شہادت سیدنا عثمان غنیؓ قسط دوم
نقیہ کاظمیشہادت سیدنا عثمان غنیؓ قسط دوم:
سیدنا عثمان غنیؓ کے خلاف فتنہ اور فساد برپا کرنے والا عبداللہ بن سباء تھا جو اصلاً یہودی تھا اور اس نے ہی شیعہ مذہب کی ایجاد کی۔ آج بہت سے اہلِ تشیع اس عبداللہ بن سباء کا سرے سے انکار کرتے ہیں۔ آئیے اہل تشیع کی معتبر اور بنیادی کتب سے عبداللہ بن سباء کے متعلق چند حوالے پڑھ لیں، پھر حضرت عثمانؓ کے واقعۂ شہادت کی طرف بڑھتے ہیں۔
تیسری صدی کے معروف رافضی مؤرخ ابو محمد الحسن بن موسیٰ النوبختی نے اپنی کتاب "فرق الشیعہ صفحہ 44" میں، چوتھی صدی کے مشہور شیعہ عالم ابو عَمرو محمد بن عبد العزیز نے اپنی کتاب "رجال کشی جلد 2 صفحہ 183" میں اور شیعہ ملّا محمد بن یعقوب کلینی نے اصول کافی جلد 7 صفحہ 257" میں ابنِ سباء کی ذات کو تسلیم کیا ہے اور مانا ہے کہ یہ ایک یہودی تھا جس نے مسلمان ہونے کا دعویٰ کیا اور اسی نے سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰؓ کو حضورﷺ کا وصی (جانشین) قرار دیا اور آپﷺ کی رجعت (قیامت سے پہلے رسولﷺ کے دنیا میں آنے) کا عقیدہ بیان کیا، اسی نے صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین پر تبرا بازی (گالی گلوچ) شروع کی اور حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہم کی خلافت سے کھلے عام براءت کا اظہار کیا تھا۔
اب ایک نظر مستشرقین کے بیانات پر ڈال لیجئے کہ وہ ابن سباء کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
سر ولیم مور، جس کی اسلام دشمنی کسی سے مخفی نہیں، لکھتا ہے کہ:
"ابن سباء نے مصر میں سکونت اختیار کرلی اور وہاں سے اسلام کے خلاف نظریاتی جنگ شروع کر دی اس نے کہا کہ حضرت عیسیٰؑ کی طرح محمدﷺ کی بھی رجعت(قیامت سے پہلے دنیا میں واپسی) ہوگی اور علیؓ نبیﷺ کے وصی تھے جن سے حضرت عثمانؓ نے خلافت چھین لی ہے اور اب انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے"
(خلافت کا عروج وزوال: صفحہ 217 از سر ولیم مور)
پروفیسر نکلسن اپنی کتاب تاریخِ عرب میں لکھتا ہے:
"ابن سباء نے مصر سے اعلان کیا کہ نبی(ﷺ) کی رجعت ہوگی اور جس طرح سابقہ ایک ہزار نبیوں کے وصی تھے اسی طرح حضرت علیؓ نبیﷺ کے وصی تھے لیکن ابوبکر و عمر و عثمان (رضی اللّٰہ عنہم) نے ان سے خلافت چھین لی تھی (تاریخِ عرب: صفحہ 215)
ڈاکٹر ڈونالڈسن نے اپنی کتاب ”اسلام میں شیعہ مذہب“ میں ایک پوری فصل ابن سباء کے حال پر لکھی ہے، اس میں موصوف نے لکھا کہ
"ابن سباء نے اپنے اس عقیدے کی تبلیغ کے لیے اسلامی ممالک کا دورہ بھی کیا اور ساتھ ہی اس نے ابوبکر و عمر و عثمان (رضی اللّٰہ عنہم) کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہوئے ان پر خلافت غصب کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی طرح مسلمانوں کے نبی بھی دنیا میں آئیں گے اور ہر نبی کے وصی کی طرح علیؓ بھی نبی(ﷺ) کے وصی تھے لیکن محمد(ﷺ) کے بعض ساتھیوں نے ان کی وصیت کا احترام نہیں کیا اور علیؓ کے ساتھ غداری کی اس لیے مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ غاصبوں پر زور ڈالیں کہ وہ علیؓ سے چھینے ہوئے حقوق ان کو واپس کریں۔
