Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

اگر واقعا معاویہ فقیہ عادل ہوتے حدیث رسول صلی الله عليه وآله وسلم من مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية رواه مسلم، کے تحت فورن مولا علی علیہ السلام کی بیعت کرتے نہ کہ بغاوت کرتے؟

  مولانا علی معاویہ

 السلام علیکم دوستو

سیف الاسلام رافضی کی پوسٹ کا آپریشن چل رہا ہے۔

سیف الاسلام رافضی آگے لکھتا ہے کہ

دوسری بات اگر واقعا معاویہ فقیہ عادل ہوتے حدیث رسول صلی الله عليه وآله وسلم

من مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية رواه مسلم،

کے تحت فورن مولا علی علیہ السلام کی بیعت کرتے نہ کہ بغاوت کرتے؟

الجواب۔

سیدنا معاویہؓ واقعی مجتہد تھے اور وہ اس حدیث کا مطلب سمجھتے تھے، تمھاری طرح جاہل نہیں تھے جو یہ اعتراض کر بیٹھے ہو۔

ان کو پتا تھا کہ یہ حدیث عام لوگوں کے لئے ہے نہ کہ امیر کے لئے، کیونکہ اھل شام نے سیدنا معاویہؓ کو قصاص عثمان لینے پر امیر بنایا ہوا تھا۔

علامہ ذھبیؒ سير أعلام النبلاء جلد 2 صفحہ  523 پر لکھتے ہیں کہ

قال يونس، عن الزهري قال: لما بلغ معاوية قتل طلحة والزبير، وَظُهُوْرُ عَلِيٍّ، دَعَا أَهْلَ الشَّامِ لِلْقِتَالِ مَعَهُ عَلَى الشُّوْرَى وَالطَّلَبِ بِدَمِ عُثْمَانَ، فَبَايَعُوْهُ عَلَى ذلك أميرا غير خليفة.

جب معاویہؓ کو طلحہؓ اور زبیرؓ کی شہادت اور سیدنا علیؓ کی فتح کی خبر پہنچی تو انہوں نے شام والوں کو شوری کے مطابق جنگ کے لئے اور قصاص عثمان کے لئے بلایا، لوگوں نے ان کی امیر کی حیثیت سے بیعت کی نہ کہ خلیفہ کی حیثیت سے۔

تو سیدنا معاویہؓ خود امیر تھے وہ کسی دوسرے کی بیعت کیوں کرتے؟؟ پہر تو کوئی یہ حدیث سیدنا علیؓ پر بھی فٹ کرسکتا ہے کہ سیدنا علیؓ نے اس حدیث پر عمل کیوں نہ کیا؟؟

تو جاھلانہ اعتراض ہے یہ۔

 

آگے سیف الاسلام جھنگوی  لکھتا ھے کہ

تیسری بات اگر حقیقتاً معاویہ فقیہ ہوتے تو عمار یاسر کو قتل کرنے کے بعد اس طرح نہ کہتے اس کو ہم نے قتل نہیں کیا بلکہ حضرت علی نے قتل کیا ہے

الجواب۔

۱، یہ کوئی فقہی مسئلہ نہیں ایک واقعہ ہے، واقعات میں اجتہاد کا کیا واسطہ؟

اگر یہ بات ہے تو مجھے بتاؤ سیدنا موسیؑ نے اپنی بھائی ھارونؑ کو قصوروار سمجھ کر ان کی داڑھی مبارک اور سر کے بال پکڑے، لیکن حقیقت میں ایسا نہ تھا جیسا کہ موسیؑ نے سمجھا تھا، تو کیا موسی ؑ کی عصمت پر بھی اعتراض کروگے؟؟

۲، دوسری بات یہ کہ سیدنا علیؓ کے لشکر میں قاتلین عثمان جیسے مجرم موجود تھے، جب وہ عثمانؓ کو شہید کرسکتے تھے تو سیدنا عمارؓ کو شہید کرنا ان کے لئے کیا مسئلہ تھا؟

