریب تھی۔