موصوف نے آخر میں یہ بھی لکھا ہے کہ:
ابن سباء حضرت عثمانؓ کو مفسد اور تخریب پسند گردانتا تھا اور یہ بات علی الاعلان کہتا تھا کہ نبیﷺ کی وفات کے بعد الوہیت حضرت علیؓ میں منتقل ہوگئی ہے۔
(ماخوذ از حقیقتِ رافضیت از ڈاکٹر محمد یوسف نگرامی: صفحہ 98)
سبائیوں نے سیدنا عثمانؓ کے خلاف اس طرح پروپیگنڈہ کیا کہ نوجوان اور نئے مسلمان ہونے والے اس سے متاثر ہوگئے اور اس کو حقیقت سمجھ لیا. انہوں نے اس پر غور کرنے کی زحمت نہ کی کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا مقصد اسلامی خلافت کی اساس کو اکھاڑنا اور فتح ہونے والے علاقوں میں قوت کے ساتھ بغاوت اٹھانا تھا تاکہ مسلمانوں کے قدم نہ صرف یہ کہ آگے بڑھنے سے رکیں بلکہ خود مسلم فوجیں ان مفتوحہ علاقوں سے بھی نکلنے پر مجبور ہو جائیں۔ حضرت عثمان غنیؓ کے خلاف جن الزامات کو بڑے شد و مد کے ساتھ اٹھایا گیا اور جگہ جگہ ان کو پھیلایا گیا۔ ان میں سے کچھ یہ تھے:
1) حضرت عثمان ذوالنورینؓ اپنے رشتہ داروں کا زیادہ خیال رکھتے ہیں اور زیادہ تر حکومتی مناصب انہوں نے اپنے خاندان کے لوگوں کو دیے ہیں۔
2) حضرت عثمان ذوالنورینؓ نے ان صحابہ (رضی اللّٰہ عنہم) کو، جو حضرت عمرؓ کے دور سے گورنر چلے آ رہے تھے، معزول کردیا اور ان کی جگہ دوسروں کو متعین کر دیا۔
3) حضرت عثمان ذوالنورینؓ بیت المال میں بےجا تصرف کرتے ہیں اور اپنے اقرباء کو بیت المال سے نوازتے رہتے ہیں۔
4) حضرت عثمان ذوالنورینؓ نے بعض مسائل میں اپنے پیشرو خلفاء کی مخالفت کی ہے لہٰذا اب وہ اس لائق نہیں رہے کہ انہیں مسلمانوں کا خلیفہ رکھا جائے۔
یہ اور اس قسم کے اور بہت سے الزامات کی بوچھاڑ کر کے یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ سیدنا عثمانؓ خلافت سے دستبرداری کا اعلان کریں ورنہ ان کے خلاف بغاوت کی جائے گی۔ جیسا کہ ہم بتا آئے ہیں کہ اس فتنہ کا سرغنہ بلکہ بانی عبداللہ ابن سباء نامی ایک یہودی تھا جس نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر حضرت عثمانؓ کے خلاف یہ تحریک شروع کی۔
"کان مبدا الطعن علی امیر المؤمنین عثمان بن عفان افساد عبداللہ بن سباء"
(مختصر تاریخ دمشق جلد 16 صفحہ 182)
اور خواہش پرستوں کی ایک جماعت اس کے ساتھ ہوگئی۔ اس کے بعد اس نے اپنے ہم خیال گروپ کو دعوت دی کہ سیدنا عثمانؓ سے خلافت چھین لو، ان کا اب اس خلافت پر کوئی حق نہیں ہے۔ پھر اس نے مختلف علاقوں کے لوگوں کو خطوط بھیج کر اس پر اکسایا اور اس کے لیے ایک اچھی خاصی جماعت تیار کرلی۔ انتہاء تو یہ تھی کہ اس کی طرف سے مختلف علاقوں میں بھیجے گئے خطوط میں حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللّٰہ عنہم کا نام استعمال کیا گیا اور ان کے نام سے سیدنا عثمانؓ کے خلاف اٹھنے کی ترغیب دی گئی اور کہا گیا کہ ان کے خلاف اٹھنا دین کی مدد کرنا ہے۔
وزورت کتب علی لسان الصحابۃ الذین بالمدینۃ علی لسان علی و طلحۃ و زبیر یدعون الناس الی قتال عثمان ونصر الدین وانہ اکبرالجہاد الیوم۔
(البدایہ والنہایہ جلد 7 صفحہ 173)
حضرت عثمان غنیؓ کو جب معلوم ہوا کہ اندرون خانہ کوئی سازش ہو رہی ہے تو آپؓ نے قسم کھا کر کہا کہ فتنے کی چکی اب بس گھومنے والی ہے، عثمانؓ کے لیے اچھا ہے کہ وہ دنیا سے رخصت ہو جائیں اور ان کا شمار ان لوگوں میں نہ ہو جائے جو فتنے بھڑکانے والے ہیں۔