یہاں تک کہ وہ سیدنا علیؓ کو بھی شہید کرنے کی بات کررہے تھے

تاريخ الطبري جلد 4 صفحہ 493 اور الكامل في التاريخ جلد 2 صفحہ  593 پر روایت ہے کہ

فَقَالَ الأَشْتَرُ: أَمَّا طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ فَقَدْ عَرَفْنَا أَمْرَهُمَا، وَأَمَّا عَلِيٌّ فَلَمْ نَعْرِفْ أَمْرَهُ حَتَّى كَانَ الْيَوْمُ، وَرَأْيُ النَّاسِ فِينَا وَاللَّهُ وَاحِدٌ، وَإِنْ يَصْطَلِحُوا وَعَلِيٌّ فَعَلَى دِمَائِنَا، فَهَلُمُّوا فَلْنَتَوَاثَبَ عَلَى عَلِيٍّ فَنُلْحِقَهُ بِعُثْمَانَ، فَتَعُودَ فِتْنَةً يُرْضَى مِنَّا فِيهَا بِالسُّكُون

طبری کا لنک

کامل کا لنک

ترجمہ۔۔ مالک اشتر نے کہا کہ طلحہؓ او زبیرؓ کی ارادوں سے تو ہم واقف ہیں لیکن علیؓ کے ارادوں سے ابھی تک ہم واقف نہیں ہوسکے، اور لوگوں کی رائے ہمارے بارے میں ایک ہی ہے ، اگر علیؓ، طلحہ ؓ اور زبیرؓ نے آپس میں صلح کر لی تو ہم کو قتل کردیں گے۔ آؤ ہم علیؓ پر حملہ کرکے اس کو عثمانؓ کے پاس پہنچا دیں ، اس سے ہماری مرضی کی مطابق ایک نیا فتنہ اٹھ جائے گا اور ہم سکون میں آجائیں گے۔

یہ تھا سیدنا علیؓ کے لشکر کے ایک کمانڈر کا حال ، ایسے لوگوں کی موجودگی میں اگر معاویہؓ نے ایسا کہہ دیا کہ عمارؓ کو انہی نے قتل کیا ہے جو ان کو اپنے ساتھ لائے تھے، تو ان کا گمان غلط نہیں تھا۔

پھر سیف الاسلام لکھتا ہے کہ

چوتھی بات اگر حقیقتاً معاویہ فقیہ ہوتے دوسروں کو قتل کرنے اور حرام کھانے کی ترغیب نہ دیتے

پھر آگے مسلم کی روایت سے عبد الرحمان بن عبد رب الکعبہ کی بات نقل کی ہے کہ معاویہؓ ہم کو حکم کرتا ہے کہ ہم اپنا مال باطل طریقے سے کھائیں اور اپنی جانوں کو قتل کریں۔

الجواب۔

۱، عبد الرحمان بن عبد رب الکعبہ کوفے کے تھے اور تابعی تھے، اب سوال یہ ہے کہ یہ تابعی کوفہ کے تھے اور معاویہؓ شام میں تھے، کوفہ سیدنا علیؓ کا دارالخلافہ تھا وہاں سیدنا معاویہؓ نے ان تابعی کو کس طرح حکم دیا کہ اپنا مال ناحق کھاؤ اور ناحق قتل کرو؟؟

۲، اس بات کی وضاحت شرح النووي على مسلم جلد 12 صفحہ 234 میں ہے کہ

فَاعْتَقَدَ هَذَا الْقَائِلُ هَذَا الْوَصْفَ فِي مُعَاوِيَةَ لِمُنَازَعَتِهِ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَانَتْ قَدْ سَبَقَتْ بَيْعَةُ عَلِيٍّ فَرَأَى هَذَا أَنَّ نَفَقَةَ مُعَاوِيَةَ عَلَى أَجْنَادِهِ وَأَتْبَاعِهِ فِي حَرْبِ عَلِيٍّ وَمُنَازَعَتِهِ وَمُقَاتَلَتِهِ إِيَّاهُ مِنْ أَكْلِ الْمَالِ بِالْبَاطِلِ وَمِنْ قَتْلِ النَّفْسِ لِأَنَّهُ قِتَالٌ بِغَيْرِ حَقّ

 لنک

یعنی اس قائل کا عقیدہ تھا کہ یہ وصف معاویہؓ میں ہے کہ انہوں نے علیؓ سے جنگ کی حالانکہ علیؓ کی بیعت پہلے ہوچکی تھی، تو اس قائل کی سوچ یہ تھی کہ معاویہؓ کا علیؓ سے جنگ کے دوران اپنے لشکر اور پیروکاروں پر خرچ کرنا یہ باطل طور پر مال کھانا ہے اور علیؓ سے جنگ کے دوران قتل ہونا گویاکہ ناحق قتل ہونا ہے۔

تو ان تابعی کا خیال یہ تھا کہ علیؓ کا خلیفہ مقرر ہوجانے کے بعد معاویہؓ خلافت کے لئے جنگ لڑ رہے ہیں، اور ایک خلیفہ کے منتخب ہونے کے بعد دوسرے خلیفہ کی بیعت باطل ہے، حالانکہ معاویہؓ تو صرف قصاص چاہتے تھے جیسا کہ خود علیؓ بھی اس کا قرار کرچکے ہیں کہ ہمارا اختلاف قصاص عثمان میں ہے۔

تو عبد الرحمان بن عبد رب الکعبہ کا یہ خیال غلط تھا۔


آگے جھنگوی لکھتا ہے کہ

پانچویں بات اگر حقیقتاً معاویہ فقیہ ہوتے تو بغض علی علیہ السلام میں تلبیه کو ترک نہ کرتے؟

چھٹی بات اگر حقیقتاً معاویہ فقیہ ہوتے ابن عباس رضی اللہ عنہ اس پر لعنت نہ کرتے

ساتویں بات اگر حقیقتاً معاویہ فقیہ ہوتے تو ابن عباس رضی اللہ اس کو گدھے نہ کہتے

الجواب۔

تلبیہ کا ترک کرنا اور ابن عباس ؓ کا معاویہؓ پر لعنت کرنے والے اعتراض کا جواب پہلے ہی دے چکا ہوں کہ اس میں خالد بن مخلد شیعہ راوی ہے۔ اور یہ روایت اس کی بدعت کی تائید میں ہے کہ اس میں معاویہؓ کی برائی بیان کی جارہی ہے۔

لیکن اس بات کا رد کرنے کے بجائے سیف الاسلام نے یہ لکھا کہ

۔باقی آپ نے فرمایا یے داعی الی مذھب ھے تو جناب والا ھر جگہ پر یے قانون جاری نہیں ھوتا

مثلا شیعہ کھے خدا ایک ھے تو پھر کیا آپ دو خدا مانو گے؟

اگر شیعہ راوی کہے نبی معصوم عن الخطأ ھیں کیا آپ پھر انبیاء کے بارے میں  یہ کہو گے کہ وہ معصوم نہیں ہیں؟  

سیف الاسلام کا یہ لاعلمی والا جواب آپ نے دیکھ لیا ،حالانکہ آپ سمھجدار ہیں کہ یہاں بدعتی روای کی تائید کی بات چل رہی ہے۔

کیا شیعہ کا خدا کو ایک ماننا، نبی کریمﷺ کو معصوم کہنا، کیا یہ باتیں اس کی بدعت کی تائید میں ہیں؟؟