(طبری جلد3 صفحہ249)
پھر آپؓ نے اپنے گورنروں کے بارے میں پھیلائی جانے والی خبروں کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا۔ سب کی رائے یہ تھی کہ ان خبروں کی تحقیق کے لیے ایک جماعت بھیجی جائے تاکہ اس کے سچ یا جھوٹ ہونے کا پتہ چلے چنانچہ حضرت عثمانِ غنیؓ نے مختلف علاقوں میں اپنے اصحاب بھیجے۔
(تاریخ طبری: جلد5 صفحہ348)
آپؓ نے جن لوگوں کو اس کام پر مقرر فرمایا ان میں
(1) حضرت محمد بن مسلمہؓ تھے جن کی دیانت و شرافت مسلّمہ تھی اور ان کی تفتیش پر حضرت عمر ؓ بھی اعتماد فرماتے تھے، آپ رضی اللّٰہ عنہ نے انہیں کوفہ بھیجا۔
(2) حضرت اسامہ بن زیدؓ کو منتخب کیا۔ یہ وہی اسامہؓ ہیں جنہیں حضورﷺ نے اپنے آخری دنوں میں ایک فوج کا امیر بنایا تھا اور آپؓ کی قیادت و امارت میں لشکر بھیجنے کی وصیت فرمائی تھی۔ آپؓ نے انہیں بصرہ بھیجا۔
(3) حضرت عمار بن یاسرؓ ہیں، جن کی عظمت و جلالت کسی مسلمان سے مخفی نہیں۔ آپؓ نے انہیں مصر بھیجا۔
(4) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما جن کی بزرگی اور دیانتداری میں کوئی شبہ نہیں۔ آپؓ نے انہیں شام بھیجا اور ان کے علاوہ دوسرے ذمہ دار اصحاب کو دوسرے علاقوں کی طرف روانہ فرمایا۔ انہوں نے پوری تحقیق کے بعد آکر بتایا کہ یہ صرف پروپیگنڈہ ہے جو آپؓ کے گورنروں کے خلاف کیا جارہا ہے، ہم نے وہاں ایسی کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں دیکھی اور نہ ہی وہاں کے خواص و عوام کو کسی ناخوش گوار معاملہ کا علم ہے۔ مسلمانوں کو اپنے معاملات پر اختیار ہے اور ان کے حکام ان کے درمیان عدل و انصاف کرتے ہیں اور ان کی خبر گیری کرتے ہیں۔
(طبری جلد 3 صفحہ 347)
جبکہ آپؓ کے مخالفین چاہتے ہیں کہ اسلامی خلافت کے بارے میں مسلمانوں کو فتنہ میں ڈال دیا جائے۔ سیدنا عثمانؓ نے پوچھا کہ ان فتنہ بازوں اور مملکت اسلامیہ کے خلاف خطرناک کھیل کھیلنے والوں سے کس طرح نمٹا جائے. آپؓ کے بعض رفقاء نے ان کے ساتھ سختی سے کام لینے پر زور دیا۔ آپؓ نے فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ سختی سے کام نہ لیا جائے، البتہ حدود اللّٰہ میں کسی نے کوتاہی کی تو اس کے بارے میں تساہل نہ برتا جائے۔
حضرت عثمان غنیؓ نے باوجود اس کے کہ یہ صرف پروپیگنڈہ تھا آپؓ نے مختلف شہروں کے لوگوں کے نام ایک خط لکھا تاکہ ان علاقوں کے لوگوں پر بھی اس پروپیگنڈے کی حقیقت کھل جائے۔ آپ ؓ نے لکھا کہ:
"میں نے تمام حکام کے لیے لازم کردیا ہے کہ وہ ہر موسمِ حج میں میرے ساتھ ملاقات کریں اور جب سے میں خلیفہ ہوا ہوں اس وقت سے میں نے ملت اسلامیہ کے لیے یہ اصول بنا دیا ہے کہ نیکی کا حکم دیا جائے اور برے کاموں سے روکا جائے، اس لیے جو بھی میرے سامنے اور میرے حکام کے سامنے مطالبہ حق پیش کرے گا وہ حق ادا کیا جائے گا اور میری رعایا کے حقوق میرے اہل و عیال کے حقوق پر مقدم ہوں گے۔ نیز اہل مدینہ کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ لوگ اہل مدینہ کو برا بھلا کہ رہے ہیں اور کچھ لوگ مار پیٹ بھی کر رہے ہیں تو پوشیدہ حالات میں طعن کرنا ملامت کرنا، گالی دینا اور زد و کوب کرنا ایک انتہائی برا فعل ہے اور جو کوئی کسی حق کا دعویدار ہو وہ موسم حج میں میرے پاس آئے اور اپنا حق حاصل کرے خواہ اس کا تعلق مجھ سے ہو یا میرے کسی گورنر سے یا پھر خود ہی تم اسے معاف کرو تو ایسی صورت میں اللّٰہ تعالیٰ معاف کرنے والوں کو جزائے خیر دے گا۔
(طبری جلد3 صفحہ348)
آپؓ کا گرامی نامہ جب مختلف شہروں کے لوگوں کے سامنے پڑھا گیا تو عوام رونے لگے اور انہوں نے آپؓ کے حق میں دعائیں کیں اور کہنے لگے کہ مصیبت کے آثار نظر آرہے ہیں (ایضاً)۔
پھر جن سازشی لوگوں کے آپؓ پر الزام لگائے گئے آپؓ نے ان پر پوری صفائی پیش کی اور ان کی ہر بات کا جواب دیا انہیں مسلمانوں میں دراڑیں پیدا کرنے سے روکا اور کوشش کی کہ وہ اپنی اس شرارت سے باز آجائیں مگر یہ لوگ اپنی شرارت سے باز نہ آئے اور لوگوں کو آپؓ کے خلاف بھڑکاتے رہے۔
پھر سیدنا عثمانؓ نے مختلف شہروں کے گورنروں کو اپنے پاس بلایا تاکہ ان سے بھی مشاورت کی جائے ان حضرات نے اپنی اپنی رائے سے آپؓ کو آگاہ کیا آپؓ نے ان کی بات سنی اور حمد و ثناء کے بعد ان سے فرمایا: تم نے مجھے جو مشورے دیے ہیں وہ میں نے سن لیے تاہم یاد رکھو کہ ہر بات کو انجام دینے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے اور وہ بات جس کا امت کو شدید اندیشہ ہے وہ تو ہو کر رہے گی اور فتنہ کا جو دروازہ بند ہے اسے نرمی اور صبر و تحمل کے ساتھ بند رکھنے کی کوشش کی جائے، تاہم اللّٰہ کی حدود اور قوانین کی حفاظت میں کوئی کمی کوتاہی نہیں ہوگی۔ اللّٰہ تعالیٰ گواہ ہے کہ میں نے اپنی ذات اور لوگوں کی خیر و بھلائی کے لیے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ تم لوگوں کو فتنہ فساد کی طرف جانے سے روکو، ان کے حقوق ادا کرتے رہو اور ان سے درگزر کا معاملہ کرو۔
(طبری: جلد3 صفحہ349)
پھر آپؓ نے اپنے گورنروں کو اہم نصیحتیں فرما کر رخصت کیا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں ان ہدایات پر عمل کریں. حضرت امیر معاویہؓ جب واپس ہونے لگے تو انہوں نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے حضرت عثمان غنیؓ سے عرض کیا کہ ان حالات میں آپؓ کا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں، بہتر ہے کہ کچھ عرصے کے لیے میرے پاس ملک شام آجائیں۔ سیدنا عثمانؓ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ میں کسی قیمت پر بھی حضورﷺ کی ہمسائیگی کو نہیں چھوڑ سکتا اگرچہ اس میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ حضرت معاویہ ؓ نے عرض کیا کہ اگر آپ اجازت دیں تو آپؓ اور اہل مدینہ کی حفاظت کے لیے فوج بھیج دی جائے، آپؓ نے فرمایا کہ نہیں! ان کے یہاں آنے اور رکنے سے یہاں کے معاشی حالات پر اثر پڑے گا اور میں نہیں چاہتا کہ اس سے حضورﷺ کے پڑوسیوں (یعنی اہل مدینہ) کو تکلیف پہنچے، اور میں انہیں ہرگز کسی تنگی میں نہیں اتارنا چاہتا. حضرت معاویہؓ نے کہا کہ حالات بتا رہے ہیں کہ آپؓ پر اچانک حملہ ہوگا اور پھر آپؓ کو جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سیدنا عثمانؓ نے فرمایا کہ میرے لیے اللّٰہ کافی ہے اور وہی سب سے اچھا کارساز ہے