کس نے کہا ہے کہ اللہ کو ایک ماننا اور نبی ﷺ کو معصوم ماننا بدعت ہے؟؟

بغیر سوچے سمجھے الٹا سیدھا کچھ لکھ  دینے کو جواب نہیں کہا جاتا۔

رہا ابن عباسؓ کا معاویہؓ کو گدھا کہنا، تو اس کا بھی جواب دے چکا ہوں کہ عکرمہ خارجی تھا، اور یہ روایت شاذ ہے۔

جس پر جھنگوی نے جواب میں ابن حجرؒ کا حوالہ دے کر کہا کہ

 اس کی خارجیت قطع سےثابت نہیں ھے 

حالانکہ میں تھذیب التھذیب سے کئی محدثین کے حوالاجات سے ثابت کرچکا ہوں،

یہاں نقل کرتا ہوں۔

قال بن لهيعة وكان قد أتى نجدة الحروري ۔۔۔۔۔۔قال وكان يحدث برأي نجدة

وقال بن لهيعة عن أبي الأسود كان أول من أحدث فيهم أي أهل المغرب رأي الصفرية

وقال يعقوب بن سفيان سمعت بن بكير يقول قدم عكرمة مصر وهو يريد المغرب وترك هذه الدار وخرج إلى المغرب فالخوارج الذين بالمغرب عنه أخذوا

وقال علي بن المديني كان عكرمة يرى رأي نجدة

وقال يحيى بن معين إنما لم يذكر مالك بن أنس عكرمة لأن عكرمة كان ينتحل رأي الصفرية

وقال عطاء كان أباضيا

وقال مصعب الزبيري كان عكرمة يرى رأي الخوارج

عن أحمد قال خالد الحذاء كل ما قال بن سيرين نبئت عن بن عباس فقد سمعه من عكرمة قلت ما كان يسمى عكرمة قال لا محمد ولا مالك لا يسمونه في الحديث الا أن مالكا سماه في حديث واحد قلت ما كان شأنه قال كان من أعلم الناس ولكنه كان يرى رأي الخوارج رأي الصفرية وإنما أخذ أهل إفريقية رأي الصفرية

یہ میں نے تھذیب التھذیب سے آٹھ محدثین کے اقولات نقل کئے ہیں جنھوں نے عکرمہ کو خارجی کہا ھے، ابن لهيعة، أبو الأسود، ابن بكير، علي بن المديني، مالك بن أنس، عطاء، مصعب الزبيري، محمد بن سيرين رحمہم اللہ۔

اب بتائیں عکرمہ کا خارجی ھونا قطعیت سے ثابت ہوا کہ نہیں؟

دوسری بات یہ کے میں متقدمین محدثین کے بات نقل کررہا ہوں اور آپ ابن حجرؒ اور علامہ عجلیؒ کی بات، حالانکہ آپ کے خیر طلب صاحب نے میری ایک بات کا جواب دیتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ

[متقدمین رجالیوں کی بات اس وجہ سے مانی جاتی ہے کہ عموما ان میں سے اغلبیت اقوال حسی ہوتے ہیں اور متأخرین کےاجتہاد پر مبنی ہوتے ہیں، تو اجتہاد کے اقول میں مناقشات ہوتے ہیں اور حسی اقوال میں عدم تعارض کے ہوتے ہوئے مناقشہ نہیں ہوتا]۔(اسکین نیچے دیا ہے)۔

تو آپ کے مناظر محقق خیر طلب صاحب کی اس بات کی مطابق عکرمہ کے بارے میں آپ کے پیش کردہ ابن حجرؒ اور علامہ عجلیؒ والی بات اجتہادی ہے اور میرے پیش کردہ بات حسی ہے، تو میری بات قابل قبول ہے نہ کہ آپ کی۔

نوٹ۔ خیر طلب صاحب کے اس بات کا رد میں انہی کی ایک دوسری تحریر سے کرونگا کہ جس میں وہ متقدمین کو چھوڑ کر متاخرین کی بات لے رہے ہیں۔