(طبری جلد3 صفحہ352)
انا لا ابیع جوار رسول اللہ بشئ ولو کان فیہ قطع خیط عنقی۔۔۔۔۔۔ قال عثمان لا اقترن علی جیران رسول اللّٰہ الارزاق بجند تساکنھم ولا اضیق علی اھل ہجرۃ والنصرۃ۔۔۔۔۔ قال عثمان حسبی اللہ ونعم الوکیل
(تاریخ طبری)
انہی دنوں حج کے ایام بھی قریب تھے مصر سے غافقی بن حرب کی قیادت میں پانچ سو کے قریب لوگ مکہ کی جانب چل پڑے ادھر اہل کوفہ اور اہل بصرہ بھی ایک بڑی تعداد لے کر مدینہ کے راستے مکہ کی جانب چلے۔ یہ تینوں گروپ اپنے اپنے مقاصد کے تحت چلے تھے لیکن ان سب کا مشترکہ مقصد حضرت عثمانِ غنیؓ کی خلافت کا خاتمہ تھا۔ کوفہ والے حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کو پسند کرتے تھے، بصرہ کے لوگ زبیر بن العوام ؓ کو اور مصر کے لوگوں نے سیدنا علیؓ کو منتخب کیا ہوا تھا، چنانچہ ہر جماعت کا ایک ایک وفد اپنی اپنی پسندیدہ شخصیت کے پاس گیا۔ اہل مصر جب حضرت علیؓ کے پاس آئے اور اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تو سیدنا علیؓ نے انہیں نکال باہر کیا اور فرمایا کہ اللّٰہ کے رسولﷺ کی زبان سے تم ملعون لوگ ہو۔ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللّٰہ عنہما نے بھی انہیں سخت لہجے میں جواب دیا تو انہیں احساس ہوا کہ وہ اپنے مقصد میں اس طرح کامیاب نہیں ہو سکتے۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ کے ایک بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت عثمانؓ سے عامل کی تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا تو آپؓ نے ان کا مطالبہ مان لیا تھا۔ سیدنا عثمانؓ نے محمد بن مسلمہؓ کو بلا کر کہا کہ ان سے جاکر کہو کہ وہ جو چاہتے ہیں انہیں مل جائے گا۔
اذھب الیہم فارددھم عنی واعطھم الرضی واخبرھم انی فاعل باالامور التی طلبوا ونازع عن کذا بالامور التی تکلموا فیھا۔
(طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 47)
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کے بعض اقدامات کے باعث یہ فتنہ اٹھا تھا، ان کی یہ بات قابلِ تسلیم نہیں۔ درحقیقت یہ ایک سازشی گروہ کی تخریب کاری کی تحریک تھی اور انہوں نے چند باتوں کو عنوان بنا کر سیدنا عثمانؓ کی کردار کشی شروع کی تھی۔
فتنہ پرداز لوگوں کی یہ چال تھی کہ حضورﷺ کے بعض جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کا نام استعمال کر کے عام اور سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کیا جائے اور ان کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کر دیا جائے۔ حضرت امام آجری لکھتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت علی حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللّٰہ عنہم کو ان سازشی گروہ کے فتنہ سے محفوظ رکھا ان ظالموں نے ان کا نام اس لیے استعمال کیا کہ عام مسلمان ان کے دھوکے میں آجائیں اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں تاہم اللّٰہ نے اس فتنہ سے ان صحابہ رضی اللّٰہ عنہم کو بچا لیا۔
جاری ہے
پیش کردہ:- ادارہ دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